اسلام نے ہر انسان پر دوسرے انسان کے چار قسم کے حقوق متعین فرمائے ہیں، یعنی ذاتی، معاشرتی، معاشی اور قلبی حقوق ۔ تو اس تحریر میں ان شاء اللہ شوہر کے ان حقوق کی تفصیل سے آگاہ ہونے کی کوشش کریں گے۔ مستورات ان حقوق کو اپنی ذمہ داری کے اعتبار سے پڑھیں،جب کہ مرد حضرات انہیں بیویوں پر مسلط ہونے کے لیے نہیں، بلکہ ان کی معاونت اور اپنی بیٹیوں کو ان کے شوہروں کے حقوق بتانے کے لیے پڑھیں۔
اسلام نے ہر انسان پر دوسرے انسان کے جو حقوق متعین فرمائے ہیں، انہیں چار نوعیتوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:ذاتی، معاشرتی، معاشی اور قلبی حقوق ۔ پھر لوگوں کے ایک دوسرے سے تعلق کی بنا پر ان کی تفصیل میں تھوڑا بہت فرق پایا جاتا ہے۔ آج ان شاء اللہ ہم شوہر کے ذمہ بیوی کے حقوق کے بارے میں جاننے کی کوشش کریں گے۔ مرد حضرات ان حقوق کو اپنی ذمہ داری کے اعتبار سے پڑھیں، جب کہ مستورات انہیں شوہروں کو سنانے کے لیے نہیں ،بلکہ ان کی معاونت اور اپنے بیٹوں کو ان کی بیویوں کے حقوق بتانے کے لیے پڑھیں۔
خلفاء راشدین مہدیین کی ترتیب خلافت اجماعی ہونے کے ساتھ ساتھ منطقی اور معقولی بھی ہے۔ قرآن کریم جو انسانوں کے لیے تاقیام قیامت سرچشمۂ ہدایت ہے، اس کی حفاظت کے لیے رب ذوالجلال نے غیب سے انتظامات فرماۓ ہیں۔
جوں جوں حلقۂ اسلام وسیع ہوتا گیا، اس کے تقاضوں کے مطابق خلفاء راشدین کو تکوینی طور پہ ان ضرورتوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی رہنمائی اور سہولت بہم پہنچائی جاتی رہی۔ اس زاویے سے غور کرنے سے اس شیطانی وسوسے و فساد عقیدہ کی جڑ کٹ جاتی ہے کہ خدانخواستہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے دنیاوی مفادات کے خاطر ساز باز کر کے ساداتِ اہلِ بیت کو ان کے حق خلافت بلا فصل سے محروم رکھا۔
مسجد اللہ کا مبارک گھر ہے اس سے محبت کرنا اور دل لگانا ایمان کی علامت ہے کل قیامت کے دن جن سات خوش نصیبوں کو سایہ میں جگہ ملے گی ان میں ایک وہ ہے جس کا دل مسجد سے لگا رہتا ہے اس مضمون میں قرآن اور حدیث کی روشنی میں مسجد سے محبت اور اسکے تقاضے ذکر کیے گئے ہیں
انسان انس سے ہے اور اُس کے بننے بگڑنے میں کسی کی رفاقت و معیت اور صحبت بےحد دخیل ہے، تاریخ میں جتنی عظیم ہستیاں گذری ہیں، وہ کسی مردِ آہن کی محنت و توجیہ سے ہی لائق و فائق اور کار آمد بنے ہیں، جو کوئی بھی بگڑے ہیں وہ اپنے اردگرد کے ماحول سے ہی برباد ہوئے ہیں۔
شادی کی عمر کو لیکر ہمارے ملک ہندوستان میں بہت بحث و مباحثہ ہورہا ہے۔ ہندوستان میں بھی زمانہ کے تقاضے کے مطابق شادی کی عمر تبدیلیاں ہوتی رہی ہے۔ اگر دور حاضر کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ دنیا کے اکثر ممالک میں خواہ وہ اسلامی ملک ہو یا غیر اسلامی لڑکے اور لڑکیوں کیلئے شادی کی عمر متعین ہے۔ ہمارے ملک ہندوستان میں لڑکوں کیلئے 21سال اور لڑکیوں کیلئے 18 سال کی عمر متعین ہے مگر اب دونوں کیلئے ۱۲ سال کی عمر کرنے کا فیصلہ ہورہا ہے
ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC
کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2023