قربانی کا گوشت اور اسلامی تعلیمات

عید الاضحٰی کے موقع پر پورا عالم اسلام اپنے دلوں میں خوشی و مسرت کے جذبات کو محسوس کرتا ہے اور ملت اسلامیہ کی ایک بڑی تعداد ایام قربانی میں پورے جوش و جذبہ اور فدائیت کے ساتھ سنت ابراہیمی اور عظیم اسلامی شعار "قربانی" کو زندہ کرتی ہے، لیکن افسوس کہ دیگر عبادتوں کی طرح یہ عظیم عبادت بھی دھیرے دھیرے رسم بنتی جارہی ہے اور قربانی کے اصل مقصد اور حقیقی پیغام سے امت مسلمہ غافل ہوکر گوشت خوری تک محدود ہوتی جارہی ہے۔
 
قربانی کے بہت عظیم مقاصد ہیں اور اس سے ملنے والے واقعات اور اسباق انتہائی اہم اور ضروری ہیں، قربانی کی روح جہاں اللہ تعالی کی خوشنودی و رضامندی کا حصول ہے وہیں یہ بھی ہے کہ راہ خدا میں اپنی انا کو قربان کردیا جائے، قربانی کا سبق جہاں سنت ابراہیمی کی یاد کو تازہ کرنا ہے وہیں گناہوں سے احتراز اور تقوی و طہارت والی زندگی کو اپنانا بھی ہے، قربانی کا مقصد جہاں جانور کو ذبح کئے بغیر حاصل نہیں ہوتا وہیں یقینی طور پر غریبوں محتاجوں کی ہمدردی و غمخواری کے بغیر، عزیز واقارب اور پڑوسیوں کے حقوق کو ادا کئے بغیر بھی ممکن نہیں ہے. 
 
یہ جاننا انتہائی ضروری اور اہم ہے کہ قربانی کا مقصد کیا ہے؟ اسکی کیا اہمیت ہے؟ اسکا کیا سبق ہے؟ ہر سال عید کے موقع پر ہم قربانی کے ذریعے کیا یہ مقاصد حاصل کررہے ہیں؟ یا صرف رسمی طور پر عمدہ سے عمدہ جانور خرید کر اور اسکا کا خون بہا کر سستی شہرت اور صرف نام و نمود اور دکھلاوا کررہے ہیں؟ 
 
خلاق عالم نے اس کائنات کو اپنی حکمت بالغہ سے فرق مراتب کے ساتھ آراستہ کیا ہے چنانچہ اس دنیا میں رہنے والوں میں امیر بھی ہیں اور غریب بھی، بادشاہ بھی ہیں اور فقیر بھی، بڑے بھی ہیں اور چھوٹے بھی، کچھ رزق میں کشادہ ہیں تو کچھ انتہائی تنگدست اور قلاش بھی چنانچہ فرمان باری تعالیٰ ہے : وَاللهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ
اور اللہ نے تم میں سے کچھ لوگوں کو رزق کے معاملے میں دوسروں پر برتری دے رکھی ہے۔(سورۃ النحل ۷۱ )
یہ اس لیے کہ امراء فقراء کے کام آئیں اور اور مالدار غریبوں اور کمزوروں کی اعانت کریں، زکوٰۃ کا سارا نظام اور صدقات کے تمام مراحل اس پر گواہ ہیں، خاص طور پر قربانی کا گوشت اور اسلامی نقطہ نظر سے اسکی تقسیم کا طریقہ کار اسکی واضح دلیل ہے اس لئے کہ آج بھی بہت سے غریب ومسکین گھرانے ایسے ہیں جنہیں پورے سال بھی گوشت کھانا نصیب نہیں ہوتا، ایک دور تھا جب فریج کی بلا نہیں تھی پیٹ کی حرص کے بجائے غریب کا پیٹ بھر جائے تو سکون ملا کرتا تھا، انسان انسانیت کا غم جانتا تھا، پڑوسی پڑوسی کے دکھ درد میں شریک ہوتا تھا ایک پڑوسی سے دوسرے پڑوسی کو تکلیف نہ پہونچے اس غرض سے اچھے اور مزیدار کھانے نہیں بناتے تھے لیکن آج کا دور انتہائی تاریک اور خطرناک ہے، نہ انسانیت کا غم ہے نہ پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک، نہ خاندانوں کا لحاظ ہے نہ قریبی رشتہ داروں سے بہتر تعلقات جبکہ قرآن مجید قربانی کے گوشت کے سلسلے میں اپنے ماننے والوں کو تعلیم دیتا ہے :
فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ  اس میں سے تم بھی کھاؤ اور فقیر درماندہ کو بھی کھلاؤ۔ (الحج: 28)
اس آیت کے ضمن میں مفسر قرآن حضرت مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ :
"قربانی کرنے والا خود اور ہر مسلمان غنی ہو یا فقیر اس میں سے کھا سکتا ہے لیکن مستحب یہ ہے کہ کم از کم ایک تہائی حصہ غرباء فقراء کو دے دیا جاۓ - - - -بائس کے معنے بہت تنگدست مصیبت زدہ اور فقیر کے معنے حاجت مند کے ہیں مطلب یہ ہے کہ قربانی کے گوشت میں سے ان کو بھی کھلانا اور دینا مستحب اور مطلوب ہے۔"(معارف القرآن تفسیر سورۃ الحج آیت نمبر 28)
نیز اللہ رب العزت کا ارشاد گرامی ہے:
فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرّ
تو ان میں سے کھاؤ اور قناعت سے بیٹھ رہنے والوں اور سوال کرنے والوں کو بھی کھلاؤ (الحج: 36)
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ قربانی کا گوشت خود بھی کھانا چاہیے، دوست احباب، خویش و اقارب اور ان مساکین کو بھی کھلانا چاہیے جو سوال نہیں کرتے اور ان فقراء و مساکین کو بھی جو سوال کے لیے آجاتے ہیں۔ 
 
علماء امت نے قربانی کی تقسیم کے اس عمل کو پسندیدہ قرار دیا ہے کہ اسے تین حصوں میں تقسیم کیا جائے ۔
  1.  ایک حصہ اپنے لئے ،
  2.  ایک قرابت داروں وہمسایوں کیلئے. 
  3. اور ایک فقراء ومساکین کیلئے مختص کیا جائے. 
امام احمد رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے:
ہم عبداللہ بن عباس رضي اللہ تعالی عنہما کی حدیث کا مذھب رکھتے ہيں جس میں ہے ( وہ خود ایک تہائي کھائے اورایک تہائي جسے چاہے کھلائے ، اورایک تہائي مساکین وغرباء پرتقسیم کردے ) ۔
ابوموسی اصفہانی نے اسے الوظائف میں روایت کیا ہے اوراسے حسن کہا ہے ، اورابن مسعود ، ابن عمررضي اللہ تعالی عنہم کا قول بھی یہی ہے ، اورصحابہ کرام میں سے کوئي ان دونوں کا مخالف نہيں۔ (المغنی ( 8 / 632 ) 
 
غور کریں! قربانی کا ایک بڑا مقصد غرباء پروری اور محتاجوں کی اعانت ہے، مالدار طبقہ تو سارا سال مرغن غذاؤں سے لطف اندوز ہوتا رہتا ہے،اب فریج اور فریزر کے ذریعے غریبوں کا حق چھین لیا جاتا ہے،قربانی کا سارا گوشت جمع کرکے رکھ لینے میں کوئی قباحت نہیں ہے لیکن غریب کا حق کہاں ہے؟ 
 کیا غریب اور کمزور آدمی اس خوشی اور مسرت کے ماحول میں پیٹ بھر گوشت بھی نہیں کھاسکتا ہے؟ یہ فریج کی بلا اللہ کی پناہ! اس نے ہم سے سخاوت چھین لی، ہم بخالت اور حرص کے گہرے دلدل میں پھنس گئے،ہمیں اپنی اس حالت پر غور کرنا چاہیے کتنے سفید پوش، بے روزگار اور کتنی بیوہ مائیں ہیں جن کو مہنگائی اور بیروزگاری نے محتاج بنادیا، حالات نے ان کی کمر توڑدی، عید کے اس پر رونق موقع اور خوشی کے اس پر مسرت ماحول پر آپ ان غرباء اور محتاجوں کی حاجات کو پورا کرکے قربانی کی حقیقی روح اور اسکے حقیقی مقصد تک رسائی حاصل کریں 
خدا آپ کا حامی و ناصر ہو اور آپ کی قربانی کو بے حد قبول فرمائے. 
آمین ثم آمین یا رب العالمین

مفتی احمد عبید اللہ یاسر قاسمی


خادم تدریس ادارہ اشرف العلوم حیدرآباد
کل مواد : 18
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن
ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024