اسلامی اور عصری نصابِ تعلیم ۔۔۔ فرق کیا ہے؟ ماہنامہ النخیل شوال 1440
انگریزوں کے تسلط سے پہلے ہندوستان اور دیگر اسلامی ممالک میں ایک ہی نصابِ تعلیم رائج تھا جو درس نظامی({ FR 589 }) کے نام سے مشہور ہے۔ اس میں دنیا و عقبیٰ ہر دو کو سنوارنے کی عظیم صلاحیت تھی۔ یہ اسی درس کے فارغ التحصیل طلبہ تھے جنہوں نے بارہ سو سال تک دنیا کو اخلاق عالیہ، تہذیب، فلسفہ، تاریخ اور دیگر علوم کا درس دیا۔ انہی مکاتب سے غزالی ( 1058ء تا1111ء) و شاہ ولی اللہ (م 1760ء) جیسے مفکر، بخاری (م 870ء) و مسلم (م 875ء) جیسے محدث، ثعلبی (م 1037ء) و ابو الفرج الاصفہانی (م967ء) جیسے ادیب، طبری (838ءتا 923ء) و ابن خلدون (1332ءتا1406ء) جیسے مؤرخ، ابوحامد الاصطرلابی (م 990ء) اور ابن الہیثم (م 1039ء) جیسے انجینئرز، المقدسی (م 946ء) اور یاقوت بن عبداللہ یاقوتی (1179ءتا1229ء ) جیسے ماہرینِ جغرافیہ بوعلی سینا (980ءتا1037ء) و فارابی (م 950ء) جیسے علمائے طبیعی، امام ابو حنیفہ (699ءتا767ء ) امام شافعی (767ءتا 820ء) جیسے فقہیہ اور دیگر اصنافِ علوم مثلا منطق، میراث، موسیقی، مصوری، نحو و عروض، تفسیر، ارضیات و فلکیات کے بڑے بڑے ماہرین پیدا ہوئے۔ علماء وحکماء کے علاوہ ان مدارس سے وہ اہل نظر بھی نکلے جو اہلِ شمشیر کے ہمراہ مختلف ممالک میں پہنچے اور صرف فیضِ نظر سے عقائد و مذاہب کی سنگین فصلوں میں شگاف ڈالتے چلے گئے۔ ایک زمانہ تھا کہ خیبر سے لاہور تک ایک بھی مسلمان نہیں تھا اور آج ایک بھی کافر نہیں ملتا۔ یہ کرشمہ ہے چند خدا مست خرقہ پوشوں کا جن میں سے داتا گنج بخشؒ، سلطان باہوؒ، میانمیرؒ اور بابا فرید گنج شکرؒ خصوصیت سے قابلِ ذکر ہیں؎
نہیں فَقر و سلطنت میں کوئی امتیاز ایسا
یہ سپہ کی تیغ بازی، وہ نگہ کی تیغ بازی
پھر ان کا فیضانِ قلم دیکھئے کہ تصانیف کے انبار لگا گئے، کتنے ہی ہیں جنھوں نے سو یا سو سے بھی زیادہ کتابیں لکھیں مثلا:
فارابی(م 950ء)........ 100
امام رازی(م 1211ء) .....125
ابن الحجر العسقلانی(م 1448ء)..... 150
امام غزالی (م 1058ء)..... 200
ابن العربی (م 1240ء)....... 250
بو علی سینا (م 1037ء)....... 225
عبدالغنی النابلسی(م 1728ء)...... 300
امام ابن تیمیہ(م 1327ء)...... 500
جلال الدین سیوطی (م 1506ء) ....550
ابن طولون دمشقی (م 1546).... 750
عظمت و وقار کا یہ عالم کہ جب ہارون رشید (خلافت 786ء تا 809ء) نے امام مالکؒ (713ءتا796ء) کو لکھا کہ بغداد میں تشریف لائیے، میں آپ سے قرآن و حدیث پڑھنا چاہتا ہوں تو جواب ملا.... خیزد اندرحلقہ درسم نشین (کہ اٹھو اور میرے حلقہ درس میں آ کر شامل ہو جاؤ۔)
عدل و انصاف کی یہ کیفیت کہ جب ٹرکی کےایک بادشاہ مراد اول (سلطنت 1360ءتا 1389ء) نے ایک معمار کا ہاتھ کاٹ ڈالا تو قاضیِ سلطنت نے قصاصاً اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دے دیا اور دلیل یہ دی کہ .... خونِ شہ رنگین تر از معمار نیست (کہ بادشاہ کا لہو معمار کے لہو سے زیادہ سرخ نہیں)
تقدس کی یہ حالت کہ ان لوگوں کے مزار صدیوں سے زیارت گاہِ عوام بنے ہوئے ہیں، دنیا دور دور سے آتی اور ان کی آرام گاہوں پر اشک و عقیدت کے پھول چڑھاتی ہے۔
ایک سوال: سوال یہ ہے کہ آج انسانوں کی یہ عظیم مقدس صنف کہاں چلی گئی؟ ہماری یونیورسٹیوں سے اب رازی و سینا، بخاری و مسلم اور رومی اورسعدی کیوں پیدا نہیں ہوتے؟ کہتے ہیں کہ علم ایک نور ہے۔ اس نور کو تقسیم کرنے کے لیے ملک میں آٹھ یونیورسٹیاں، سینکڑوں کالج اور ہزار ہا مدارس جاری ہیں جن میں اندازاً آٹھ ہزار پروفیسر اور ایک لاکھ سے زائد ٹیچرز کام کر رہے ہیں لیکن ان درسگاہوں سے جو مخلوق نکل رہی ہے، وہ اٹھانوے فیصد شب پرست، تصوراتِ عالیہ سے ناآشنا، منزلِ حیات سے بے خبر، بے عمل، شکم پرست اور عیش کوش ہے،یہ کیوں؟
جوابِ سوال:بات یہ ہے کہ اس برصغیر پر فرنگ نے دو سو سال تک حکومت کی۔ یہاں اس نے ایک ایسا نظامِ تعلیم قائم کیا تھا جس کا پہلا مقصد اہلکار اور ایجنٹ پیدا کرنا، دوسرا اہل ملک کو غیرت و حمیت سے بیگانہ بنانا اور تیسرا ان سے ان کا مذہب چھیننا تھا۔آپ جانتے ہیں کہ یورپ میں اخلاقی اور روحانی اقدار کا کوئی تصور موجود نہیں۔ اہل یورپ کا کام ایشیا وافریقہ کی غریب عوام کولوٹنا، ان کے مال پر عیش اڑانا، شراب پینا، ناچنا، کمزوروں کو پیٹنا،پسماندہ ممالک کے خلاف سازشیں کرنا اور علم جیسے مقدس جوہر کو انسانیت کی تخریب و تباہی کے لئے استعمال کرنا ہے۔ آپ اس حقیقت سے بھی آگاہ ہیں کہ دنیا کی لیڈرشپ (قیادت) بارہ سو برس تک مسلمانوں کے پاس رہی۔ اخلاق و فلسفہ کے معلم ہم تھے، دنیا علوم و فنون سیکھنے کے لئے ہماری یونیورسٹیوں میں آتی تھی۔ ایک طرف ملتان سے کوہِ قاف تک اور دوسری طرف ترکستان سے مراکش تک ہمارا علم لہرا رہا تھا۔ مغربی یورپ آٹھ سو برس تک ہمارے تسلط میں رہا۔رومانیہ، ہنگری، سرویہ، یوگوسلاویہ، یونان، شمالی اٹلی، پولینڈ، آسٹریا، سسلی، مالٹا اور قبرص پر صدیوں ہم قابض رہے۔ عیسائی دنیا بارہ سو برس تک ہم سے ٹکرا کر پاش پاش ہوتی رہی ۔ بالآخر بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا، ہم گر گئے اور فرنگ ہماری چھاتی پر چڑھ بیٹھا، پہلے اس نے ہماری پسلیاں توڑیں پھر فاقے دیے اور بعدازاں ایک ایسا نصابِ تعلیم وضع کیا جس سے حریت، جمیعت، ملی غیرت، خدا و رسول سے محبت اور رفعت و عظمت کے تمام تصورات مٹ گئے اور ہم بڑے ’’صاب‘‘ بن کر رہ گئے۔اس نصاب نے ہمیں یہ تاثر دیا:
- کہ مذہب ایک داستانِ پارینہ ہے جو عصر رواں کا ساتھ نہیں دے سکتا۔
- کہ زندگی کا انجام موت ہے اور مقصد کا کھانا، پینا، ناچنا اور عیش اڑانا ہے۔
- کہ انگریزی ام السنۃ ہے اور سرچشمہ تہذیب ہے۔
- کہ لاطینی رسم الخط نہایت ترقی یافتہ خط ہے، اسے رواج دے کر قرآنی حروف سے جان چھڑانا ترقی کے لئے ضروری ہے۔
- کہ انسانیت کے بڑے بڑے محسن یورپ میں پیدا ہوئے تھے، مثلا: کلائیو کیپٹن ڈریک، نیلسن، ملٹن، بائرن وغیرہ اور یہ دنیائے اسلام کے بڑے بڑے لوگ مثلاً غزالی، ابن العربی، رازی، فارابی وغیرہ تاریکی میں بھٹکنے والے اندھے تھے۔
- کہ یورپ کے دشت و جبل، باغ و راغ اور ارض و سما بے حد حسین ہیں۔ کام کے دریا دو ہی ہیں: ڈنیوب، ٹیمز اور یہ سندھ، چناب اور دجلہ و نیل گندے نالے ہیں۔ ککو پرندوں کا بادشاہ ہے اور یہ بلبل، چکور، کوئل اور مور سب کے سب بے ہودہ و بے کار ہیں۔
ان تاثرات کو راسخ کرنے کے لئے یورپ نے ہندوستان میں انگریزی کتابوں کے انبار لگا دئیے۔ مصور رسالے لاکھوں کی تعداد میں مفت تقسیم کیے۔ فحش و عریاں فلم دکھائے۔ ہمارے ہزار ہا نوجوانوں کو یورپ لے جا کر زن و بادہ کا پرستار بنایا اور یہ صورت حال اب تک باقی ہے۔
مذہبی تصورات کے خلاف یورپ کا مؤثر ترین حربہ اس کی غلیظ اور گندی فلمیں ہیں جو مردوں کو مے نوشی، قمار بازی، ڈاکہ زنی اور عیاشی کا سبق دیتی ہیں اور عورتوں کو بر ہنگی، بے حیائی اور عصمت فروشی سکھاتی ہیں۔ ہمارے اونچے گھرانوں کا کمال دیکھیے کہ ایسی فلموں کو اپنی جوان لڑکیوں سمیت دیکھتے ہیں اور اب رفتہ رفتہ یہ حالت ہوتی جاتی ہے کہ بقول اکبر ؎
خدا کے فضل سے بی بی میاں دونوں مہذب ہیں
حیا ان کو نہیں آتی، اسے غصہ نہیں آتا
یورپ مسلمانوں کے تن و توش سے نہیں گھبراتا بلکہ اسلامی ذہنیت سے ڈرتا ہے۔ وہی ذہنیت جو دنیا کے کسی فرعون نمرود کو خاطر میں نہیں لاتی جو آگ کے بھڑکتے ہوئے شعلوں میں بے محابہ کود پڑتی ہے جو دنیاوی سامانِ طرب کو موت اور موت کو زندگی سمجھتی ہے جو باطل کے طوفانوں سے منزلوں آگے بڑھ کر ٹکراتی ہے اور جو سرمایہ دارانہ نظام کے کاشانوں پر موت اور آگ برساتی ہے۔ انگریز نے یہ نظامِ تعلیم اسی ذہنیت کو ختم کرنے کے لئے وضع کیا تھا اور مجھے اعتراف ہے کہ انگریز کی یہ چال بے حد کامیاب رہی، گو آج پاکستان کی عمر سولہ برس ہو چکی ہے لیکن نظامِ تعلیم اسی نہج پر چل رہا ہے۔ کتابوں میں عشقیہ افسانوں اور لا یعنی داستانوں کی وہی بھرمار ہے اور بے مقصد نظموں کی وہی تکرار، طلبہ میں خدا اور رسول سے بے اعتنائی کا وہی عالم ہے اور کج اندیشی و کج روی کی وہی کیفیت۔ وجہ یہ نظامِ تعلیم ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہے جن میں سے اکثر انگریز کے سانچوں میں ڈھل کر نکلے ہیں اور جنہیں ہر مشرقی و اسلامی چیز بد رنگ و قبیح نظر آتی ہے۔
علم، کیسا علم؟:علم کے بغیر تو چارہ نہیں لیکن علم کے درجنوں کی قسمیں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کو کس قسم کا علم چاہیے اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام ہماری دنیا و آخرت ہر دو کو سنوارنا چاہتا ہے، اس لیے ہمارے لیے وہی علم کارآمد ہو سکتا ہے جو ہمیں دنیا و عقبیٰ، ہر دو میں سرخ رو بنائے۔ دنیاوی علوم میں سائنس کا مقام سب سے اونچا ہے کہ اس کے بغیر ہم کائنات کے دفائن و خزائن مثلاً: فولاد، بجلی، پیٹرول، گیس وغیرہ سے متمتع نہیں ہو سکتے۔ اس کے بعد حساب، تاریخ، جغرافیہ، معاشیات، شہریت، فلسفہ وغیرہ کا درجہ آتا ہے۔ رہی آنے والی زندگی تو لاکھوں انبیاء و فلاسفہ کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ وہ صرف پاکیزگی و عبادت سے سنورتی ہے اور یہ صفات اس لٹریچر سے پیدا ہوتی ہیں جو ہمارے عظیم اسلاف کے قلم سے نکلا تھا۔
بلندی و پستی:کتنی ہی بلندیاں ہیں جو پس نظر آتی ہیں۔ آپ کو ایک سرمایہ دار جو اونچے محلوں میں رہتا اور طیاروں میں سفر کرتا ہے، بلند نظر آتا ہوگا اور تمام خاک نشین پست دکھائی دیتے ہوں گے لیکن اصلیت کچھ اور ہے۔ ان خاک نشینوں میں بعض ایسے بھی تھے جو بلند ہوتے ہوتے اس مقام پر جا پہنچے کہ ان میں اور ربِ کائنات میں بالشت بھر کا فاصلہ رہ گیا تھا (صلی اللہ علیہ وسلم)۔ خدارا سوچو کہ موسی علیہ السلام بڑا تھا یا فرعون؟ ابراہیم علیہ السلام بڑا تھا یہ نمرود؟ رام بڑا تھا یا راون؟
فرض کیجئے ایک لفنگا زید کے منہ پر بے وجہ تھوکتا اور گالیاں بکتا ہے، زید اسے معاف کر دیتا ہے۔ سو قدم آگے وہ عمر سے بھی یہی سلوک کرتا ہے لیکن عمر اس کے سر پر اس زور سے لٹھ رسید کرتا ہے کہ اس کا بھیجا باہرآجاتاہے، فرمائیے زید و عمر میں بڑا کون ہے؟
ایک شخص ہر روز ایک ہزار روپیہ کما کر بینک میں جمع کر دیتا ہے اور دوسرا صرف دو روپے کماتا ہے جس میں سے آٹھ آنے وہ اپنے اندھے ہمسائے کو دے آتا ہے، بتاؤ ان میں بڑا کون ہے؟ اس حقیقت سے انکار ناممکن ہے کہ سخاوت بلندی ہے اور بخل بستی اسی طرح تواضع، رحم، عدل، تحمل، صبر، خدمتِ خلق وغیرہ بلندیاں ہیں اور غرور، کم ظرفی، بےصبری، خلق کے درد دل سے بے نیازی و بے رحمی اور بے انصافی وغیرہ وہ پستیاں ہیں جن سے انسانیت کو نکالنے کے لیے سوا لاکھ انبیاء مبعوث ہوئے تھے۔
اسلام کیا چاہتا ہے؟:وہ ایک ایسی جماعت پیدا کرنا چاہتا ہے جس کا علم جہاں گیر ہو اور عشق خدا گیر جو صاحب کلاہ بھی ہو اور صاحبِ نگاہ بھی، جس کا سر خاک پہ ہو اور خیال افلاک پر۔ جب ایک انسان جبینِ نیاز زمین پر رکھ کر رب السماء کو پکارتا ہے تو وہاں سے نور و سرور کی شبنم خیاباں دل پہ ٹپکتی اور کیف و سرور کا ایک عالم رچا جاتی ہے۔ جو لوگ اللہ کو دل میں بسا کر خود اس کی ذات میں بس جاتے ہیں، وہ ایک ایسی لذت میں کھو جاتے ہیں کہ جہانِ مست و بود کا کوئی سانحہ ان کی محویت میں مخل نہیں ہو سکتا۔
أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (یاد رکھو کہ دلوں کو سکون صرف اللہ کی یاد سے حاصل ہوتا ہے)
آج دنیا اور خصوصا یورپ ترکِ عبادت کی وجہ سے سکونِ قلب کی نعمت سے محروم ہے۔ ہر چند کہ وہاں کاریں بھی ہیں اور کوٹھیاں بھی، شراب و کباب بھی ہے اور چنگ و رباب بھی، دولت کے انبار بھی ہیں اور حسن و رنگ کی بہار بھی لیکن وہ لوگ انتہائی اضطراب کا شکار ہیں اور ان کی روح کسی گم شدہ جنت کی تلاش میں بھٹک رہی ہے۔ یاد رکھو اس جنت کی کلید اللہ کی عبادت ہے بس ؎
وہی دیرینہ بیماری وہی نامحکمی دل کی
علاج اس کا وہی آب نشاط انگیز ہے ساقی
اس وقت ہم ایک نہایت نازک دور سے گزر رہے ہیں، بھارت ہمیں ختم کرنے کے منصوبے بنا رہا ہے۔ ہمارے حلیف یعنی امریکہ و برطانیہ درپردہ بھارت سے ملے ہوئے ہیں۔ ہم امریکہ کی طرف دستِ دوستی بڑھائیں تو روس دھمکاتا ہے، روس کا رخ کریں تو لندن سے واشنگٹن تک اک کہرام مچ جاتا ہے۔ ان مشکلات کا واحد حل ربِ کائنات سے رابطہ مہرو دلا قائم کرنا اور اس کی دہلیز پر سر جھکانا ہے۔
اگر کسی طرح ہم اللہ کو اپنا بنا لیں تو پھر اس قدر مہیب و جلیل بن جائیں گے کہ ہماری ایک للکار سے کائنات لرزہ براندام ہو جائے گی اور اگر ہم عشق یعنی عبادت کی قوت سے محروم رہے تو کوئی قدم سیدھا نہیں پڑے گا اور کوئی تیر نشانے پر نہیں بیٹھے گا۔ عشق بڑی چیز ہے، اک عظیم منبع قوت، اک بےنظیر وسیلہ عظمت اور کائنات کی سب سے بڑی دولت ؎
عشق کے ہیں معجزات
تاج و سریر و سپاہ
عشق ہے میروں کا میر
عشق ہے شاہوں کا شاہ
علم فقہیہ و حکیم
عشق مسیح و کلیم
علم ہے جو یائے راہ
عشق ہے دانائے راہ
عشق ہے مقامِ نظر
علم مقام خبر
عشق میں مستی ثواب
علم میں مستی گناہ
چڑھتی ہے جب عشق کی سان پہ تیغ خودی
ایک سپاہی کی ضرب کرتی ہے کار سپاہ
علم کا موجود اور
عشق کا موجود اور
اشھدان لاالہ الااللہ اشھدان لاالہ الااللہ
میں 1907ء سے 1920ء تک مکاتب میں پڑھتا رہا اور 1920ء سے 1963ء تک سکولوں اور کالجوں میں پڑھاتا رہا۔ مکاتب کا امتیازی پہلو یہ تھا کہ طلبہ نہایت مؤدب، متواضع، قانع، خدمت شعار، پابند صوم و صلوۃ، باحیا اور پرہیز گار تھے۔ جب استاد برائے تدریس تشریف لاتے تو طلبہ آگے بڑھ کر ان کے ہاتھ چومتے۔ سبق کے دوران میں سانس کی آواز تک نہ اٹھتی۔ اگر کوئی طالب العلم کسی ضرورت کے لئے حلقہ درس سے باہر جاتا تو دور تک الٹے پاؤں چلتا جاتا تاکہ استاد کی طرف پیٹھ نہ ہونے پائے۔ مجھے دو ایسے اساتذہ سے بھی فیض اٹھانے کا موقع ملا ہے جن کا گزرِ اوقات چند کنال زمین پر تھا۔ اس میں ہم طلبہ ہی ہل چلاتے اور وقت آنے پر فصل کاٹتے تھے۔ ہم میں سے ہر ایک کی کوشش یہی ہوتی کہ وہ خدمتِ استاد میں دوسروں سے سبقت لے جائے۔ دوسری طرف اساتذہ کا یہ حال کہ صبح سے شام تک مفت پڑھاتے۔ ہر نماز کے بعد انبیاء و اولیاء کی حکایات سناتے، تقویٰ و طہارت کی فضیلت بتاتے اور تمام فضائل و ذمائم پہ روشنی ڈالتے تھے۔ نورِ عبادت سے ان کی جبین یوں روشن تھی ....جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں
شخصیت میں اتنی کشش تھی کہ ہم پروانوں کی طرح ان کا طواف کرتے تھے، احترام وجاہت کا یہ عالم تھا کہ ہم انہیں اپنا پیر و مرشد سمجھتے تھے۔
وہاں سے سکولوں اور کالجوں میں آیا تو دنیا ہی نئی دیکھی، اساتذہ بے عمل اور طلبہ بےادب۔ آئے دن گستاخی کی شکایات، قدم قدم پہ اساتذہ سے مذاق، سال میں ایک دو ہڑتالیں اور کبھی کبھی سرِ بازار استاد کی توہین۔ سوچنے لگا کہ یہاں کی دنیا وہاں سے اتنے مختلف کیوں ہے؟ چالیس سال کے بعد مجھ پہ یہ نکتہ کھلا کہ اصل چیز نصابِ تعلیم ہے۔ وہاں رومی و سعدی، عطار اور جامی کی حکمت و دانش پڑھائی جاتی تھی اور یہاں بائرن اور براؤننگ کے خرافات کا درس دیا جاتا ہے۔ وہاں ہر قدم حرم کی طرف اٹھتا تھا اور یہاں کوئے صنم کی طرف، وہاں کے مے خانوں میں مے یثرب تھی اور یہاں کے بادہ کدوں میں غلاظتِ مغرب وہاں تصورات کا محور خدا تھا اور یہاں زن، زر اور ساغر و مینا۔
یوں تو اس نصاب کا ہر ورق قبلہ نما بلکہ خدا نما تھا لیکن اثر، اندازِ بیاں اور نکتہ آفرینی کے لحاظ سے سعدی و رومی کا مقام اتنا بلند ہے اور ذہنوں پہ اس کی گرفت اتنی شدید ہے کہ اگر اس نصاب میں صرف رومی و سعدی ہی ہوتے، تب بھی بھی طلبہ کی روحانی بلندی کا وہی عالم ہوتا۔
میرا واویلا:اس حقیقت سے آگاہ ہوتے ہی میں نے اخبارات میں شور مچایا، بعض حکامِ تعلیم سے خود جا ملا کہ خدا کے لیے میری قوم کے بچوں کو تباہ نہ کرو، ان کی دنیا و آخرت پہ آگ مت برساؤ اور جلد تر دو قدم اٹھاؤ۔
اول....: اساتذہ کو بلند کردار و تقویٰ وہ شعار بننے کا حکم دو۔
دوم....: اردو اور انگریزی مضامین کے نصاب کی بنیاد راضی، غزالی، سعدی وغیرہ کی دانش و حکمت پہ رکھو۔
لیکن میری بات کسی نے نہ سنی، ہماری درسگاہوں میں فکر فرنگ کا غلیظ دریا بدستور رواں ہے، جس میں ہمارے نوجوان ڈوب ڈوب کر مر رہے ہیں، نہ جانے اس صورت حال کی اصلاح کب اور کیسے ہوگی؟
٭…٭…٭