اسلامی مدارس کانصاب و نظام ۔۔ تجزیہ ، تبصرہ ، مشورہ۔ قسط 2

 نصاب میں ’’سیرت و تاریخ‘‘ کا اضافہ

ایک چیز جس کی طرف توجہ نہ ہونے کے برابر ہے، وہ ہے:’’ سیرت وتاریخ ِ اسلام کا باب ‘‘۔مدارس میں اس سلسلے میں کوئی قابل ِذکر نصاب ہی نہیں ہے، حالآں کہ اس کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا اور حضراتِ اسلاف نے اس کی جانب خاصی توجہ دی ہے اور خود حضرات ِصحابہ رضی اللہ عنہم کے درمیان واقعات ِاسلام کو جاننے اور اس کی تعلیم و نقل و روایت کا جو اہتمام تھا، اس سے بھی اس کی اہمیت کا بہ خوبی اندازہ ہو تا ہے ۔

حضرت محمد بن سعد بن ابی وقاص اپنے والد حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم کے متعلق فرماتے ہیں:

’’ کَانَ أَبِي یُعَلِّمُنَا المَغَازِيَ وَالسَّرَایَا ، و یَقُولُ : یَا بني! إنَّھَا شَرَفُ آبائِکُم فلا تُضَیِّعُوا ذِکرَھَا ۔‘‘ (سیرۃ حلبیۃ:۱؍۱،محمد رسول اللہ :۱؍۲۰۳)

(میرے والد ہمیں مغازی اور سرایا کی تعلیم دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ اے بیٹو!یہ تمھارے آبا و اجداد کا شرف ہے ،تم لوگ ان کی یاد داشت کو ضائع نہ کرو۔)

اور ’’مختصر تاریخ دمشق ‘‘میں اسی قول کو محمد بن سعد کے صاحب زادے اسماعیل بن محمد کی طرف ذرا سے الفاظ کے فرق کے ساتھ منسوب کیا گیا ہے ۔

(مختصر تاریخ دمشق:۱؍۲۰۳)

اور حضرت زین العابدین علی بن الحسین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

’’کُنَّا نُعَلِّمُ مَغَازِي رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم کَمَا نُعَلِّمُ السُّورَۃَ مِنَ القُرآن۔‘‘ (البدایۃ والنھایۃ:۳؍۲۴۲)

(ہم مغازی ٔرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح پڑھاتے تھے، جس طرح ہم قرآن کی سورت پڑھاتے تھے۔)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے درس کا جو نصاب تھا ،اس میں من جملہ اور امور کے، ایک حصہ ’’مغازی‘‘ کا بھی تھا ۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے شاگرد ’’عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ‘‘ رحمہ اللہ نے اس کا ذکر اس طرح کیا ہے :

’’ وَلَقَدْ کَانَ یَجْلِسُ یَوماً مَا یَذْکُرُ فِیْہِ إلِاَّ الفِقْہَ وَ یَوماً التَّأوِیْلَ وَ یَوماً المَغَازيَ وَ یَوماً الشِّعرَ و یوماً أیّامَ العَرَب۔‘‘ (طبقات ابن سعد: ۲؍۳۶۸)

(آپ ایک دن صرف فقہ کا ،ایک دن صرف تفسیر کا ،ایک دن صرف مغازی کا ،ایک دن صرف شعر اور ایک دن صرف ایام ِ عرب کا بیان کرتے تھے۔)

یہی نہیں! بل کہ سیر و مغازی کی تعلیم کے لیے اساتذہ کا تقرر بھی ہو تا تھا ، حضرت قتادہ بن النعمان رضی اللہ عنہ کے پوتے حضرت عاصم بن عمر رحمہ اللہ کو حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے جامع مسجد میں سیر و مغازی اور مناقب و فضائل ِصحابہ کی تعلیم کے لیے مقرر فرمایا تھا ،جس کا ذکر ابن حجر رحمہ اللہ نے ان الفاظ کے ساتھ کیا ہے :

’’ کَانَ رَاوِیَۃً لِلعِلْمِ وَلَہٗ عِلْمٌ بِالمَغَازِيْ وَالسِّیَرِ، أمَرَہُ عُمَرُ بنُ عَبْدِ العَزِیزِ أنْ یَجْلِسَ فِي مَسجِدِ دِمَشقَ فَیُحَدِّثُ الناسَ المَغازيَ ومَنَاقِبَ الصَّحَابَۃِ فَفَعَلَ۔‘‘

(تہذیب التہذیب :۵؍۴۸)

(آپ علم کے روایت کرنے والے تھے اور مغازی کا بھی آپ کو علم تھا ، حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے آپ کو حکم دیا کہ دمشق کی مسجد میں بیٹھ کر لوگوں کو مغازی اور مناقب ِصحابہ رضی اللہ عنہم کی تعلیم دیں۔)

الغرض سیر و مغازی کی تعلیم بھی ایک مہتم بالشان کام ہے، جس کی جانب توجہ اہل ِ

مدارس کو دینا چاہیے اور اسلاف کے طریقے کے مطابق اس کا خصوصی اہتمام بھی ہونا چاہیے ۔

کتابت و تحریر کی مشق

ہمارے نصاب میں ایک خاص ضرورت تعلیم ِکتابت بھی ہے، جس کی جانب خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاتی ،حال آں کہ اسلاف نے بچپن ہی سے بچوں کو اس کی مشق کرانے کی ہدایت دی ہے ۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ملک’ِ’ شام‘‘ کے اپنے امیروں کے نام یہ فرمان جاری فرمایا تھا :

’’ وَعَلِّمُوْا صِبْیَانَکُم الکِتَابۃَ والسّبَاحَۃَ۔‘‘ (مصنف عبد الرزاق:۹؍۱۹)

(اپنے بچوں کو کتابت اور تیراکی سکھاؤ۔)

اور تو اور خود نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا خاصا اہتمام فرمایا ہے ، جس کا کچھ اندازہ اس روایت سے ہوتا ہے کہ غزوۂ بدر میں جن کفار کو قیدی بنا کر لایاگیا تھا، ان میں سے بعض تو فدیہ دے کر رہا ہو گئے تھے اور جو فدیہ نہ دے سکے تھے اور لکھنے سے واقف تھے، ان کے متعلق نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ طے فرمایا کہ یہ لوگ بہ طور فدیہ دس مسلمان لڑکوں کو لکھنا سکھا دیں ۔

ابن سعد رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے :

’’ کَانَ فِدَائُ أسَاریٰ بَدْرٍ أرْبَعۃَ آلاَفٍ إلٰی مَا دُونَ ذَلِکَ ، فَمَنْ لَمْ یَکُنْ عِندَہُ شَيْئٌ أمَرَ أنْ یُعَلِّمَ غِلمَانَ الأنصَارِ الکِتَابۃَ ‘‘ و في روایۃٍ :’’ أنْ یُعَلِّمَ عَشرَۃً مِنَ المُسْلِمِینَ الکِتَابَۃَ ‘‘ ۔ (طبقات ابن سعد:۲؍۲۲)

( غزوہ ٔبدر کے قیدیوں کا فدیہ چار ہزار درہم اور اس سے کم تھا،پس جس قیدی کے پاس کچھ نہیں تھا ، اس کو حکم دیا گیا کہ وہ انصار کے لڑکوں کوکتابت سکھادے اور ایک روایت میں ہے کہ وہ دس مسلمانوں کو کتابت سکھادے)۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اور اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس کا بڑا اہتمام تھا کہ بچوں کو کتابت سکھائی جائے ۔ نیز اس کی ضرورت ویسے بھی مشاہد ہے اور اسی لیے محدثین نے بھی تحسین ِخط کی ترغیب میں اپنی کتابوں میں ابواب قائم کیے ہیں ،جس سے ان حضرات کے نزدیک اس کی اہمیت کا بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔


جاری ہے۔۔۔

 


دینی مدارس کا نصاب ونظام

از افادات
شیخ طریقت حضرت اقدس مفتی شعیب اللہ خان صاحب مفتاحی مدظلہم العالی
(بانی ومہتمم الجامعۃ الاسلامیۃ مسیح العلوم،بنگلور)

نشر واہتمام
مفتی ابو الحسن المنجہ خیلوی عفی عنہ

کل مضامین : 14
اس سلسلے کے تمام مضامین

مفتی محمد شعیب اللہ خان صاحب

بانی ومہتمم الجامعۃ الاسلامیۃ مسیح العلوم،بنگلور
کل مواد : 14
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2025

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن
ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2025