خدا ، رسول اور انسان کے بارے میں اسلامی تصور
مؤرخہ : ۲۳ ،۲۴ ؍ ستمبر۲۰۱۶ء کو مگدھ یونیور سٹی بودھ گیا ( بہار) میں اس یونیورسٹی اور انسٹی ٹیوٹ آف آبجکٹیو اسٹڈیز دہلی کے اشتراک سے ایک ہمہ مذہبی سیمینار منعقد ہوا ، جس میں ہندو ، آریہ سماجی ، جین ، بودھ ، کرسچن ، سکھ ، کنفیوشش اور مشرق بعید کے بعض دوسرے مذاہب کے نمائندے شریک ہوئے اورسبھوں نے اپنے اپنے مذاہب کا تعارف پیش کیا ، اس حقیر کو ’’ اسلام کا تعارف ‘‘ پیش کرنے کی ذمہ داری دی گئی ؛ چنانچہ زبانی تعارف پیش کیا گیا ، متعدد شرکاء نے خواہش کی کہ اسے تحریری شکل میں شائع کردینا چاہئے ؛ تاکہ برادرانِ وطن تک اسلام کا تعارف پہنچانے میں سہولت ہو ، اسی جذبہ کے تحت یہ تحریر شائع کی جارہی ہے ۔ (رحمانی)
مسلمان جس مذہب پر یقین رکھتے ہیں ، اس کے دو نام ہیں : اسلام اور ایمان ، اسی لحاظ سے مسلمانوں کے بھی دو نام ہیں : مسلم اور مؤمن ، اسلام کے معنی اپنے آپ کو حوالہ کردینے کے ہیں ، یہ عربی گرامر کے لحاظ سے سلِم اور سَلام سے ماخوذ ہے ، جس کے معنی صلح ، سلامتی اور خود حوالگی کے ہیں ، اسی سے مسلم ہے ، یعنی ایسا شخص جو صلح کو پسند کرنے والا اور اپنے آپ کو خدا کے حوالے کردینے والا ہو ، ایمان ’ امن ‘ کے لفظ سے ماخوذ ہے ، امن کے معنی ہیں : دوسرے کو امن دینا ، یقین کرنا ، اسی سے مؤمن ہے ، مومن کے معنی ہوئے : امن دینے والا ، یقین کرنے والا ۔
غور کیجئے تو اسلام اور ایمان ان دونوں میں امن ، سلامتی ، صلح اور خدا کے احکام کے سامنے جھک جانے کے معنی پائے جاتے ہیں ، یہی اسلام کی تمام تعلیمات کا خلاصہ ہے ، قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ اسلام کی ابتداء پہلے پیغمبر حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی ، پہلے انسان ، پہلے مسلمان بھی تھے ، تاریخ کے مختلف ادوار میں جتنے پیغمبر گذرے ہیں ، وہ سب اپنے اپنے زمانے میں اسلام کی دعوت دینے والے تھے ، اور جن لوگوں نے ان کی دعوت قبول کی ، وہ سب مسلمان تھے ؛ کیوںکہ مسلمانوں میں وہ سب لوگ شامل ہیں ، جو خدا کے احکام کے سامنے سر جھکا دیں ، ایسا نہیں ہے کہ اسلام کی ابتدا محمد رسول اللہ ﷺ سے ہوئی ہے ؛ اسی لئے محمد ﷺنے مسلمانوں کے لئے اپنے نام کی نسبت سے کوئی نام منتخب نہیں فرمایا اور اپنے ماننے والوں کو ’ محمدی ‘ یا ’ محمڈن ‘ نہیں کہا ؛ بلکہ انھیں ’ مسلم ‘ اور ’ مؤمن ‘ کا نام دیا گیا ، جن کو ہندوستان میں عام طور پر مسلمان کہا جاتا ہے ۔
خدا ایک ہے !
ہم جس کائنات میں رہتے ہیں ، اس کو ہم نے پیدا نہیں کیا ہے ؛ بلکہ ہم نے خود اپنے آپ کو بھی نہیں بنایا ہے ، کوئی طاقت ہے جس نے اس کائنات کو بھی پیدا کیا ہے اور ہمیں بھی ، پھر غور کیجئے تو اس دنیا میں ساری چیزیں ایک توازن کے ساتھ پائی جاتی ہیں ، انسان کو آکسیجن کی ضرورت ہے ، آلودہ گیسیں انسان کے لئے نقصاندہ ہیں ، مگر یہی گیسیں درختوں کی خوراک ہیں ، وہ ان گیسوں کو صاف کرکے انسان کے لئے آکسیجن فراہم کرتے ہیں ، ہرمقام کی ضرورت کے لحاظ سے بارش ہوتی ہے ، ریگستانوں میں بارش کم ہوتی ہے ، جنگلات میں زیادہ ہوتی ہے ؛ کیوںکہ نباتات پانی کی زیادہ ضرورت ہے ، مقررہ اوقات کے مطابق ہی دن و رات کی آمد و رفت ہوتی ہے ، کائنات کے اُفق میں اربوں سیارے تھوڑی دیر کے لئے بھی رُکے بغیر گردش کررہے ہیں ؛ لیکن تیز رفتاری کے باوجود ان کے درمیان کبھی تصادم نہیں ہوتا ، سورج اتنی حرارت خارج کرتا ہے کہ اگر وہ جوں کا توں زمین پر پہنچ جائے تو زمین جل کر بھسم ہوجائے ؛ کیوںکہ ایک سکنڈ میں سورج جو حرارت خارج کرتا ہے ، اس کی مقدار دس لاکھ ایٹم بم سے بھی زیادہ ہے ، زمین کے چاروں طرف ہوا کا ایک ایسا غلاف تان دیا گیا ہے کہ وہ ان بے پناہ حرارتوں کو جذب کرلیتا ہے اور انسان کی ضرورت کے بقدر ہی زمین پر پہنچنے دیتا ہے ، غرض کہ پوری کائنات ایک مربوط اور متوازن نظام کے ساتھ چل رہی ہے ۔
اس سے معلوم ہوا کہ کوئی بالا تر ہستی ہے ، جس نے کائنات کو پیدا کیا ہے اور وہ مسلسل اس کا انتظام بھی کررہی ہے ، اسی ہستی کا نام خدا ہے اوروہ ایک ہی ہے ، اگر کئی لوگ مل کر کائنات کا نظام چلاتے تو وہ ٹکراؤ سے بچ نہیں پاتے اور کائنات کے نظام میں اِس وقت جو یکسانیت ہے ، وہ برقرار نہیں رہ پاتی ؛ چنانچہ قرآن مجید نے خدا کی ہستی کا تعارف کراتے ہوئے کہا ہے :
اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، وہ زندہ ہے ، سب کو تھامے ہوا ہے ، نہ اس کو اونگھ آتی ہے اورنہ نیند ، آسمانوں میں اور زمینوں میں جو کچھ ہے ، سب اسی کا ہے ، کون ہے جو اس کے سامنے اس کی اجازت کے بغیر سفارش بھی کرسکے ؟ جو کچھ لوگوں کے سامنے ہے اور جو کچھ لوگوں سے اوجھل ہے ، اس کو سب کا علم ہے ، اس کے علم کے کسی گوشے پر بھی کوئی شخص حاوی نہیں ہوسکتا ، سوائے اس کے کہ خود وہی ( کسی کو کوئی علم دینا ) چاہے ، آسمانوں کی اورزمین کی بادشاہت اسی کے لئے ہے ، ان کی نگہبانی اس کے لئے تھکادینے والا کام نہیں ، و ہی سب سے اوپر ہے اور وہی سب سے بڑا ہے ۔ (البقرۃ : ۲۵۵)
اسلام میں خدا کے ایک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی ذات بھی ایک ہے اور وہ اپنی صفات میں بھی یکتا ہے ، وہی پیدا کرتا ہے ، وہی موت دیتا ہے ، انسان اسی کے حکم سے بیمار پڑتا ہے اور اسی کے حکم سے شفا حاصل ہوتی ہے ، وہی روزی دینے والا ہے ، اسی کے حکم سے کسی کی روزی بڑھتی ہے اور کسی کی کم ہوتی ہے ، یہ تصور انسان کو ایک تقدس عطا کرتا ہے ، وہ سمجھتا ہے کہ اس کی پیشانی صرف اللہ کے سامنے جھکنے کے لئے ہے ، وہ مخلوقات کے خوف کے وہم سے آزاد ہوجاتا ہے ، پھر یہ یقین اس کے اندر کائنات کے بارے میں تحقیق کا جذبہ پیدا کرتا ہے ؛ کیوںکہ وہ سمجھتا ہے کہ خدا نے یہ ساری چیزیں اس کی خدمت کے لئے پیدا کی ہیں ، جب انسان کسی چیز کو اپنا خادم سمجھتا ہے تو اس کے بارے میں تحقیق اورجستجو سے کوئی جھجھک نہیں ہوتی ، اور اگر وہ کسی چیز کو اپنا معبود سمجھ لے تو احترام کا تقاضہ ہوتا ہے کہ وہ اس کی کھوج میں نہ پڑے ۔
رسول اور کتاب
جو کسی چیز کا بنانے والا ہوتا ہے ،وہی اس کے استعمال کے طریقے اور اس کے نفع و نقصان کے پہلوؤں سے بھی واقف ہوتا ہے ، جب خدا نے اس کائنات کو بھی بنایا ہے اور انسان کو بھی ، تواس دنیا کی چیزوں کو اسے کس طرح استعمال کرنا چاہئے اور خود اس کو اپنی زندگی کس طورپر گذارنی چاہئے ؟ اس کے لئے اسے خدا کی رہنمائی کی ضرورت ہے ؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انسانو ںکی رہنمائی کے لئے دو انتظام فرمایا، ایک یہ کہ ہر قوم میں اپنا پیغمبر بھیجا ، دوسرے : پیغمبر کے ذریعے اپنی کتاب بھیجی ، اور پیغمبر کو ذمہ داری دی گئی کہ وہ اللہ کے بندوں تک اللہ کی کتاب پہنچائیں ، انھیں سمجھائیں اور خود اللہ کے احکام پر عمل کرکے لوگوں کے سامنے عملی نمونہ پیش کریں ؛ کیوںکہ کوئی حکم جب عمل کے سانچے میں ڈھل جاتا ہے تولوگوں کے لئے اس کا سمجھنا آسان ہوجاتا ہے ، نیز ہر قوم میں ان ہی کی زبان کا بولنے والا پیغمبر بھیجا گیا اور اسی زبان میں خدا کی کتاب اُتاری گئی ؛ چنانچہ قرآن مجید کہتا ہے :
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهٖ ۔ (ابراہیم : ۴ا)
اور ہم نے ہر قوم میں ان ہی کی زبان کا رسول بھیجا ۔
یہ پیغمبر انسان ہی ہوا کرتے تھے ، ان کو خدا کی طرح پیدا کرنے ، مارنے ، روزی دینے ، روزی سے محروم کرنے ، بیمار کرنے اور صحت دینے کا کوئی اختیار نہیں تھا ، وہ بھی اپنی ضرورتوں کے لئے خدا ہی سے دُعا کیا کرتے تھے ؛ البتہ ان کو یہ بزرگی اور عظمت حاصل تھی کہ ان پر اللہ کا کلام اُترتا تھا اور اللہ نے اپنا پیغام پہنچانے کے لئے ان کو چن لیا تھا ؛ چنانچہ محمد ﷺ سے قرآن مجید نے کہلایاہے :
اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ یُوْحٰۤی اِلَیَّ ۔ (الکہف : ۱۱۰)
میں بھی تمہاری ہی طرح ایک انسان ہوں ؛ البتہ میرے اوپر اللہ کا کلام اُتارا جاتا ہے ۔
ایک اور موقع پر فرمایا گیا کہ رسول ، اللہ کے حکم کے بغیر کوئی نشانی نہیں لاسکتا :
وَ مَا كَانَ لِرَسُوْلٍ اَنْ یَّاْتِیَ بِاٰیَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ۔ (الرعد : ۳۸)
البتہ چوںکہ رسول ، اللہ کے پیغمبر ہوتے ہیں اور انسان کو بتاتے ہیں کہ کن باتوں سے کائنات کا مالک خوش ہوتا ہے اور کن باتوں سے ناراض ہوتا ہے ؛ اس لئے انسان پر یہ بات لازم ہے کہ وہ پیغمبر کی اطاعت کریں :
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِ۔ (النساء : ۶۴)
ہم نے کسی بھی رسول کو اسی لئے بھیجا کہ اللہ کے حکم سے اس کی فرمانبرداری کی جائے ۔
پیغمبروں کا یہ سلسلہ محمد رسول اللہ ﷺ پر مکمل ہوگیا ، اب آپ کے بعد کوئی پیغمبر نہیں آسکتا ، قرآن مجید نے اس بات کو صراحت کے ساتھ کہا ہے ؛ (الاحزاب : ۴۰) البتہ انسان کی رہنمائی کے لئے اللہ کی طرف سے دو خصوصی انتظام کیا گیا ، ایک یہ کہ آپ پر اُترنے والی کتاب قرآن مجید مکمل طورپر محفوظ کردی گئی ، قرآن مجید میں (۶۶۶۶ )آیتیں ہیں جو بحیثیت مجموعی (۳۲۰۰۱۵ ) الفاظ پر مشتمل ہیں ، ان میں آپ کے عہد سے لے کر آج تک کہیں ایک حرف کی کوئی تبدیلی نہیں آئی ، ہر سال صرف ہندوستان میں قرآن مجید کے ایک کروڑ سے زیادہ نسخے چھپتے ہیں ، دوسرے ممالک اس کے علاوہ ہیں ، کوئی مسلمان ایسا نہیں جس کے گھر میں یہ کتاب موجود نہ ہو اور یہ کتاب ہر وقت ہر شخص کے لئے پہلے بھی دستیاب تھی اور بھی دستیاب ہے ، ان نسخوں میں کہیں ایک نقطہ اور زبر زیر کا بھی فرق نہیں پایا جاتا — دوسرے : محمد ﷺ کے ارشادات اورآپ ﷺ کی زندگی کے حالات کو اس طرح محفوظ کردیا گیا ہے کہ انسان بچپن سے لے کر بڑھاپے تک اور صبح سے لے کر رات تک زندگی کے ہر لمحہ اور ہر مرحلہ کے لئے آپ ﷺ کی زندگی سے روشنی حاصل کرسکتا ہے ، دس ہزار سے زیادہ معتبر حدیثیں ہیں ، جو ہمیں آپ ﷺ کی تعلیمات سے واقف کراتی ہیں ؛ اس لئے اگرچہ پیغمبر کے آنے کا سلسلہ باقی نہیں رہا ؛ لیکن انسان اِن ماٰخذ سے اپنی زندگی کے بارے میں خدا کی مرضی کو آسانی سے جان سکتا ہے ۔