اسلامی مدارس کانصاب و نظام ۔۔ تجزیہ ، تبصرہ ، مشورہ۔ قسط 7
اپنے منصب کا شعور
اس سلسلے میں دوسری با ت یہ ہے کہ طا لب ِعلم کو اس کی ذمے داری اور فرائض ِ منصب سے آگاہ کیا جا ئے ؛تاکہ اپنے منصب کی ذمے داری کا شعور پیدا ہو اور وہ اپنی ذمے داری پو ری کرنے کے لیے ابھی سے تیار ہو سکے۔
یہ بات واضح ہے کہ طلب ِعلم کی راہ سے طالب ِعلم اہل ِعلم میں شامل و داخل ہوتا ہے،لہٰذا اس کی ذمے داری در اصل اہل ِعلم کی ذمے داری ہے اور علما وارثین ِانبیا ہیں؛ لہٰذا ان کے ذمے وہی سب کچھ ہے، جو انبیا علَیہِم الصّلاۃُ والسَّلامُ کے ذمے تھا ۔
لہٰذا سب سے اول خود کو علم کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کے بعد ایک طالب ِ علم کی ذمے داریوں کا خلاصہ یہ ہے :
(۱) دین ِاسلام و شریعت کی پوری طرح حفاظت کرے ، اس میں کوئی ترمیم وتحریف کو کسی طرح برداشت نہ کرے ۔
(۲) دین کی اشاعت و تبلیغ کرے اور دین و شریعت کے پیغام کو لوگوں تک پہنچانے اور اس کی دعوت کو عام کرنے کی راہیں بنائے ۔
(۳)امت کے اندر دینی شعور و اصلاحی جذبہ بیدار کرے؛ تاکہ وہ کج روی کے بہ جائے صراط ِمستقیم پر گامزن رہے ۔
(۴) امت کو راہِ راست پر رکھنے کی بھر پور جد و جہد کرے؛ تاکہ عقائد واعمال ، اخلاق و کردار ، معاشرت ومعاملات سب میں وہ شریعت کے دائرے میں رہے ؛لہٰذا قرآن و سنت کی تعلیم ، ان کے نفوس کے تزکیے اور قلوب کے تصفیے کی فکر میں لگا رہے۔
اور ان سب کا خلاصہ یہ ہے کہ ہمہ وقت وہ ہدایت کے کاموں میں لگا رہے اور اس کے ہر قول و عمل سے پیغام ہدایت جاری ہو ۔
ان سب ذمے داریوں کا ذکر درج ذیل آیات میں ہے :
قال اللہ تعالیٰ :
{ اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰئۃَ فِیْھَا ھُدًی وَّ نُوْر’‘ یَحْکُمُ بِھَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِیْنَ ھَادُوْا وَ الرَّبّٰنِیُّوْنَ وَ الْاَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ کِتٰبِ اللّٰہِ و َکَانُوْا عَلَیْہِ شُہَدَآء۔} (المائدہ :۴۴)
(بلا شبہ ہم نے توارت نازل کی، جس میں ہدایت و نور ہے ، اس کے یہود کو موافق حکم دیتے ہیں ،انبیا جو اللہ کی اطاعت کر تے ہیں اور علما و مشائخ ؛کیوں کہ ان کو اللہ کی کتاب کی حفاظت کا ذمہ دیا گیا تھا اور وہ اس پر نگران تھے۔ )
حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ نے اس کی تفسیر میں لکھا ہے :
’’یعنی یہ انبیا اور ان کے دو نوں قسم کے نائبین علما و مشائخ تورات کے احکام جاری کرنے کے پابند اس لیے تھے، کہ اللہ تعالیٰ نے تورات کی حفاظت ان کے ذمے لگادی تھی اور انھوں نے اس کی حفاظت کا عہد و پیمان کیا تھا ۔‘‘ (معارف القرآن: ۳؍۱۶۰)
اس میں وارثین ِانبیا، علما و مشائخ کی ایک اہم ذمے داری کا بیان ہے اور وہ ہے :کتاب اللہ کی حفاظت اور اسی میں دین و شریعت کی حفاظت کا بیان آگیا ۔
قال اللہ تعالیٰ :
{ وَتَرٰی کَثِیْرًا مِّنْھُمْ یُسَارِعُوْنَ فِی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِوَ اَکْلِھِمُ السُّحْت لَبِئْسَ مَاکَانُوْا یَعْمَلُوْن لَوْلَا یَنْھٰئہُمُ الرَّبّٰنِیُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ عَنْ قَوْلِھِمُ الْاِثْمَ وَاَکْلِھِمُ السُّحْتَ لَبِئْسَ مَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ} (المائدہ :۶۲-۶۳)
(اور آپ ان میں سے بہت سوں کو دیکھیں گے ،کہ گناہ اور ظلم اور حرام کھانے میں آگے بڑھتے ہیں ، پس برا ہے، وہ کام جو یہ کر رہے ہیں ؛کیوں نہیں ان کے علما و مشائخ ان کو گناہ اور حرام کھانے سے منع کرتے ؟ برا ہے! جو یہ کر تے ہیں !۔)
اس آیت کی تفسیر میں حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ نے لکھا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے:
’’ اس آیت سے معلوم ہوا کہ’’ امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘‘ کی اصل ذمے داری ان دو طبقوں پر ہے : ایک مشائخ۔ دوسرے: علما۔ اور اس میں آخر میں فرمایا : ’’ لبئس ما کانوا یصنعون‘‘ یعنی علما و مشائخ کی یہ سخت بری عادت ہے کہ اپنا فرض منصبی ’’امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘‘ چھوڑ بیٹھے ، قوم کو ہلاکت کی طرف جاتا ہوا دیکھتے ہیں ۔ )
نیز لکھا :
جس قوم کے لوگ جرائم اور گناہوں میں مبتلا ہوں گے اور ان کے مشائخ و علما کو یہ بھی اندازہ ہو، کہ ہم ان کو روکیں گے؛ تو یہ باز آجائیں گے۔ ایسے حالات میں اگر یہ کسی لالچ یا خوف کی وجہ سے ان جرائم اور گناہوں کو نہیں روکتے ؛ تو ان کا جرم اصل مجرموں ، بدکاروں کے جرم سے بھی زیادہ اشد ہے ؛اسی لیے ابن عباس رضی اللہ عنہنے فرمایا :’’ مشائخ و علما کے لیے پورے قرآن میں اس آیت سے زیادہ سخت تنبیہ کہیں نہیں‘‘ اورامام ِتفسیر حضرت ضحاک سے فرمایا کہ میرے نزدیک علما و مشائخ کے لیے یہ آیت سب سے زیادہ خوفناک ہے ۔ (معارف القرآن: ۳؍۱۸۵-۱۸۶)
قال اللہ تعالیٰ :
{ وَجَعَلْنَا مِنْھُمْ اَئِمَّۃً یَّھْدُوْنَ بِاَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوْا وَ کَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یُوْقِنُوْن} (السجدۃ :۲۴)
(اور ہم نے ان میں امام بنائے، جو ہمارے حکم سے لوگوں کو ہدایت دیتے تھے ، جب کہ انھوں نے صبر کیا اور وہ ہماری آیات پر یقین کرتے تھے۔ )
{ لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُوْلاً مِّنْ اَنْفُسِہِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْہِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْن}( آل عمران :۱۶۴)
اس آیت میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرائض منصبی کا بیان ہے،لہٰذا یہی سب کچھ علما کی ذمے داریوں میں بھی شامل ہوگا ۔
الغرض طالب ِعلم کے سامنے یہ بات واضح ہو نا چاہیے، کہ اس کو پڑھنے کے بعد کیا کام کرنا ہے؟ اس کی ذمے داریاں کیا ہیں؟
علما کی ذمے داریاں
مذکورہ امور کی کچھ تفصیل و تشریح حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ کے ایک بیان سے ہو تی ہے ؛لہٰذا یہاں اس کو نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے ۔ حضرت نے فرمایا :
’’شاید انسانوں کی کوئی جماعت اتنی مشغول اور فرائض و ذمے داریوں سے اتنی گراں بار نہیں، جتنی نائبان ِرسول اور علما ومصلحین ِ اسلام کی جماعت ہے، جسمانی امراض کے طبیبوں کو بھی آرام اورفرصت کا موقع میسر آجاتا ہوگا ؛لیکن ان اطبائے روح کے لیے کوئی موسم، اعتدال و صحت کا نہیں؛ لیکن علمائے حق اور{ قَوَّامِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَائَ بِالقِسْطِ}(اللہ کے لیے کھڑی ہو جانے والی اور انصاف کی گواہ)جماعت کا کام بعض مرتبہ مسلمانوں کی حکومت کے زمانے میں ختم ہو نے کے بہ جائے کچھ بڑھ ہی جاتا ہے۔ کچھ چیزیں ہیں، جو حکومت وطاقت و دولت و فراغت ہی کے زمانے میں پیدا ہو تی ہیں اور علمائے اسلام ہی کا فرض ہو تا ہے، کہ ان کی نگرانی کریں ، وہ اپنے فریضہ ٔ احتساب ، نگرانی ،اخلاقی اور دینی رہنما کے منصب سے سبکدوش نہیں ہوتے۔اس وقت بھی ان کا جہاد اور ان کی جد و جہد ، جاری رہتی ہے ۔
کہیں مسلمانوں کی مسرفانہ زندگی پر روک ٹوک کر رہے ہیں؛ کہیں سامان ِعیش و غفلت پر ان کی طرف سے قد غن ہے ؛ کہیں چوری کی شراب کو گرفتار کیا ہے اور اس کو انڈیل رہے ہیں ؛ کہیں باجوں اور موسیقی کے آلات کو توڑ رہے ہیں ؛ کہیں مردوں کے لیے ریشم کے لباس اور سونے چاندی کے برتنوں کے استعمال پر چیں بہ جبیں ہیں؛ کہیں بے حجابی ، مردوں اور عورتوں کے آزادانہ اختلاط پر معترض ہیں؛کہیں حماموں کی بے قاعدگیوں اور بداخلاقیوں کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں ؛ کہیں غیر مسلموں اور عجمیوں کی عادات اور خصوصیات اختیار کر نے پر ان کی طرف سے مخالفت ہے ؛ کبھی مسجدوں کے صحن اور مدرسوں کے ایوانوں میں حدیث کا درس دے رہے ہیں اور قال اللہ و قال الرسول کی صدا بلند کر رہے ہیں اور کبھی خانقاہوں میں یا اپنے گھروں اور مسجدوں میں بیٹھے ہوئے دلوں کا زنگ دور کر رہے ہیں ؛ اللہ کی محبت و طاعت کا شوق پیدا کر رہے ہیں ؛ امراض ِقلب ، حسد ،تکبر ، حرص ِدنیا ، دوسرے نفسانی و روحانی امراض کا علاج کر رہے ہیں؛ کبھی منبر پر کھڑے ہوئے جہاد کا شوق دلا رہے ہیں اور اسلام کی سرحدوں کی حفاظت یا اسلامی فتوحات کے لیے آمادہ کر رہے ہیں ۔
پوری اسلامی تاریخ میں آپ کو زندہ اور ربانی علما، جو حکومت ِ وقت کے دامن سے وابستہ نہیں تھے ، یا حقیر جھگڑوں میں مشغول نہیں تھے، ان ہی مشاغل میں منہمک نظر آئیں گے اور مسلمانوں کا کوئی دور حکومت ان علمائے حق اور ان کی جد و جہد سے خالی نہیں رہا ۔ ‘‘
(خطبات علی میاں رحمہ اللہ :۶؍۲۲۳-۲۲۴)
عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ مدارس کے بہت سے طلبا کو ان کا مقصد حیات و منشائے تعلیم کا کوئی علم نہیں ہوتا اور وہ بس یوں ہی پڑھتے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے کو اس کام کے لیے تیار نہیں کر پاتے ،جو ان کا نصب العین اور ان کی ذمے داری ہے ؛اس لیے وقتاً فوقتاً اس کا تذکرہ اور اس کے افہام و تفہیم کا سلسلہ رہنا چاہیے۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔