حیا کا اسلامی تصور اور مغرب کی بے حیا تہذیب (ویلنٹائن ڈے کے موقع پر خاص تحریر)
اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے جس میں ایک طرف انسان کی خواہشات، جذبات، احساسات کا انسانی فطرت کی رعایت کے مطابق خیال رکھا گیا ہے تو وہیں دوسری طرف اخلاق و شرافت کے بنیادی اصول اور انسانیت کی قدروں کا پاس و لحاظ بھی کیا گیا ہے جہاں ایک طرف اسلام تہذیب و معاشرت اور مذہب و تمدن کا محافظ ہے تو وہیں دوسری طرف شرم و حیا سے عبارت اور عفت و عصمت کی حفاظت کا علمبردار بھی ہے منجملہ اپنی جامعیت اور مانعیت کہ اسلام میں حیا کا تصور انتہائی پاکیزہ ہےحیا اسلامی کی بنیادی تعلیم،سلامتی طبیعت کی پہچان،اعلی ذوق کی علامت ہے حیا اسلام میں سراپا خیر ہے اور اسلام نے حیا کو ایک ایسا بنیادی درجہ عطا کیا ہے جس سے دوسرے اخلاقی اقدار کو تقویت ملتی ہے چاہے وہ عفت و عصمت کی حفاظت ہو یا مروت اور چشم پوشی کی تعلیم بلکہ گناہوں سے اجتناب میں مددگار چنانچہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے کہیں یہ ارشاد فرمایا:کہ "ایمان کی ساٹھ سے اوپر کچھ شاخیں ہیں اور حیاء بھی ایمان کی ایک شاخ ہے" تو کہیں اس طرح حیا کو پسند فرماتے ہوئے ذکر فرمایا:
الحیاء لایاتی الابخیر‘‘ حیاء سے تو صرف بھلائی ہی پہنچتی ہے اور کبھی زبان نبوت حیا کی اہمیت پر یوں زور دیتی ہے:"اگر تم میں شرم و حیاء نہیں تو جو چاہو کرو‘‘ تو کبھی محسن کائنات نے حیا کو اسلام کا خلق گردانا ہے:ہر دین کا ایک خالص خلق ہوتا ہے۔ اور اسلام کا خلق خلق حیاء ہے" لسان نبوت سے صادر ان احادیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حیا سے انسان خوبی و کمال کی راہ پاتا ہے ہر انسان کی فطرت میں خدا تعالیٰ نے حیا کودیعت کررکھا ہے۔
عصر حاضر میں حیا کا فقدان
لیکن دور حاضر میں اہل اسلام بالخصوص ماڈرن تعلیم یافتہ افراد، طلبہ و طالبات مغرب کی تقلید کرتے ہوئے بد تہذیبی کو سینے سے لگارہے ہیں، حقائق سے بے خبر بڑے جوش وخروش سے ان باطل رسوم کو منا رہے ہیں،روز بروز ہمارا معاشرہ مغربی بد تہذیبی کا دلدادہ بنتا جارہا ہے،حالت بہ این جا رسید کہ اب مسلمان کبھی کرسمس منانے میں عیسائیوں کے دوش بدوش نظرآتے ہیں، تو کبھی عیسائیوں کو نئے سال کی آمد پر ایک دوسرے کو نیوائر کی مبارکباد دیتے ہوئے، تو کبھی 14 فروری ویلنٹائن ڈے کے موقع پر شرم و حیا سے عاری ہوکر اپنے ناجائز تعلقات کو فروغ دے کر پھولوں کا گلدستہ تھامے نظرآتے ہیں الغرض نسل نو مغربی رسومات کی تقلید میں اندھا دھند فضول رسومات منانا شروع کرچکی ہے۔
حیا کا اسلامی تصور اور تہذیب مغرب سے موازنہ
ایک طرف اسلام شرم حیاء کا وہ تصور پیش کرتا ہے جو ہماری اسلامی تہذیب اور دینی تعلیم کا ایک حصہ ہے۔
تو دوسری طرف مغربی تہذیب شرم و حیا کو نیلام کرکے سر بازار عریانیت وفحاشیت کو فروغ دیتی ہے ۔
ایک طرف اسلام حیاء کو انسانی فطرت کا لازمی حصہ بتاتا ہے تو وہیں دوسری طرف مغربی تہذیب بے شرمی و بے غیرتی کے لیے ایک دن مخصوص کرلیتی ہے،
ایک طرف اسلام اپنے پیاروں سے ہمیشہ وابستہ اور محبت و مودت کی تلقین کرتا ہے تو دوسری طرف مغربی تہذیب محبت کے نام پر جھوٹ، اخلاق کے نام پر بداخلاقی،تہذیب کے نام پر بد تہذیبی کو پروان چڑھاتی ہے در اصل انسان اگر شرم وحیا سے عاری ہوجائے، ہوی و ہوس کا پرستار بن جائے تو بے شرمی اسکی زندگی کا جزء بن کو پورے معاشرے پر غلط اثرات مرتب کرتی ہے اور پورا معاشرہ اخلاقیات، آداب اصول، اور رواداری سے عاری ہوجاتا ہے،اور اسکی جگہ بد اخلاقی اور بد تہذیبی اس سماج اور معاشرہ کا حصہ بن جاتی ہے
ویلنٹائن ڈے اور موجودہ صورت حال
چنانچہ آج کے دن 14 فروری کو بڑے دھوم دھام کے ساتھ "یوم محبت"یوم عاشقاں" منایا جاتا ہے،جام وسرور کا بازار گرم ہوتا ہے، گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ ایک دوسرے کو مبارکبادی دیتے ہیں، شراب وشباب کی محفلیں جمائی جاتی ہیں اور آزادی کے نام پر بے حیائی اور بے شرمی کی تمام حدیں پار کی جاتی ہیں، لڑکے لڑکیاں بے محابہ ملتی ہیں، تحفہ تحائف، کارڈز کے تبادلے ہوتے ہیں،انسان سوز اعمال کا ارتکاب ہوتا ہے، جنس پرستی اور عیاشی کا نتیجہ آخر کار زنا اور بین مذاہب شادیوں کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے(شاید اہل نظر سے میری یہ بات پوشیدہ نہیں)افسوس تو یہ ہے کہ آج کل یہ صرف ہوٹل کے بند کمروں ، نائٹ کلبوں ہی میں نہیں ہورہا بلکہ یہ تماشا گلی گلی کے نکڑ اور چوراہوں پر بھی پیش کیا جارہا ہے اور اسکو کوئی معیوب نہیں سمجھ رہا ہے۔
ویلنٹائن ڈے کے فروغ کے مقاصد
قارئین کرام!!
غور کریں اور ہوش کے ناخن لیں کہ اس بے حیائی کے فروغ کے مقاصد کیا ہیں؟ اس دن کے منانے سے اہل مغرب کا بنیادی مقصد مردوزن میں ناجائزتعلقات کو فروغ دیناہے بلکہ اس طریقہ کار کو تقدس عطاء کرنا، لوگوں میں جنسی بے راہ روی پیدا کرنا،اور اسی کے سہارے مسلمانوں سے غیرت ایمانی نکالنے ہے لہذا ویلنٹائن ڈے ہراعتبار سے اوباشی اور بے حیائی کا دن ہے۔
رکھیو مجھے اس تلخ نوائی میں معاف
آج مغربی تہذیب کے دلدادہ افراد سے میرا سوال ہے اور ان والدین سے بھی ہے جو روشن خیالی کے نام پر اولاد کو مخلوط کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخل کرادیتے ہیں، اور ان طلبہ و طالبات سے بھی ہے جو سر عام اسلامی تہذیب کا جنازہ نکال رہے ہیں
کیا نکاح سے قبل لڑکا اور لڑکی کے درمیان آزادانہ تعلق پر آپ کو کوئی اعتراض نہیں؟
کیا آپ کو اپنی اولاد کی عفت اورپاکدامنی درکار نہیں ہے؟
کیا طلبہ و طالبات، لڑکے اور لڑکیاں روشن خیالی کے نام پر مغربی رسومات کو انجام دے کر یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ آپ ترقی یافتہ ہیں؟
یا پھر آپ اس بات سے ڈرتے ہیں کہ کہیں اہل مغرب تم پرقدامت پسندی اور بنیاد پرستی کا الزام لگادیں گے؟
یا پھر آپ اپنی روشن خیالی سے مغرب کی نظر میں اپنا مقام بنانا چاہتے ہیں؟
یا یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ ہم اس بدتہذیبی میں مغرب کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں لہذا ائے اہل مغرب تم ہم سے راضی ہوجاؤ،اور ہمارے لئے اپنے دلوں میں محبت اورخلوص پیدا کرلو؟
آخر اس بے حیائی کی کیا وجہ ہے؟
ایسی بد تہذیب کو سینے لگانے میں کونسی طاقت کارفرما ہے؟
کیوں کہ آپ ایک ایسی قوم کی کی تقلید کررہے ہیں جہاں تہذیب کے نام پر بد تہذیبی عام ہے، جہاں اخلاقیات کا وجود ڈھونڈے نہیں ملتا جہاں خاندانی نظام تباہ و برباد ہو چکا ہے، جہاں مقدس رشتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے، جہاں انسانیت منھ چھپائے جائے پناہ تلاش کررہی ہے، جہاں زندگی سے سکون رخصت ہوچکا ہے، ماں باپ اور اولاد کے درمیان ربط اور تعلق بالکل ناپید ہے، اولاد ماں کی ممتا اور باپ کے پیار سے محروم ہے، اور ماں باپ اپنے جگرپاروں کیلئے سراپا اضطراب ہیں، ائے قوم کیا اس مغربی تہذیب کی ظاہری چمک سے مرعوب ہوکر اسکا تھوک چاٹنے پر رضا مند ہوگئے ہیں؟ کیا یہ وہی لوگ نہیں ہیں ہیں جو موقع بموقع مسلمانوں اور اسلام کو نقصان پہنچاتے ہیں؟ اور اہل اسلام کو مذہبی، فکری اخلاقی اور افرادی طور پر کمزور کرنے کیلئے لاکھوں کروڑوں ڈالر خرچ کرچکے ہیں؟ بظاہر میرے یہ سوالات کسی خاص ذہنیت کے حامل شخص کے لئے تکلیف کے باعث ہوں لیکن حقیقت یہی کہ مسلمانوں کی اس بد تہذیبی پر آج اسلام بھی شرما رہا ہے، شاید میرا یہ وہی درد اور خونِ جگر ہے جو الفاظ کی شکل میں آپ کے سامنے ہے۔
مسلمان ویلنٹائن ڈے کیوں نہیں مناسکتے؟
یوم محبت منانا ذہنی، اخلاقی اور معاشرتی تنزلی کا ثبوت ہے،بے حیائی اور منفی رجحانات کے فروغ کا سبب ہے، اسلامی عقائد کی کھلی خلاف ورزی ہے، اخلاق و اقدار سے عاری مغربی تہذیب کی اندھی تقلید،اغیار کی نقالی اور مشرکین سے مشابہت ہے،اور یہ دن اسلامی مذہبی اقدار اور معاشرتی روایات کے منافی ہے، ویلنٹائن ڈے بت پرستوں کا فسق و فجور سے بھرپور تہوار ہے،بلکہ نوجوانوں کے ذہن کو آلودہ کرنے کی یہ ایک خطرناک مغربی سازش ہے لہذا تنگ و تاریک محفلوں اور جھومتے گاتے ہوئے زندگی گزارنا مسلمانوں کا وطیرہ نہیں ہوسکتا ہے۔
کہیں دیر نہ ہوجائے!!
آج سخت ضرورت ہے کہ قوم کے اندرپھیلتے اس فکری ارتداد کو روکنے کی بھرپور کوشش کی جائے،معاشرے میں پائی جانے والی اس برائی کے خلاف بھرپور آوازبلند کی جائے،ہم میں سے ہر فرداپنی نسل کی تعلیم وتربیت کا فریضہ اس طرح ادا کرنے کی کوشش کرے کہ ان کے دل ودماغ میں اسلامی شعائر اورخداوندی احکام کی عظمت جاگزیں ہو۔ہمارے نوجوان لڑکوں اورلڑکیوں کے دلوں میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر عمل کاشوق وجذبہ ہو، آج بھی وہی نجات کا صرف وہی راستہ ہے جو اسلام اور اس کے پیغمبر ﷺ کا دکھایا ہوا ہے،اسی میں اس کے درد کا درماں اور مرض کا مداوا ہے ۔آج وقت ہے پھر کہیں ایسانہ ہو کہ پانی ہمارے سروں سے گزرجائے اورہم سرپکڑے بیٹھے رہ جائیں۔
خدا اس پرفتن دور میں ہمارے ایمان کی حفاظت فرما، اور حضور پر نور صلی اللہ علیہ و سلم اور اسلام کی ابدی تعلیمات پر آخری سانس تک عمل کی توفیق مرحمت فرما آمین