اسلامی مدارس کانصاب و نظام ۔۔ تجزیہ ، تبصرہ ، مشورہ۔ قسط 3
رفتار و مقدار ِتعلیم میں اعتدال
تیسری بات یہ ہے کہ مدارس کے بہت سے مدرسین کا یہ عام معمول ہے،کہ سال کی ابتدا میں طول طویل ابحاث اورغیر متعلق باتوں پر زیادہ وقت صرف کردیتے ہیں اور جب سال کا ایک اچھا خاصا وقت اس کی نظر ہو جاتا ہے، تو کتاب ختم کرنے کے لیے کتاب کا بقیہ حصہ محض سرسریت و سطحیت کے ساتھ پڑھا دیتے ہیں ، جس کا عظیم نقصان یہ ہے کہ طالبین ِ علوم کتاب و نصاب کے صرف ایک مختصر سے حصے سے واقف ہوتے ہیں اور باقی ابحاث و مسائل ان کے لیے بالکل اجنبی ہو تے ہیں؛ لہٰذا غیر ضروری اور منتہی طلبا کے لائق ابحاث و مسائل کو نظر انداز کر تے ہوئے نصاب یا کتاب کے کم از کم اکثر و معتد بہ حصے سے طالبین کو خوب اچھی طرح واقف کرادینے کا پورا پورا اہتمام ہو نا چاہیے اور اس کے لیے مقدار ِتعلیم اور رفتار ِتعلیم میں اعتدال رکھنے کی ضرورت ہے ۔
نصاب کے تمام ابواب سے طلبہ کو روشناس کرانے کی ضرورت
چوتھی بات: یہ ہے کہ مدارس میں جو نصاب مقرر کیا گیا ہے، اس میں ایک ہی فن کی متعدد کتب کی تدریس میں ایک بہت ہی سنگین غلطی یہ ہوتی ہے، کہ ان میں سے ہر کتاب کا ابتدائی حصہ پڑھایا جاتا ہے اور عموماً اس کا درمیانی و آخری حصہ اور بعض جگہ آخری حصہ متروک ہو جاتا ہے، خواہ اس کی وجہ کچھ بھی ہو؛ لیکن اس کا نقصان شدید ہے ؛کیوں کہ اس سے یہ ہوتا ہے کہ طلبا ہر فن کے ابتدائی مسائل و مضامین یا ہر کتاب کے صرف شروع کے ابواب سے واقف ہو تے ہیں اور بعد کے مضامین و ابواب سے بالکل کورے و ناکارہ و نا واقف ہوتے ہیں ۔
مثلا ًفقہ کی کتابوں میں سے ہر کتاب میں طالبین کو’’ کتاب الطہارت‘‘ سے’’کتاب النکاح‘‘ یا اس سے کچھ آگے تک کے ابواب پڑھا دیے جاتے ہیں؛ مگر ’’کتاب البیوع‘‘ ،’’کتاب الاجارۃ‘‘ ،’’ کتاب الشفعۃ‘‘ اور ’’کتاب القضا ‘‘وغیرہ بہت سے اہم ابواب بالکل نہیں پڑھائے جاتے ،جس کے نتیجے میں طلبا ان ابواب کی حقیقت تو دور کی بات ہے ، ان کے ناموں تک سے نا واقف ہوتے ہیں؛ بل کہ مزید یہ کہ یہ فارغ التحصیل ہونے کے بعد بھی عموماً ان سے نا واقف ہی رہ جاتے ہیں۔
اس پر ایک دلچسپ لطیفہ یا د آگیا ،کہ ایک مرتبہ ایک مولانا میرے پاس آئے اور بات چیت کے دوران کہا کہ مسجد سے قرآن چرانا جائز ہے یا نہیں؟ میں نے کہا کہ اس میں کیا اشکال ہے ؟ یہ مسئلہ تو بالکل واضح ہے کہ چوری حرام و ناجائز ہے۔ تو کہنے لگے کہ مجھے یا د پڑتا ہے کہ’’ دار العلوم‘‘ میں پڑھتے وقت یہ مسئلہ درسِ ’’ہدایہ‘‘ میں آیا تھا کہ مسجد سے قرآن کی چوری جائز ہے ۔
’’ہدایہ‘‘ میرے سامنے ہی رکھی ہوئی تھی، میں نے کہا کہ یہ لیجیے’’ ہدایہ‘‘! اس میں تلاش کیجیے! اگر مل گیا؛ تو چوری کی بڑی اچھی دلیل ہاتھ آجائے گی ۔یہ کہہ کر میں ان کو دیکھتا ہوا بیٹھا رہا اور وہ’’ ہدایہ‘‘ کے اوراق اُلٹ پلٹ کرنے لگے ،کچھ دیر کے بعد ایک صفحہ پر ان کی نگاہیں جم گئیں اور وہ بڑے غور سے مطالعہ کرنے لگے ،تو میں سمجھا کہ شاید کچھ مل گیا ہو ؛ لہٰذا میں جو ان کے قریب بازو ہی بیٹھا ہوا تھا، کتاب میں جھانک کر دیکھا، تو یہ دیکھ کر میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی کہ وہ’’ کتاب الحج ‘‘کے ’’باب القِران ‘‘ کو پڑھ رہے تھے ۔میں نے کہا کیا پڑھ رہے ہیں ؟تو فرماتے ہیں کہ میں ’’ باب القُرآن ‘‘ دیکھ رہا ہوں کہ شاید اس میں وہ مسئلہ مل جائے ۔ میں نے کہا کہ ’’ لا حول ولا قوۃ ‘‘!!یہ تو’’ باب القُرآن ‘‘نہیں؛بل کہ ’’ باب القِران‘‘ ہے،جو ’’کتاب الحج‘‘ کا ایک باب ہے ،اس میں وہ مسئلہ آپ کو کیسے مل جائے گا؟
اس واقعے سے یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں ،کہ اگر طلبا کو تمام ابواب سے
واقف نہیں کرایا جائے گا، تو ان کا یہی حال ہو گا کہ وہ ابواب کے نام بھی صحیح نہیں بتاسکیں گے ۔
تعلیم کے لیے اچھے طلبہ کا انتخاب
ایک بات یہ ہے کہ آج عام طور پر مدارس میں ہر قسم کے طلبا کا بلا کسی امتیاز کے داخلہ بھی لے لیا جاتا ہے ،یہ نہیں دیکھا جاتا کہ طالب ِعلم داخلہ کے لا ئق بھی ہے یا نہیں ؟اور مزاج میں سلامتی بھی ہے یا نہیں ؟اسی طرح ہر طالب ِعلم کوہر قسم کی تعلیم اس کے حسب ِ طلب دے دی جاتی ہے اور یہ بات قطعاً نہیں دیکھی جاتی ،کہ اس کی مانگ کے مطابق تعلیم دیے جانے کے یہ قابل بھی ہے یانہیں؟
اس صورت ِحال کے دو نتیجے سامنے آرہے ہیں:ایک تو یہ کہ اگر طالب ِعلم بالکل ناکارہ ہوتا ہے اور مزاج میں شر ہوتا ہے ، تو ایسے لوگ تعلیم پانے کے بعد امت کے حق میں مفید بننے کے بہ جائے مضر اور دین اسلام کے داعی بننے کے بر خلاف دین کے لیے ایک بد نما داغ بن جاتے ہیں اور دوسر:ا یہ کہ اساتذہ کی اکثر محنت رائیگاں اور ضائع جاتی ہے، محض نام ہو جاتا ہے ،کہ فلاں مدرسے میں اتنے اور فلاں میں اتنے طلبا پڑھتے ہیں ، جب کہ ان میں سے بیشتر محض پڑے رہتے ہیں ۔
حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتہم( محدث دارالعلوم دیوبند) فرمایا کرتے ہیں کہ مدارس میں بعض طلبہ تو پڑھنے آتے ہیں اور بہت سے تو پڑے رہنے کے لیے آتے ہیں ۔
لہٰذا مدارس کو امت کے حق میں زیادہ سے زیادہ مفید بنانے کے لیے ضروری ہے کہ محض طلبا کی کثرت کا لحاظ نہ کیا جائے؛ بل کہ عمدہ اور بہتر طلبا کا انتخاب کرنے کی ممکنہ کو شش کی جائے ۔اس سلسلے میں ہمارے لیے نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ و ائمہ کے یہ اقوال رہنمائی کے لیے کافی ہیں :
(۱) حضرت انس رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے:
’’ لاَ تَطْرَحُوْا الدُّرَّ فِيْ أَفْوَاہِ الْکِلَابِ‘‘(المحدث الفاصل:۱؍۵۷۴)
(کتوں کے منہ میں موتی نہ ڈالو۔ )
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ کی مراد اس سے’’ فقہ‘‘ ہے ۔
اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
’’ أَکْثِرُوْا الْعلمَ ولا تَضَعـُوْہ فِيْ غَیْرِ أَھْلِہٖ کَقَاذِفِ اللُّؤلؤِ إلٰی الْخَنَازیْرِ۔‘‘ (المحدث الفاصل:۱؍۵۷۴)
(علم زیادہ کرو ،مگر اس کو خنزیر کی طرف موتی پھینکنے والے کی طرح نا اہل کے پاس نہ رکھو )۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ر وایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل میں خطبہ دینے کھڑے ہوئے اور فرمایا :
’’ یَا بَنِيْ اِسْرَائِیْلَ ! لاَ تَتَکَلَّمُوْا بِالْحِکْمَۃِ عِنْدَ الْجُھَّالِ فَتَظْلِمُوْھَا، وَلاَ تَضَعُوْھَا عِنْدَ غَیْرِ أَھْلِھَا فَتَکْتُمُوْھَا ۔‘‘ (الإلماع:۱؍۲۳۳)
(اے بنی اسرائیل ! حکمت کی بات جاہلوں کے سامنے بیان نہ کرو!کیوں کہ اس سے تم اس کو گھٹادو گے اور نا اہل کے پاس یہ نہ رکھو ،کہ تم اس کو چھپادو گے ۔)
امام زہری رحمہ اللہ نے فرمایا :
’’ إنَّ لِلحَدِیثِ آفَۃً وَنَکْداً وھُجْنۃً ، فآفتُہ نِسْیَانُہُوَنَکْدُہ الکَذِبُ وھُجْنتُہ نَشرُہ عِنْدَ غَیرِ أَہْلِہ‘‘
(الإلماع: ۱؍۲۱۹،المحدث الفاصل:۵۷۱)
(حدیث کے لیے ایک آفت اور ایک کمی اور ایک بربادی ہے : آفت تو اس کو بھولنا ہے اور کمی اس میں جھوٹ کہنا ہے اور اس کی بربادی، اس کو نا اہل کے سامنے پیش کرنا ہے۔)
امام اعمش رحمہ اللہ کہتے ہیں :
’’ آفَۃُ الحَدِیْثِ النِّسْیَانُ وَ إضَاعَتُہُ أَنْ تُحَدِّثَ بِہِ غَیْرَ أَھْلِہ ۔‘‘ (المحدث الفاصل:۱؍۵۷۴)
(حدیث کے لیے آفت بھول ہے اور اسکو ضائع کرنا یہ ہے کہ نا اہل سے بیان کی جائے ۔)
امام ابو جعفر رحمہ اللہ نے اپنے شاگرد حضرت جابر کو نصیحت کی کہ :
’’ یا جَابِرُ! لَا تَنْشُرِ الدُّرَّ بَیْنَ أرْجُلِ الخَنَازِیْرِ ، فَإنَّھُم لَا یَصْنَعُونَ بِہ شَیْئاً ، وَ ذَلِکَ نَشْرُ العِلْمِ عِنْدَ مَن لَیْسَ لَہُ بِأھْل۔‘‘ (المحدث الفاصل:۱؍۵۷۴)
(اے جابر! موتی خنزیر کے قدموں میں نہ پھیلا؛ کیوں کہ یہ اس سے کچھ نہیں کر سکتے اور اس سے مراد نا اہل کے سامنے علم کا نشر کرنا ہے۔ )
امام اعمش رحمہ اللہ نے کہا :
’’ لَا تَنْثُرِ اللُّؤلُؤَ عَلی أظْلافِ الخَنَازِیر یعني الحدیثَ۔‘‘
(لؤلؤ اور موتی یعنی حدیث کا علم، خنزیر کے قدموں میں نہ ڈالو )ایک روایت میں یوں فرمایا:
’’ اُنْظُرُوا إلٰی ھٰذِہِ الدَّنَانِیرِ ، لَا تُلْقُوھَا عَلَی الکَنَایِس یعنی الحدیثَ ‘‘ (المحدث الفاصل:۱؍۵۷۴)
(ان دیناروں کو دیکھو، انھیں کوڑے دانوں میں نہ ڈالنا۔)
اسی سلسلے کا یہ واقعہ بڑا دلچسپ ہے:
’’ امام مجا ہد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ امام شعبی رحمہ اللہ نے مجھ سے اس گدھے کے بارے میں حدیث بیان کی،جو مرنے کے بعد بھی زندہ رہا ، جب میں نے یہ حدیث بیان کی، تو میرے سے سننے والوں میں سے بعض امام شعبی رحمہ اللہ کے پاس اس کی تحقیق کے لیے آئے اور ان سے اس کے بارے میں پوچھا تو امام شعبی نے کہا: ’’مَا حَدَّثْتُ بِھٰذَا الحَدِیثِ قَطّ‘‘(میں نے تو کبھی یہ حدیث بیان ہی نہیں کی ) اب وہ لوگ میرے پاس آئے اور امام شعبی کی بات نقل کی اور پھر میں ان کے پاس گیا اور پوچھا ،کہ کیا آپ نے یہ حدیث مجھ سے بیان نہیں کی تھی؟ تو آپ نے فرمایا: ’’ أُحَدِّثُکَ بِحَدِیْثِ الحُکَمَاء وَ تُحَدِّثُ بِہِ السُّفَھَائَ؟(میں تو تمھیں حکما کی حدیث سناؤں اور تم اس کو لے جاکر بے وقوفوں سے بیان کرو۔ )
(الجامع لأخلاق الراوي : ۱؍۳۳۵،المحدث الفاصل:۵۷۱)
ان سب اقوال سے یہ بات واضح ہو تی ہے، کہ علم دین پڑھانے کے لیے طلبا کا انتخاب نہایت ضروری ہے ؛ورنہ علم ضائع ہوگا اور امت اس سے فتنے میں مبتلا ہوگی، جیسا کہ مشاہد ہے ۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔