اسلامی مدارس کانصاب و نظام ۔۔ تجزیہ ، تبصرہ ، مشورہ۔ قسط 9
سنن نبویہ اوراسلامی آداب کی تربیت
اسی میں یہ بھی داخل ہے، کہ طلبا کو سنتوں اور اسلامی آداب کا خوگر بنایا جائے، کھانے پینے ،سونے جاگنے ،مسجد جانے آنے وغیرہ کی جو سنتیں اور آداب ا ور ادعیہ پڑھے پڑھائے جاتے ہیں، اساتذہ اور نگران حضرات کے ذریعے اس کی عملی مشق بھی کرائی جائے اور اس پر بار بار ان کو متنبہ بھی کیا جائے ؛ ورنہ یہ باتیں صرف زبان پر تو ہوں گی؛ مگر عمل میں نہیں آئیں گی،چناں چہ بہت جگہ ان سنن وآداب کو یاد کرانے کے با وجودعملی تربیت سے تغافل برتا جاتا ہے ،جس کی وجہ سے طلبا کے ذہنوں میں ان سنن و آداب کی کوئی اہمیت ہی نہیں پیدا ہوتی ؛اس لیے وہ ان کو یاد کرکے سنابھی دیتے ہیں؛ مگر اس کے مطابق ان کا عمل نہیں ہوتا؛ تو آخر ان سنن وآداب کو پڑھانے کا کیا فائدہ ہوا؟
اصلاح ِباطن سے متعلق اہم امور یہ ہیں:
تقوی و طہارت
ایک تو یہ کہ طالب ِعلم کو تقوے و طہارت کی زندگی پر ابھارا جائے اور ظاہری طہارت کے ساتھ باطنی پاکیزگی کا اہتمام سکھایا جائے اور اس کی ضرورت و اہمیت اس کے سامنے بار بار واضح کی جائے ۔کیوں؟
اس کی وجہ قاضی ابن جماعہ رحمہ اللہ سے سنیے ، وہ کہتے ہیں:
’’ فإِنَّ العِلْمَ - کما قالَ بعضُھم - صَلاۃُ السِّرِّ، وعِبادَۃُ القَلب ، وقُربَۃُ الباطِن ، وکَمَا لَا تَصِحُّ الصلاۃُ الّتِي ہِيَ عِبادَۃُ الجَوارِح الظَّاھِرَۃِ إِلاَّ بِطَھَارَۃِ الظَّاھِر مِنَ الحَدَثِ والخَبَثِ ، فکذلکَ لا یَصِحُّ العِلْمُ الَّذِي ہُو عِبادَۃُ القَلبِ إِلاَّ بطھارتِہِ عَن خبث الصِّفَات وَحَدث مَسَاوِي الأخْلاقِ وَ رِدِیْئِھَا۔‘‘ (تذکرۃ السامع: ۲۴)
(کیوں کہ علم -جیسا کہ بعض علما نے کہا ہے-باطن کی نماز ، دل کی عبادت اور باطن کی قربت کا نام ہے ، پس جس طرح نماز، جو کہ اعضائے ظاہرہ کی عبادت ہے ،وہ ظاہری نجاست (جیسے پیشاب،پاخانہ)اور حکمی نجاست (جیسے بے وضو وبے غسل ہونے)سے طہارت حاصل کیے بغیر صحیح نہیں ہو تی ،اسی طرح علم جو کہ دل کی نماز ہے، وہ بھی صفات کی پلیدی اور برے و گھٹیا اخلاق کی ناپاکی سے دل کو صاف کیے بغیر صحیح ہو تا۔ )
اوپر حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ کا یہ ارشاد نقل کر آیا ہوں :
’’حدیث اس لیے حاصل کی جاتی ہے؛ تاکہ اس کے ذریعے اللہ سے ڈرا جائے اور اسی وجہ سے اس کو دیگر علوم پر فضیلت ہے، اگر یہ بات نہ ہو؛ تو وہ اور چیزوں کی طرح ایک چیز ہے۔ ‘‘
لہٰذا اگر تقوی مطلوب نہ ہو؛ تو یہ علم بھی دنیوی علم کی طرح ایک علم ہوگا اور اس کے طالب کو وہ فضیلت نہ ملے گی،جو اس علم کی بیان کی گئی ہے ؛ اسی لیے حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ نے فر مایا :
’’وَیْلٌ لِمَن لَا یَعْلَمُ وَلَا یَعْمَلُ مَرّۃً ، وَوَیْلٌ لِمَنْ یَعْلَمُ وَلاَ یَعْمَلُ سَبْعَ مَرَّاتٍ۔‘‘ (جامع بیان العلم :۲؍۶)
(جس نے نہ علم حاصل کیا اور نہ عمل کیا؛ اس کے لیے ایک مرتبہ خرابی ہے اور جس نے علم تو حاصل کیا؛ مگر عمل نہیں کیا، اس کے لیے سات مرتبہ خرابی ہے ۔)
اور حضرت سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ نے کہا ہے :
’’ إنما العِلمُ لِیَتَّقِي اللّٰہَ بِہ ، و یَعملَ بہ لآخرتِہِ، و یَصْرفَ عن نَفْسِہ سُوئَ الدُّنیَا والآخِرَۃِ ، وإِلاَّ فَالعَالِمُ کالجَاھِل إذَا لَمْ یَتَّقِِ اللّٰہَ بعِلمِہٖ۔‘‘ (تاریخ بغداد :۴؍۲۱۳)
(علم تو بس اس لیے ہے، کہ اس کے ذریعے اللہ سے ڈرے اور اپنی آخرت کے لیے عمل کرے اور دنیا اور آخرت کی برائی دور کرے؛ ورنہ عالم جاہل کی طرح ہے؛ اگر وہ اپنے علم سے اللہ سے نہ ڈرے۔)
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔