اسلامی مدارس کانصاب و نظام ۔۔ تجزیہ ، تبصرہ ، مشورہ۔ قسط 13
حضرت مسیح الامت رحمہ اللہ کا توکل
میرے استاذ و شیخ مسیح الامت حضرت مولانا مسیح اللہ خان صاحب رحمہ اللہ کے مدرسے’’جامعہ مفتاح العلوم،جلال آباد‘‘ میں آج بھی کو ئی مستقل سفیر نہیں ہے اور نہ کہیں اس کے چندے کا اعلان واشتہار ہو تا ہے، شروع دور میں مدرسے کا چندہ اساتذہ کے ذریعے کیا جا تا تھا؛ مگر بعد میں حضرت نے چندے کا سلسلہ بند کر دیا ؛مگر اس کے باوجود توکل کی برکت سے مدرسہ بلا کسی تنگی وپریشانی قائم ودائم ہے اور مدرسے کی تمام ضروریات پوری ہو رہی ہیں۔
ایک مرتبہ حضرت کی وفات کے بعد میری ’’جلال آباد‘‘ حاضری ہو ئی اور حضرت کے صاحب زادۂ محترم حضرت مو لانا صفی اللہ صاحب دامت برکا تہم، جو ’’بھائی جان‘‘ کے نام سے معروف ہیں اور میرے استاذ بھی ہیں ،ان کی خدمت میں حاضری ہو ئی، درمیا ن گفتگو میں فرمایاکہ مو لوی صاحب !الحمد للہ مدرسے میں بڈھے (مراد حضرت مسیح الامت رحمہ اللہ ہیں )کی برکت سے اتنا ما ل آرہاہے، کہ اگر آج سے ایک پیسہ بھی نہ آئے؛ تب بھی مدرسہ دس سال تک اسی طرح چل سکتا ہے ۔
اس سے توکل کی برکات صاف اور واضح طور پر سمجھ میں آتی ہیں ؛ لہٰذاہمیں بھی بزرگوں کے نقش ِقدم پر چلتے ہوئے اصلاًتوکل علی اللہ ہی کو مدارس کے لیے اصل سرمایہ سمجھنا چاہیے ،با قی تدبیر کے طو رپر حدودِ شرعیہ میں رہتے ہو ئے با وقا ر طریقے پر چندہ کر نے میں کوئی حرج نہیں ۔
چندے کی وصولی میں احتیاط
انتظامیہ کے متعلق ایک بات یہ عرض کرنا ہے، کہ بعض مدارس کے ذمے دار اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کرتے، کہ مال کس طرح وصول و جمع ہو ، حلال ذریعے سے یا حرام ذریعے سے ؟ بل کہ ان کا مطمح ِنظریہ ہوتا ہے، کہ کسی بھی طریقے سے مال آجائے ،
بل کہ بعض جگہ کے ذمے داروں سے یہ سنا گیا، کہ حلال و حرام اور شریعت کو ایک طرف رکھو ؛ ورنہ مدرسہ کس طرح چلے گا؟ لا حول ولا قوۃ إلا باللہ!! یہ تو وہ بات ہے، جو دین سے لاپرواہ؛ بل کہ بد دین قسم کے لوگ کہا کرتے ہیں ؛ مگر اب اہل ِ مدارس کی زبانوں پر بھی یہ الفاظ آنے لگے ۔
اور اسی لیے بعض ِمدارس میں کمیشن پر چندے کا سلسلہ بھی جاری ہے، حال آں کہ علما و مفتیان ِکرام نے بعد ِبحث و تمحیص و تحقیق و تدقیق اس کو حرام قرار دیا ہے۔ پھر اس میں حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بعض مدارس میں سفیر کو ساٹھ فیصد کمیشن دیا جاتا ہے اور مدرسے کو اس سے صرف چالیس فیصد ملتا ہے؛مگر یہ لوگ اس لیے اس پر بھی خوش ہیں کہ بہ ہر حال کچھ تو آرہا ہے۔ اہل ِمدارس کے لیے یہ بات کس قدر معیوب ہے؟ کہ وہ خود حلال و حرام کا لوگوں کو درس دیں ،پھر خود ہی اس کی کوئی پرواہ نہ کریں ۔
الغرض یہ ضروری ہے کہ حرام ذرائع سے اجتناب کریں ؛ ورنہ اس چندے سے نہ علم پھیلے گا، نہ علم کی برکات ظاہر ہوں گی اور نہ طلبا کے اندرکوئی خیر و بھلائی پیدا ہوگی؛ پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ و رسول ہی خوش نہیں، تو آخر اس طرح مدرسہ چلانے سے کیا فائدہ ؟مدرسہ چلانے سے اصل مقصود تو اللہ کی خوشنودی و رضا کا حصول ہے، خواہ وہ چھوٹے مدرسہ سے حاصل ہو یا بڑے سے حاصل ہو یا بغیر مدرسے کے حاصل ہو ۔
حضرت مولانا تھانوی رحمہ اللہ ایک جگہ فرماتے ہیں :
’’ اہل ِمدارس کہتے ہیں کہ سوال نہ کیا جائے، تو کام کیسے چلے؟ ارے! ہم کہتے ہیں کہ کام سے مقصود کیا ہے؟ رضا، وہ تو نہیں گھٹی ،جب سو طالب علموں کی خدمت اختیار میں تھی ،سو کی خدمت کرتے تھے، اب جب پانچ کی اختیار میں ہے ،پانچ کی کریں گے ،کام ہلکا اور ثواب وہی ،پھر غم کس چیز کا ؟ ‘‘
(حسن العزیز:۱؍۵۸۳)
الغرض اہل ِمدارس کو اللہ پر نظر کرنا چاہیے اور اسی پر توکل و بھروسہ رکھنا چاہیے، مدرسہ چلانے کے لیے حلال و حرام کی تمیز نہ کرنا اور اس کے لیے الٹی سیدھی تدبیریں کرنا ،مدارس کی شان؛ بل کہ ان کے مقصد وجود ہی کے بالکل خلاف ہے۔
حسابات میں صفائی
ایک نہایت اہم بات یہ ہے کہ بعض جگہ حسابات میں صفائی کا اہتمام نہیں ہوتا اور اس میں دو قسم کے لوگ ہیں :ایک تو وہ جو اپنے بھولے پن سے صحیح طریقے پر حساب کتاب کا اہتمام نہیں کرتے اور دوسرے وہ ہیں: جو محض چالبازی سے ایسا کرتے ہیں، جس کی وجہ سے مدارس بدنام ہو تے ہیں ۔
’’رابطہ ٔ مدارس‘‘ کی منظور شدہ تجاویز میں بھی اس بات کی اہل ِمدارس کو تاکید کی گئی ہے، کہ حسابات آمد و خرچ صاف رکھے جائیں اور مستند آڈیٹر سے ان کی جانچ کرائی جائے ۔
جہاں تک ان بھولے بھالے لوگوں کا مسئلہ ہے، ان سے تو یہ گزارش ہے کہ وہ معتبر مدارس میں آکر وہاں کے حسابات لکھنے اور رکھنے کے طریقہ ٔکار کو دیکھیں اور سمجھیں اور اسی کے مطابق اپنے یہاں جاری کریں ۔
میں ایک مدرسے میں گیا ، تو وہاں کے ناظم صاحب نے مختلف اقسام کے رجسٹر دکھائے، جو سب کے سب تعلیم سے متعلق تھے ،میں نے پوچھا کہ حسابات کا رجسٹر کہاں ہے؟ تو کہا کہ کوئی رجسٹر اس کا نہیں ہے۔ ہم ویسے ہی ایک اندازے سے ایک کاپی میں کچھ لکھ لیتے ہیں۔میں نے عرض کیا کہ وہی آپ کی کاپی دکھائیے ۔ تو وہ کاپی لائے ،اس میں ایک ایک ماہ کا حساب ایک ایک صفحہ پر درج تھا ،کہ مطبخ کا خرچہ اتنا ،اساتذہ کی تنخواہ اتنی وغیرہ؛ مگر نہ کسی کا کوئی اوچر (voucher)ہے اور نہ کسی مد کی کوئی تفصیل ۔ ظاہر ہے کہ اس کا نام تو حساب نہیں ہے اور قانونی طور پر اس کو کوئی قبول نہیں کرتا ۔ پھر میں نے ان کو فہمائش کی ، تو کہا کہ یہ تو ہمیں معلوم ہی نہیں کہ اس میں اتنی باریکیاں ہیں۔
رہے وہ لوگ جو چالبازی سے حسابات کو صحیح مرتب نہیں کرتے اور غلط و جھوٹے حساب مرتب کرتے ہیں ،ایسے لوگو ں کو یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ اللہ سے ڈریں اور اللہ کے پاس حساب سے پہلے دنیا ہی میں صاف کر لیں ۔
جاری ۔۔۔۔۔۔۔۔