اسلامی مدارس کانصاب و نظام ۔۔ تجزیہ ، تبصرہ ، مشورہ۔ قسط 14
رقوم کی مدات کا لحاظ
ایک بات اہل ِانتظام کے متعلق یہ ہے کہ آمدنیات میں مختلف مدوں کا الگ الگ لحاظ بھی ضروری ہے :زکاۃ ، نذر و منت اور واجب صدقات کا ایک مد ہوتا ہے اور عام عطایا اور نفلی صدقات کا دوسرا مد ہوتا ہے۔ شرعاً ان مدات کے مصارف الگ الگ ہیں۔ ان میں گڈ مڈ کرنا ناجائز ہے ،زکاۃ اور اسی کے حکم میں نذر و منت ہیں، ان کا مصرف شریعت میں منصوص و مقرر ہے اور وہ قرآن کے مطابق آٹھ مصارف ہیں ، ان آٹھ کے سوا کسی اور جگہ زکاۃ و نذر کی رقومات کا خرچ کرنا ناجائز ہے اور اس سے ایک قول کے مطابق زکاۃ و نذر پوری نہیں ہوتی اور ایک قول کے مطابق دینے والوں کی زکاۃ و نذر تو پوری ہوجاتی ہے؛ مگر چوں کہ ان خرچ کرنے والوں نے غلط جگہ خرچ کیا ہے؛ اس لیے ان کی قیامت میں سرزنش کی جائے گی ۔
اس مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ بعض علما کے نزدیک مدارس کے ذمے دار طلبا کے وکیل ہیں اور جب ان ذمے داروں نے طلبا کے وکیل کی حیثیت سے زکاۃ وصول کرلی ؛ تو زکاۃ دینے والوں کی زکاۃ ادا ہو گئی؛ مگر چوں کہ ان ذمے داروں نے اس کواصل مصرف پر خرچ نہیں کیا؛ اس لیے وہ ماخوذ ہوں گے اور بعض علما کے نزدیک اہل ِ مدارس ،زکاۃ دہندہ لوگوں کے وکیل ہیں؛ اس لیے ان مدارس والوں کے پاس رقم کے آجانے سے زکاۃ ادا نہیں ہوتی ؛بل کہ جب یہ اس کو مصرف پر خرچ کریں گے؛ تب ادا ہوگی اور انھوں نے ادا نہیں کیا؛ اس لیے زکاۃ ہی ادا نہیں ہوئی ۔
بہ ہر صورت اس کی اہمیت ثابت و ظاہر ہے، کہ زکاۃ و نذر ومنت کی رقومات کو ان کے مصرف میں خرچ کرنے کا اہتمام و التزام چاہیے،اسی طرح جو عام صدقات ونفلی عطیہ جات ہیں، وہ بھی چوں کہ دینے والوں نے مدرسے کی ضرورت اور اس کے بقا و تحفظ کا سامان کرنے کے لیے دیا ہے؛ لہٰذا ان کو بھی ان ہی مقاصد کو پورا کرنے کے لیے خرچ کیا جانا چاہیے ۔
مگر کس قدر افسوس کی بات ہے !کہ بعض مدارس میں اس کی طرف کوئی دھیان نہیں دیا جاتا ؛بل کہ سب ایک ہی مد میں جمع کیاجا تا ہے اور اسی طرح خرچ بھی بلا کسی فرق و امتیاز کے کیا جاتا ہے اور اس کا بھی لحاظ نہیں کیا جاتا ،کہ دینے والوں نے کن مقاصد کی خاطر دیا ہے ؛ بل کہ جیسا چاہتے ہیں خرچ کرتے ہیں۔ جیسے کوئی اپنا ذاتی روپیہ ہو ؛لہٰذا اس طرف بھی اہل ِمدارس کو پوری توجہ دینی چاہیے، کہ آمدنی کونسی مد کی ہے اور یہ کہ کیا وہ اس کے مصرف میں خرچ ہو رہی ہے ؟ اور یہ کہ چندہ دہندگان کے مطابق خرچ ہورہی ہے ؟
علامہ بنوری رحمہ اللہ اور مدات رقوم میں احتیاط
حضرت مولانا علامہ یوسف بنوری رحمہ اللہ کے بارے میں لکھا ہے کہ آپ مدرسے میں آنے والی رقوم اور ان کے خرچ کے سلسلے میں انتہائی و بے نظیر احتیاط برتتے تھے اور خازن ِمدرسہ کو حکم دیا تھا، کہ بنیادی طور پر مدرسے کے دو فنڈ اور بینکمیں دو علاحدہ علاحدہ اکاونٹ ہو نے چاہئیں ۔ ایک زکوۃ کا فنڈ، دوسرا امدادی فنڈ ، اور دونوں فنڈ ایک دوسرے سے علاحدہ رکھے جائیں ۔
(ماہنامہ بینات ،علامہ بنوری نمبر: ۲۲۲)
مدارس کی رقوم کے خرچ میں احتیاط
خرچ میں احتیاط اور اس میں لا پروائی سے رکنا بھی ضروری ہے۔اکابرین نے اس سلسلے میں جو احتیاط برتی ہے، وہ ہمارے لیے نمونہ ہے ۔
حضرت شیخ الحدیث نور اللہ مرقدہ نے اس سلسلے میں اکابرین کے چند واقعات لکھے ہیں ،یہاں بعض کا نقل کر دینا مناسب ہے :
مولانا احمد علی صاحب محدث رحمہ اللہ کی احتیاط
حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ حضرت اقدس مولانا احمد علی صاحب محدث سہارنپوری رحمہ اللہ کے متعلق لکھتے ہیں :
’’ وہ جب’’ مظاہر ِعلوم‘‘ کی تعمیر کے چندے کے سلسلے میں ’’کلکتہ‘‘ تشریف لے گئے، تو مرحوم نے سفر سے واپسی پر اپنے سفر کی آمد و خرچ کا مفصل حساب مدرسے میں داخل کیا،وہ رجسٹر میں نے خود پڑھا ہے، اس میں ایک جگہ لکھا تھا کہ’’ کلکتہ‘‘ میں فلاں جگہ میں اپنے ایک دوست سے ملنے گیا تھا ،اگر چہ وہاں چندہ خوب ہوا ؛ لیکن میری سفر کی نیت دوست سے ملنے کی تھی ، چندے کی نہیں تھی ؛ اس لیے وہاں آمد و رفت کا اتنا کرایہ حساب سے وضع کر لیا جائے۔ (آپ بیتی:۲۷)