اسلامی مدارس کانصاب و نظام ۔۔ تجزیہ ، تبصرہ ، مشورہ۔ قسط 8
اصلاح ِظاہر و باطن کی فکر
طلبہ کی تربیت کا بہت ہی اہم پہلو، ان کے ظاہر وباطن کی اصلاح ونگرانی سےمتعلق ہے ؛کیوں کہ یہی مقصود بالعلم ہے ،اگر یہ نہ ہو؛ تو علم کا کوئی فائدہ ہی نہیں؛ اسی لیے سلف ِصالحین نے اس سلسلے میں بڑی توجہ فرمائی ہے۔
حضرت قاضی عیاض رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’الإلماع إلی معرفۃ أصول الروایۃ والسماع ‘‘ میں اپنی سند سے حضرت امام زہری رحمہ اللہ کا یہ قول نقل فرمایا :
’’إن ھذا العلم أدب اللّٰہ الذي أدّب بہ نبیَّہ -7-و أدَّب بہ نبیُّہ أمتَہ۔‘‘ (الإلماع:۱؍۲۱۳)
(یہ علم اللہ کی طرف سے ایک ادب ہے، جس کے ذریعے اللہ نے اپنے نبی کو ادب سکھایا اور نبی 7نے اپنی امت کو ادب سکھایا۔ )
حضرت حبیب بن شہید رحمہ اللہ اپنے صاحب زادے سے فر ماتے ہیں:
’’بیٹا!حصول ِعلم کے ساتھ صحبت ِعلما وفقہا اختیار کر ، ان سے تعلیم حاصل کر، تہذیب اور ادب سیکھ ،یہ میرے نزدیک حدیث کے زیادہ علم سے بہتر ہے ۔‘‘ (تذکرۃ السامع:۴)
نیز لکھا ہے کہ بعض علما نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی :
’’ یا بني ! لأن تتعلّم باباً من الأدَب أحَبُّ إليّ مِن أن تتعلّم سبعین باباً من أبواب العلم۔‘‘
(اے بیٹے! تو ادب کا ایک باب حاصل کرے ،یہ مجھے اس سے زیادہ پسند ہے ،کہ تو علم کے ستر ابواب حاصل کرے ۔)
(تذکرۃ السامع والمتکلم: ۴)
ابن سیرین رحمہ اللہ اپنے اسلاف اور اساتذہ اور مشائخ کا طریق ِذکر
کرتے ہو ئے فرما تے ہیں :
’’ لو گ جیسے علم حاصل کرتے تھے ،ویسے ہی سیرت اور اخلا ق بھی حاصل کرتے تھے۔‘‘
بعض بزرگو ں کا قول ہے:
’’تہذیب اور ادب کا ایک باب پڑھنا علم کے ستر بابوں کے پڑھنے سے افضل ہے۔‘‘
اور حضرت مخلد بن حسین رحمہ اللہ کا ارشاد ہے:
’’ ہم لوگ حدیثیں زیادہ حاصل کرنے کے بہ جا ئے حسن ِ ادب حاصل کرنے کے زیادہ محتاج ہیں۔‘‘ (تذکرۃ السامع:۴-۵)
آج عام طور پر اہل ِمدارس نے اس پہلو کو اس طرح نظر انداز کردیا ہے، کہ گویا یہ کوئی غیر ضروری اور فضول کام ہے؛بل کہ اکثریت کا حال یہ ہے، کہ صرف سبق پڑھادینے کے سوااپنی کوئی ذمے داری ہی نہیں سمجھتے ،کہ طلبا تعلیم کے مطابق اپنے آپ کو بنانے اور سنوارنے کی عملی مشق بھی کرتے ہیں یا نہیں ؛بل کہ اس سے بڑھ کر یہ کہ بعض مدارس کے اساتذہ بھی بد عملی و بد اخلاقی کا شکار ہوتے ہیں ،وہ بھلا کہاں اس کی طرف توجہ دیں گے ؟
لہٰذا ضروری ہے کہ اہل ِمدارس اس پہلو سے بھی غور کریں اور طلبا کو علمی اعتبار سے بھی تیار کریں اور عملی و اخلاقی اعتبار سے بھی تیار کریں ۔
اس لحاظ سے جن باتوں کی طرف توجہ دینا چاہیے، ان میں سے بعض ظاہر سے متعلق ہیں اور بعض باطن سے متعلق ہیں۔
اصلاح ظاہر سے متعلق اہم امور یہ ہیں:
لباس اور وضع ِقطع
پہلی بات یہ ہے کہ طلبا کے لباس اور وضع ِقطع کی خوب نگرانی رکھی جائے۔بعض مدارس میں اس جانب کوئی توجہ نہیں دی جاتی ؛بل کہ اس کو فضول سمجھا جاتا ہے اور اس سلسلے میں طلبا کو بالکل آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے ،جس کی وجہ سے وہاں کے طلبا ہر قسم کا لباس پہنتے ہیں اور ڈاڑھیاں کٹاتے ہیں ،ٹخنے سے نیچے پاجامہ پہنتے ہیں، یہاں تک کہ اس کے عادی ہوتے ہوتے ،وہ ان حرام کاموں کو جائز بھی سمجھنے لگتے ہیں؛ کیوں کہ ان کو کسی نے ان پر تنبیہ نہیں کی اور پھر اسی وضع ِقطع کے ساتھ جب عوام میں جاتے اور کہیں خدمت کرتے ہیں؛ تو عوام ان پر نکیر کرتے ہیں اور یہ اپنی شان باقی رکھنے کے لیے تاویل سے یا غلط فتوے سے کام لیتے ہیں؛ لہٰذا شرعی لباس اور شرعی وضع قطع کا ان کو پابند بنانے کے لیے نگرانی ضروری ہے۔
صفائی و سلیقہ مندی کی تربیت
اسی طرح ایک بات یہ ہے، کہ طلبا کی تربیت کے لیے ان کے ظاہرکی صفائی وستھرائی کا اہتمام کرایا جائے ۔اسلام میں اس کی اہمیت کا سبھی کو علم ہے اور حدیث : ’’اَلطَّھُوْرُ شَطْرُالْاِیْمَانِ ‘‘(طہارت آدھا ایمان ہے۔)کس سے پوشیدہ ہے ؟ مگر افسوس یہ ہے کہ اس سلسلے میں اسلام کو ماننے والوں میں سب سے زیادہ کمی پائی جاتی ہے اور پھر اہل ِایمان میں سے بھی عموماً اہل ِمدارس میں اس کا ظہور اور زیادہ ہے، جو انتہائی تشویش ناک بات ہے اور طلبا اس سلسلے میں عام طور پر سستی و غفلت کاشکار ہوتے ہیں اور بسا اوقات اسکولوں کے لوگ اور جدید تعلیم یافتہ طبقہ اس صورت ِ حال سے علم و اہل ِعلم؛ بل کہ کبھی اسلام ہی سے بد ظنی کا شکار ہوجاتا ہے ؛ لہٰذا بہت ہی ضروری ہے کہ طلبا کو اس کا مکلف بنایا جائے، کہ وہ روزانہ خود اپنی اور اپنی رہائش اور متعلقہ چیزوں کی صفائی کا خوب اہتمام کریں اور اس کے لیے استاذ مقرر کیا جائے، جو ان کی اس سلسلے میں نگرانی کرے، بالخصوص کم سن طلبا کے لیے اس کی نگرانی کا بہت زیادہ اہتمام ہو نا چاہیے۔ مثلاً یہ کہ ان کے رہائش کمرے کی صفائی خود ان ہی سے کھڑے ہوکر کرائی جائے اور ان کے کپڑوں پر نظر کی جائے، کہ صاف ہیں یا نہیں، ان کے ناخنوں اور بالوں کی صفائی پر نظر رکھی جائے ۔
حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ نظافت مطلوب ہے، اس کی ترغیب دی گئی ہے ،ارشاد فرمایا کہ’’ نَظِّفُوْا أفْنِیَتَکُمْ ، وَلَا تَشَبَّھُوْا بالْیَھُوْدِ‘‘ کہ اپنے فنائے دار کو صاف رکھو اور اس کو میلا کچیلا رکھ کر یہود جیسے نہ بنو۔ جب فنائے دار تک کی نظافت مطلوب ہے؛ تو خود دار اور حجرے اور لباس و بدن کے صاف کرنے کا حکم کیوں نہ ہوگا؟اب طالب ِعلموں کی یہ حالت ہے، کہ چاہے دو بالشت کوڑا ،ان کے حجرے میں ہوجائے ؛لیکن یہ کبھی بھی صاف نہ کریں گے۔
(دعوات عبدیت: ۳۱؍۳۳)
اس سلسلے میں حضرت اقدس مرشدنا شاہ ابرار الحق صاحب رحمہ اللہ کا ایک عجیب معمول دیکھا، وہ یہ کہ آپ جب کسی مدرسے میں تشریف لے جاتے اور اس کا معائنہ فرماتے؛ تو اولاً وہاں کے استنجا خانے دیکھتے اور فرماتے کہ اگر استنجا خانوں کی صفائی کا اہتمام ہے؛ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اور جگہوں کا زیادہ اہتمام ہوگا ،بندےکو متعدد مواقع پر اس کا موقع ملا، کہ حضرت والا کے ساتھ بعض مدارس کی زیارت کروں اور اس وقت حضرت کا یہ معمول دیکھا اور حضرت سے یہ بات سنی۔
اسی طرح یہ بھی اہم ہے، کہ انھیں سلیقہ سکھایا جائے: اٹھنے ،بیٹھنے ،بولنے ، چلنے، پھرنے ؛نیز کسی سے بات چیت و ملاقات ،کسی کو کچھ پیش کرنے وغیرہ سے متعلق سلیقے کی تعلیم بہت ضروری ہے۔ عام طور پر اس میں بھی طلبا کوتاہ ہوتے ہیں اور تربیت نہ ہونے سے اس میں مزید کوتاہی پیدا ہو جاتی ہے؛ لہٰذا اس کے لیے سبھی اساتذہ کو محنت کرنی چاہیے اور اس کے علاوہ مقرر نگران کومستقل ذمے داری بھی دینی چاہیے، کہ وہ روزانہ طلبا کے کمروں اور متعلقہ اشیا پر ایک نظر ڈالے اور ان کو ترتیب و سلیقے کے ساتھ رکھنے کی ہدایت دے؛تاکہ ان کو اسی کی عادت ہو جائے ؛ ورنہ اس کے بغیر عالم ہو جانے کے باوجود بد سلیقہ لوگ تیار ہوں گے ۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔