غیرتِ فاروقی رضی اللہ عنہ
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ دوم خلیفۃ المسلمین، بدری صحابی، عشرہ مبشرہ سے ملقب، اجرائے نبوت کی شرط پر نبوت کی بشارت ملنے سمیت کئی اہم اعزازات کے حامل ہیں۔
آپ کی شخصیت غیر معمولی اوصاف و کمالات کی حامل تھی، انہی اوصاف کا نتیجہ تھا کہ آپ سابقون الاولون کے بعد ایمان لانے کے باوجود ان سے آگے بڑھ گئے اور دوسرے نمبر پہ آن پہنچے۔ آگے بڑھنے کی اس نیک طمع نے اسی پہ اکتفا نہ کیا بلکہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے بھی آگے بڑھ کر اول نمبر پہ آنے کی بارہا کوشش کی، شب ہجرت کی نیکیوں کا سودا کرنا اسی کا پیش خیمہ تھا لیکن سیدنا صدیق اکبر بھی اپنے اوصاف میں کم نہ تھے، اعمال کی اس سودے بازی کو ٹھکرایا اور ہر نیک عمل میں اولیت کا مصداق بن کر سیدنا عمر فاروق کے اول نمبر پہ آنے کے خواب میں چٹان بنے رہے حتی کہ سیدنا عمر فاروق کو اس عظیم شخصیت کےبرتری تسلیم کرنا پڑی۔
سیدنا عمر فاروق ہر کمال میں ہی اپنی مثال آپ تھے۔ تمام تر صفات میں سب سے نمایاں اور امتیازی صفت جو آپ کی حیات طیبہ میں غالب نظر آتی ہے وہ غیرت و حمیت کے وصف سے متصف ہونا ہے۔ اسلام کو اپنے لئے باعث فخر و عزت ہونے کا اقرار کرتے ہوئے برملا اس حقیقت کا اعتراف کرتے کہ ہمیں عزت اسلام نے عطا کی ہے اور یہ ساری صفات اسلام ہی کی عطا کردہ ہیں۔ چنانچہ دین اسلام کی تحقیر کا واقعہ ہو، یا نبی کریمﷺ کی شان اقدس میں ادنی گستاخی کا شائبہ بھی ہو تو سیف کو بے نیام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
آپ کی زندگی کا ہر گوشہ اس وصف عالی کا روز اول سے گواہ ہے۔ غزوہ بدر کے فیصلہ کن معرکہ کے بعد جب قیدیوں کے متعلق فیصلے کا وقت آتا ہے تو نبی کریمﷺ اپنے اصحاب سے مشاورت کرتے ہیں کہ کیا سلوک کیا جائے؟ فدیہ لے کر رہائی دی جائے یا پھر قتل کردیا جائے۔ نبی کریمﷺ سمیت اکثر صحابہ کی رائے یہ تھی کہ فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے جس کا فائدہ مسلمانوں کو مالی استحکام کی صورت میں ہوگا۔ اس کے برعکس سیدنا عمر فاروق کی منشا اور رائے یہ تھی کہ تمام قیدیوں کو قتل کیا جائے اور وہ بھی بایں صورت کہ مسلمانوں کو ان کے رشتے دار حوالے کئے جائیں اور وہ قتل کریں۔ سیدنا علی اپنے بھائی عقیل کو قتل کریں اور میرے عزیز میرے حوالے کریں۔ مقصود یہ تھا ہر مسلمان اپنے ہاتھ سے ان کو قتل کرے اور عملا اس بات کا ثبوت دے کہ ہمارے دل میں اللہ اور اس کے رسول سے بڑھ کسی کی محبت نہیں چاہے کتنا ہی عزیز ہو۔ اس رائے پر ذرا چشم تصور سے دیکھئے تو پس پشت ایک جذبہ دکھائی دیتا ہے جو غیرت و حمیت سے لبریز ہے کہ کفر کی شان و شوکت مٹ جائے اور اہل اسلام کے قلوب اللہ اور اس کے رسول کی محبت سب سے زیادہ غالب ہو۔
مشہور منافق عبد اللہ بن ابی کی وفات کے بعد ان کے بیٹے نے نبی کریمﷺ سے جنازہ کی سفارش کی تو نبی کریمﷺ نے اس کو قبول فرما لیا اور جنازہ کی امامت کے لئے تشریف لے آئے۔ اسی اثناء میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ آپ علیہ السلام کا کرتہ پکڑ کر سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو منافق ہے کیا اللہ تعالٰی نے آپ کو اس کے جنازے سے منع نہیں فرمایا؟ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے مجھے اختیار دیا ہے۔ پھر کہنے لگے! کیا آپ اللہ کے دشمن کا جنازہ پڑھائیں گے؟ جس نے فلاں فلاں دن یہ کیا۔ فرماتے ہیں کہ میں دن گنواتا جا رہا تھا اور نبی کریمﷺ مسکراتے جا رہے تھے یہاں تک کہ جب میں نے بہت زیادہ کیا تو نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ مجھے چھوڑ دو کیونکہ اللہ تعالٰی نے مجھے اختیار دیا ہے۔ پھر نبی کریمﷺ نے نماز جنازہ پڑھائی، تدفین کے بعد ہی اللہ تعالٰی نے وحی نازل فرما کر سیدنا فاروق اعظم کی رائے کی توثیق کرتے ہوئے آئندہ کے لئے آپ کو منافقین کے جنازے سے منع فرما دیا۔
اسی غیرت کے مظاہرہ کی ایک جھلک صلح حدیبیہ میں نظر آتی ہے۔ کفار کی طرف سے عمرہ کی ممانعت کے بعد صلح کا مرحلہ آتا ہے تو نہایت سخت شق رکھ کر صلح کی جاتی ہے کہ کوئی مسلمان مدینہ سے مکہ آئے گا تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا جبکہ اگر کوئی مسلمان ہو کر مکہ سے مدینہ جائے گا تو اسے واپس کیا جائے گا۔ اس شق پر سیدنا عمر فاروق نبی کریمﷺ کے پاس حاضر ہو کر پوچھتے ہیں کہ کیا ہم حق پہ نہیں ہیں؟ کیا ہم حق پر اور وہ باطل پہ نہیں ہیں؟ نبی کریمﷺ نے مثبت جواب دیا تو سیدنا عمر فاروق فرمانے لگے کہ پھر ہم کیوں ذلت تسلیم کریں؟ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ میں اللہ کے حکم کا پابند ہوں۔ پھر سیدنا صدیق اکبر کے پاس گئے اور یہی سوالات کئے تو انہوں نے بھی یہی جواب دیا۔
سیدنا عمر فاروق کی غیرت اس بات کو گوارا نہیں کرتی تھی کہ ہم کفار کے سامنے اس ذلت کو قبول کر لیں گوکہ بعد میں صلح کے حکم الہی اور اس کے شاندار نتائج کی بنا پر اپنے اس عمل پر ندامت رہی اور نمازوں اور روزوں کے ذریعے اس کا فدیہ دیتے رہے۔ اس جیسے درجنوں واقعات سیرت فاروقی کا حصہ ہیں اور ان کی سیرت کا سنہری باب ہیں۔ دین کے معاملے میں جری اور غیرت کی صفت سے کمال درجے متصف نظر آتے ہیں۔
دور حاضر میں سب سے بڑا دینی المیہ یہ ہے کہ اسلام کے نام لیوا اس عظیم صفت سے محروم ہیں۔ ایک طویل عرصے سے کفار کے زیر اثر رہنے کی بابت دینی غیرت مفقود ہوتی جا رہی ہے۔ باطل کی قوت و شوکت سے مرعوب ذہنیت کے نتیجے میں دین کو سب کے لئے قابل قبول بنا کر تشریحات کرنا، دعوت و بیان میں مصالحت و مداہنت سے کام لینا، اس کی تعلیمات و احکام کو دور حاضر کے تقاضوں کے ہم آہنگ اور قابل عمل نہ سمجھنے سمیت دیگر مسائل نے جنم لیا۔ آج کے دور میں مسلمانوں کے لئے سب سے زیادہ ضروری ہے کہ وہ اس صفت سے آراستہ ہوں بطور خاص جو لوگ دعوت و ارشاد کے شعبہ سے منسلک ہوں کیونکہ اس صفت کے بغیر دین کا مکمل و جامع تصور پیش کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی مغلوب تہذیب و افکار کے غلبہ سے خود کو بچایا جا سکتا ہے۔ چنانچہ اہل اسلام کا فرض بنتا ہے کہ وہ دین اسلام کو شرف و عزت کا معیار سمجھتے ہوئے پورے اعتماد کے ساتھ کسی معذرت خواہانہ رویہ اور مغلوب تہذیب سے متاثر ہوئے بغیر اپنے منہج پر پیش کریں اور تمام مذاہب و افکار تہذیب و ثقافت پر اسلام کی فوقیت کو اجاگر کریں۔