حضرت مولانا مفتی افتخار الحسن صاحب کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ ماہنامہ النخیل شوال 1440

ٓپ کی پیدائش 10 جمادی الاول 1340 ھ مطابق 10 جنوری 1922 کو غالباً کاندھلہ میں ہوئی۔ غالباً اس لئے لکھا گیا کیونکہ آپ کے والد محترم ایک مدت تک مظفر نگر میں مقیم رہے۔آپ کا شجرہ اس طرح سے ہے افتخار الحسن ابن رؤف الحسن ابن ضیاء الحسن محمد صادق ابن نور الحسن ابن ابو الحسن ابن مفتی الٰہی بخش رحمۃاللہ علیہم

آپ کے والد محترم مولانا رؤف الحسن صاحب نے یکے بعد دیگرے دو شادیاں کی جس سے کل پانچ بھائی اور تین بہنیں ہوئے۔پہلی اہلیہ سے مولانا نجم الحسن و مولانا احتشام الحسن خلیفہ و رفیق خاص بانی تبلیغ حضرت مولانا محمد الیاس صاحب رحمہ اللہ و حکیم قمر الحسن و تین صاحبزادیاں جویریہ خاتون زوجہ حضرت مولانا محمد الیاس صاحب بانی تبلیغ و امۃ المتین خاتون زوجہ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی مہاجر مدنی و امۃ الدیان خاتون زوجہ مولوی ظہیر الحسن شہید اور دوسری اہلیہ سے حضرت مولانا اظہار الحسن صاحب و حضرت مولانا مفتی افتخار الحسن صاحب،اس اعتبار سے آپ بانی تبلیغ مولانا الیاس اور حضرت شیخ زکریا صاحب کے برادر نسبتی ہوئے آپ مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور کے قابل ترین فضلاء میں سے ہیں۔

1948ء میں آپ کی فراغت ہوئی اور 1947 ءمیں آپ کو حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر صاحب رائے پوری نور اللہ مرقدہ کی طرف اجازت و خلافت سے نوازا گیا۔ آپ کے پیر جی یعنی حضرت رائے پوری نے آپ کو صوفی جی کا لقب دیا تھا جس کا بہت سی جگہوں پر حضرت شیخ الحدیث نے اپنی آپ بیتی میں بھی صوفی افتخار کے نام سے  تذکرہ کیا ہے۔

   آپ کے خلفاء کی تعداد 50 سے زائد ہے جس میں حضرت مولانا عبد العزیز صاحب رائے پوری سابق ناظم مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور، حضرت مولانا محمد کامل صاحب رحمہ اللہ گڑھی دولت،حضرت مولانا زبیر الحسن صاحب کاندھلوی رحمۃاللہ علیہ اور حضرت مولانا محمد سعد صاحب کاندھلوی دامت برکاتہم بھی شامل ہیں ۔

آپ اپنے وقت کے عظیم مفسر قرآن تھے پورے 52 سالوں تک کاندھلہ کی جامع مسجد پھر اپنے محلے کی مسجد میں فجر بعد ایک ڈیڑھ گھنٹے تفسیر کی، جس میں 5 دور مکمل فرمائے جس کا آخری ختم غالباً 1992 یا 1993 میں ہوا جس میں بڑا عظیم الشان اجتماع ہوا کاندھلہ کی پوری عیدگاہ بھر گئی اور حضرت مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ نے شرکت فرمائی۔حضرت مولانا علی میاں رحمہ اللہاپنی آپ بیتی میں تحریر فرماتے ہیں کہ ایسی نورانی مجلس میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھی۔

روزانہ کی ہونے والی مجلس بھی بڑی با برکت ہوتی تھی۔ایک ایک آیت پر علم کا جو دریا بہنا شروع ہوتا تو اس کو مکمل کرنے میں کئی کئی دن لگ جاتے تھے۔

سورۃ بقرہ کی صرف ایک آیت وإذ قال ربك اللملائكة إني جاعل في الأرض خليفه کی تفسیر کا نا مکمل مواد کتابی شکل میں منظر عام پر آ چکا ہے وہ بھی صرف 9 دن کی تقریر ہے حالانکہ آپ نے اس آیت پر کم و بیش 45 دن تک کلام فرمایا تھا۔اس کتاب کا نام تقاریر تفسیر قرآن مجید ہے۔

آپ ایک طویل عرصے سے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ اور مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور کی مجلس شوریٰ کے رکن تھے اور تا حیات باقی رہے۔

مرآداباد دہلی میرٹھ مظفر نگر بلند شہر نیز ہریانہ پنجاب میں آپ کے بے شمار دینی و دعوتی اسفار ہوئے اور پورا علاقہ آپ کو اپنا پیر مانتا ہے۔

آپ کی کل 7 اولاد ہیں تین صاحب زادگان جن میں عظیم مؤرخ مولانا نور الحسن راشد جو کہ جانشین بھی ہیں، مولانا ضیاء الحسن اور مولانا بدر الحسن اور چار صاحب زادیاں اہلیہ مرحومہ پیر صاحب حضرت مولانا محمد طلحہ کاندھلوی ( اس رشتے سے آپ حضرت شیخ الحدیث کے سمدھی بھی تھے) و اہلیہ مولانا احترام الحسن رحمۃاللہ کاندھلوی و اہلیہ مولانا محمد حشیم صاحب عثمانی ناظم مدسہ صولتیہ مکہ مکرمہ و اہلیہ مولانا محمد الھاشمی سہارنپوری ( راقم سطور کی والدہ محترمہ) ہیں۔

آپ تقریباً ایک ڈیڑھ سال سے صاحب فراش تھے اور اب آخری ایک ہفتے سے پیشاب بند تھا کھانا پینا سب چھوٹ گیا تھا۔آج صبح فجر بعد سے طبیعت زیادہ خراب تھی شام 5 بجکر 40 منٹ پر آبِ زمزم کے چند قطرے منہ میں ڈالے اور اسی دوران روح پرواز کر گئی۔انا للہ وانا الیہ راجعون

شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2025

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن
ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2025