قرآن سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا شغف ماہنامہ النخیل رمضان 1440

[مولانا ضیاءالحق خیر آبادی عرف حاجی بابو،استاذ مدرسہ تحفیظ القرآن سکھٹی،مبارک پور، اعظم گڑھ،مدیر مجلہ رشد وہدایت،اعظم گڈھ۔1998ء میں دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد 2013ء تک مدرسہ شیخ الاسلام شیخوپور،اعظم گڑھ میں مدرس اوربارہ سال تک ماہنامہ ضیاءالاسلام ،اعظم گڑھ کے مدیر رہے ۔علمی و ادبی حلقے میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ مولانا سید محمد میاںؒ سیمینار میں پیش کئے گئے،بارہ سو صفحات پر مشتمل مقالات و مضامین کو” تذکرہ سید الملت“کے نام سے شائع کرنا،آپ کا یادگار کارنامہ ہے۔ ادارہ]

 

قرآن کریم وہ عظیم الشان اور رفیع المرتبہ کتاب ہے، جس کی عظمتِ شان اور رفعتِ مرتبہ کے لئے یہی بات کافی ہے کہ وہ رب العالمین کا کلام ہے، اسی پر تمام اسلامی عقائد واحکام اور مسائل کا دار ومدار ہے۔ قرآن کریم ہم تک صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے واسطے سے پہنچا ہے؛ اس لیے یہ بات دن کے آفتاب کی طرح روشن ہے کہ ان انفاس قدسیہ کا تعلق اور شغف قرآن کریم کے ساتھ اپنی آخری حد تک رہا ہوگا۔

قرآن کریم دنیا کی ایک ایسی قوم پر نازل ہوا، جو تہذیب وتمدن سے عاری اور ہر طرح کے علوم وفنون سے خالی تھی، نہ اسے یونان کے فلسفہ ومنطق سے آشنائی تھی اور نہ ہندوستان کے نجوم والٰہیات سے واقفیت، نہ اسے ایرانی تہذیب سے کوئی واسطہ تھا، نہ اس پر روم کے تمدن کا کچھ اثر تھا، یہ قوم اس وقت دنیا کی وحشی اور جاہل ترین قوم شمار کی جاتی تھی، یہ ہر طرح کی علمی وتہذیبی سرمایہ سے تہی مایہ تھی، اگر ان کے پاس کچھ تھا تو صحرائی مناظر تھے، دامن کوہ تھے، پہاڑیوں کی وادیاں تھیں اور ان کی چوٹیوں سے ابھرتا ہوا سورج، اور افق کے حوض میں ڈوبتا ہوا آفتاب تھا، دامن صحرا میں روشنی بکھیرتا ہوا چاند تھا، آسماں کی بے کراں وسعتوں میں پھیلے ہوئے ستارے تھے، ہرنوں کی ڈار تھی، اونٹ تھے، گھوڑے تھے، بھیڑوں اور بکریوں کے ریوڑ تھے۔ اور ان مناظر قدرت کا احساس کرنے والی نگاہ اور قوت ادراک تھی، اور سب سے بڑھ کر انھیں بیان کرنے کا بے پناہ ملکہ اور قدرت تھی، ان کی فصاحت کے آگے دنیا کی تمام زبانوں کے ماہرین گونگے (عجمی) تھے، اہل عرب کا علم دو چیزوں سے عبارت تھا: مناظر قدرت کی فراوانی اور شاعری کی ہمہ گیری۔

اس قوم میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کا کلام لے کر آئے، جس کی معجزانہ فصاحت وبلاغت اور معیاری اسلوب وانداز بیان کے سامنے اہل زبان بے زبان ہوگئے، یہ صرف معجزانہ فصاحت وبلاغت اور معیاری اسلوب کا کمال نہیں تھا بلکہ اس کا اہم سبب وہ علم وحکمت کے موتی تھے، جن سے قرآن کا دامن بھرا ہوا تھا، آپ اسے چنتے رہیے، پھر بھی وہ آپ کو ویسا ہی بھرا پُرا ملے گا۔

اب ایک فطری بات یہ ہے کہ وہ قوم جس کادامن ہر طرح کے علوم وفنون سے خالی تھا، جب اس کے سامنے ایسی فصیح وبلیغ اور معجز بیان کتاب آئی ہوگی، تو اس کا کیا حال ہوا ہوگا؟ جب اہل عرب نے ایمان قبول کیا، تو جو چیز ان کے دل ودماغ کی وسعتوں اور گہرائیوں میں رچی بسی تھی، وہ قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس تھی، جو قرآن ہی کا عملی نمونہ تھے، ان کا دل ہر محبت سے خالی تھا، جب قرآن اور صاحب قرآن کی محبت ان کے دل میں بیٹھی تو وہ کیفیت پیدا ہوئی، جس کو ایک عرب شاعر نے یوں بیان کیا ہے:

أَتَانِيْ ہَوَاہَا قَبْلَ أَنْ أَعْرِفَ الْہَوَیٰ           فَصَادَفَ قَلْبًا خَالِیًا فَتَمَکَّنَا

میں ابھی اس کی محبت کو جانتا بھی نہ تھا کہ اس کی محبت میرے پاس آئی، یہاں دل خالی تھا، پس وہ بے تکلف جاگزیں ہوگئی۔

ہم اس مقالے میں قرآن کریم کے مخاطبین اولین حضرات صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا قرآن کے ساتھ جو تعلق اور شغف تھا، اسے قرآن وحدیث اور تاریخ کی روشنی میں دیکھیں گے، قرآن کے ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تعلق اور شغف کے کئی پہلو ہیں:

(۱) صحابہؓ کا تلاوتِ قرآن سے شغف

(۲) تعلیم قرآن

(۳) قرآن میں تدبر 

(۴) قرآنی تعلیمات کی اثر پذیری اور اس پر فداکارانہ جذبہ عمل

صحابہ کا تلاوت قرآن سے شغف: یہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگی کا ایک روشن ترین باب ہے، نزول قرآن سے پہلے یہ لوگ اشعار گنگنایا کرتے تھے، قرآن نازل ہوا تو اشعار پھیکے پڑگئے، اب ذوق تھا تو کلام الٰہی کی تلاوت وتکرار کا ذوق تھا، اور ذوق بھی کیسا؟ کہ تیر پر تیر لگ جائیں، خون کی دھاربہہ جائے؛ مگر تلاوت کی لذت سب پر غالب ہے۔ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک غزوہ سے واپس تشریف لارہے تھے، شب میں ایک جگہ آپ نے قیام فرمایا اور حفاظت وحراست کے لیے ایک مہاجر صحابی حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ اور ایک انصاری صحابی حضرت عباد بن بشر رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا، ان دونوں حضرات نے باری مقرر کرلی کہ آدھی رات ایک آدمی پہرہ دے، دوسرا سوئے، پھر پہلا سوئے اور دوسرا پہرہ دے، رات کا پہلا حصہ حضرت عمار بن یاسر کے جاگنے کا قرار پایا، آپ نے نماز کی نیت باندھ لی، دشمن کے ایک شخص نے دیکھا کہ کوئی آدمی کھڑا ہے تو اس نے تیر چلایا، وہ تیر ان کو لگا، مگر انھوں نے کوئی حرکت نہ کی اور نماز پڑھتے رہے، اس کے بعد یکے بعد دیگرے کئی تیر چلائے، آپ انھیں بدن سے نکال کر پھینکتے رہے اور اطمینان سے نماز پوری کرکے اپنے دوسرے ساتھی کو جگایا، انھوں نے ان کو زخمی دیکھ کر کہا کہ آپ نے مجھے فوراً کیوں نہ جگالیا؟ آپ حضرت عمار بن یاسرؓ کا ایمان افروز جواب سنئے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن کے ساتھ ان کے شغف اور تعلق کا کیا عالم تھا! ’’میں نے سورۂ کہف کی تلاوت شروع کردی تھی اور میرا دل نہ چاہا کہ اسے ختم کرنے سے پہلے رکوع کروں؛ لیکن بار بار تیر لگنے سے مجھے اندیشہ ہوا کہ اگر میں مرگیا تو وہ مقصد ہی فوت ہوجائے گا، جس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں مقرر کیا ہے، اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا تو میں مرجاتا؛ لیکن سورہ ختم کرنے سے پہلے رکوع نہ کرتا۔ [حکایات صحابہ، ص:۵۸،۵۹، بحوالہ ابوداؤد وبیہقی]

 صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی تلاوت کا انداز کیا تھا؟ اور اس کو وہ کس ایمانی حلاوت کے ساتھ پڑھتے تھے کہ ان کی قراء ت سننے کے لیے ملائکہ آسمان سے اترتے تھے۔ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ مشہور انصاری صحابی اپنے اصطبل میں ایک رات قرآن پڑھ رہے تھے، اچانک ان کے گھوڑے نے چکر لگانا اور بدکنا شروع کیا، وہ قدرے خاموش ہوئے تو گھوڑا بھی پُرسکون ہوگیا، مگر وہ پڑھنے لگے تو گھوڑا پھر بدکنے لگا، کئی مرتبہ ایسا ہوا تو وہ ڈرے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ یحییٰ (ان کے بیٹے) کو روند ڈالے، وہ گھوڑے کی طرف بڑھے، فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ میرے سر پر ایک سائبان ہے، اس میں جیسے بہت سے چراغ جل رہے ہوں، دیکھتا ہوں کہ وہ فضا میں اوپر چڑھ رہا ہے، پھر وہ میری نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ حضرت اسید بن حضیرؓ نے صبح کو یہ سارا قصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا تو آپ نے فرمایا کہ وہ ملائکہ تھے، تیرا قرآن سننے آئے تھے، اگر تو پڑھتا رہتا تو ملائکہ اس حالت میں صبح کردیتے اور ان کو سب دیکھتے اور وہ کسی سے نہ چھپتے۔ [حیاۃ الصحابہ، ج:۳، ص:۶۱۳، بحوالہ بخاری ومسلم شریف]

ان نفوس طیبہ کے قرآن سے عشق کا یہ عالم تھا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوتا کہ انہیں قرآن سناؤ، حضرت ابی بن کعبؓ کا واقعہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ان سے فرمایا: اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہیں قرآن سناؤں، ابی بن کعبؓ نے کہا کہ کیا اللہ نے میرا نام لیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، تو وہ خوشی سے رونے لگے۔حضرت ابی بن کعبؓ تہجد میں آٹھ راتوں میں قرآن پاک ختم کرنے کا اہتمام کرتے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أَقْرَأُ أُمَّتِيْ أُبَيُّ بْنُ کَعْبٍ (میری امت میں سب سے بڑے قاری ابی بن کعب ہیں)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن عبداللہ بن مسعود، ابی بن کعب، سالم مولی ابی حذیفہ اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہم سے پڑھو۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے شغف بالقرآن کا یہ عالم تھا کہ جب جنگ یمامہ میں حفاظ صحابہ کی ایک بڑی جماعت شہید ہو گئی تو آپ نے قرآن کے ضائع ہونے کا خطرہ محسوس کر کے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو تدوینِ قرآن پر آمادہ کیا، ایسے ہی آپ نے تراویح کی سنت جاری کرکے قرآن کی حفاظت کے ایک ایسے طریقے کو رواج دیا، جس کی وجہ سے بے شمار قلوب قرآن پاک کے محفوظ سفینے بن گئے۔

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ وتر کی ایک رکعت میں پورا قرآن پڑھ ڈالتے تھے، حضرت مولانا عبد الحی فرنگی محلی ’’إقامۃ الحجۃ علی أن الإکثار في التعبد لیس ببدعۃ‘‘ ص:۶۴ پر لکھتے ہیں: ’’ حضرت علی کرم اللہ وجہہ دن بھر میں آٹھ ختم پڑھتے تھے اور حضرت تمیم داریؓ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہ رات بھر میں پورا قرآن پڑھ ڈالتے تھے۔ ‘‘

تعلیم قرآن: اہل عرب اپنے خداداد حافظے کی وجہ سے پوری دنیا میں ممتاز تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو زبانی قرآن یاد کراتے تھے، جس کی وجہ سے بہت سے صحابہ نے قرآن حفظ کر لیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود سیدالحفاظ تھے، آپ کے بہت سے شاگرد حافظ قرآن تھے، مہاجرین میں خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم، حضرت طلحہ، حضرت ابن مسعود، حضرت ابن عباس، حضرت معاویہ، حضرت عائشہ، حضرت ام سلمہ اور انصار میں حضرت معاذ بن جبل، حضرت ابی ابن کعب، حضرت زید بن ثابت، حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہم اور ان کے علاوہ بھی صحابہ کرام حافظ قرآن تھے۔

صحابہ کرام نے قرآن مجید کی تعلیم کا سلسلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام مکہ معظمہ کے زمانے سے ہی شروع کر دیا تھا؛ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مصعب بن عمیرؓ اور حضرت ابن ام مکتومؓ کو بیعت عقبۂ اولیٰ کے بعد، اس غرض سے بھیجا کہ لوگوں کو قرآن مجید کی تعلیم دیں، ہجرت کے بعد مسجد نبوی میں ایک مستقل حلقۂ درس قائم ہوگیا اور اصحاب صفہ شب روز قرآن کی تعلیم و تعلم میں مصروف رہنے لگے، اسی طرح جو لوگ تعلیم حاصل کر لیتے تو انھیں قراء کہا جاتا تھا اور باہر کے مسلمانوں کی مذہبی تعلیم کے لیے بھیجا جاتا تھا، مختلف قبائل کے وفود مدینہ آتے اور قرآن کی تعلیم حاصل کرتے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں نہایت وسیع پیمانہ پر تعلیم قرآن کا سلسلہ قائم کیا، تمام مقبوضہ ممالک میں تعلیم القرآن کے لیے مکاتب قائم کئے اور ضروری سورتوں (بقرہ، نساء، مائدہ، نور) کی نسبت حکم دیا کہ تمام مسلمانوں کو اس کا سیکھنا لازمی ہے؛ کیوں کہ ان میں احکام و فرائض ہیں، قرآن پڑھنے والوں کے وظیفے مقرر کیے، ان تدابیر سے تعلیم قرآن نے بہت وسعت حاصل کی، اس کے علاوہ اکابر صحابہؓ کے مختلف حلقہائے درس بھی قائم کیے۔ [تفصیلات کے لیے قاضی اطہر مبارک پوری علیہ الرحمہ کی کتاب ’’خیرالقرون کی درس گاہیں‘‘ اور مولانا عبدالسلام ندوی مرحوم کی ’’اسوۂ صحابہ‘‘ ملاحظہ ہو]

قرآن میں تدبر: صحابہ کرامؓ صرف سر سری طور پر قرآن کی تلاوت نہیں کرتے تھے؛ بلکہ اس میں پوری طرح غور و تدبر کرتے اور جہاں کوئی بات کھٹکتی یا سمجھ میں نہ آتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے استفسار کرتے یا اکابر صحابہ سے دریافت کرتے اور خود بھی غور و فکر کرتے۔ بعض اوقات خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ سے سوال کرتے اور ان کا امتحان لیتے، ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت ’’کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصْلُہَا ثَابِتٌ وَفَرْعُہَا فِیْ السَّمَآئِ، تُؤْتِیْ اُکُلَہَا کُلَّ حِیْنٍ بِاِذْنِ رَبِّہَا‘‘ (سورہ ابراہیم : ۲۴؍۲۵) ’’ مثل اس درخت کے جس کی جڑثابت ہے، اور اس کی شاخ آسمان میں، اور وہ ہمیشہ پھلتا رہتا ہے‘‘ ایک بار صحابہ کا مجمع تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ کون سا درخت ہے؟ حضرت عبداللہ بن عمر ؓکے دل میں یہ بات آئی کہ یہ کھجور کا درخت ہے؛ لیکن انہوں نے حضرت صدیق اکبرؓ اور فاروق اعظمؓ کی موجودگی میں بولنا خلاف ادب سمجھا، بالآخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا کہ یہ کھجور کا درخت ہے۔ [بخاری شریف، کتاب التفسیر باب قولہ کشجرۃ طیبۃ]

قرآن مجید کی اس آیت ’’یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ لَا یَضُرُّکُمْ مَنْ ضَلَّ اِذَا اہْتَدَیْتُمْ‘‘[سورہ مائدہ:۱۰۵]( مسلمانو! تم پر صرف تمہاری ذات کی ذمہ داری ہے، جب تم نے ٹھیک راہ پالی تو جو شخص گمراہ ہوا، وہ تم کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔) سے بظاہر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا سدباب ہو جاتا ہے، ایک صحابی کے دل میں یہ بات کھٹکی اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس آیت پر صرف اس حالت میں عمل کرنا چاہیے، جب ہوا پرستی عام ہوجائے اور ہر شخص اپنی رائے پر عمل کرنے لگے، ورنہ جب تک لوگوں میں ہدایت کے قبول کرنے کا مادہ موجود ہو، امر بالمعروف کا فریضہ ساقط نہیں ہو سکتا۔  [ترمذی شریف، کتاب التفسیر ۳۰۵۸]

ایک مرتبہ کبار صحابہ جمع تھے، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ’’ إذا جاء نصر اﷲ والفتح‘‘ کی تفسیر پوچھی، سب نے کہا کہ جب فتح حاصل ہو تو ہم کو اس آیت میں تسبیح اور استغفار کا حکم دیا گیا ہے، حضرت عمر خاموش رہے اور حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تم کیا کہتے ہو؟ انہوں نے فرمایا کہ اس آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کی خبر دی گئی ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں بھی یہی جانتا ہوں۔[بخاری شریف، کتاب التفسیر باب قولہ ورأیتَ الناسَ یدخلون فی دین اﷲ افواجا]

ایسے ہی ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے صحابہ کے مجمع میں سوال کیا کہ آیت  ’’اَیَوَدُّ اَحَدُکُمْ اَنْ تَکُوْنَ لَہُ جَنَّۃٌ‘‘ (سورہ بقرہ: ۲۶۶ ) کس کے بارے میں نازل ہوئی؟ تو صحابہ نے کہا کہ اس کا علم تو خدا کو ہے، حضرت عمرؓ یہ سن کر ناراض ہوئے اور فرمایا کہ یا تو یہ کہو کہ جانتے ہیں یا یہ کہو کہ نہیں جانتے، حضرت عبداللہ ابن عباس اس وقت بہت کم سن تھے؛ اس لیے کچھ کہتے ہوئے ڈرتے تھے، تاہم حضرت عمرؓ کی ہمت افزائی سے انہوں نے اجمالاً اس قدر کہا کہ یہ آیت ایک عمل کی مثال ہے۔ حضرت عمرؓ نے مزید تشریح کی اور کہا کہ اس دولت مند شخص کے عمل کی مثال ہے، جس نے اطاعت الٰہی کی پھر شیطان کے بہکانے سے گناہوں کا مرتکب ہوا، اس لیے خدا نے اس کے اعمال کو برباد کر دیا۔ [بخاری شریف، کتاب التفسیر باب قولہ أ یود أحدکم]

جب مسلمانوں نے قسطنطنیہ پر حملہ کیا تو ایک صحابی نے رومیوں پر اس جوش کے ساتھ حملہ کیا کہ ان کی صفوں کے اندر گھس گئے تو لوگوں نے شور کیا کہ اپنی ذات کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں، جس سے قرآن کی آیت ’’وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّہْلُکَۃِ‘‘ (سورہ بقرہ :۱۹۵) (اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو) کی جانب اشارہ تھا، اس لڑائی میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے، انہوں نے فرمایا کہ تم لوگ اس آیت کا معنی یہ سمجھتے ہو؛ حالانکہ یہ آیت ہم انصار کے بارے میں نازل ہوئی، جب خدا نے اسلام کو غالب کر دیا اور اس کے بہت سے اعوان و انصار پیدا ہو گئے تو ہم میں بعض لوگوں نے سوچا کہ ہماری جائیداد برباد ہوگئی، اب اسلام کے بہت سے حامی اور انصار پیدا ہوگئے؛ اس لیے اب ہم کو اپنی جائیداد کی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے، خدا نے ہمارے خیال کی تردید کی اور فرمایا   ’’وَاَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّہْلُکَۃِ‘‘ (سورہ بقرہ :۱۹۵)اس بنا پر یہ جہاد ہلاکت نہیں ہے؛ بلکہ جہاد کو چھوڑ کر معاش کی فکر میں لگ جانا ہلاکت ہے۔ [ترمذی شریف، کتاب التفسیر حدیث:۲۹۸۲، ابوداؤد شریف کتاب الجہاد]

قرآنی تعلیمات کی اثر پذیری اور اس پر فداکارانہ جذبۂ عمل :قرآن پاک کی تلاوت آج بھی کی جاتی ہے؛ مگر دنیا کے حرص اور دین سے بے رغبتی کا نتیجہ یہ ہے کہ اس کا کچھ بھی اثر نہیں ہوتا، نہ پڑھنے والے پر اور نہ سننے والے پر، صحابۂ کرام بھی قرآن پڑھتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضِ صحبت اور دین کی محبت کی وجہ سے ان کا رنگ ہی کچھ اور تھا، قرآن سے اثر پذیری کی گواہی صحابہ کے حق میں خود قرآن نے دی ہے، قرآن سے بڑھ کر، خدا سے بڑھ کر کس کی گواہی ہو سکتی ہے:

 ’’ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُہُمْ وَاِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ اٰیَاتُہُ زَادَتْہُمْ اِیْمَانًا‘‘ (سورہ انفال :۲)

 بلاشبہ ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کا ذکر آتا ہے تو ان کے قلوب ڈر جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو ان کے ایمان کو اور زیادہ کر دیتی ہیں ۔ یہ آیت کریمہ عام صحابہ کے حق میں ہے، ان کا عمومی حال یہی تھا کہ اللہ کی یاد سے ان کے قلوب پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے اور قرآن کی آیت سے ان کے ایمان کی کیفیت میں اضافہ ہوجاتا تھا۔ ایک اور جگہ ارشاد ہے:

 ’’ وَاِذَا سَمِعُوْا مَا اُنْزِلَ اِلَی الرَّسُوْلِ تَرَی اَعْیُنَہُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اٰمَنَّا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشَّاہِدِیْنَ‘‘(سورہ مائدہ : ۸۳)

ترجمہ: جب وہ سنتے ہیں جو رسول کی طرف بھیجا گیا تو تم ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بہتی ہوئی دیکھتے ہو، اس سبب سے کہ انہوں نے حق کو پہچان لیا ہے، یوں کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہم ایمان لائے، ہم کو ان لوگوں کے ساتھ لکھ لیجئے، جو تصدیق کرنے والے ہیں۔

یہ آیت ان نصرانی علماء کے بارے میں نازل ہوئی، جو ایمان کی دولت سے سرفراز ہوئے تھے، یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت مبارکہ میں حاضر ہوئے، انہوں نے جب قرآن کی آیات سنیں تو ان کی آنکھوں سے سیل اشک رواں ہوگیا۔

ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

 ’’ اَللّٰہُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ کِتَابًا مُتَشَابِہًا مَثَانِیَ تَقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُوْدُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُوْدُہُمْ وَقُلُوْبُہُمْ اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ ذٰلِکَ ہُدَی اللّٰہِ یَہْدِیْ بِہِ مَنْ یَشَآء‘‘(سورہ زمر :۲۳)

ترجمہ: اللہ نے اتاری بہتر بات، آپس میں ملتی ہوئی، دہرائی ہوئی کتاب، اس سے ان لوگوں کے بال کھڑے ہوجاتے ہیں، جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں، اللہ کی یاد سے ان کی کھالیں اور ان کے دل نرم ہو جاتے ہیں، یہ اللہ کی ہدایت ہے، جس کو چاہتا ہے، اسے رہنمائی عطا فرماتا ہے۔

یعنی کتاب اللہ کو سن کر اللہ کے خوف اور اس کے کلام کی عظمت سے ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں اور بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور کھالیں نرم پڑ جاتی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ خوف ورعب کی کیفیت طاری ہو کر ان کا قلب وقالب اور ظاہر و باطن اللہ کی یاد کے سامنے جھک جاتا ہے اور اللہ کی یاد ان کے بدن اور روح دونوں پر ایک خاص اثر پیدا کرتی ہے۔  [فوائد عثمانی ص:۶۱۴]

علامہ قرطبیؒ نے لکھا ہے کہ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ صحابۂ کرام کا عام حال یہی تھا کہ جب قرآن ان کے سامنے پڑھا جاتا تو ان کی آنکھوں میں آنسو آجاتے اور بدن پر بال کھڑے ہوجاتے۔ [معارف القرآن ج:۷،ص:۵۵۶]

 اسی کا اثر یہ تھا کہ قرآن کے احکام پر عمل کرنے کے لیے وہ ہمہ وقت تیار رہتے تھے، جب قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی کہ  ’’لَنْ تَنَالُوْا الْبِرَّ حَتَّی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ‘‘ (سورہ آل عمران : ۹۲)تم لوگ جب تک اپنی محبوب ترین چیز صرف نہ کرو گے، نیکی کو ہرگز نہیں پاسکتے۔ تو حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ خدا ہمارا مال مانگتا ہے، آپ گواہ رہیے کہ اریحا میں میری جو زمین ہے، میں اس کو خدا کے نام پر وقف کرتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو اپنے رشتے داروں میں تقسیم کردو۔ [ترمذی شریف، کتاب التفسیر حدیث:۲۹۲۷]

جب یہ آیت نازل ہوئی: ’’ یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبیِ‘‘(سورہ حجرات: ۲)

مسلمانو! پیغمبر کی آواز سے اپنی آواز بلند نہ کرو۔ تو حضرات صحابہ اس قدر آہستہ بولنے لگے کہ ان کی آواز سننے میں نہیں آتی تھی۔  [ترمذی شریف، کتاب التفسیر حدیث :۳۲۶۶]

اصحابِ صفہ کی معاش کا زیادہ تر دارومدار صحابہ کی فیاضی پر تھا؛ چنانچہ انصار حسب مقدور کھجور کے خوشے لا کر مسجد میں لٹکا دیتے تھے، یہ لوگ آتے تو لکڑی سے انہیں ہلاتے تھے، جو کھجوریں ٹپک پڑتیں اس کو کھا لیتے تھے۔ لیکن ان میں بعض لوگوں نے ایک بار سڑے گلے، روکھے پھیکے خوشے لاکر لٹکا دیے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

’’ یَا اَیُّہَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَنْفِقُوْامِنْ طَیِّبَاتِ مَا کَسَبْتُمْ وَمِمَّا اَخْرَجْنَا لَکُمْ مِنَ الْاَرْضِ وَلَا تَیَمَّمُوْا الْخَبِیْثَ مِنْہُ تُنْفِقُوْنَ وَلَسْتُمْ بِآَخِذِیْہِ اِلَّا اَنْ تُغْمِضُوْا فِیْہِ‘‘(سورہ بقرہ: ۲۶۷ )

مسلمانو! اپنی بہترین کمائی اور بہترین پیداوار سے صدقہ دو، حالانکہ (وہی چیز کوئی) تم کو دے تو تم اس کو کبھی نہ لو مگر چشم پوشی کے ساتھ، اس کے بعد اس حالت میں انقلاب پیدا ہو گیا اور لوگ بہتر کھجوریں لانے لگے۔ [ترمذی شریف، کتاب التفسیر حدیث :۲۹۸۷]

حضرت مسطح، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے رشتے دار تھے، آپ ان کی کفالت کرتے تھے؛ لیکن جب وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی تہمت میں شریک ہو گئے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کی کفالت سے ہاتھ کھینچ لیا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی: ’’وَلَا یَأْتَلِ اُوْلُوْ الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ اَنْ یُؤْتُوْا اُوْلِیْ الْقُرْبَی وَالْمَسَاکِیْنَ وَالْمُہَاجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَغْفِرَ اللّٰہُ لَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَحِیْمٌ‘‘(سورہ نور :۲۲)

تم میں سے دولت مند لوگ قرابت داروں، مسکینوں اور مجاہدوں کے دینے سے دریغ نہ کریں اور عفو ودرگزر کریں، کیا تم لوگ اسے پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہاری مغفرت کرے اور خدا مغفرت کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

اب حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ پھر ان کے مصارف کے کفیل ہو گئے اور فرمایا کہ مجھے یہی پسند ہے کہ خدا میری مغفرت کرے۔ [بخاری شریف، کتاب التفسیر باب قولہ ان الذین الخ]

 ایک طرف تو صحابہ کے تعلیماتِ قرآن پر عمل کرنے کا یہ حال تھا کہ قرآن کریم جس طرف چاہتا تھا، انہیں جھونک دیتا تھا اور دوسری طرف یہ بھی تھا کہ جس سے چاہتا تھا انہیں روک بھی دیتا تھا، ایک بار عیینہ بن حصن اپنے بھتیجے حضرت حر بن قیس کے ساتھ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور نہایت گستاخی کے ساتھ بولے کہ ’’آپ ہم کو عطیہ نہیں دیتے، ہمارے درمیان انصاف نہیں کرتے‘‘ اس پر حضرت فاروق اعظمؓ سخت برہم ہوئے اور ان کو سزا دینی چاہی؛ لیکن حضرت حر بن قیس نے کہا کہ ’’یا امیرالمومنین! خدا نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا تھا: ’’خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجَاہِلِیْنَ‘‘(سورہ اعراف:۱۹۹) درگزر کا شیوہ اختیار کیجیے اور نیکی کا حکم دیجیے اور جاہلوں سے کنارہ کش رہیے‘‘ اور یہ بھی ایک جاہل ہے، یہ آیت سن کر حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ فوراً رک گئے۔ [بخاری شریف، کتاب التفسیر باب قولہ خذ العفو وأمر بالمعروف]

یہ قرآن پاک کے ساتھ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے تعلق اور شغف کا اجمالی تذکرہ تھا؛ اس سے حدیث و تاریخ کی کتابیں بھری پڑی ہیں، اگر کسی کو تفصیل مقصود ہو تو بخاری شریف، ترمذی شریف، ابوداؤد شریف،شعب الایمان للبیہقی، التبیان فی علوم القرآن وغیرہ عربی میں، اور اردو میں اسوۂ صحابہ، حیاۃ الصحابہ، حکایات صحابہ اور خیر القرون کی درسگاہیں وغیرہ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ اللہ تعالی ہمیں بھی ان انفاس قدسیہ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن
ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024