قرآن مجید کی فصاحت وبلاغت قسط نمبر 7
ربّ الشعراء کا چیلنج
اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ جس زمانے میں جس چیز کا شہرہ رہا اور جس فن کے وہ لوگ ماہر تھے اسی مناسبت سے اس زمانے کے انبیاء کو معجزات دئیے گئے ۔تاکہ وہ اپنے فن کی مہارت کو کام میں لاکر پورے شرح صدر سے یہ سمجھ لیں کہ یہ معجزہ ہمارے فن کے دائرہ کار سے باہر ہے اور یہ کمال فن کا نتیجہ نہیں بلکہ کچھ اور ہے اور ہماری مہارت، سمجھ بوجھ، ادراک اس کے سامنے بے بس ہے ۔
موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں سحروجادو کا زور تھا تو اللہ تعالیٰ نے موسی علیہ السلام کو وہ معجزہ عطاء فرمایا کہ جادوگر دیکھتے ہی سمجھ گئے کہ یہ جادو نہیں اور مشرف بایمان ہوئے ۔
عیسی علیہ السلام کے دور میں عقل پرست غالب تھے۔ افلاطون، ارسطو، سقراط وغیرہ کا شہرہ تھا تو اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو وہ معجزات عطاء فرمائے جو عقل کے کسی پیمانے پر پورا نہیں اترتے تھے کہ عقل کہتی ہے بیمار کا علاج تو ممکن ہے لیکن جو ماں کے پیٹ سے اندھا یا کوڑھی پیدا ہوا اس کا کوئی علاج نہیں ۔اسی طرح مریض تو تندرست ہوسکتا ہے لیکن جو مرکر گل سڑ گیا اس کے دوبارہ زندہ ہونے کی کوئی صورت نہیں ۔جب عیسی علیہ السلام کے ہاتھ پر مادرزاد اندھوں کو شفاء ملی جب ان کےفرمانے پر نوح علیہ السلام کے دور کے لوگ زندہ ہونے لگے تو عقل پرستوں کے لئے یہ کہے بنا چارہ نہ رہا کہ یہ معجزات عقل کے دائرہ کار سے باہر ہیں ۔
نبی اکرم صلی الله عليه وسلم تشریف لاتے ہیں تو شعر وادب کا دور دورہ ہے زبان وبیان کے چرچے ہیں ۔اہل عرب کے نزدیک شاعری عزت وذلت کا معیار ہے بزرگی وفضل کا پیمانہ ہے ۔فصاحت وبلاغت کی قیمت سچے موتیوں سے زیادہ ہے ۔لوگ کلام کو سنتے ہی نہیں پوری گہرائی سے سمجھتے بھی ہیں اور عمدہ اور ردی کلام میں فرق پرقادر بھی ہیں ۔شعراء عرب کی نبیوں کی طرح قدرومنزلت ہے ان کا زعم یہ ہے کہ ان کے کلام جیسا کلام بنانا کسی کی قدرت میں نہیں ہے ۔
کہ اچانک عرب کے صحراؤں میں ایک شخصیت نمودار ہوتی ہے ۔عرب کے تپتے میدانوں سے ایک آواز اٹھتی ہے اور عرب دم بخود رہ جاتے ہیں کہ یہ کیسا عجیب کلام ہے جس کی فصاحت کا ادراک ان کے لئے مشکل ہے اس کی مثل اور نظیر لانا ان کے لئے ناممکن ہے ۔
پھر اس کلام میں ان کو چیلنج دیا جاتا ہے کہ اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ اس جیسا کلام تم پیش کرسکتے ہو تو پیش کرو ۔
علماء نے لکھا ہے کہ یہ چیلنج پانچ مرحلوں پر مشتمل ہے کہ پہلے پورے کلام کا کہا پھر دس سورتوں کا پھر ایک سورۃ کا پھر کہا اس جیسا ایک جملہ ہی بنالاؤ پھر کہا کہ تم سب انس وجن جمع ہو کر بھی نہیں بناسکتے ۔اور یہ چیز کہ درجات میں چیلنج کرنا کہ اچھا اتنا نہیں کرسکتے تو اتنا کرلو اگر یہ بھی نہیں کرسکتے تو اس سے کم کرلو یہ مخاطب کی عزت نفس پر انتہائی بھاری ہوتا ہے ۔پھر یہ کہنا کہ تم بالکل کرہی نہیں سکتے یہ تو آخری درجہ کا چیلنج ہے۔
تو پہلے فرمایا
قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآَنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا
یعنی صرف جزیرۃ العرب کے لوگ نہیں بلکہ انسان وجنات بھی جمع ہوجائیں ایک دوسری کی مدد کریں پھر بھی اس قرآن مجید جیسا کلام نہیں لاسکتے ۔اب اصولا تو اس چیلنج پر ہی تہلکہ مچ جانا چاہئے تھا ۔
کہ درحقیقت یہاں کہا جارہا ہے ۔
کہ اے عرب کے وہ لوگو! جنہیں اپنی قدرت کلام پر ناز ہے جن کی زندگیاں زبان وبیان پر صرف ہوئی ہیں ۔جن کا کلام ان کے زعم میں بے مثال اور لافانی ہے جن کی فصاحت وبلاغت کا ایک عالم میں چرچا ہے جن کی خوش بیانی اور قادر کلامی کے ڈنکے بج رہے ہیں ۔
اے وہ لوگو جن کا کلام قوموں کو عزت کی معراج تک پہنچا دیتا ہے جن کے الفاظ ذلت کی گہرائیوں میں اترنے کا سبب ہوجاتے ہیں ۔جن کے اشعار پر لوگ کٹ مرتے ہیں جن کے الفاظ کوسجدے کئے جاتے ہیں جن کی فصاحت وبلاغت پر جنگیں لڑی جاتی ہیں جن کے حسن خیال کی تصدیق پر معرکے ہوتے ہیں ۔
تم سب اگر اپنے دعؤوں میں سچے ہو تو اس کلام جیسا کلام بناکرلاؤ ۔
لیکن جواب میں خاموشی ہے کوئی مقابل نہیں ۔ اور کیسی خاموشی؟ اور کون خاموش ہے؟ شعراء خاموش ادباء خاموش وہ لوگ خاموش جن کی ادبی مہارت کی لوگ قسمیں کھاتے تھے ۔وہ لوگ خاموش جن کے کلام کو سونے کے پانی سے لکھ کر کعبے کی دیواروں سے لٹکایا جاتا تھا ۔وہ لوگ خاموش جن کا کلام بادشاہوں کے تخت الٹ دیتا تھا ۔وہ لوگ خاموش جن کے بارے میں دنیا کا دعوی تھا کہ ان کی مہارت کی کوئی نظیر نہیں ہے ۔
قرآن پھر کہتا ہے اچھا اگر انفرادی کوشش دشوار ہے ۔اگر فرد واحد کی طبیعت نہیں کھلتی اگر مضمون کی آمد وآورد کا مسئلہ ہے تو کوئی بات نہیں تم سب مل کر کلام بنالو کسی قوم کی قید نہیں کسی قبیلے کی قید نہیں کسی زمانے وعلاقے کی قید نہیں جسے چاہے بلالو ۔لبید کو پکارو جس کے شعروں پرلوگ سجدے کرتے ہیں اعشیٰ کو آواز دو جس کا کلام عزت کی معراج پرپہنچادیتا ہے یا ذلت کی پستیوں میں گرادیتا ہے ۔امرؤالقیس کے کلام سے مدد لو جو اشعرالعرب کہلاتا ہے ۔زھیر کو بلاؤجس کی فصاحت کی ایک دنیا قائل ہے عنترہ کو پکارو جس کی بداھت پردنیا دنگ ہے ۔
اچھا سارا کلام نہیں بناسکتے؟ تو دس سورتیں بنا لاؤ ۔دس سورتیں بھی نہیں بناسکتے تو ایک سورت ہی اس جیسی پیش کرو
ارے انسانوں کوجمع کرلو، جنات کوبلالو فرشتوں سے مدد طلب کرو کُہّان وعراف سے مدد مانگو ۔
پھر اپنی ساری قوتوں کوجمع کرو اپنی صلاحیتوں کو آواز دو ۔اپنی ساری توانائیاں صرف کردو زوربیان خرچ کردو، فصاحت وبلاغت کے دریا بہادو تمثیل وتشبیہ کی انتہاؤں کو چھو لو ۔
فَلْيَأْتُوا بِحَدِيثٍ مِثْلِهِ إِنْ كَانُوا صَادِقِينَ
اس جیسا ایک جملہ ایک چھوٹا سا جملہ ہی بناکر لے آؤ ۔
پر تم سب اس سے عاجز ہو اورعاجز رہو گے ۔زمانے گذر جائیں گے دن پرانے ہوجائیں گے نسلیں کی نسلیں گذریں گی قومیں فنا کے گھاٹ اترجائیں پر تم اس جیسا کلام بنانے سے عاجز رہو گے ۔عاجز جیو گے اور عاجز مرو گے کہ شعراء کے کلام کے سامنے اب ربّ الشعراء کا کلام آچکا ہے ۔