قرآن مجید کی فصاحت و بلاغت قسط نمبر 14
متنبی ایک بڑا شاعر گذرا ہے اس کا کلام ایسا فصیح وبلیغ تھا کہ ایک موقع پر اس نے نبوت کا دعوی کردیا اور معجزہ کے طور پر اپنے کلام کو پیش کیا ۔اگرچہ بعد میں اپنے اس جھوٹے دعوی سےوہ تائب ہوگیا تھا ۔لیکن اس کے دعوی سے قطع نظر اس کا کلام یقینا بے مثال تھا ۔
پھر بھی اس کا کلام چونکہ ایک انسانی کاوش تھی اس لئے اس میں بہتری کی گنجائش ملتی ہے ۔جیسے اس کا شعر ہے ۔
ان القتیل مضرجاً بدموعہ * مثل القتیل مضرجاً بدمائہ
یعنی شہید محبت شہید جنگ کی طرح ہوتا ہے۔
لیکن یہاں اگر مثل کے لفظ کو ہٹا کر فوق کا لفظ رکھ دیا جائے تو شعر کے حسن وخوبی میں چار چاند لگ جاتے ہیں
ان القتیل مضرجاً بدموعہ * فوق القتیل مضرجاً بدمائہ
شہید محبت کا مقام جنگ کے شہید سے بڑھا ہوتا ہے۔
لیکن قرآن نے لفظ ”مثل“ کو تقریباً چالیس جگہ استعمال کیا ہے۔ کسی ایک جگہ بھی اس کی جگہ کوئی دوسرا لفظ استعمال نہیں کرسکتے ۔
جن علماء نے بلاغت قرآنی پر کتب لکھیں ہیں جو عموما اعجاز القرآن کے نام سے ملتی ہیں جیسے علامہ باقلانی یا رافعی رح کی اعجاز القرآن یا علوم قرآن پر جو دیگر کتب لکھی گئی ہیں جیسے علامہ خطابی رح کی مناہل العرفان یا سیوطی رح کی الاتقان یا علامہ انورشاہ کشمیری رح کی مشکلات القرآن اور حضرت بنوری رح کا اس پر مقدمہ یتیمۃ البیان وغیرہ ان حضرات نے قرآن مجید کے الفاظ کے اعجاز کا چار طرح سے جائزہ لیا ہے ۔
- مفردات القرآن کا اعجاز
- مرکبات یعنی قرآن مجید کے جملوں کا اعجاز
- آیت کے ربط اور ترتیب میں اعجاز
- مقاصد کلام اور حقائق کلام کا اعجاز
یہ چوتھی وجہ بالخصوص علامہ انورشاہ کشمیری رح کی ذکر کردہ ہے ۔
لیکن عجیب بات ہے کہ اعجاز القرآن پر لکھی ہوئی کتب میں فنی مباحث تو بہت تفصیل سے ملتی ہیں لیکن مثالوں کا موقع آتا ہے تو ایک آدھ مثال ہی ملتی ہے ۔میں نے اس مضمون میں کوشش کی ہے کہ مختلف کتب اور تفاسیر وغیرہ سے بلاغت قرآنی کی مثالیں جمع کرکے پیش کروں ۔تاکہ قرآن مجید کے معانی کی گہرائیوں اور ان کے باریک اسرار سے واقفیت حاصل ہو سکے ۔لہذا بالترتیب ہر قسم پر گفتگو کرتے ہیں ۔
مفردات القرآن کی فصاحت وبلاغت
قرآن مجید کے مفرد الفاظ میں بھی معانی کے سمندر چھپے ہوئے ہیں ۔بعض اوقات لفظ وہی ہوتا ہے پر دوسری جگہ استعمال ہوتا ہے تو نئے معنی دیتا ہے اسے وجوہ القرآن سے تعبیر کرتے ہیں ۔جیسے الھُدی کا لفظ قرآن مجید میں سترہ معانی میں استعمال ہوا ہے اسی طرح صلاۃ، رحمۃ، سوء،فتنہ وغیرہ الفاظ متعدد معانی میں استعمال ہوئے ہیں۔
جبکہ مشکل الفاظ کی توضیح وتشریح کے لئے غریب القرآن اور مجازی معنی کی وضاحت کے لئے مجاز القرآن کے نام سے باقاعدہ کتب لکھی گئی ہیں امت محمدیۃ علی صاحبھا التحیۃ والسلام نے خدمت قرآن میں کسی گوشہ کو بھی تشنہ نہیں رہنے دیا ۔
حتی کہ اگر ایک لفظ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ایک معنی میں استعمال ہوا ہے لیکن صرف ایک جگہ کسی دوسرے معنی میں آیا ہے تو اسے افراد کہتے ہیں اس پر بھی ابن فارس رح کی کتاب ہے ۔اس میں وہ فرماتے ہیں کہ اَسف کا لفظ قرآن مجید میں جہاں کہیں بھی آیا ہے افسوس کے معنی میں ہے سوائے اس آیت کے
(فَلَمَّا آسَفُونَا انْتَقَمْنَا مِنْهُمْ)
کہ یہاں یہ غصہ دلانے کے معنی میں ہے ۔
اسی طرح بروج سے مراد قرآن مجید میں ہرجگہ ستارے ہیں سوائے اس آیت کے
وَلَؤ كُنْتُمْ فِي بُرُوجٍ مُشَيَّدَةٍ
کہ یہاں بروج سے مراد مضبوط قلعے ہیں۔ ایسی کئی مثالوں پر انہوں نے گفتگو کی ہے۔
پھر قرآن مجید نے بعض اوقات ایسے الفاظ پیش کئے جن کی نظیر اھل عرب کے کلام میں نہ تھی جیسے موت کے بارے میں اہل عرب میں اختلاف تھا بعض کہتے تھے کہ یہ سارا نظام دنیا کی حد تک ہے جب موت آتی ہے تو روح وجسم دونوں فناء ہوجاتے ہیں جبکہ ایک دوسرے طبقے کا خیال تھا کہ جسم تو فناء ہوجاتا ہے لیکن روح باقی رہتی ہے اسی لئے عرب اپنے مقتولین کا انتقام لینے کی وصیت کرتے تھے کہ ان کا خیال تھا کہ مقتول کی روح اس وقت تک پیاسی رہتی ہے جب تک اس کا انتقام نہ لے لیا جائے ۔
اس لئے انہوں نے موت کے متعلق اپنے خیالات واحساسات کے مطابق الفاظ مقرر کررکھے تھے ۔ابن سیدہ رح نے المخصص میں 28 لفظ ذکر کئے ہیں لیکن کوئی بھی موت کے صحیح مفہوم کو اداء نہیں کرتا تھا ۔اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے تُوُفِّی کا لفظ استعمال کیا جس کا مطلب ہے کسی چیز کا پورا پورا لے لینا۔آج کل ہم وفات کا جو لفظ استعمال کرتے ہیں وہ اسی سے ہے گویا اہل عرب کو بتلایا گیا کہ موت صرف فناء کا نام نہیں ہے بلکہ یہ تو اللہ کی جانب سے روح کو لے لینا ہے اور روح اور اجزاء جسم اللہ کے ہاں محفوظ ہیں جو وقت مقررہ پر دوبارہ جمع کردئیے جائیں گے ۔
اب دیکھیں ایک ہی لفظ سے کیسا وسیع مفہوم نکلتا ہے ۔
اس نکتے کی طرف حضرت علامہ کشمیری رح اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔
مفردات میں قرآن مجید وہ کلمہ اختیار فرماتا ہے جس سے اوفی بالحقیقۃ واوفی بالمقام ثقلین (جن وانس) نہیں لاسکتے مثلا جاہلیت کے اعتقاد میں موت پر توفی کا اطلاق درست نہ تھا کیونکہ ان کے اعتقاد میں نہ بقاء جسد تھی نہ بقاء روح ۔قرآن مجید نے موت پر توفی کا اطلاق کیا اور بتلایا کہ موت سے وصولیابی ہوتی ہے نہ فناءمحض۔ اس حقیقت کو کلمہ سے کشف کردیا ۔انتھی
اس کے بعد ایک اور عجیب بات فرمائی کہ اسی کلمہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ آدمی کو اب بالکل فناء کبھی بھی نہیں آئے گی کہ توفی کا مفہوم یہ ہے کہ اپنی ملکیت اور حق کو وصول کرلینا تو بندہ گویا کہ باقی رہنے والی ذات یعنی اللہ کی ملکیت میں پہنچ گیا اور باقی کی ملکیت بھی باقی رہنے والی ہوتی ہے تو کامل فناء اب بندہ کو نہیں آئے گی بلکہ قیامت میں زندہ ہونا اور پھر جنت وجھنم کی طرف جانے کا معاملہ ہوگا ۔
نیز فرمایا کہ اس میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب چاہے جس پر چاہے موت طاری کردے ۔کہ توفی کا مطلب اپنا حق پورا پورا لے لینا کہ عرب اگر گم شدہ گھوڑا صحرا میں ڈھونڈلیں تو یوں نہیں کہتے کہ توفیت الفرس بلکہ کہتے ہیں توفیت حقی یعنی میں نے اپنا حق پورا پورا لے لیا تو
گویا زندگی بندہ کے پاس امانت ہے اور صاحب حق یعنی اللہ تعالیٰ کو حق ہے کہ جب چاہے واپس لے لے۔
تفصیل کے لئے حضرت کی کتاب تحیۃ الاسلام یا حضرت بنوری رح کی یتیمۃ البیان دیکھیں ۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔