تدوینِ قرآن اور ترتیبِ خلافت

خلفاء راشدین مہدیین کی ترتیب خلافت اجماعی ہونے کے ساتھ ساتھ منطقی اور معقولی بھی ہے۔ قرآن کریم جو انسانوں کے لیے تاقیام قیامت سرچشمۂ ہدایت ہے، اس کی حفاظت کے لیے رب ذوالجلال نے غیب سے انتظامات فرماۓ ہیں۔
جوں جوں حلقۂ اسلام وسیع ہوتا گیا، اس کے تقاضوں کے مطابق خلفاء راشدین کو تکوینی طور پہ ان ضرورتوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی رہنمائی اور سہولت بہم پہنچائی جاتی رہی۔ اس زاویے سے غور کرنے سے اس شیطانی وسوسے و فساد عقیدہ کی جڑ کٹ جاتی ہے کہ خدانخواستہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے دنیاوی مفادات کے خاطر ساز باز کر کے ساداتِ اہلِ بیت کو ان کے حق خلافت بلا فصل سے محروم رکھا۔

الله جلّ مجده نے قرآن کریم کی حفاظت کا اہتمام بنفسِ نفیس فرمایا ہے۔ ارشاد ہوا:

انا نحن نزلنا الذکر و انا له لحافظون

ترجمہ: بےشک ہم نے ہی اس نصیحت کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ (سورۃ الحجر:۹)

 

اللہ سبحانہ و تعالی قادر مطلق ہیں اور کسی کے محتاج نہیں۔ اپنے ارادہ،  منشاء و رضا کی تكوين و تکمیل کے لئیے انہیں کسی کیہرگز ضرورت نہیں۔ تاہم عمومًا تمام معاملات میں اسباب کا واسطہ نظر آتا ہے۔ اس کی  ایک اہم حکمت یہ ہے کہ بنی نوعِ انسان کووحشت، ہمہ وقتی تشویش اور پریشان خیالی سے مامون رکھا جاۓ۔ انسانی پرورش و پرداخت کے لئیے دستور و قانون کے مطابق لگابندھا نظام نہایت ضروری ہے۔ عام طور پہ حوادث اور غیر معمولی واقعات و واردات ذہنی دباؤ، بے چینی اور اختلاج کا سبب بنتے ہیں۔ گو کبھی کبھار یکسانیت سے اکتاہٹ کی وجہ سے محدود و مثبت درجہ کے خوشگوار اچنبھے بھی دل کو لبھاتے ہیں۔ تاہم اگر یہ معمول بن جاۓ تو پھر زندگی کا دھارا تھم جاۓ، لوگ فکری و عملی تعطل و جمود کا شکار ہو جائیں۔

اگر میز پہ کتاب رکھتے ہوۓ ہر بار یہ سوچنا پڑے کہ ہاتھ سے چھوٹنے کے بعد آیا یہ نیچے کی طرف حرکت کرے گی یا اوپر، دائیں یا بائیں جانب، ترچھی یا سیدھی؛ کس زاویہ پہ، کس قوت سے، کتنے لمحات یا گھنٹوں کے بعد، کب تک اور کس حالت میں وغیرہ تو حیاتِانسانی نعمت سے زیادہ زحمت بن جاۓ۔

لہذا سنت اللہ ایک بڑی نعمت ہے اور اس میں تغیر و تبدل نہیں ہوتا۔ گاہے خوارق کا ظہور، اللہ کی قدرت کاملہ کے اظہار اور بنیآدم کو تنبیہ کے لئیے ہوتا ہے کہ سب کچھ اس قادر مطلق کے قبضے میں ہے۔

سنت اللہ التی فطر الناس علیھا لا تبدیل لخلق اللہ

 

اللہ جل و علا کا کلام بنی نوع انسان کی ہدایت کا سب سے بڑا سر چشمہ ہے۔ اس کی حفاظت کے لیے خصوصی انتظامات خود ربکریم نے فرماۓ اور تا قیام قیامت اس کے فیوض و علوم کو جاری و ساری رکھنے کا ذمہ لیا۔

حسب ضابطہ اپنے خاص بندوں سے یہ ارفع و اعلی خدمت لی گئی۔ چنانچہ کائنات کی سب سے افضل ہستی محمد عربی علیہ الفصلوۃ و السلام کو اس سعادتِ عظمی کے لیئے منتخب فرمایا۔ تیئیس سال تک تدریجًا اسے بندوں تک پہنچانے کا فریضہ بحسن و خوبی ادا فرما کرآئندہ اس کی تزئین و آرائش اپنے چہیتوں کے سپرد فرماگئے۔ سو ان نفوس قدسیہ نے اپنے اپنے زمانے میں حسبِ ضرورت اس کیخدمت فرمائی۔ تکوینی طور پہ جس طرح یہ کارنامہ سر انجام پایا ہے، اس میں رب ذو الحکم کی حکمتِ بالغہ بیّن طور پہ نظر آتی ہے۔

رسول مجتبی اسے باقاعدہ لکھوا کر اور کاتبین سے سن کر مصدقہ تحریر اور دس ہزار اصحابِ کرام کے سینوں میں محفوظ کروا کےدار بقا کو روانہ ہوجاتے ہیں۔

اس کے بعد سب سے پہلا مرحلہ اسے کتابی صورت میں یکجا کرنا تھا سو اس عظیم ذمہ داری کا القاء طبعی طور پہ عمر بن الخطابرضی اللہ عنہ کے قلبِ اطہر پہ ہوتا ہے کہ ان کی شان ہی یہ رہی ہے:

لَقَدْ كَان فِيما قَبْلَكُمْ مِنَ الأُممِ نَاسٌ محدَّثونَ، فَإنْ يَكُ في أُمَّتي أَحَدٌ، فإنَّهُ عُمَرُ (بخاری)

ترجمہ: تم سے پچھلی امتوں میں ایسے لوگ تھے جن پہ الہام ہوتا تھا۔ اس امت میں اگر کوئی ہیں تو وہ عمر ہیں۔

جنگ یمامہ میں قرّا و حفاظ کی ایک بڑی تعداد کی شہادت سے یہ خطرہ پیدا ہوا کہ عجمی نو مسلم قرآن کریم کی تلاوت میں مشقتاٹھا کے غلطی کے مرتکب ہو جائیں گے۔ الفاروق کی دور رس نگاہوں نے جمع القرآن کی اہمیت کو بھانپ لیا اور اسے عملی جامہ پہنانےکی مہم میں وہ بلا تاخیر سرگرم ہوگئے۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ڈھائی سالہ مدتِ خلافت میں اہم سیاسی و جنگی امور کاسلسلہ زور و شور سے جاری تھا۔ وہ ایک جانب مدعیانِ نبوت سے نبرد آزما تھے، تو دوسری سمت مانعینِ زکوۃ کی سرکوبی میںمشغول۔ مزید یہ کہ خلافت کی ذمہ داری سنبھالتے ہی جنگِ موتہ میں رومیوں سے مقابلے کے لئے بحکمِ نبوی ایک لشکرِ جرار روانہ کرچکے تھے۔ لہذا یہ بات سن کر وہ تحیر و تذبذب کا شکار ہوۓ، اس عظیم ترین ذمہ داری کا بوجھ بھی شدت سے محسوس ہوا اور دیگرہنگامی معاملات میں تمام قوت و صلاحیت کا ارتکاز بھی اس کی فوری ضرورت کے ادراک میں حائل ہوا۔ لیکن ان سب  ضمنی وجوہاتسے بڑھ کر اس تجویز کو قبول کرنے سے جو امر مانع ہوا وہ ان کی زبان سے نکلے ہوۓ بے ساختہ، سادہ اور عاشقانہ الفاظ میں ظاہرہے:

كيف أفعلُ شيئًا لم يفعله رسولُ الله -صلى الله عليه وسلم-؟ (بخاری)

کہ میں وہ کام کیسےکروں جو میرے آقا علیہ الصلوۃ و التسلیم نہ کر کے گئے!

لیکن سیدنا عمر رضی اللہ عنہ مدلل وضاحت فرماکے مصر رہے تاوقتیکہ اللہ سبحانہ و تعالی نے ثاني الثنین کو شرح صدر عطا فرمایااور یوں اس کارِ خیر کو عملی جامہ پہنانے کی سعادت خلیفۂ اوّل کے حصے میں آئی، چنانچہ آپ کے حکم پہ صحابۂ کرام علیہمالرضوان کی ایک جماعت نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی قیادت میں اس کارِ ذیشان کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔

اسلام کی حقانیت و برکات طول و عرض میں جلوہ نما ہوتی ہیں اور عوام و خواصِ عجم بھی جوق در جوق اس کے دائرۂ عافیت میںجمع ہوتے ہیں۔ ان نو واردین کی عربی زبان سے ناواقفیت یا سرسری تعلق، تلفظ و ادا میں اکثر اور فہم و نظر میں نسبتًا کمتر ، الحان وکجی کا ذریعہ بنتے محسوس ہوتے ہیں۔ اس مشکل سے امت کو بحسن و خوبی نکالنے کا قرعۂ فال خلیفۂ ثالث کے نام نکلتا ہے۔ ان کے حکم سے قران مجید کو ایک رسم الخط میںاس طرح لکھوایا جاتا ہے کہ تمام متواتر قرأتوں کی رعایت ہو جاۓ۔

ایک عشرہ گزرتا ہے اور اس سلسلہ کی آخری کڑی یعنی نقاط و اعراب لگانے کا سہرا سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کے سربندھتا ہے۔ آپ کے حکم سے ابو الاسود الدوؤلی رحمہ اللہ اس کارِ خیر کو سر انجام دینے کے لئے کمر کس لیتے ہیں۔ (سیر اعلام النبلاء*)

یوں کلام اللہ کی حفاظت کی یہ مشترکہ کاوش ایک طرف غیر عرب مسلمانوں کو لحن جلی و خفی کے ارتکاب سے مامون رکھنے کےساتھ ساتھ رب ذوالمنن کے کلام مجید کے حقوق کی رعایت کو بتمام و کمال محفوظ کر دیتی ہے؛ تو دوسری جانب امت مسلمہ کے قرنِاوّل کے حاملین کی بالغ نظری، کمالِ شعور، فراست و دور اندیشی کے جذبۂ خالص کے تحت خلفاء راشدین کے انتخاب و استصواب کیحسن ترتیب کی طرف دقیق اشارہ کر کے اسکے منشاءِ ربانی کے عین مطابق ہونے کی تصدیق کر دیتی ہے۔

اس ترتیب کا سلسلہ اتنا فطری اور معقول ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالی کی قدرت پہ ایمان پختہ تر ہو جاتا ہے کہ جس وقت جس خدمتکی ضرورت پیش آئ، اس کے مطابق رجالِ کار تیار فرمادئیے۔ یہ ترتیب خود خلافتِ راشدہ کی ترتیب کی تکوینی دلیل ہے۔ لہذا اس پہنکیر و تنقید کرنے سے باز رہنا چاہیے۔

________

حوالہ جات:

أول من قام بتنقيط الحروف وتشكيلها هو تلميذ سيدنا علي رضي الله عنه أبو الأسود الدؤلي، وكان ذلك بأمره وتعليمه كما قال ابن حجر فيترجمته لأبي الأسود: «عن المبرد قال: أول من وضع العربية ونقّط المصاحف أبو الأسود، وقد سئل أبو الأسود عمن نهج له الطريق فقال: تلقيته عن علي بن أبي طالب». (الإصابة لابن حجر ج3 ص456)

وقال أبو هلال العسكري: «أبو الأسود أول من نقط المصحف». (الأوائل للعسكري ج 1 ص 130)

محمد سليم انور

طبيب و متخصص امراض تنفس و استاذ علوم الدينيه في بريطانيه
MBBS (Dow Medical College Pakistan); FRCP -UK
Consultant Chest Physician
Harlow UK
Completion of Dawra Hadith from Islamic Dawah Academy Leicester UK
(Under the tutelage of Shaykh ul Hadith Mawlana Muhamamd Saleem Dhorat DB, Khalifah of Hadrat Mawlana Yusuf Ludhianwai RA)
Teacher of Arabic, Tfsir Jalayan, Nur ul Idaah and Mishkaat in Redbrdige Ilford UK

کل مواد : 3
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2025

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن
ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2025