قرآن مجید کی فصاحت وبلاغت قسط نمبر 11
وہ ایک ملاح تھا اس کے شب وروز پانیوں میں گذرتے تھے جب سورج طلوع ہوتا تھا تو بہتا سمندر اس کے سامنے ہوتا جب رات کا اندھیرا چھاتا تو آسمان کے تاروں اور سمندر کی موجیں مارتی لہروں کے علاوہ اور کوئی اس کا رفیق نہ ہوتا اس نے خطرناک طوفانوں کا مشاھدہ کیا تھا گھٹاٹوپ تاریکیوں میں برستی بارشوں میں موجوں کا قہر محسوس کیا تھا ایک دن اسے ایک کتاب ملی یہ مسلمانوں کی مذھبی کتاب قرآن مجید کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ تھا ۔
اس کے سامنے سورۃ نور کی ایک آیت کھلی تھی جس میں ایک منظر بیان کیا گیا تھا ۔
ان کی مثال ایسی ہے
جیسے کسی گہرے سمندر میں پھیلے ہوئے اندھیرے، کہ سمندر کو ایک موج نے ڈھانپ رکھا ہو، جس کے اوپر ایک اور موج ہو، اور اس کے اوپر بادل، غرض اوپر تلے اندھیرے ہی اندھیرے۔ اگر کوئی اپنا ہاتھ باہر نکالے تو اسے بھی نہ دیکھ پائے۔ اور جس شخص کو اللہ ہی نور عطا نہ کرے، اس کے نصیب میں کوئی نور نہیں۔(سورۃ النور 40)
وہ تمثیل کی عمدگی اور انداز بیان کی خوبی پر دنگ رہ گیا ۔اسے یقین تھا کہ محمد صلی الله عليه وسلم اس کی طرح ضرور ایک ایسے شخص ہوں گے جن کے دن ورات سمندری سفروں میں گذرتے ہوں گے ۔کہ اس منظرکو اتنی باریکی سے وہی بیان کرسکتا ہے جو اس کا بارہا مشاھدہ کرچکا ہو ۔پھر بھی وہ حیران تھا کہ یہ کس قدر فصیح کلام ہے کہ اس میں رات کے اندھیرے کا تذکرہ پھر بادلوں کی وجہ سے چھائی ہوئی اضافی تاریکی کا بیان پھر سمندر کی لہروں میں تہہ درتہہ ہونے کی وجہ سے مزید تاریکی اور پھر اس میں ڈوبتا ہوا بدحواس شخص ۔اس کا خیال تھا کہ سمندری خطرات کا کوئی بڑے سے بڑا ماہر بھی اتنے کم الفاظ میں اتنی کامیاب منظر کشی نہیں کرسکتا یہ تو کسی ایسے شخص کا بیان ہے جو خود جہاز کے عرشے پر کھڑا اس منظر کو دیکھ رہا ہو ۔پھر نہ ماننے والوں کی کوششوں کو اس ڈوبتے ہوئے پے درپے اندھیروں کی تہوں میں اترتے آدمی کی ناکام جدوجہد سے تشبیہ دینا بھی تو کمال تھا ۔اس نے انتہائی تاثر اور عقیدت سے جب محمد صلی الله عليه وسلم کے بارے میں معلومات کیں تو اس پر یہ حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ محمد صلی الله عليه وسلم نے زندگی میں کبھی سمندر کا سفر نہیں کیا تھا ۔اور ان کا تعلق اس دور سے تھا جب سمندر کے تہہ در تہہ اندھیروں سے لوگ بالکل ناواقف تھے ۔
اس نے اسلام قبول کرلیا کہ وہ سمجھ گیا تھا یہ محمد صلی الله عليه وسلم کی آواز نہیں ہے ۔یہ تو اس علامّ الغیوب کی آواز ہے جس سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں ہے ۔روشنی اور تاریکی اس کے لئے برابر ہے ۔زمان ومکان میں سے کوئی بھی اس کے دائرہ قدرت سے باہر نہیں ہے ۔
موریس بوکائلے اسپین کے ایک بڑے ڈاکٹر تھے وہ اس پینل میں شامل تھے جس نے فرعون رعمیسس ثانی جس کا اصل نام منفتاح تھا کے حنوط شدہ جسم کا معائنہ کیا تھا ۔یہ وہ فرعون تھا جو موسی علیہ السلام کے مقابلے میں تھا ۔جب بحر قلزم میں یہ اپنے لشکر سمیت غرق ہوگیا تو سمندر نے اللہ کے حکم سے اس کی نعش کنارے پر ڈال دی تاکہ یہ بعد والوں کے لئے عبرت کا نشان بن جائے ۔بنی اسرائیل تو اس کے انجام سے عبرت حاصل کرتے ہوئے صحرائے سینا کی طرف بڑھ گئے ۔پیچھے مصریوں کو اس واقعے کی اطلاع ملی تو پورے مصر میں سوگ طاری ہوگیا ۔ان کا وہ بادشاہ جو اپنے آپ کو رب کہتا تھا عبرتناک انجام کو پہنچ چکا تھا ۔مصریوں نے اس کی نعش کو اٹھایا حنوط کرنے والی ادویہ لگائیں اور خاموشی سے اسے ایک قدیم فرعون آمن ہیتب ثانی کے مقبرے میں دفن کردیا ۔
دیگر ممیوں کے ساتھی اس فرعون کی لاش بھی کئی سو سال تک اس مقبرے میں محفوظ رہی ۔یہاں تک کہ 18 71 ء آگیا اور پرانے مقابر سے چیزیں چرانے والے ایک شخص کو جس کا نام احمد عبدالرسول تھا ایک راستہ ملا جو فراعین کے مقبرے تک جاتا تھا ۔اس آدمی کی وہاں کھدائی کی کوششیں جلد حکومت کے علم میں آگئیں اور حکومت نے خود کھدائی شروع کی تو دیگر تیرہ ممیوں کے ساتھ لکڑی کا ایک تابوت برآمد ہوا جس پر لکھی عبارت سے معلوم ہوتا تھا یہ رعمسیس ثانی کا تابوت ہے ۔
۔ اس کے باوجود آثار قدیمہ کے بعض ماہرین کو اس میں شک ہوا کہ نعش واقعی فرعون کی ہے یا نہیں؟ آخر تابوت کا ڈھکنا الگ کیا گیا۔ اور نعش کے اوپر والے کپڑے کو ہٹایا گیا تو اصل کفن جس نے نعش کا سینہ ڈھانپ رکھا تھا، اس پر روشنائی سے نمایاں طور پر ’’رعمیسس دوم‘‘کا نام لکھا ہوا پایا گیا، اس موقع پر خدیو مصر توفیق پاشا موقع پر موجود تھا ۔اس طرح فرعون کی وہ لاش دوبارہ ظاہر ہوگئی جس کے جسم کی حفاظت کا قرآن نے تذکرہ کیا تھا ۔
مصری حکومت نے ممیوں کے معائنے کے لئے جن ڈاکٹرز کو مختلف ممالک سے بلایا ان میں موریس بوکائلے بھی شامل تھے ۔انہوں نے جب ان ممیوں کا معائنہ کیا تو ان پر یہ حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ فرعون منفتاح کی ممی پر سمندری نمک کی تہہ جمی ہے اور پانی میں ڈوبنے کے نشانات ہیں ۔جبکہ دیگر ممیوں پر ایسا کوئی نشان نہ تھا ۔انہوں نے جب یہ رپورٹ دی کہ اس فرعون کی موت پانی میں ڈوبنے سے ہوئی ہے تو کسی نے بتایا کہ اس کا تذکرہ مسلمانوں کی کتاب قرآن مجید میں موجود ہے ۔وہ قرآن مجید میں یہ آیت دیکھ کر حیران رہ گئے .
فَالۡیَوۡمَ نُنَجِّیۡکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوۡنَ لِمَنۡ خَلۡفَکَ اٰیَۃً ؕ وَ اِنَّ کَثِیۡرًا مِّنَ النَّاسِ عَنۡ اٰیٰتِنَا لَغٰفِلُوۡنَ
ترجمہ:
لہذا آج ہم تیرے ( صرف) جسم کو بچائیں گے تاکہ تو اپنے بعد کے لوگوں کے لیے عبرت کا نشان بن جائے۔ (٣٦) (کیونکہ) بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے غافل بنے ہوئے ہیں۔
انہوں نے اسلام قبول کرلیا اور بائبل سائنس اور قرآن کے نام سے ایک کتاب لکھی
کہ وہ فرعون جو اپنے آپ کو رب کہتا تھا آج بیچارگی کی تصویر بنا ان کے سامنے تھا ۔اس کی حالت پکار پکار کرکہہ رہی تھی کہ مجھے دیکھو اور میرے حال سے عبرت حاصل کرو ۔وہ میں ہی ہوں جس نے کہا تھا انا ربکم الاعلی لیکن دیکھ لو میں رب نہیں ہوں اور نہ کبھی تھا بلکہ رب تو وہ ذات ہے جس کا کلام میرے مجسم عبرت ہونے کا اعلان چودہ سو سال پہلے کرچکا ہے ۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔