قرآن مجید کی فصاحت وبلاغت قسط نمبر 6
حارث بن حلّزہ کا واقعہ پیچھے گذرا کہ کیسے اس نے فی البدیہہ قصیدہ کہہ کر بادشاہ اور اس کے درباریوں کی رائے اپنے حق میں کرلی تھی ۔
دوسرے قبیلے کا سردار بھی نامور شاعر عمرو بن کلثوم تھا وہ اس وقت تو کچھ نہ کرسکا اور غصہ میں وہاں سے چلا گیا
لیکن بعد میں اس نے ایک واقعہ پر مشتعل ہوکر بادشاہ کو مار ڈالا اور اس نے بھی اپنی قوم کی شان میں ایک زبردست قصیدہ کہا یہ قصیدہ قومی فخر میں عظیم الشان مقام رکھتا ہے یہ بھی سبع المعلقات میں شامل ہے ۔سبع المعلقات سے مراد وہ سات قصیدے ہیں جو بے نظیر سمجھے جاتے تھے اور سونے کے پانی سے لکھ کر کعبے کی دیواروں پر لٹکائے گئے تھے ۔عمرو بن کلثوم اس قصیدہ میں کہتا ہے ۔
اذا بلغ الفطام لنا صبی ** تخر لہ الجبابر ساجدینا
یعنی ہم اتنے معزز اور شان وشوکت والے لوگ ہیں کہ جب ہمارا بچہ دودھ چھوڑنے کی عمر کو پہنچتا ہے تو بڑے بڑے جابر لوگ اس کے سامنے سجدے میں گر پڑتے ہیں ۔
قیروانی نے اپنی کتاب العمدہ میں لکھا ہے کہ جب کسی عرب قبیلے میں کوئی شاعر ظاہر ہوتا تھا تو دیگر قبائل کے لوگ مبارکباد دینے کے لئے آتے تھے اور عورتیں ایسے جمع ہوکر خوشی مناتی تھیں جیسے شادیوں میں خوشیاں منائی جاتی ہیں ۔کہ شاعر کسی بھی قبیلے کی زبان ہوتا تھا اس لئے مختلف قبائل کو اپنی ناموری اور شہرت کے لئے شعراء کی ضرورت رہتی تھی ۔کہ شعراء کی تعریف جہاں کسی کو معزز ومشہور کردیتی تھی وہاں ان کی ھجو ذلیل وخوار کردیا کرتی تھی مشہور شاعر طرفۃ بن العبد کے عین شباب میں قتل کی وجہ یہی تھی کہ اس نے بادشاہ کی ھجو کردی اور بادشاہ نے ذلت محسوس کی تو اسے قتل کروادیا ۔
بعض اوقات مختلف شعراء جب ایک دوسرے کے خلاف شعر کہتے تھے تو دونوں کا کلام اس قدر شاندار ہوتا تھا کہ یہ فیصلہ دشوار ہوجاتا تھا کہ کس کے کلام کو ترجیح دی جائے ۔اس کی سب سے بڑی مثال دور بنی امیہ کے شعراء میں سے جریر اور فرزدق کا ایک دوسرے کے مقابلے میں کلام ہے یہ دونوں ایک دوسرے کی ھجو اور اپنی قوم کی مدح میں تقریبا دس سال تک شعر کہتے رہے ان دونوں کا کلام اسقدر شاندار تھا کہ صدیاں گذر گئیں آج تک فیصلہ نہیں ہوسکا کہ جریر غالب رہا یا فرزدق ۔اس دور کے شعراء ادباء اور حتی کہ عوام بھی دو حصوں میں تقسیم ہوگئے جریر کے حمایتیوں کو جریری اور فرزدق کے حمایتیوں کو فرزدقی کہا جاتا تھا شیخ مصطفی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ لوگوں میں ان کے کلام کا اسقدر تذکرہ اور جنون تھا کہ آدھی رات کو جریر کا کوئی حمایتی اٹھتا اور خیموں کے درمیان آکر اس کا کلام پڑھتا ۔دوسری جانب کوئی فرزدقی اٹھتا اور شعروں میں جواب دیتا ۔صرف عوام ہی نہیں شعراء بھی ان دونوں کی حمایت میں برسرپیکار تھے مشہور شاعر اخطل فرزدق کا حامی تھا اسی طرح الاحوص وغیرہ ادھر بشار المرعث المفضل وغیرہ جریر کے طرفدار تھے ۔
ایک بڑے شاعر کو فیصلہ کے لئے بلایا گیا اس نے بہت غور وخوض کے بعد یہ کہا فرزدق کا کلام مضبوط چٹان کی طرح ہے اور جریر کا کلام بہتے ہوئے چشمے جیسا ہے ۔گویا وہ بھی کوئی حتمی فیصلہ نہ کرسکا اور دونوں کی ہی تعریف کرگیا ۔ان کی اس شاعری نے فن شعر میں ایک نئی صنف کی بنیاد رکھ دی جسے النقائض کہتے ہیں یہ آج کل باقاعدہ کتابی شکل میں چھپے ہوئے ملتے ہیں ۔میں نے اس پر محمد بن مثنی التمیمی کی ایک کتاب دیکھی تھی ۔
اس سارے کلام سے اصل میں یہ بتانا مقصود تھا کہ عرب معاشرے میں زبان وبیان کی کسقدر اہمیت ورواج تھااور ان میں کیسے کیسے ماہرین لسان پائے جاتے تھے جن کے کلام کی ایک دنیا میں شہرت تھی ۔جن کے شعروں پر لوگ سجدے میں گرپڑتے تھے جن کی عزت نفس کسی چیلنج کی رودار نہ تھی کہ ان کی نظر میں اور دنیا کی نظر میں بھی ان جیسا کوئی نہ تھا ۔
جاری ہے ۔۔۔۔