قرآن مجید کی فصاحت وبلاغت قسط نمبر 15
قرآن مجید کا ہر لفظ معجز ہے ۔اس کے ہر ہر لفظ میں معانی ومفاھیم کے سمندر موجود ہیں ۔البتہ اتنا ضرور ہے کہ بعض الفاظ کی فصاحت وبلاغت واضح اور عام فھم ہے اور بعض کی مخفی اور مشکل الادراک ہے ۔عجیب بات یہ ہے کہ مفسرین نے عموما جملوں کی فصاحت پر گفتگو کی ہے ۔مفردات کے اعجاز پر گفتگو نہ ہونے کے برابر ہے اور یہ صرف میرا خیال نہیں ہے بلکہ حضرت بنوری رحمہ الله نے یتیمۃ البیان میں بھی یہی رائے ظاہر کی ہے ۔میں ایک عرصہ دراز تک دشت کتب کی خاک چھاننے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ اگر بلاغت کے اسرار ورموز جاننے ہیں تو اس کے لئے کسی ایک آدھ تفسیر یا لغت کی کتاب کا مطالعہ کافی نہ ہوگا ۔لہذا اب میں جو آپ کے سامنے رکھتا ہوں بظاہر یہ ایک دو لفظوں کے گرد ہونے والی گفتگو ہے لیکن درحقیقت ان کے پیچھے سینکڑوں بلکہ ھزاروں صفحات پر مشتمل تلاش و جستجو ہے ۔
اللہ تعالیٰ سورہ بقرہ کی پہلی آیت میں قرآن مجید کے شک وشبہ سے پاک ہونے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں لا رَیْبَ فیه اب یہاں لفظ ریب استعمال کیا ہے یہاں یہ بھی کہاجاسکتا تھا لاشک فیه یا لاشبھة فيه تو ریب کا لفظ کیوں استعمال کیا؟
تو شبهۃ تو کہتے ہیں کے دوچیزیں رنگ وروپ یا وصف میں ایک جیسی ہوں جس کی وجہ سے پہچان دشوار ہو اور معاملہ خلط ملط ہونے لگے تو اس کے لئے شبھۃ کا لفظ استعمال ہوتا ہے اب یہاں معاملہ التباس یا خلط ملط کا نہ تھا بلکہ کفار کو قرآن کی حقانیت اور منجانب اللہ ہونے میں شک تھا اس لیے شبھۃ کے لفظ کا تو یہ محل ہی نہ تھا ۔
البتہ شک کا لفظ یہاں استعمال کیا جاسکتا تھا بلکہ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دیگر مقامات پر قرآن مجید میں شک وشبہ کا مفہوم بتانے کے لئے شک کا لفظ استعمال کیا ہے ۔جیسے وانھم لفی شک منہ مریب یا وان کنت فی شک مما انزلنا وغیرہ آیات ہیں ۔تو یہاں ریب کا لفظ کیوں استعمال کیا گیا اور وہاں شک کا لفظ کیوں استعمال ہوا ۔اس کو سمجھنے کے لئے شک اور ریب کی حقیقت اور ان میں فرق کو سمجھنا ضروری ہے ۔
شک کہتے ہیں کہ جن دو چیزوں میں شک ہے وہ دونوں جانبیں شک کرنے والے کے نزدیک بالکل برابر ہوں اور وہ ان دونوں میں سے کسی بھی ایک جانب کو اختیار کرنے اور ترجیح دینے کے قابل نہ ہو ۔اگر اس کا خیال کسی ایک جانب راجح ہوجائے تو پھر وہ شک نہیں رہتا بلکہ جس جانب خیال راجح ہوگیا اسے ظن اور دوسری جانب کو وھم کہتے ہیں ۔
اھل لغت کے نزدیک شک کے لفظ کا اصل معنی تداخل یعنی ایک دوسرے میں داخل ہونا ہے ۔عرب کہتے ہیں شککته بالرمح یعنی میں نے نیزہ اس کے جسم میں داخل کردیا۔ اب یہاں بھی شک کرنے والا گویا کہ ایسے مقام میں داخل کردیا گیا جہاں اس کو دونوں صورتوں میں سے کونسی صورت ہے ۔اور کونسی جانب کو اختیار کرے اور کس کو چھوڑے یہ فیصلہ کرنا دشوار ہوگیا لہذا اسے بھی شک کہا جانے لگا ۔
ریب کا لفظ ریب المنون سے نکلا ہے ۔المنون زمانے کو کہتے ہیں اور ریب سے مراد حادثات و مصائب تو زمانے کے حوادث کو بنیادی طور پر ریب کہتے تھے پھر چونکہ ان حادثات ومصائب سے طبیعت میں قلق و اضطراب اور شک پیدا ہوتا ہے ۔اور بعض اوقات مسبب کا نام سبب پر رکھ دیتے ہیں تو شک واضطراب کو ریب کہا جانے لگا ۔
پھر ریب کے بارے میں بعض حضرات کا خیال تھا کہ اس میں اور شک میں کوئی فرق نہیں ہے ۔
جب کہ محققین جیسے علامہ علامہ رازی ،ابوحیان ،العسکری ۔ابن القیم رح وغیرہ نے مثالوں سے ثابت کیا کہ ان میں فرق ہے ۔
بعض حضرات نے لکھا ہے کہ ریب کا مرتبہ شک سے کم ہے ۔وھم اور التباس کو ریب کہتے ہیں ۔اس صورت میں تو بات واضح ہے کہ جب ادنی کی نفی کردی جائے تو اعلی کی نفی خودبخود ہوجاتی ہے ۔گویا آیت میں یہ کہا جارہا ہے کہ یہ ایسی کتاب ہے جس میں شک تو کیا وھم کی بھی گنجائش نہیں ہے ۔
ابوحیان رح لکھتے ہیں کہ ریب اس شک کو کہتے ہیں جو تھمت کے ساتھ ہو ۔یعنی اس میں مخاطب پر شک کیساتھ ساتھ کوئی الزام اور تہمت لگائی جارہی ہو ۔اسی طرح علامہ رازی رح لکھتے ہیں اصل میں ریب اس شک کو کہتے ہیں جس کی بنیاد بدگمانی پر ہو ۔
اسی وجہ سے اگر کسی کو سورج کے نکلنے میں یا بارش کے ہونے نہ ہونے میں شک ہو تو اسے مرتاب نہیں کہتے کہ وہاں بدگمانی اور تہمت نہیں پائی جارہی ۔
اب غور کیجئے کہ کفار کو قرآن مجید کے منجانب اللہ ہونے میں صرف شک نہ تھا بلکہ وہ نبی اکرم صلی الله عليه وسلم پر اس بات کی تہمت لگاتے تھے کہ اسے نبی کریم صلی الله عليه وسلم نے خود سے گھڑ لیا ہے ۔جسے قرآن مجید نے بل افتراہ کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے ۔اس لئے اللہ تعالیٰ اس شک وتہمت کی نفی فرماتے ہوئے لاریب کا لفظ استعمال فرماتے ہیں کہ قرآن مجید ان شکوک واتہامات کا محل نہیں ہے ۔
علامہ ابن قیم رحمہ الله نے بدائع الفوائد میں ریب اور شک میں چھ وجوہ سے فرق ذکر کیا ہے ۔ان کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ ریب اصل میں اس قلق، بے چینی اور اضطراب کو کہتے ہیں جو اطمینان قلب کی ضد ہے ۔جیسے نبی اکرم صلی الله عليه وسلم اور آپ کے صحابہ حالت احرام میں ایک ھرن کے پاس سے گذرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ما یریبه احد کوئی بھی اسے بے چین اور مضطرب نہ کرے اب یہاں مایشکه احد کوئی اسے شک میں نہ ڈالے کہنا درست نہ ہوتا ۔اسی طرح کہا جاتا ہے رابنی مجئیه وذهابه اس کے آنے جانے نے مجھے مضطرب کردیا ۔اب یہاں شککنی کہنا درست نہیں ہے.
وہ مزید لکھتے ہیں کہ شک کی ابتداء بے چینی سے ہوتی ہے لہذا ریب شک کے لئے مبداء (جس سے ابتداء ہو) کی حیثیت رکھتا ہے جیسے علم یقین کے لئے مبداء کی حیثیت رکھتا ہے ۔انتھی ۔
پھر چونکہ تہمت لگانے والے کے دل میں بے چینی کی کیفیت غالب ہوتی ہے اس لئے اس شک کو جس کے ساتھ بدگمانی اور تہمت جمع ہوجائے ریب کہا جانے لگا ۔
اس پورے مفہوم کو سامنے رکھا جائے تو دیگر آیات کا مفھوم واضح ہوجاتا ہے ۔
جیسے جب نبی کریم صلی الله عليه وسلم کو مخاطب کیا تو فرمایا کہ اگر آپ (بفرض محال) اس کتاب کے بارے میں شک میں ہیں تو ان لوگوں سے پوچھ لیجئے جو آپ سے پہلے کتاب پڑھتے ہیں ۔اب یہاں شک کا لفظ استعمال کیا ریب کا نہیں کہ مخاطب نبی کریم صلی الله عليه وسلم ہیں اور نبی تردد اور حیرت میں تو ہوسکتا ہے لیکن بدگمانی اور اتہام کا شکار نہیں ہوا کرتا ۔جبکہ کفار کی بدگمانی اور تہمت سازی واضح ہے تو ان کے لئے ریب کا لفظ استعمال فرمایا ۔
نیز یہ جو فرمایا وانھم لفی شک منہ مریب اس پر جو سؤال پیدا ہوتا ہے کہ ایک چیز کو اس کی اپنی ذات کے لئے وصف کے طور پر نہیں لاسکتے اور یہاں مریب کو شک کے وصف کے طور پر لائے ہیں ۔گذشتہ مفہوم کو سامنے رکھیں اور آپ سمجھ جائیں گے کہ یہاں کہا جارہا ہے کہ ان کا شک ایسا ہے کہ جو ان کے دلوں میں قلق واضطراب پیدا کرتا رہے گا یہاں تک کے وہ تہمت لگانے کے درجے کو پہنچ جائیں گے ۔