قرآن مجید کی فصاحت وبلاغت قسط نمبر 5
عرب معاشرے پر شعراء کے اثرات
نیلی آنکھوں والی اس عورت کا اصل نام سُعاد تھا پر بسوس کے نام سے مشہور تھی یہ عورت زبردست شاعرہ تھی ۔ایک دفعہ یہ اپنی بہن کے پاس بطور مہمان گئی ایک پڑوسی بھی ہمراہ تھا جس کے پاس ایک اونٹنی تھی جسے سراب کہا جاتا تھا۔جب یہ لوگ وہاں جا کر ٹھہرے تو اونٹنی کھل گئی اور چرتے ہوئے کچھ فاصلے پر موجود ایک چراگاہ کی طرف چلی گئی یہ چراگاہ کلیب نامی شخص کی تھی یہ شخص قبیلہ تغلب کا سردار تھا اور بڑا معزز ومتکبر شخص تھا ۔عام خیال یہ تھا کہ کوئی اونٹ اس کے اونٹوں کے ساتھ نہیں چرسکتا اور کوئی شخص اس کی آگ کیساتھ آگ نہیں جلا سکتا ۔اھل عرب کے ہاں اس شخص کی اتنی عزت تھی کہ ان کے نزدیک کسی کو انتہائی معزز قرار دینا ہو تو اعزّ من کلیب کہتے تھے یعنی کلیب سے بھی زیادہ عزت والا ۔گویا اس کی عزت ضرب المثل تھی ۔اب اس نے دیکھا کہ ایک اجنبی اونٹنی بلااجازت اس کی چراگاہ میں چر رہی ہے تو اس نے فورا اسے تیر مارا جو اس کے تھنوں میں لگا اور اونٹنی اس حال میں ڈکراتی ہوئی واپس آئی کہ اس کے تھنوں سے خون اور دودھ بہہ رہا تھا ۔اونٹنی کے مالک نے دیکھا تو فورا بسوس کو اطلاع دی اس پر بسوس نے کہا ہائے رسوائی ہائے مسافرت پھر چند شعر پڑھے عرب ان اشعار کو ابیات الفناء کہتے ہیں یعنی موت کے اشعار کہ ان اشعار نے ہزاروں لوگوں کی جان لے لی ۔
ان اشعار کا خلاصہ یہ تھا کہ اگر میں اپنے علاقے میں ہوتی تو میرے پڑوسی کو تکلیف پہنچانے کی کسی کو جرآت نہ ہوتی ۔اب میں ایسی قوم میں ہوں جن کو پڑوسیوں کے حقوق کا کوئی خیال نہیں ہے وغیرہ یہ ایسے اشعار تھے جو اہل قبیلہ کی حمیت وغیرت پر ایک تازیانے کی حیثیت رکھتے تھے لہذا بسوس کے بھانجے جساس بن مرۃ نے جوش میں آکر کلیب کو قتل کرڈالا ۔اور کلیب کی قوم بدلے کی طالب ہوئی تو تغلب اور بکر بن وائل میں جنگ چھڑ گئی حرب البسوس نامی یہ جنگ چالیس سال تک چلتی رہی دونوں جانب کے شعراء اپنے کلام سے جنگ کو بھڑکاتے رہے اور اس دوران ہزاروں لوگ مارے گئے ۔گھرانے اجڑگئے مکانات کھنڈروں میں تبدیل ہوگئے علاقے ویران ہوگئے ۔
یہ واقعہ عرب معاشرے پر شعراء کے کلام کے اثر کی ایک مثال ہے کہ ایک عورت کے اشعار پوری قوم کی ہلاکت کا سبب بن جاتے ہیں ۔
عربوں کے ہاں کسی قوم یا فرد کی عزت وذلت کا معیارہی شعراء کا کلام تھا ۔کسی قوم کے بارے میں شاعر تعریفی کلمات کہہ دیتا تو وہ قوم معزز شمار ہونے لگتی اور کسی قوم کی ہجو کردیتا تو وہ ذلیل سمجھی جانے لگتی ۔شعراء کے کلام کی وقعت ان کے ہاں وحی الہی سے کم نہ تھی اس لیے کسی قوم میں کسی اچھے شاعر کا ہونا انتہائی باعث فخر ہوتا تھا اور اگر کوئی شاعر نہ ہوتا تو قوم والے کوشش کرتے تھے کہ کس شاعر کو خوش کرکے کچھ تعریفی کلمات کہلوالیے جائیں تاکہ ہماری معاشرے میں عزت قائم رہے ۔گویا شعراء کو اس دور میں وہی حیثیت حاصل تھی جو آج کل میڈیا کو ہے ۔بلکہ اس سے بہت بڑھ کر کہ شاعر کے کلام کی تردید کی صرف ایک ہی صورت تھی اور وہ یہ کہ اس سے بڑا شاعر زیادہ فصیح الفاظ میں اس کے مقابلہ میں شعر کہہ دے ۔
عرب کا ایک قبیلہ بنوالانف نام کا تھا جس کا مطلب بنتا ہے ناک والے تو یہ لوگ اپنے قبیلے کا نام بتاتے ہوئے شرماتے تھے ۔ہماری زبان میں کہا جائے تو ناکو بنتا ہے تو اب کسی کا نام ناکو ہو تو ظاہر ہے وہ بتاتے ہوئے کوئی فخر محسوس نہیں کرے گا ۔یہ لوگ عربوں میں انتہائی کم درجے کے سمجھے جاتے تھے ۔ایک دفعہ ان کے قبیلے کے پاس سے مشہور شاعر عرب اعشیٰ کا گذر ہوا قبیلے والوں نے مشورہ کیا کہ کسی طرح اسے خوش کرکے کچھ شعر کہلوا لو تاکہ ہماری بھی کچھ عزت ہونے لگے ۔اہل قبیلہ اس کے پاس آئے اور بڑی لجاجت سے درخواست کی کہ وہ ان کے پاس کچھ دن مہمان کے طور پر ٹھہر جائے ۔جب اعشیٰ قبیلہ میں پہنچا تو سارے قبیلے نے اس کے اعزاز واکرام میں دن رات ایک کردیا یہاں تک کہ اعشیٰ نے ایک قصیدہ کہا جس میں اس قبیلے کی تعریف کرتے ہوئے کہا ھم الانف والاذناب غیرھم کہ یہ لوگ تو عرب کی ناک ہیں اور باقی تو ان کے مقابلے میں دم کی طرح ہیں ۔اب ناک کا لفظ عزت کی انتہاء کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے کہ اردو میں بھی جب بے عزتی بتانا مقصود ہو تو کہتے ہیں میری تو ناک کٹ گئی تو شاعر نے عزت والے معنی مراد لیتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ تو اسقدر معزز ہیں کہ گویا عرب کی ناک کی حیثیت رکھتے ہیں اور باقی لوگ تو دم کی مانند ہیں ۔
اعشیٰ کوئی معمولی شاعر نہ تھا اس کا کلام جنگل کی آگ کی طرح پھیلتا تھا ۔چند ہی دنوں میں عرب کے بچے بچے کی زبان پر تھا ھم الانف والاذناب غیرھم
اور یہ قبیلہ جو انتہائی کمتر سمجھا جاتا تھا اب انتہائی معزز شمار ہونے لگا جو لوگ اپنا نام بتاتے ہوئے شرماتے تھے اب وہ فخر سے کہتے کہ ہم بنو الانف ہیں جن کے بارے میں اعشی کہتا ہے ھم الانف والاذناب غیرھم.
اسی اعشی کا اسی طرح کا ایک اور واقعہ ہے جو بہت مشہور ہے اور تاریخ کی کتب میں کثرت سے ملتا ہے وہ یہ کہ محلقّ کلابی نام کا ایک شخص بہت فقیر آدمی تھا اس کی تین یا بعض کے بقول سات بیٹیاں تھیں اور غربت کی وجہ سے ان سے کوئی رشتہ کے لئے تیار نہیں ہوتا تھا ۔اعشی عکاظ کے میلہ میں شرکت کے لئے آیا یہ عکاظ کا میلہ شعراء کے ایک طرح سے اجتماع کا موقع ہوتا تھا جس میں شعراء شرکت کرکے اپنا کلام پیش کرتے تھے اور مشہور شاعر عرب نابغہ ذبیانی اور دیگر بڑے شعراء فیصلہ کرتے تھے ۔
تو اس محلق کلابی کے قبیلے کے پاس ایک پانی تھا وہاں آکر ٹھہرا تو محلق کی پھوپھی اس کے پاس آئی اور اسے کہا موقع اچھا ہے اعشیٰ کی خدمت کرکے کچھ کہلوا لو عربوں میں معزز ہوجاؤ گے اس نے کہا میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے سوائے دو عمدہ چادروں کے جو مجھے باپ کی میراث میں ملی ہیں اور اس اونٹنی کے جس کے دودھ کے میں اور میرے بچے بہت محتاج ہیں ۔اس کی پھوپھی نے اسے کہا اگر اعشیٰ نے تیری تعریف کردی تو عزت کیساتھ مال ودولت کی بھی بارش ہوگی ۔وہ آدمی شش وپنج میں رہا حتی کہ اعشیٰ وہاں سے کوچ کرگیا اس کی پھوپھی کو علم ہوا تو وہ انتہائی رنجیدہ ہوئی اور کہا یہ آخری موقع تھا جو تو نے ضائع کردیا اس پر محلق نے ایک تاجر سے شراب کا ایک مشکیزہ قرض لیا اور وہ اونٹنی اور چادریں دے کر ایک غلام کو اعشی کے پیچھے بھیجا کہ آپ ہمارے علاقے میں آئے تھے افسوس کہ میں اس وقت وہاں نہ تھا اس لئے مہمان نوازی نہ کرسکا براہ کرم اب یہ قبول فرمالیجئے ۔
اعشیٰ نے کہا اسے کہنا تمہارا ہدیہ ہم تک پہنچ گیا اور جلد ہی ہماری توصیف وتعریف تم تک پہنچ جائے گی ۔یہ کہہ کر اعشیٰ اپنے وطن روانہ ہوگیا ۔محلق کلابی اب بالکل مفلس اور خالی ہاتھ تھا قرض اتارنے کے لئے رقم تک نہ تھی ۔کہ اچانک جیسے سیلاب کا پانی تیزی سے کسی جگہ داخل ہوتا ہے یا جنگل کی آگ علاقے کو گھیر لیتی ہے ایسے اس کی شہرت عرب کے کونے کونے تک پھیل گئی ۔اس کی مہمان نوازی کے ہر طرف چرچے تھے اس کی سخاوت ضرب المثل ہو گئی تھی ۔اگلے سال عکاظ کے میلے کا وقت آنے سے پہلے ہی اس کی تمام بیٹیوں کا رشتہ ہوچکا تھا اور کسی کا مہر بھی سو اونٹوں سے کم نہیں تھا ۔کہ اعشیٰ جسے لوگ صنّاجۃ العرب کہتے تھے اپنا وعدہ پورا کرچکا تھا ۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔