قرآن مجید کی فصاحت وبلاغت قسط نمبر13

 

جس تقریر کی بنیاد پر میں نے یہ مضمون لکھنا شروع کیا تھا اس میں تو تقریبا یہی کچھ تھا جو گذشتہ اقساط میں ذکر کیا جاچکا ۔لیکن اصل مضمون جو عنوان میں ذکر کیا گیا تھا یعنی قرآن مجید کی فصاحت وبلاغت اس پر تو درحقیقت ابھی تک گفتگو ہی نہیں ہوئی ۔اور اب ان شاء الله ہوگی اور خوب ہوگی کہ قرآن مجید کے مفردات میں فصاحت وبلاغت کے کون کون سے مضامین پوشیدہ ہیں اس کے جملوں میں ادب وبیان کے کون سے اسرار ورموز پنہاں ہیں  الفاظ کی مناسبت جملوں کی ترتیب کے پیچھے ایک جہانِ معانی ہے جس پر مطلع ہونے سے ایک عاشق قرآن کی طبیعت لطف اٹھاتی ہے ایک طالب علم کی پیاس کو تسکین پہنچتی ہے

قرآن مجید کی فصاحت وبلاغت

 علم البلاغۃ کے ماہرین کہتے ہیں فصاحت کلام کا تعلق الفاظ کے ساتھ ہے  کہ الفاظ کی ادائیگی عیوب سے خالی اور محاسن کو جامع ہو جبکہ بلاغت کا تعلق معانی کے ساتھ ہے تو جو کلام ظاھری اور باطنی دونوں طرح کی خوبیوں سے متصف ہو اسے ہی فصیح وبلیغ کہا جاسکتا ہے ۔

جن خرابیوں کی وجہ سے کلام کی فصاحت میں خلل پڑتا ہے ان میں  سے ایک بڑی خرابی تنافر الحروف یا تنافر الکلمات ہے یعنی کوئی آدمی کلام میں ایسے حروف یا الفاظ استعمال کرے جن کا اداء کرنا دشوار محسوس ہو اور زبان ان کلمات کو بولنے میں دقت محسوس کرے جیسے ایک اعرابی سے کسی نے پوچھا تمہاری اونٹنی کہاں ہے؟  تو اس نے جواب میں کہا تركتها ترعى الهُعْخُعَ یعنی میں نے اسے ھعخع گھاس کھانے کے لئے چھوڑا ہے ۔اب الھعخع کا تلفظ کرکے دیکھیں کتنا دشوار محسوس ہوگا ۔اور یہ تنافر ایک جیسے اور قریب المخرج الفاظ کے استعمال کی وجہ سے بھی پیدا ہوجاتا ہے ۔

مثلا شاعر کا قول ہے

وقَبْرُ حَرْبٍ بِمَكَانِ قَفْرٍ  *** وَلَيْسَ قُرْب قَبْرِ حَرْبٍ قَبْرُ

یعنی حرب نامی شخص کی قبر ایک ویران مقام پر ہے ۔۔۔اور حرب کی قبر کے قریب دوسری کوئی قبر نہیں ہے ۔

اب اس شعر میں قاف اور باء کا استعمال پے درپے ہوا ہے جس کی وجہ سے کلام میں بوجھل پن اور ادائیگی میں دشواری پیدا ہوگئی ہے ۔

اب اگر قرآن مجید میں دیکھیں تو ایسے مقامات قرآن مجید میں بھی ملیں گے جہاں ایک جیسے حروف یا قریب المخرج حروف اکٹھے استعمال ہوئے ہیں لیکن کہیں ادائیگی میں کوئی دشواری محسوس نہیں ہوتی ۔عرب پڑھتے ہیں عجم پڑھتے ہیں ۔مصر کے تپتے صحراؤں میں پڑھا جاتا ہے افریقہ کے گھنے جنگلات میں لوگ پڑھتے ہیں پر کسی کو پڑھنے میں دشواری محسوس نہیں ہوتی کہ یہ قرآن کی فصاحت ہے ۔چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں ۔

سورۃ المائدہ میں اللہ تعالیٰ آدم علیہ السلام کے بیٹوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔

وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الآخَرِ قَالَ لأقْتُلَنَّكَ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ 

اب اس آیت میں حرف قاف دس مرتبہ استعمال ہوا ہے ۔اور قاف کا حرف دشوارترین حروف میں شمار ہوتا ہے پر پڑھ کر دیکھ لیں کوئی دشواری محسوس نہ ہوگی ۔

اسی طرح سورہ ھود میں نوح علیہ السلام کے تذکرہ میں فرمایا

 قِيلَ يَا نُوحُ اهْبِطْ بِسَلَامٍ مِّنَّا وَبَرَكَاتٍ عَلَيْكَ وَعَلَىٰ أُمَمٍ مِّمَّن مَّعَكَ ۚ وَأُمَمٌ سَنُمَتِّعُهُمْ ثُمَّ يَمَسُّهُم مِّنَّا عَذَابٌ أَلِيمٌ

اس آیت میں میم سولہ دفعہ استعمال ہوا ہے لیکن اس توجہ دلانے سے پہلے کبھی کسی کو شاید یہ گننے کی نوبت بھی نہ آئی ہو کہ کبھی کوئی دشواری مشقت محسوس ہی نہ ہوئی ۔ 

قرآن مجید میں اس طرح کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں جیسے قل اللھم مالک الملک والی آیت کہ اس میں آیت کے شروع میں ہی دس میم ہیں اسی طرح لقد سمع اللہ قول الذین قالوا اس آیت میں بھی دس قاف ہیں ۔لیکن یہ قرآن کا اعجاز ہے کہ کسی مقام پر بھی کلام فصاحت کے بلند ترین معیارات سے نیچے نہیں اترتا۔

بلکہ بعض اوقات الفاظ علیحدہ سے دیکھے جائیں تو کچھ دشوار محسوس ہوتے ہیں جیسے تَفْتَؤُ یا حَرَض کا لفظ ہے لیکن یہی الفاظ جب نظم قرآن میں استعمال ہوتے ہیں تو انتہائی نرم وسہل لگتے ہیں ۔ملاحظہ فرمائیں۔

قَالُوا تَاللهِ تَفْتَؤُا تَذْكُرُ يُوسُفَ حَتَّى تَكُونَ حَرَضاً أَوْ تَكُونَ مِنَ الْهَالِكِينٌَ

اب حالانکہ یہاں حرف تاء کا تکرار بھی آگیا لیکن پڑھنے میں کوئی دشواری محسوس نہیں ہوتی ۔

دوسری خرابی ضعف تالیف سے تعبیر کی جاتی ہے یعنی الفاظ کی ادائیگی تو دشوار نہیں لیکن ان کو جمع کرکے جملہ بنانے کا سلیقہ نہیں ۔دوسرے لفظوں میں کس جگہ کونسا لفظ استعمال کرنا مناسب رہے گا اس کا لحاظ نہ رکھنا کلام کو فصاحت سے دور کردیتا ہے ۔فصیح کلام تو وہ ہے جس میں الفاظ ایسے برموقع اور برمحل ہوں جیسے کسی لڑی میں موتی پروئے ہوئے ہوں ۔

قرآن مجید سے چند مثالیں دیکھتے ہیں.

سورۃ الشوری میں فرمایا ۔

وَمِنْ آيَاتِهِ الْجَوَارِ فِي الْبَحْرِ كَالأَعْلاَمِ

یعنی اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں سمندر میں پہاڑوں جیسی کشتیاں (جہاز)

اب یہاں کشتیوں کے لیے جوار کا لفظ استعمال کیا جو جاریۃ کی جمع ہے ۔اب یہاں الفُلک  کا لفظ بھی استعمال ہوسکتا تھا جو کہ عموما کشتی کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔لیکن یہاں اللہ تعالیٰ کی قدرت کا بیان چل رہا ہے اور جاریۃ (یعنی چلنے والی جاری کا لفظ اردو میں بھی استعمال ہوتا ہے)کے لفظ میں اس طرف اشارہ ہے کہ ہوا جو انتہائی نرم ولطیف شئ ہے اس سے اسقدر بھاری بھرکم جہازوں کو بہتے پانیوں پر جاری رکھنا اللہ کی نشانیوں میں سے ہے ۔اب اگر فلک کا لفظ استعمال ہوتا تو یہ معنی پیدا نہیں ہوسکتا تھا

پھر سمندر کے لئے البحر کا لفظ استعمال کیا حالانکہ سمندر کے لئے بھی عربی میں عباب، غمر وغیرہ اور لفظ بھی استعمال ہوتے ہیں ۔لیکن وہ زیادہ معروف نہیں اور البحر ان کے مقابلے میں سہل ،سلیس اور معروف تر ہے ۔

پھر پہاڑوں کے لئے اعلام کا لفظ استعمال کیا حالانکہ جبال، آکام وغیرہ الفاظ تھے ۔اصل میں عَلم کا لفظ علامت اور کسی چیز کی نشاندھی کرنے والی چیز کو کہتے ہیں اسی وجہ سے راستے کے نشان کو عَلم الطریق اور جھنڈے کو بھی عَلم کہتے ہیں پہاڑ کو عَلم کہنے کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ بہت دور سے نظر آجاتا ہے اور اس علاقے کی علامت ہوتا ہے تو کشتی کو پہاڑ سے تشبیہ دینے میں اس بات کی طرف اشارہ بھی ہے کہ دور سے یہ کشتیاں سمندر پر پہاڑ جیسی دکھتی ہیں نیز عَلم اس پہاڑ کو کہتے ہیں جو طویل ہو یعنی لمبائی میں پھیلا ہوا ہو اور جبل کسی بھی  طرح کےپہاڑ کو کہہ دیتے ہیں تو کشتی یا بحری جہاز کی تشبیہ علم کے ساتھ زیادہ مناسب تھی ۔

باقی یہ قرآن کی فصاحت تو درحقیقت الفاظ میں سمجھانا دشوار ہے یہ تو اس خوشبو کی طرح ہے جسے محسوس تو کیا جاسکتا ہے ۔کماحقہ بیان کرنا مشکل ہے اس کے لئے تو زبان وبیان کا ذوق سلیم اور قوت وجدان درکار ہے۔

پھر جب مخاطب عوام الناس ہو تو علم البلاغۃ کے مشکل مضامین کو سہل انداز میں بیان کرنے کی اضافی مشقت بھی لازم آتی ہے ۔لیکن ان شاء الله یہ سلسلہ جاری رہے گا ۔

 

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔

 


قرآن مجید کی فصاحت وبلاغت

قرآن مجید کے اس چیلنج کا تذکرہ جو اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو دیا تھا جن کو اپنی زبان دانی اور قوت کلام پر ناز تھا جن کے ہاں شعروادب ہی بزرگی وفضیلت کا معیار تھا ۔
عربی زبان کی فصاحت وبلاغت اہل عرب کی زباندانی ،عرب معاشرے پر شعراء کے اثرات ،اور اس کے تناظر میں قرآن مجید کے اس چیلنج کا دلچسپ قسط وار تذکرہ۔

کل مضامین : 16
اس سلسلے کے تمام مضامین

مفتی عبد اللہ اسلم صاحب

مدیر مدرسہ مصباح العلوم لاہور ۔
کل مواد : 20
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن
ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024