قرآن مجید کی فصاحت وبلاغت قسط نمبر 9
غلطی کے سامنے آجانے کے بعد کسی بھی ماہر فن کا خاموش رہنا مشکل ہوتا ہے ۔تو اگر کسی چیز میں غلطی کی نشاندہی نہ کی جائے تو دو ہی صورتیں ہوسکتی ہیں ۔
1۔ وہ چیز بے عیب ہے اور اس میں کسی طرح کی کوئی کمی ہے ہی نہیں ۔
2۔ اس فن کے ایسے ماہر دستیاب نہ ہوسکے جو خامی کی نشاندھی کرسکتے ۔
تو نزول قرآن سے صبح قیامت تک کسی ماہر کا نہ ہونا تو ایسی بات ہے جس کا غلط ہونا روز روشن کی طرح واضح ہے ۔تو پہلی صورت متعین ہے ۔
کہ عرب شعراء وادباء فصاحت کی معمولی سی غلطی بلکہ کمی پر بھی تنبیہ کردیا کرتے تھے ۔
نابغہ ذبیانی جو اشعر العرب شعراء میں شمار ہوتا ہے اس کے لیے عکاظ کے میلے میں چمڑے کا خیمہ لگایا جاتا تھا جس میں بیٹھ کر وہ شعراء کے کلام پر اپنی رائے دیتا تھا ایک دفعہ حضرت خنساء رضی اللہ عنہا جو عرب کی مشہور شاعرہ تھیں اس کے پاس پہنچیں تو اس نے کلام سن کر کہا اگر میں نے تجھ سے پہلے اعشی کا کلام نہ سن لیا ہوتا تو میں مان لیتا کہ تم عرب کی سب سے بڑی شاعرہ ہو اور اب بھی میرا خیال یہ ہے کہ تم عورتوں میں سب سے بڑی شاعرہ ہو ۔
حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ بھی وہاں موجود تھے انہوں نے کہا آپ نے میرا تذکرہ نہیں کیا حالانکہ میں خنساء رضی اللہ عنہا سے بڑا شاعر ہوں ۔اور دلیل میں کچھ شعر پڑھے جن میں اپنی قوم کی تعریف تھی ان میں سے پہلا شعر یہ تھا ۔
لَنا الجَفَناتُ الغُرُّ يَلمَعنَ بِالضُحى ...
وَأَسيافُنا يَقطُرنَ مِن نَجـدَةٍ دَما
یعنی ہمارے ہاں سفید پیالے ہیں جو دن کے وقت چمکتے ہیں ۔
اور ہماری تلواروں سے دلیری کی بناء پر خون ٹپکتا ہے ۔
اس پر نابغہ نے کہا تم بھی شاعر بن سکتے تھے اگر اپنے پیالوں اور تلواروں کو خود ہی کم نہ کردیتے (حسان رض نے الجفنات اور اسیاف کا لفظ استعمال کیا جو جمع قلت یعنی دس سے کم کے لئے استعمال ہوتا ہے) تمہیں الجفان کہنا چاہئے تھا
اور یلمعن فی الضحی کے بجائے یبرقن فی الدجی (تاریکی میں چمکتے ہیں) کہنا چاہئے تھا کہ مہمانوں کی کثرت سے مدح کا قصد ہے اور مہمان رات کو زیادہ ہوتے ہیں (نیز برتنوں کی چمک اور خوبی سے مدح کا ارادہ ہے تو دن کو سورج کی روشنی میں ہر شئ چمکتی ہے اصل کمال تو رات کے اندھیرے میں چمکنا ہے) اور یقطرن کی جگہ یجرین کہتے تو بہتر تھا (یقطرن کا معنی قطرے ٹپکنا اور یجرین کا معنی جاری ہونا اور بہنا اب ظاہر ہے محض چند قطرے ٹپکنا کہنے سے کوئی بڑی تعریف نہیں پیدا ہوتی تعریف کے لئے تو خون کا بہنا ذکر کرنا ہی بہتر شمار ہوگا)
دوسرے شعر میں حسان رضی اللہ عنہ نے اپنے آباء کا فخریہ تذکرہ کیا تھا اس پر کہا بہتر ہوتا کہ اپنی اولاد پر فخر ظاہر کرتے ۔(یعنی کسی بڑے شخص کی اولاد میں ہونا کونسی خوبی کی بات ہے کہ آدمی کا اس میں کچھ اختیار اور ذاتی کمال نہیں ہے ہاں اس کی اولاد ترقی کرجائے تو یہ ضرور فخر کے لائق ہے کہ اس کی تربیت کا اس میں دخل ہے)
تو عرب اس باریک بینی سے کلام کو سمجھتے تھے ۔
ابن هرمة ادیب کی تعریف میں ایک شاعر نے کچھ شعر کہے اس میں اس محبوبہ کے دروازے پر کھڑے ہونے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ۔
بالله ربك إن دخلت فقل لها ... هذا ابن هرمة قائماً بالباب
یعنی اے مخاطب تجھے تیرے رب اللہ کی قسم جب تو اس (محبوبہ) کے پاس پہنچے تو اس سے کہنا۔۔۔۔ یہ ابن ھرمۃ دروازے پر کھڑا ہے ۔
ابن ھرمۃ نے سنا تو سخت ناراض ہوا اور کہا کیا میں دروازے پر چندہ مانگنے کے لئے کھڑا تھا (عرب جب فقیر آنے کی اطلاع دیتے تھے تو یوں کہتے رجل قائم بالباب تو اس لئے ناراض ہوا کہ تمھارے کلام کا مطلب تو یہ ہوا کہ محبوبہ کے انتظار میں نہیں بلکہ بھیک مانگنے کھڑا تھا ) اس شاعر نے گھبرا کر تبدیلی کی اور کہا قاعد علی الباب اس پر اور ناراض ہوا کہ کیا میں دروازے پر پیشاب کررہا تھا (اھل عرب کے ہاں قعود علی الباب پیشاب کرنے سے کنایہ ہے) اس نے عاجز ہوکر کہا آپ ہی بتائیے تو کہا کہ یوں کہو واقفا علی الباب ۔پھر کہا کاش تمہیں اندازہ ہوجاتا کے قائم اور واقف کے معنی میں کتنا فرق ہے ۔
قرآن مجید میں اس طرح کی تمام اخطاء سے پاک تھا اس لئے باوجود اس کے کہ ابتداءاسلام میں سارا عرب دشمن تھا اور کمی کوتاہی کی تلاش میں تھا ۔قرآن مجید کی فصاحت پر وہ لوگ انگلی نہ اٹھاسکے ۔
ابو العلاء معرّی جس پر قرآن کریم سے مقابلہ کرنے کا الزام بھی ہےکہتا ہے: اس بات پر سبھی لو گ متفق ہیں (چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلمان) کہ حضرت محمد صلی الله عليه وسلم پر نازل ہونے والی کتاب نے لوگوں کی عقلوں کو مغلوب اور مبہوت کردیا ہے، اور ہر ایک اس کی مثل و مانند لانے سے قاصر ہے، اس کتاب کا طرز ِبیان عرب کے ماحول کے کسی بھی طرز بیان سے ذرہ برابر بھی مشابہت نہیں رکھتا ، نہ شعر سے مشابہ ہے، نہ خطابت سے، اور نہ کاہنوں کے مسجع کلام سے ،اس کتاب کی کشش اور اس کا امتیاز اس قدرعالی ہے کہ اگر اس کی ایک آیت کسی دوسرے کے کلام میں موجود ہو تو وہ اندھیری رات میں چمکتے ہوئے ستاروں کی طرح روشن ہوگی!“۔
ولید بن مغیرہ مخزومی یہ شخص عرب میں حسن تدبیر کے لئے شہرت رکھتا تھا اور دور جاہلیت میں مشکلات کو حل کرنے کے لئے اس کی فکر اور تدبیر سے استفادہ کیا جاتا تھا، اسی وجہ سے اس کو ”ریحانۃ القریش“ یعنی قریش کا بہترین پھول کہا جاتا تھا، یہ شخص نبی اکرم صلی الله عليه وسلم سے سورہ غافر کی چند آیتوں کو سننے کے بعد قبیلہ ”بنی مخزوم“ کی ایک نشست میں اس طرح کہتا ہے:
” خدا کی قسم میں نے محمد (ص) سے ایسا کلام سنا ہے جو نہ انسان کے کلام سے شباہت رکھتا ہے اور نہ جنات کے کلام سے، ”إنَّ لَہُ لحلاوة، و إِنَّ علیہ لطلاوة و إنَّ اعلاہ لمُثمر و إنَّ اٴسفلہ لمغدِق، و اٴنَّہ یَعلو و لا یُعلی علیہ“ یعنی اس کے کلام میں ایک مخصوص مٹھاس ہے،اور اس میں زبردست خوبصورتی پائی جاتی ہے، اس کی شاخیں پُر ثمر ہیں اور اس کی جڑیں مضبوط ہیں، یہ وہ کلام ہے جو تمام چیزوں پر غالب ہے اور کوئی چیز اس پر غالب نہیں ہے۔
کارلائل یہ انگلینڈ کا مورخ اور محقق ہے جو قرآن کے حوالہ سے کہتا ہے: ”اگر اس مقدس کتاب پر ایک نظر ڈالی جائے تو اس کے مضا مین بر جستہ حقائق اور موجودات کے اسراراس طرح موجزن ہیں جس سے قرآن مجید کی عظمت بہت زیادہ واضح ہوجاتی ہے، اور یہ خود ایک ایسی فضیلت ہے جو صرف اور صرف قرآن مجید سے مخصوص ہے، اور یہ چیز کسی دوسری علمی، سائنسی اور اقتصادی کتاب میں دیکھنے تک کو نہیں ملتی، اگرچہ بعض کتابوں کے پڑھنے سے انسان کے ذہن پر اثر ہوتا ہے لیکن قرآن کی تاثیر کا کوئی موازنہ نہیں ہے۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔