قرآن مجید کی فصاحت وبلاغت قسط نمبر 16
بعض اوقات قرآن مجید میں ایک لفظ استعمال ہوتا ہے اور دوسری جگہ معمولی فرق کیساتھ وہی لفظ استعمال ہوتا ہے ۔بادی النظر میں ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا ۔لیکن یہ قرآن کے الفاظ ہیں جہاں معمولی معمولی فرق کے پیچھے بھی اسرار وحِکم کے خزانے ہیں ۔
جیسے اللہ تعالیٰ شہر مکہ کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک جگہ مكه کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور دوسری جگہ یہی لفظ میم کے بجائے باء کیساتھ بكة استعمال ہوتا ہے ۔
ویسے تو اھل عرب میم کی جگہ باء بھی استعمال کرلیتے ہیں جیسے لازم اور لازب ۔مگر یہاں یہ معمولی فرق بھی حکمت سے خالی نہیں ہے ۔
مکّ فعل کا معنی ہوتا ہے کسی جوف والی (اندر سے کھوکھلی) چیز میں موجود شے کو چوس کر نکالنا ۔جیسے کہاجاتا ہے مکّ الفصیل ضرع امھا یعنی بچھڑے نے گائے کے تھن سے دودھ چوس لیا ۔اسی طرح مکّ العظم کا مطلب ہڈی میں سے اس کا گودا نکالنا جسے ہم نلی سے تعبیر کرتے ہیں ۔لاہور کی نلی والی نہاری اور کراچی کی نلی بریانی مشہور ہے ۔
تو مکہ میں چونکہ پانی کی قلت تھی اور پانی گویا چوس کر حاصل کیا جاتا تھا یا یہ شہر نیکیوں اور نیک لوگوں کو اپنی جانب چوس لیتا تھا اس لئے اسے مکہ کہا جانے لگا ۔بعض نے لکھا ہے کہ یہ خود ساری زمین میں سے انتخاب کرکے گویا مغز کی طرح نکالی ہوئی جگہ ہے اس لئے اسے مکہ کہتے ہیں ۔
اور بکّ فعل کا معنی ہوتا ہے ھجوم کرنا اور ازدحام ہونا عرب کہتے ہیں بکّ الناس بعضھم بعضا لوگ ھجوم کی وجہ سے ایک دوسرے پر گرے پڑرہے تھے ۔تو یہاں چونکہ حج کے موقع پر لوگوں کا ازدحام ہوتا تھا اس لئے اسے بکّہ کہا گیا ۔
اب ان دونوں آیتوں پر غور کریں تو پتا چلتا ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے لفظ مکہ استعمال کیا وہ صلح حدیبیہ کا تذکرہ ہے تو معروف نام ذکر کردیا ۔اور جہاں بکہ فرمایا وہاں درحقیقت حج اور اس کے مناسک کی بات چل رہی ہے ۔اور حج چونکہ ازدحام کا موقع ہے اس لئے اس مناسبت سے بکہّ فرمایا گویا یوں کہا جارہا ہے کہ یہ تو مقام ہی وہ ہے جہاں زمانہ قدیم سے لوگ جمع ہوتے چلے آئے ہیں اور انتہائی بابرکت اور سبب ھدایت ہے لہذا تم بھی حج کے لئے اس کا قصد کرو۔
مزید دیکھیں ابراھیم علیہ السلام کی دعاء پہلے سیپارے میں مذکور ہے وہاں فرمایا رب اجعل ھذا بلدا آمنا اب یہاں بغیر الف لام کے لفظ بلد ذکر ہوا ہے ۔اور تیرھویں سیپارے میں یہی دعاء ہے وہاں الف لام کیساتھ البلد فرمایا ۔تو مفسرین نے اس کی وجہ یہ لکھی ہے کہ پہلی دعاء اس وقت کی ہے جب شہر آباد نہیں ہوا تھا تو فرمایا اجعل ھذا اس جگہ کو بنادیجئے بلدا آمنا شہر امن والا ۔گویا یہاں صرف امن کی دعاء نہیں مانگی بلکہ اس جگہ کو شہر بنانے کی درخواست بھی کی ہے ۔اور دوسری دعاء کے وقت شہر موجود تھا تو فرمایا اجعل ھذا البلد آمنا اس شہر کو بنادیجئے امن والا ۔عربی سے واقف حضرات جانتے ہیں کہ پہلی صورت میں بلدا ہذا کا مشار الیہ نہیں بلکہ اجعل کا مفعول بن رہا ہے اور دوسری صورت میں الف لام ہونے کی وجہ سے مشار الیہ بن رہا ہے اس لیے ترجمہ میں فرق آرہا ہے۔
مزید دیکھیں ۔والدین کے لئے قرآن مجید میں کہیں تو والدین کا لفظ استعمال کیا اور کہیں ابوین تو اصل میں ابوین کے لفظ کی بنیاد اب کا لفظ ہے جو باپ کو کہتے ہیں پھر اسی کی تثنیہ بنا کر ماں کو بھی ساتھ شامل کرلیا گیا ۔گویا اس لفظ میں باپ والی جانب غالب ہے ۔جبکہ والدین میں ماں کی جانب غالب ہے کہ یہ لفظ ولادۃ سے ہے ۔اور ولادت ماں کے ذریعے ہوتی ہے ۔باپ نسب کے اعتبار سے شریک ہے اس لئے اسے بھی شامل کرکے والدین کہا ۔تو والدین کے لفظ میں ماں کی جانب غالب ہے ۔
اب قرآن مجید کو دیکھیں کہ جہاں مالی معاملات کا تذکرہ آتا ہے جیسے میراث وغیرہ تو قرآن کہتا ہے ۔ وورثه ابواه اور ولابویه لكل واحد منهما السدس کہ مالی امور مردوں سے متعلق ہوتے ہیں ۔اسی طرح تخت پر بٹھانے کا تذکرہ ہے تو تخت پر بیٹھنا اور حکومت مردوں کے مناسب ہے تو فرمایا ورفع ابویه علي العرش
اور جب حسن سلوک کی بات آئی تو اس کی ماں زیادہ حقدار تھی جیسا کہ احادیث سے واضح ہے تو فرمایا وبالوالدین احسانا قرآن نے جہاں بھی حسن سلوک کا حکم دیا ہے والدین کا لفظ استعمال کیا ہے کہیں بھی ابوین کا لفظ استعمال نہیں کیا۔
گویا جو معاملات ایسے تھے جو باپ سے زیادہ تعلق رکھتے تھے ان میں وہ لفظ استعمال کیا جس میں باپ کی جہت غالب تھی اور جہاں نرمی وملاطفت اور حسن سلوک کی بات آئی تو وہ لفظ استعمال کیا جس میں ماں کی جہت غالب تھی۔
ایک اور مثال دیکھیں عربی زبان میں قوم کا لفظ بنیادی طور پر مردوں کے لئے استعمال ہوا ہے کہ یہ قائم سے ہے اور قائم بالامور (اہم امور کو انجام دینے والے) مرد ہوا کرتے ہیں ۔تو قوم اہل عرب کے ہاں باپ دادا اور ان کے مرد رشتہ داروں کو کہتے تھے ۔اگرچہ کبھی کبھار عورتوں اور بچوں کو اس میں مردوں کے تابع کر کے مراد لیتے تھے ۔لیکن اس کے اصل معنی میں باپ کے مرد رشتہ دار ہی آتے تھے ۔خود قرآن مجید نے قوم کے لفظ کو نساء یعنی عورتوں کے مقابلہ میں استعمال کیا ہے ۔فرمایا لا یسخر قوم من قوم یعنی نہ تو مرد ایک دوسرے کا مذاق اڑائیں اور آگے فرمایا ولا نساء من نساء اور نہ عورتیں ایک دوسرے کا مذاق اڑائیں۔
تو اگر قوم کے مفہوم میں عورتیں داخل ہوتیں تو آگے دوبارہ ذکر کرنے کی نوبت نہ آتی ۔
اسی طرح عرب شعراء کے کلام میں بھی ہے مثلا زھیر بن ابی سلمی حصن بن حذیفۃ الفزاری کی مذمت کرتے ہوئے کہتا ہے ۔
وما ادري وسوف أِخال ادری
اقوم آل حصن ام نساء
یعنی مجھے معلوم نہیں ہے اور میرا خیال ہے کہ میں جان لوں گا ۔
کہ یہ آل حصن مرد تھے یا عورتیں ۔
یعنی جس طرح جنگ میں بزدلی دکھا کر یہ لوگ بھاگے ہیں مجھے ان کے مرد ہونے پر شک ہے ۔
تو یہاں بھی اس نے نساء کے مقابلے میں قوم کا لفظ استعمال کیا جس سے واضح ہے کہ لفظ قوم مردوں کی جماعت پر بولا جاتا تھا ۔
اب قرآن مجید کا اسلوب دیکھتے ہیں ۔قرآن مجید نے جہاں بھی کسی نبی کے اپنی قوم کو دعوت دینے کا تذکرہ کیا ہے قوم کا لفظ استعمال کیا ہے جیسے واذ قال موسی لقومه ياقوم ، ولوطا اذ قال، لقومه، لقد ارسلنا نوحا الي قومه فقال ياقوم، والي عاد اخاهم هودا فقال ياقوم،وغیرہ لیکن جب عیسیٰ علیہ السلام کا تذکرہ آتا ہے تو قرآن مجید قوم کا لفظ استعمال نہیں کرتا مثلا واذ قال عیسی بن مریم یٰبنی اسرائیل اور وقال المسیح یا بنی اسرائیل کہ عیسیٰ علیہ السلام بغیرباپ کے پیدا ہوئے تھے تو بنی اسرائیل ان کی والدہ کی قوم تو تھے جیسا کہ فرمایا فاتت به قومها تحمله لیکن ان کی قوم نہ تھے ۔
یہ قرآن مجید کا اعجاز ہے کہ کسی بھی شخص کے لئے اتنے استحضار کے ساتھ کے ساتھ کلام کرنا دشوار ہے ۔لیکن یہ تو اللہ کا کلام ہے جو کسی بھی چیز کو بھولتا نہیں ہے ۔