قرآن مجید کی فصاحت وبلاغت قسط نمبر 1
تمہید وپس منظر
کچھ عرصہ قبل میں نے ایک جگہ قرآن مجید کی فصاحت وبلاغت پر بیان کیا ۔اور قرآن مجید کے اس چیلنج کا تذکرہ کیا جو اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو دیا تھا جن کو اپنی زبان دانی اور قوت کلام پر ناز تھا جن کے ہاں شعروادب ہی بزرگی وفضیلت کا معیار تھا ۔
تقریر کے دوران مجھے محسوس ہوا کہ سامعین اس چیلنج کی قوت کو محسوس نہیں کرپارہے کیونکہ وہ اس دور کے حالات اور عربوں میں شعر وبیان کی قیمت سے ناواقف ہیں ۔تو گفتگو کا موضوع بلا قصد عربی زبان کی فصاحت وبلاغت اہل عرب کی زباندانی ،عرب معاشرے پر شعراء کے اثرات ،اور اس کے تناظر میں قرآن مجید کے اس چیلنج پر ہوگیا۔
رمضان المبارک کا مہینہ تھا ۔طبیعت میں عجیب جوش تھا ۔مضامین کی گویا قلب پر بارش ہورہی تھی ۔الفاظ کا دامن مافی الضمیر کے اظہار کے لئے تنگ پڑرہا تھا ۔
آج کل سامعین عموما بیان کی طوالت سے اکتا جاتے ہیں اس لئے طویل بیان کی مجھے کبھی عادت نہیں رہی لیکن اس دن مجلس پر عجیب کیفیت طاری تھی جب بیان ختم ہوا تو اندازہ ہوا کہ اچھا خاصا وقت گذر چکا ۔
گھر واپس آکر میں نے ان مضامین کو لکھنا شروع کیا کہ اگر مضمون کو لکھ لیاجائے تو وہ محفوظ ہوجاتا ہے ۔
اب اس بات کو سالہاسال گذر چکے ۔ارادہ یہ تھا کہ کتب سے تحقیق کرکے کوئی مضبوط تحریر لکھوں گا ۔لیکن اعذار ومصروفیات میں وہ بات رہ گئی ۔اب یہ سوچ کر لکھنا شروع کیا کہ جولکھا ہے اسی کو کچھ کمی بیشی کے ساتھ مرتب انداز میں تحریر کردیا جائے ۔
تاکہ کتاب اللہ کے ادنی خدمتگاروں کی کسی صف میں میرا بھی شمار ہوجائے ۔اللہ تعالی اس کو قبول فرمائے اور آخرت میں نجات وکامیابی کا باعث بنادے ۔آمین۔
عربی زبان کی فصاحت وبلاغت
عجیب بات ہے کہ کسی بھی زبان کی فصاحت وبلاغت کو دیکھنا ہو تو اس زبان کے اہل علم کا کلام دیکھا جاتا ہے ۔ان کے ادباء اور اساتذہ کے کلام کو جانچا جاتا ہے ۔لیکن اہل عرب کے ہاں یہ صلاحیت کسی ظاہری تعلیم کی محتاج نہ تھی ۔
ان کے عام دیہاتی بھی فصاحت وبلاغت کے اس درجے پر فائز تھے کہ دیگر اقوام کو عجم یعنی قوت کلام سے عاجز قرار دیتے تھے ۔
یہ حارث بن حلّزہ ہے ۔برص یعنی کوڑھ پن کا مریض ہے بادشاہ کے دربار میں اس حال میں کھڑا ہے کہ بادشاہ نے اس کے مرض سے کراھت کی وجہ سے اس کے اور اپنے درمیان پردہ ڈال رکھا ہے ۔
اور دوسری قوم کی طرف اس کا میلان ہے ۔اس شخص کے پاس اپنی قوم کا حق ثابت کرنے کے لئے قوت بیان کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے تو یہ نیزے پر ٹیک لگا کر کھڑا ہوتا ہے اور بغیر کسی پیشگی تیاری کے فی البدیہہ ساٹھ ستر اشعار پر مشتمل قصیدہ کہتا ہے ۔قصیدہ کہتے وقت اس کی حمیّت اسقدر جوش میں ہے کہ وہ نیزہ جس پر ٹیک لگائی تھی ہاتھ سے پار ہوجاتا ہے اور اسے احساس تک نہیں ہوتا ۔قصیدہ فصاحت وبلاغت کے اس معیار پر ہے کہ آج چودہ صدیوں سے زائد عرصہ گذر جانے پر بھی عربی زبان کے تدریسی نصاب کا حصہ ہے ۔اور ان قصائد میں شامل ہے جن کو معلّقات کہا جاتا تھا کہ انہیں سونے کے پانی سے لکھ کر کعبے کی دیواروں سے لٹکاتے تھے کہ یہ کلام بے مثال ہے ۔اس کی نظیر پیش کرنا مشکل ہے ۔
بادشاہ اور اس کے درباری دنگ رہ جاتے ہیں اور وہی بادشاہ جو کراھت کی وجہ سے پردہ لٹکائے ہوئے تھا اب اپنے تخت پر بٹھا کر اپنے ساتھ کھانا کھلارہا ہے ۔
اہل عرب کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری ہوئی ہے ۔ان کے ہاں فی البدیہہ ایسا کلام کہنا جو شعر وادب کے اعلی معیارات پر پورا اترتا ہو معمولی بات تھی ۔
عرب شاعر فرزدق مسجد الحرام میں کھڑا ہے وقت کا ولیعھد ھشام بن عبدالملک طواف کے لئے آتا ہے اور حجر اسود تک پہنچ کر اسے بوسہ دینے کی کوشش کرتا ہے لیکن لوگوں کا اژدحام ہے اسے کامیابی نہیں ہوتی ۔اسی اثنا میں حضرت زین العابدین علي بن حسين بن علي رضي الله عنهم تشریف لاتے ہیں اور مجمع احترام میں چھٹ جاتا ہے وہ اطمینان سے بوسہ لیتے ہیں ۔ھشام کے رفقاء حیرانگی سے پوچھتے ہیں کہ یہ کون شخص ہے جس کی لوگوں کے دلوں میں یہ قدر ومنزلت ہے تو ھشام اس خوف سے کہ لوگ ان کی طرف مائل نہ ہوجائیں کہتا ہے مجھے معلوم نہیں ۔فرزدق نے کہا لیکن مجھے معلوم ہے ۔
پھر تقریبا 33 اشعار پر مشتمل ایسا بے مثال قصیدہ کہا کہ اہل بیت کی مدحت میں اس کی نظیر پیش کرنا آج تک مشکل ہے ۔
اگر یہ کہا جائے کہ یہ تو ان کے شعراء وادباءکے حالات ہیں ۔تو حقیقت یہ ہے کہ عام لوگوں کی مہارت لسانی بھی کچھ کم نہ تھی ۔ایک دیہاتی ہاتھ اٹھائے دعاء مانگ رہا ہے اور دعاء میں اس کا کلام اس قدر پرشکوہ ہے ۔الفاظ ایسے شاندار ہیں کہ نبی اکرم صلی الله عليه وسلم اس کو بلاتے ہیں اور گائے کے سر کے برابر سونا انعام میں دیتے ہیں ۔اور پوچھتے ہیں کہ تمہیں معلوم ہے کہ یہ کس چیز کا صلہ ہے وہ کہتا ہے اس لئے کہ ہماری آپ سے قرابت داری ہے اور قرابت داری کا حق ہوتا ہے ۔فرمایا کہ درست کہا قرابت داری کا حق ہوتا ہے لیکن یہ تمہاری حسن ثناء کا انعام ہے۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔