کیا سورہ رحمن کی آیت مرج البحرین سے حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما مراد ہیں ؟
سوال
کراچی سے ہمارے تبلیغی بزرگ مخدوم و مکرم جناب پروفیسر ضیاء الرحمن صاحب نے ایک کلپ بھیج کر اس کی صحت کے بارے میں استفسار فرمایا، اس میں بیان کرنے والا کہہ رہا تھاکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان بیان کرنے کے لیے میں نے آپ کی خدمت میں سورہ رحمن کی آیت نمبر: 19، 20، 21، 22 اور 23 [مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَانِ (19) بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَا يَبْغِيَانِ (20) فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (21) يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ (22) فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (23)]یہ پانچ آیات پڑھیں ہیں جو سیدنا علی المرتضی کی شان بتاتی ہیں، مقرر صاحب نے آگے مزید یہ کہا کہ میں آپ کی خدمت میں باحوالہ بات عرض کررہا ہوں، مفسر قرآن محقق دوراں حضرت علامہ ابو بکر عبد الرحمن جلال الدین السیوطی المتوفی 911ھجری رحمہ اللہ کی ایک تفسیر ہے اس کا نام ہے الدر المنثور فی تفسیر الماثور، اس کی آخری جلد اٹھائیں ، حضرت امام سیوطی نے اپنی تفسیر در منثور میں اس کی جو تفسیر لکھی میں اسی سے آپ کی خدمت میں یہ بات پیش کررہا ہوں، وہ فرماتے ہیں کہ اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَانِ دو سمندر دو دریا یہ رواں ہو کے چل پڑے ہیں اور برابر چلے ہیں ایک ساتھ چلے ہیں، بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ ان دو پانیوں کے درمیان رب نے ایک آڑ بنا دی ہے، لَا يَبْغِيَانِ نہ اس پر یہ غلبہ کرتا ہےنہ وہ اس پر غلبہ کرتا ہے دونوں اپنی اپنی حیثیت میں چلتے ہیں، اپنی اپنی شان اور اپنے اپنے مقام پہ چلتے ہیں، ایک دوسرے پہ غلبہ نہیں کرپاتے، اپنے اپنے طرز پہ چلتے ہیں، فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ وہ جن ہوں یا انسان یہ اللہ کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاتے پھریں گے؟ يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ یہ دونوں سمندر ایسے مبارک ہیں کہ ان سے دوقسم کے موتی لؤلؤ موتی بھی اور مرجان موتی بھی نکلتے ہیں ، فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ اے جن وانسانوں تم اللہ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاو گے؟!!۔
اس کے بعد کہا کہ تفسیر والوں نے یہاں بڑے دریا منتخب کیے ہیں، یہ دریا ہے، یہ دریا ہے، یہ سمندر ہے، یہ پانی ہے، ہر بندے نے اپنی طرز پہ، آج کل انٹر نیٹ کا دور ہے تو تصویریں انٹرنیٹ پہ چلتی ہیں کہ دیکھیں یہ پانی نیلا زیادہ ہے اور یہ پانی نیلا کم ہے دونوں ایک ساتھ چل رہے ہیں ایک دوسرے پہ غلبہ نہیں کرتے۔ ٹھیک ہے اپنی اپنی رائے، لیکن میں رائے امام سیوطی کی تفسیر سے پیش کررہا ہوں، وہ فرماتے ہیں کہ ان آیات کا مقصد، ان آیات کا مطلب، ان آیات میں دو دریاؤں سے مراد کون ہیں؟ پھر ان دو دریاؤں سے نکلنے والے موتی کون ہیں؟ سنیں دل پہ ہاتھ رکھیں اور حضرت علی کی محبت میں وہ تفسیر لکھتے ہیں، فرمایا: مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَانِ دو سمندر چلتے ہیں اور دونوں کی آپس میں ملاقات ہوتی ہے، فرماتے ہیں کہ ایک سمند سے مراد سیدنا علی کی ذات ہے اور دوسرے سمندر سے مراد حضرت فاطمہ الزہراء کی ذات ہے، رضی اللہ عنہما، فرمایا کہ ان دونوں کی زندگی کو اللہ نے ایک نعمت قرار دے کر فرمایا : فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ علی اور فاطمہ جیسی شخصیات تم میں موجود ہیں ، اتنی مبارک مقدس جنس کے ذریعہ سے خاندان سادات چلے ہیں ، رسول اللہ کی نسل کو اللہ نے باقی رکھنا ہے، اس جیسی نعمت ملنے کے بعد اے جنوں اور انسانوں تم اللہ کی نعمتوں کو کیسے جھٹلا پاؤ گے۔ اچھا ! خالی یہ دو سمندر نہیں، ان سمندروں کی ملاقات کا ثمرہ اور نتیجہ ہے ، وہ نتیجہ کیا ہے؟ يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ ان سے جو موتی نکلتے ہیں یا موتی لؤلؤ ہے یا موتی مرجان ہے، وہ کہتے ہیں لؤلؤ اور مرجان سے مراد حضرات حسنین کی ذات ہے، لؤلؤ سے مراد امام حسن ہے اور مرجان سے مراد حسین ہیں، رضی اللہ عنہما ، جو ان دو دریاؤں سے نکلے، علی اور فاطمہ کے ملاپ سے دنیا میں آئے ، فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ اے امت میں جنوں اور امت مسلمہ میں انسانوں تمہارے پاس حسن اور حسین جیسی ذات جو ایسے مبارک والدین کے ملنے کے بعد یہ دو بچے اس دنیا میں تشریف لائے ہیں ، جن کے پاس ایسی مبارک شخصیات موجود ہوں یہ اللہ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائیں گے۔
کیا یہ تفسیر درست اور اہل سنت کے منہج کے مطابق ہے؟
الجواب حامدا ومصليا :
تمہید:
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ تفیسر یا کسی بھی دوسری کتاب میں کسی قول یا بات کا منقول ہونا اس کی صحت کو مستلزم نہیں، نہ ہی یہ ضروری ہے کہ وہ بات اہل سنت کا موقف بھی ہو۔
عصر حاضر کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ خطیب اور مقررین حضرات نئی نئی باتیں بیان کرنے کے چکر میں بلا تحقیق کتابوں میں وارد ہر صحیح وسقیم بات کو دھڑلے سے بیان کررہے ہیں، جب کہ بلا تحقیق ہر بات کو بیان کرنا نہ صرف علم وتحقیق کے خلاف ہے بلکہ بسا اوقات اس طرح کمزور اور بے بنیاد باتوں کو بیان کرنا فتنہ کا باعث بنتا ہے اور گمراہ و باطل فرقوں کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے اور وہ ایسی باتوں کو اپنی تائید میں پیش کرتے پھرتے ہیں۔
مذکورہ بیان کا سرسری جائزہ:
اس تمہید کے بعد یہ جان لیں کہ سوال میں مذکور تفسیر نہ صرف اہل سنت کے منہج تفسیر کے خلاف ہے بلکہ غلط بھی ہے ، یہ درحقیقت روافض کی مشہور ومعروف باطل تاویل ہے۔ ہم پہلےسوال میں مذکور بیان کا ایک سرسری سا جائزہ لیں گے، اس کے بعد ان آیات کے بارے میں علمائے اہل سنت کی رائے پیش کریں گے:
1 ۔امام سیوطی کی تفسیر کا نام: " الدر المنثور فی تفسیر المأثور " نہیں ، بلکہ : " الدر المنثور فی التفسیر بالمأثور " ہے ۔
2 ۔ امام سیوطی کی نقل کردہ تفسیر اورکلپ میں بیان کی گئی تفسیرکے موازنہ سے معلوم ہوا کہ اس کلب میں بیان کیے گئے بعض خطیبانہ نکتوں کا کتاب میں وجود نہیں۔
3 ۔امام سیوطی کے حوالہ سے نقل کی گئی تفسیر سے قبل خود امام سیوطی نےاسی کتاب میں ان آیات کی اہل سنت کے ہاں مقبول ومعتبر تفسیر کو بیان کیا ہے، کلپ میں اس کی طرف ہلکا سا اشارہ کر کے اسے مفسرین کی رائے قراردے کر ایک باطل تفسیر کو اس انداز سے پیش کیا کہ گویا وہ انتہائی محقق بات ہے ۔
4 ۔ اس بیان کو نشر کرتے ہوئے اسکرین پر امام سیوطی کی تفسیر کے اس صفحہ کا عکس بھی دکھایا جارہا ہے جس سے اسے نقل گیا ہے، عجیب بات یہ ہے کہ اسی صفحہ کے حاشیہ میں محقق ِکتاب ڈاکٹر عبد اللہ عبد المحسن الترکی صاحب نے امام ابن تیمیہ کی منہاج السنہ سے اس تفیسر کے باطل ہونے کونقل کردیا ہے، لیکن معلوم نہیں کہ اسے کیوں نظر انداز کردیا گیا ؟!۔
5 ۔ اگر تھوڑی سی زحمت کر کےالدر المنثورکا"مقدمہ التحقیق" کو پڑھ لیا جاتا تو معلوم ہوجاتا کہ امام سیوطی کی یہ تفسیر الدر المنثور درحقیقت ان کی کتاب "ترجمان القرآن" کا اختصار ہے، جس میں انہوں نے ترجمان القرآن کے برعکس اسانید کو حذف کر کے صرف احادیث واقوال صحابہ وتابعین کے متون پر اکتفا کیا ہے، نیز احادیث و آثار کو نقل کرنے میں صحت وضعف کے شرائط کی پابندی نہیں کی، بلکہ ان سے پہلے مفسرین کی کتابوں میں جو کچھ آیا تھا اس سب کو نقل کردیا، یوں ان کی اس تفسیر میں صحیح کے ساتھ حسن وضعیف احادیث وآثار بھی نقل ہوئے، بلکہ ایک بڑی تعداد اسرائیلیات، احادیث واہیہ، منکرہ، باطلہ اور موضوعہ کی بھی آگئی ہے، لہذا ان میں سے وہ روایات مقبول سمجھی جائیں گی جو قران وسنت،اجماع امت اور اہل سنت کے اتفاقی موقف سے متصادم نہ ہوں۔ چوں کہ ان کا مقصد اس کتاب میں تفسیر کے حوالہ سے منقول تمام احادیث وآثار کو" محض جمع "کرنا تھا، نہ کہ ان کی تحقیق، اس لیے ان کو قصور وار نہیں ٹھہرایا جاسکتا، البتہ اس کتاب سے آگے نقل کرنے والے خاص طور پر عوام میں بیان کرنے سے قبل ان احادیث وآثار کی تحقیق ضروری ہے۔
6۔ قرآنی علوم سے ادنی مناسبت رکھنے والے اگرتھوڑا سا بھی غور فرمائیں تو یہ بات واضح ہوجاتی کہ مذکورہ تفسیر خود ان آیات کے ظاہر اور سیاق وسباق کے خلاف ہے، بلکہ سورہ فرقان میں اسی مضمون میں وارد آیات ﴿ وَهُوَ الَّذِي مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هَذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَهَذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ وَجَعَلَ بَيْنَهُمَا بَرْزَخًا وَحِجْرًا مَّحْجُورًا ﴾ کے بھی خلاف ہے، حالاں کہ مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ تفسیر قرآن کا سب سے مستند اور پہلا درجہ یہ کہ تفسیر القرآن بالقرآن ہو، یعنی کلام اللہ کی تفسیر ووضاحت خود کلام اللہ سے کی جائے ۔
7 ۔ چوں کہ الدر المنثور میں محض جمع ونقل مقصود تھا، تحقیق مقصود نہ تھی جیسا کہ ہم پہلے یہ بات عرض کرچکے ہیں، اس لیے خود امام سیوطی نے مقام تحقیق میں مذکورہ تاویل کوآیت قرآن اور شرع کے مخالف ہونے کی وجہ سے محظور اور جہلاء وروافض کی تاویل قرار دیا ہے، چناں چہ انہوں نے اپنی کتاب " الإتقان في علوم القرآن " (2/ 476) میں " فصل في أمهات مآخذ التفسير " کےذیل میں فرمایا: " وأما التأويل المخالف للآية والشرع فمحظور، لأنه تأويل الجاهلين مثل تأويل الروافض قوله تعالى: مرج البحرين يلتقيان: أنهما علي وفاطمة، يخرج منهما اللؤلؤ والمرجان : يعني الحسن والحسين ".
8 ۔ جب کہ یہی بات ان سے پہلے علامہ بدر الدين محمد بن عبد الله بن بہادر الزركشي (المتوفى : 794ھ) اپنی کتاب "البرهان في علوم القرآن" (3/ 153) میں "النوع الحادي والأربعون: معرفة تفسيره وتأويله " کے ذیل میں بیان کرچکے تھے : " فأما التأويل المخالف للآية والشرع فمحظور، لأنه تأويل الجاهلين مثل تأويل الروافض لقوله تعالى: مرج البحرين يلتقيان: أنهما علي وفاطمة، يخرج منهما اللؤلؤ والمرجان : يعني الحسن والحسين رضي الله عنهما".
9 ۔ بسا اوقات بعض مفسرین غیر شعوری طور پر اپنی تفسیر یا کتاب میں ایسی تفسیر ذکر کرتے ہیں جو ان کے اصول کے مطابق ہوتی ہے یا جس کے فساد کا وہ خود عقیدہ رکھتے ہیں، جیسا کہ علامہ ابن تیمیہ نے اسی بات کے ذیل میں سورہ رحمن کی مرج البحرین والی آیات کی مذکور بالا مخصوص تفسیر کو بطور مثال نقل کیا ہے۔
مذکورہ تاویل کے باطل ہونے کی وجوہات:
اہل علم نے متعدد وجوہات کی بنا پر یہ کہاہے کہ مذکورہ تاویل باطل ہے، اس سلسلہ میں ہم سب سے پہلے امام سیوطی اور امام ثعلبی کی نقل کردہ روایت پر کلام کریں گے پھر اس کے باطل ہونے کی وجوہات کو بیان کریں گے۔
امام سیوطی کی روایت:
امام سیوطی نے الدر المنثور (14/ 116) میں اس تاویل کو ابن مردویہ ( أبو بكر أحمد بن موسى بن مردويه الأصبهاني المتوفى: 410ھ ۔ دیکھیے: طبقات المفسرين للداوودي: 1/94) کے حوالہ سے نقل کیا ہے: "وأخرج ابن مردويه عن ابن عباس في قوله : مرج البحرين يلتقيان، قال: علي وفاطمة، بينهما برزخ لا يبغيان، قال النبي صلى الله عليه وسلم : يخرج منهما اللؤلؤ والمرجان، قال : الحسن والحسين. وأخرج ابن مردويه عن أنس بن مالك في قوله: مرج البحرين يلتقيان، قال : علي وفاطمة، يخرج منهما اللؤلؤ والمرجان، قال : الحسن والحسين".اه.
تلاش کے باوجود ابن مردویہ کی تفسیر اور اس روایت کی سند ہمیں دستیاب نہ ہوسکی، ملتقی اہل التفسیر میں لطفی الزغیر نے لکھا ہے کہ دار الکتب الوطنیہ تونس کے مفہرسین میں سے ایک نے کہا کہ ابن مردویہ کی تفسیر (کا مخطوطہ) اس مکتبہ میں موجود ہے ، بہر حال کتاب تاحال غیر مطبوع ہے، البتہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے چار طلبا نے "مرویات ابن مردویہ فی التفسیر" کے نام سے ان کی مرویات کو جمع کیا ہے اور ان سب پر مناقشہ کیا ہے، جو کہ جامعہ اسلامیہ کی ویب سائٹ پر دستیاب ہے، بندہ نے وہاں موجود ڈاکٹر یسری الغراوی کو ای میل کر کے سورہ رحمن سے متعلق مرویات پر مشتمل جلد طلب کی، اس دوران مذکورہ بحث لکھ کر فارغ ہوا تھا کہ ڈاکٹر صاحب کی طرف سے میل کا جواب آچکاتھا، اللہ ان کو جزائے خیر عطا فرمائےکہ انہوں نے کم وقت میں بندہ کی طلب پوری کی اور مذکورہ کتاب کا لنک ارسال کیا، بندہ نے کتاب ڈاؤن لوڈ کی ، مرویات ابن مردويه فی التفسیر، من أول سورة (يس) إلى نهاية سورة (الحديد) جمعا ودراسة کے نام سے یہ ماسڑز کے طالب علم فایز بن حبیب بن دخیل الترجمی کا مقالہ ہے جو انہوں نے سنہ 1414 ھ میں ڈاکٹر حکمت بشیر یسین صاحب کے زیر اشراف تحریر کیا ہے،بندہ نے مطلوبہ مقام کو تلاش کیا تو صفحہ: 549، 550 اور 551 میں سورہ رحمن کی آیت 19 سے 22 کی تفسیر کے ذیل امام سیوطی کی ابن مردویہ سے نقل کردہ دونوں روایتوں پر کلام ملا، صاحب مقالہ نے علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی منہاج السنہ سے ان روایات پر کلام نقل کیا ہے جسے الحمد للہ بندہ اس کتاب کے مطالعہ سے قبل ہی نقل کرچکا تھا ۔
امام ثعلبی کی روایت:
مفسر قرآن امام ابو اسحاق احمد بن محمد بن ابراهيم الثعلبي النيسابوري المتوفى: 427 ھ نے اپنی تفسیر "الكشف والبيان: (9/ 1829) میں اپنی سند کے ساتھ ایسی ہی ایک روایت نقل کی ہے، ملاحظہ کیجیے:
" وأخبرنا الحسين قال : حدّثنا موسى بن محمد بن علي بن عبدالله قال : قرأ أبي على أبي محمد بن الحسن بن علويه القطان من كتابه وأنا اسمع ، قال : حدّثنا بعض أصحابنا قال : حدّثني رجل من أهل مصر يقال له : طسم قال : حدّثنا أبو حذيفة عن أبيه عن سفيان الثوري في قول الله سبحانه : مرج البحرين يلتقيان ، بينهما برزخ لا يبغيان ، قال : فاطمة وعلي . يخرج منهما اللؤلؤ والمرجان، قال : الحسن والحسين . وروي هذا القول أيضاً عن سعيد بن جبير ، وقال : بينهما برزخ : محمد ( صلى الله عليه وسلم ) والله أعلم" . اه.
اس روایت کے من گھڑت ہونے اور مذکور تاویل کے باطل ہونے کی وجوہات:
1 ۔ ایک عام مسلمان جسے تفسیر قرآن سے معمولی بھی مناسبت ہو وہ یقینی طور پر اس تفسیر کوباطل جانے گا۔
2 ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مذکورہ تفسیر کا ثبوت نہیں، جب کہ جمہور مفسرین نے ان سے اس کے برخلاف نقل کیا ہے۔ کما سیاتی۔
3۔ اس روایت کے راوی مجہول ہیں، حضرت سفیان ثوری کے شاگروں میں ان کا شمار نہیں اور یہ بات سفیان ثوری پر بطور جھوٹ گھڑی گئی ہے وہ اس سے بری ہیں۔
4 ۔ اس بات پر اجماع ہے کہ سورہ رحمن مکی سورت ہے، جب کہ حضرت حسن وحسین رضی اللہ عنہما کی ولادت مدینہ منورہ میں ہوئی ہے۔
5۔ مرج البحرین میں" مرج "سے نکاح اور " بحرین" سے حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما اور" لؤلؤ و مرجان" سے حضرات حسنین رضی اللہ عنہما مراد لینا عربی لغت میں اس کا سرے سے کوئی احتمال ہی نہیں، نہ حقیقت کے اعتبار سے اور نہ ہی مجاز کے اعتبار سے ، یہ نہ صرف لغت عرب اور قرآن پر بلکہ اللہ تعالی پر جھوٹ گڑھنے کے مترادف ہے۔
6 ۔ حضرات حسنین کریمین بھی سنت بنی آدم کے تحت اپنے والدین حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما کے نکاح اور ملاپ کے نتیجہ میں پیدا ہوئے ہیں، اس میں نہ تو کوئی خرق عادت بات ہے اور نہ ہی یہ کوئی اضافی فضیلت والی بات ہے، بلکہ یہ عام بنی آ دم کی سنت کے موافق ومطابق ہے۔
7۔ سورہ فرقان کے آخر میں اللہ تعالی نے اسی مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: وَهُوَ الَّذِي مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هَذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَهَذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ ۔ (اور وہی ہے جس نے ایک ساتھ چلائے دو دریا، یہ (ایک) میٹھا ہے پیاس بجھاتا، اور یہ (ایک) کھارا ہے کڑوا)۔ اگر "بحرین" سے حضرت علی اور فاطمہ رضی اللہ عنہما مراد لیے جائیں تو باجماع اہل سنت والجماعت اور شیعہ سب کے نزدیک یہ ان دونوں میں سے کسی ایک مذمت پر مشتمل ہوگا، جس کا کوئی بھی قائل نہیں، کیوں پانی کا میٹھا ہونا اور پیاس بجھانے والا ہونا محمود ومطلوب ہے، جب کہ پانی کا کھارا اور کڑوا ہونا مذموم اور ناپسندیدہ ہے۔ پس معلوم ہوا کہ بحرین سے ان دونوں کو مراد لینا غلط ہے، اور قرآن کی اس آیت کے خلاف ہے۔
8 ۔ اگر "بحرین" سے حضرت علی اور فاطمہ رضی اللہ عنہما مراد لیے جائیں تو اللہ کے ارشاد : بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَا يَبْغِيَانِ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہوں گے جیسا کہ روافض کا گمان ہے یا کوئی اور جو کہ حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما کے ایک دوسرے پر غالب آنے سے مانع ہوں گے، جب کہ یہ بنسبت مدح کے ذم کے زیادہ مشابہ اور قریب ہے۔
9 ۔ جمہور مفسرین نے اس آیت کی مذکورہ تاویل کے برخلاف معنی نقل کیا ہے ، چناں چہ ان آیات کا درست مفہوم یہ ہے کہ اللہ نے دو سمندر یادریا جاری کیے ہیں کہ ایک دوسرے سے ملتے ہیں، ان دونوں کے درمیان ایک آڑ ہے کہ اس سے بڑھ نہیں سکتے، پس اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟ ان دونوں سے موتی اور مونگے برآمد ہوتے ہیں، پھر تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟۔ جب کہ اللہ نے سورہ فرقان میں فرمایا ہے کہ اور وہی ہے جس نے دو سمندریا دریا آپس میں ملا رکھے ہیں، یہ ہے میٹھا اور مزیدار اور یہ ہے کھارا اور کڑوا، ان دونوں کے درمیان ایک حجاب اور مضبوط اوٹ ہے۔
مطلب یہ ہے کہ یہ اللہ تعالی کی وحدانیت کی واضح دلیل ہے کہ صرف اللہ ہی وہ ذات ہے جس نے دو دریاؤں کو ملا کر رواں کیا، ان میں ایک تو خوش ذائقہ اور تشنگی رفع کرنے والا اور دوسرا کھارا اور کڑوا، ان کے درمیان اپنی قدرت سے ایک مظبوط آڑ رکھ دی ہے کہ ایک کا پانی دوسرے سے ملنے نہ پائے۔ اس آیت میں بحرین سے مراد پانی کے وہ مواقع ہیں جہاں شیریں دریا اور نہریں بہتے بہتے سمندر میں آکر گرتی ہیں تو دور دور تک ان دونوں کی موجیں اور دھاریں الگ الگ نظر آتی ہیں، ادھر کا پانی نہایت شیریں اور ادھر کا اپنی نہایت تلخ، میلوں تک یہی کیفیت رہتی ہے، ایک پانی دوسرے سے ملنے نہیں پاتا اور اس قرب اور اتصال کی وجہ سے کسی پانی کے مزہ وذائقہ میں کوئی فرق نہیں آتا، قدرت نے ان دونوں کے درمیان ایک ایسی آڑ رکھ دی ہے جو آنکھوں سے نظر نہیں آتی۔ یا بحرین سے مراد دو دریا ہیں جن میں بعض شیریں اور بعض تلخ اور زمین کو ان کے درمیان حائل کردیا ہے تاکہ وہ آپس میں ملنے پائیں۔ (مفسرین ان دو سمندروں یا دریاؤں کا مصداق مختلف دریاؤں اور سمندروں کو قرار دیا ہے، جیسا کہ کتب تفسیر میں مرقوم ہے)۔ ان دونوں سمندروں یا دریاؤں سے، یا صرف کھارے والے سے، یا سمندر کی اس جگہ سے جہاں نیچے میٹھے پانی کے چشمے ہوں وہاں سے موتی اور مونگے نکلتے ہیں، لؤلؤ بڑاموتی اور مرجان چھوٹا موتی یا اس کے برعکس ہوتا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ہر سال آسمان اور زمین کا سمندر باہم ملتے ہیں یعنی بڑے سمندروں میں سیپیوں کا منہ کھلا ہوا ہوتا ہے، اگر بارش کے پانی کا کوئی قطرہ براہ راست سیپ کے اندر چلا جائے تو اللہ تعالی اسے اپنی قدرت سے موتی بنا دیتے ہیں۔
10 ۔ مذکورہ بالا تفصیل سے کلپ میں بیان کردہ معنی کا بطلان واضح ہوچکا ہے، مزید برآں یہ کہ روافض کی چھوٹی بڑی تفسیر کی ہر کتاب میں اسی باطل تاویل کو اختیار کیا گیا جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ اہل سنت کی نہیں بلکہ روافض کی اختیار کردہ مخصوص تاویل ہے، جب کہ محقق علماء اہل سنت (جن میں خود علامہ سیوطی بھی شامل ہیں) نے اس مزعومہ تاویل کو باطل قرار دے کر رد کردیا ہے۔
*( تلك عشرة كاملة )*
الحاصل:
امید ہے کہ اس پوری تفصیل پر مطلع ہونے کے بعد موصوف خطیب صاحب اپنی بیان کردہ اس باطل تاویل سے فی الفور نہ صرف رجوع کرلیں گے بلکہ سوشل میڈیا پر جیسے اس باطل تاویل کا پرچار کیا تھا ایسے ہی اس سے رجوع اور درست معنی کا پرچار بھی کریں گے، اللہ تعالی ہم سب کو حق کی ہدایت عطا فرمائے اور حق واضح ہونے کے بعد اس کی اتباع کی توفیق عنایت فرمائے اور ہر باطل سے ہماری حفاظت فرمائے اور ہر باطل کو باطل سمجھ کر اس سے اجتناب کی توفیق سے نوازے، آمین۔
الحمد للہ بندہ نے جب یہ تحریر مرتب کر کے حضرت مولانامحمد رضوان عزیز صاحب (مسئول شعبہ تخصص علوم ختم نبوت چناب نگر چنیوٹ) کے توسط سے بیان کرنے والے عالم صاحب کی خدمت میں بھیجا تو انہوں نے خوش دلی سے اسے نہ صرف قبول کیا بلکہ اپنے سابقہ بیان سے رجوع بھی کرلیا اور سوشل میڈیا میں اس کا اظہار بھی کرلیا ہے، جزاھما اللہ خیرا، چناں چہ عمومی فائدہ کے پیش نظر اس تحریر کو شائع کیا جارہا ہے۔
اللهم أرنا الحق حقاً وارزقنا اتباعه، وأرنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابه. اللهم صلى على محمد وعلى آل محمد كما صليت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم إنك حميد مجيد. اللهم بارك على محمد وعلى آل محمد كما باركت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم إنك حميد مجيد .
.......................
اہل علم حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں:
عربی اور اردو کی معروف تفاسیر کی مراجعت سے درست معنی واضح ہوجاتاہے جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے، اس لیے ہم نے ان معروف کتابوں کا حوالہ نہیں دیا جن کا دوران تحریر تذکرہ آیا ہے، البتہ بعض اہم عبارتیں صرف اہل علم کی تسلی کے لیے ذیل میں نقل کی جاتی ہیں، ملاحظہ فرمائیں:
1 ـ قال ابن تيميه في تفسيره (2/ 229): " وقد رأيت من العلماء المفسرين وغيرهم من يذكر في كتابه وكلامه من تفسيرهم ما يوافق أصولهم التي يعلم أو يعتقد فسادها ولا يهتدي لذلك، ثم إنه لسبب تطرف هؤلاء وضلالهم دخلت الرافضة الإمامية، ثم الفلاسفة، ثم القرامطة وغيرهم فيما هو أبلغ من ذلك، وتفاقم الأمر في الفلاسفة والقرامطة والرافضة، فإنهم فسروا القرآن بأنواع لا يقضي العالم منها عجبه،فتفسير الرافضة كقولهم : .... { مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ } على وفاطمة، و { اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ } الحسن والحسين. اه.
2 ـ وقال في منهاج السنة (7/244 ـ 250) بعد أن عزاه إلى تفسير الثعلبي وأبي نعيم ونقل قول الحلي حيث قال: قال الرافضي: "البرهان الثلاثون: قوله تعالى: { مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَانِ، بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لاّ يَبْغِيَانِ } [الرحمن: 19، 20]. من تفسير الثعلبي وطريق أبي نعيم عن ابن عباس في قوله: { مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَانِ } قال: علي وفاطمة { بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لاّ يَبْغِيَانِ }: النبي صلَّى الله عليه وآله { يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ } [الرحمن: 22]: الحسن والحسين، ولم يحصل لغيره من الصحابة هذه الفضيلة، فيكون أولى بالإمامة".
ثم أجاب بقوله: والجواب أن هذا وأمثاله إنما يقوله من لا يعقل ما يقول، وهذا بالهذيان أشبه منه بتفسير القرآن وهو من جنس تفسير الملاحدة والقرامطة الباطنية للقرآن، بل هو شر من كثير منه. والتفسير بمثل هذا طريق الملاحدة، بل هو شر من كثير منه، والتفسير بمثل هذا طريق للملاحدة على القرآن والطعن فيه، بل تفسير القرآن بمثل هذا من أعظم القدح والطعن فيه... وكذلك قول القائل: { مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَانِ } [الرحمن: 19]: علي وفاطمة، { بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لاّ يَبْغِيَانِ } [الرحمن: 20] النبي صلَّى الله عليه وسلَّم، { يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ } [الرحمن: 22]: الحسن والحسين. وكل من له أدنى علم وعقل يعلم بالاضطرار بطلان هذا التفسير، وأن ابن عباس لم يقل هذا. وهذا من التفسير الذي في تفسير الثعلبي، وذكره بإسناد رواته مجهولون لا يُعرفون، عن سفيان الثوري. وهو كذب على سفيان. ثم سرد رواية الثعلبي بسنده وقال: وهذا الإسناد ظلمات بعضها فوق بعض، لا يثبت بمثله شيء. ومما يبيّن كذب ذلك وجوه:
أحدها: أن هذا في سورة الرحمن، وهي مكية بإجماع المسلمين، والحسن والحسين إنما ولدا بالمدينة.
الثاني: أن تسمية هذين بحرين، وهذا لؤلؤاً، وهذا مرجاناً، وجعل النكاح مرجاً - أمر لا تحتمله لغة العرب بوجه، لا حقيقة ولا مجازاً، بل كما أنه كذب على الله وعلى القرآن، فهو كذب على اللغة.
الثالث: أنه ليس في هذا شيء زائد على ما يوجد في سائر بني آدم، فإن كل من تزوج امرأة ووُلد لهما ولدان فهما من هذا الجنس، فليس في ذكر هذا ما يُستعظم من قدرة الله وآياته، إلا ما في نظائره من خلق الآدميين. فلا موجب للتخصيص، وإن كان ذلك لفضيلة الزوجين والولدين، فإبراهيم وإسحاق ويعقوب أفضل من عليّ.
الرابع: أن الله ذكر أنه مرج البحرين في آية أخرى، فقال في الفرقان: { وَهُوَ الَّذِي مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هَذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَهَذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ } [الفرقان: 53] فلو أريد بذلك عليُّ وفاطمة لكان ذلك ذمّاً لأحدهما، وهذا باطل بإجماع أهل السنة والشيعة.
الخامس: أنه قال: { بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لاّ يَبْغِيَانِ } فلو أريد بذلك عليّ وفاطمة، لكان البرزخ الذي هو النبي صلَّى الله عليه وسلَّم - بزعمهم - أو غيره هو المانع لأحدهما أن يبغي على الآخر. وهذا بالذم أشبه منه بالمدح.
السادس: أن أئمة التفسير متفقون على خلاف هذا، كما ذكره ابن جرير وغيره. فقال ابن عباس: بحر السماء وبحر الأرض يلتقيان كل عام وقال الحسن: مرج البحرين، يعني بحر فارس والروم، بينهما برزخ: هو الجزائر.اه.
(انظر: تفسير الطبري (ط. بولاق) 27/74-76، زاد المسير (8/112).
3 ـ وكذا قال محمد بن عبد الرحمن بن محمد بن عبد الله بن عبد الرحمن بن محمد بن قاسم العاصمي الحنبلي (المتوفى : 1421هـ) في آل رسول الله وأولياؤه (ص: 106).
4 ـ قوله: { يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ } [الرحمن: 22] قال الزجّاج: إنما يخرج من البحر الملح، وإنما جمعهما لأنه إذا خرج من أحدهما فقد خرج منهما، مثل: { وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِيهِنَّ نُورًا } وقال الفارسي: أراد من أحدهما فحذف المضاف. وقال ابن جرير: إنما قال منهما، لأنه يخرج من أصداف البحر عن قطر السماء. وأما اللؤلؤ والمرجان ففيهما قولان: أحدهما: أن المرجان ما صغر من اللؤلؤ، واللؤلؤ: العظام. قاله الأكثرون، منهم ابن عباس وقتادة والفرّاء والضحّاك. وقال الزجاج: اللؤلؤ اسم جامع للحب الذي يخرج من البحر، والمرجان صغاره. الثاني: أن اللؤلؤ الصغار، والمرجان الكبار. قاله مجاهد والسدي ومقاتل.
5 ـ قال ابن كثير في تفسير هذه الآيات: "(مرج البحرين يلتقيان). قال ابن عباس: أي أرسلهما. وقوله: (يلتقيان) قال ابن زيد: أي منعهما أن تلتقيا بما جعل بينهما من البرزخ الحاجز الفصل بينهما. والمراد بقوله (البحرين): الملح والحلو، فالحلو هذه الأنهار السارحة بين الناس. وقد قدمنا الكلام على ذلك في سورة الفرقان عند قوله تعالى: { وَهُوَ الَّذِي مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هَذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَهَذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ وَجَعَلَ بَيْنَهُمَا بَرْزَخًا وَحِجْرًا مَّحْجُورًا }... { بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لاّ يَبْغِيَانِ } أي وجعل بينهما برزخاً، وهو الحاجز من الأرض لئلا يبغي هذا على هذا وهذا على هذا... (يخرج منهما اللؤلؤ والمرجان) أي من مجموعهما فإذا وجد ذلك من أحدهما كفى... واللؤلؤ معروف، وأما المرجان فقيل: هو صغار اللؤلؤ".
(وانظر: تفسير الطبري، وزاد المسير لابن الجوزي، والدر المنثور للسيوطي).
6 ـ قال محمد الأمين بن محمد المختار بن عبد القادر الجكني الشنقيطي (المتوفى: 1393هـ) في العذب النمير من مجالس الشنقيطي في التفسير (3/ 340): أما إذا كان صُرِفَ الكلامُ عن ظاهرِه المتبادرِ منه لاَ لدليلٍ في نفسِ الأمرِ ولاَ لدليلٍ [خارجيٍّ صحيحٍ فإن ذلك لاَ يُعَدُّ من التأويلِ المقبولِ] بل هو تَلاَعُبٌ بنصوصِ القرآنِ، وكقولِهم: {مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ} [الرحمن: آية 19] البحرين: عَلِيٌّ وَفَاطِمَةُ: {بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ} [الرحمن: آية 20] الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ. فهذا ليس من التأويلِ، وإنما هذا من اللعبِ والتلاعبِ بكتابِ اللَّهِ. ويكثرُ مثلُ هذا في تفسيرِ الْبَاطِنِيِّينَ وغلاةِ الروافضِ، ولا يُسَمَّى تأويلاً وإنما هو لَعِبٌ.اه.
7 ـ وجاء في كتاب الدخيل في التفسير - جامعة المدينة ـ (ص: 352): وقالوا في قوله: {مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَانِ} (الرحمن: 19) والآية: {يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ} (الرحمن: 22) {مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ} علي وفاطمة، {اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ} الحسن والحسين.اه.
8 ـ قال الدكتور محمد بن محمد أبو شهبة في الإسرائيليات والموضوعات فى كتب التفسير (ص: 94) : ومن تفسيرات الباطنية : قولهم في قوله تعالى : {مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَان} : أن المراد بهما علي ، وفاطمة ، وقوله : {يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَان} : أن المراد : الحسن والحسين.اه. وقال أيضا (ص: 114) تحت عنوان: أسباب الضعف في التفسير بالمأثور: وأضرابهم ، فقد وضعوا أحاديث تؤيد مذاهبهم ، قال شيخ الإسلام ابن تيمية : "ثم إنه لسبب تطرف هؤلاء وضلالهم ، دخلت الرافضة الإمامية ثم الفلاسفة ، ثم القرامطة1 ، وغيرهم فيما هو أبلغ من ذلك ، وتفاقم الأمر في الفلاسفة ، والقرامطة ، والرافضة ؛ فإنهم فسروا القرآن بأنواع لا يقضي العالم منها عجبه ، فتفسير الرافضة كقولهم : ... : {مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ} : عليا وفاطمة ، وقوله : {يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ}5 : الحسن والحسين.اه.
9 ـ قال المناوي في فيض القدير (2/ 102): (أكثر ما أتخوف على أمتي من بعدي رجل) أي الافتتان برجل زائغ (يتأول القرآن) أي شيئا من أحكامه أو غيرهما بتأويل باطل بحيث (يضعه على غير مواضعه) كتأويل الرافضة : (مرج البحرين يلتقيان) ، [ الرحمن : 22 ] أنهما علي وفاطمة ، (يخرج منهما اللؤلؤ والمرجان) ، [ الرحمن : 22 ] الحسن والحسين.اه.
10 ـ قال أحمد بزوي الضاوي في مذهب اهل السنة في التفسير (ص: 52): أما الأسباب المنهجية الخارجية الموجهة لرد التأويل، وعدم الاخذ به فيحصرها الزركشي في سببين: 1- معارضة القرآن بالرأي والمذهب والهوى. وفيه يقول: فأما التأويل المخالف للآية والشرع فمحظور لأنه تأويل الجاهلين، مثل تأويل الروافض لقوله تعالى :{مرج البحرين يلتقيان} أنهما علي وفاطمة. ( يخرج منهما اللؤلؤ والمرجان) يعني الحسن والحسين رضي الله عنهما ... اه.
( تلك عشرة كاملة )
نوٹ :
روافض کی درج ذیل کتابوں میں ان آیات کی وہی مخصوص تفسیر ذکر کی گئی ہے جو سوال میں مذکور ہے، ملاحظہ کیجیے: تفسير القمي: 2/344، وتفسير فرات، ص: 177، والخصال، ص: 65، تفسير الصافي: 5/109، البرهان، وقد ذكر اثنتي عشرة رواية في هذا التأويل: 4/265، بحار الأنوار: 24/97.
بحار الانوار کے مصنف نے اس تفسیر کو بیان کرنے کے لیے " باب أنهم - عليهم السلام - (البحر واللؤلؤ والمرجان) کے عنوان سے ایک مستقل باب قائم کیا، بطور نمونہ اس کی ایک روایت ملاحظہ کیجیے:
قال المجلسي الرافضي في بحار الأنوار(24/97) باب: (36) الرواية الأولى: عن جابر عن أبي عبد الله عليه السلام في قوله عز وجل: (مرج البحرين يلتقيان) قال :"علي وفاطمة. (بينهما برزخ لا يبغيان) قال: لا يبغي علي على فاطمة ولا تبغي فاطمة على علي. (يخرج منهما اللؤلؤ والمرجان) الحسن والحسين عليهم السلام. اه.
اس کے علاوہ بھی کئی شیعہ مفسرین ومصنفین نے اپنی کتابوں میں اس مخصوص تفسیر کو ذکر کیا، ہم نے چند حوالہ جات پر اکتفا کو کافی جانا کہ اس سے بات واضح ہوگئی ہے۔
هذا، وصلى الله على سيدنا ومولانا محمد وعلى آله وصحبه وبارك وسلم ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين.
1 ذو القعدة 1441 هـ ـ 23 / 6 / 2020 م .
2:25 مساء .