سانحۂ کربلا اور شہادتِ امام حسین رضی اللہ عنہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تمہید:
تاریخ عالم کا ورق ورق انسان کے لئے عبرتوں کا مرقع ہے ۔ بالخصوص تاریخ کے بعض واقعات تو انسان کے ہر شعبہ زندگی کے لئے ایسے عبرت ناک ہیں کہ جن سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا ۔ انہیں واقعات میں سے ایک واقعہ ٗ میدانِ کربلا میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت کابھی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ جب سے اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو وجود بخشا ہے اس وقت سے لے کر آج تک اور شاید قیامت کی صبح تک کوئی ایسا واقعہ رُونما نہ ہوکہ جس پر خود تاریخ کو بھی رونا آگیا ہو ، لیکن امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ ایسا درد ناک اور اندوہ ناک واقعہ ہے کہ جس پر انسانوں کی سنگ دل تاریخ بھی ہچکیاں لے لے کر روتی رہی ہے۔ اس میں ایک طرف ظلم و ستم ، بے وفائی و بے اعتنائی اور محسن کشی و نسل کشی کے ایسے الم ناک اور درد انگیز واقعات ہیں کہ جن کا تصور کرنا بھی آج کل ہم جیسے لوگوں کے لئے ناممکن ہے ۔ اور دوسری طرف اہل بیت اطہار ، رسول پاک ا کے چشم و چراغ اور اُن کے ستر، بہتر متعلقین کی ایک چھوٹی سی جماعت کا باطل کے مقابلہ کے لئے ثابت قدمی اور جان نثاری جیسے ایسے محیر العقول واقعات ہیں کہ جن کی نظیر تمام عالم انسانیت کی تاریخ میں ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے ۔
تاریخی پس منظر:
حضرات اہل بیتص شروع سے ہی اپنے آپ کو خلافت کا زیادہ حق دار سمجھتے تھے ۔ حضرت معاویہص کی وفات کے بعد تخت خلافت جب خالی ہوا تو یزیدنے فوراً اپنی خلافت کا اعلان کردیا ، کیوں کہ وہ پہلے سے ہی ولی عہد مقرر ہوچکا تھا، اس لئے اس نے امام حسین رضی اللہ عنہ سے بھی اپنے ہاتھ پر بیعت کرنے کا مطالبہ کردیا ،لیکن امام حسین رضی اللہ عنہ نے کسی کی پرواہ کیے بغیر اس بات کا سرعام اعلان کردیا کہ یزید خلافت کا اہل نہیں ہے ، اس لئے اسے خلیفۃ المسلمین نہیںبنایا جاسکتا ۔ یزید کو جب اس بات کا علم ہوا تو اس نے والیٔ مدینہ ولید بن عتبہ کو خط لکھا کہ وہ امام حسین رضی اللہ عنہ کو میری بیعت پر مجبور کرے اور ان کو اس معاملہ میں مزید کسی قسم کی مہلت نہ دے ۔ ولید کے پاس جب یہ خط پہنچا تو وہ فکر میں پڑگیا کہ اس حکم کی تعمیل وہ کس طرح کرے ؟ چناں چہ اس نے سابق والیٔ مدینہ مروان بن حکم کو مشورہ کے لئے بلایا ، اس نے کہا کہ اگر امام حسین رضی اللہ عنہ یزید کے ہاتھ پر بیعت کرلیں تو ٹھیک، ورنہ ان کو یہیں پرقتل کردیا جائے ۔نیز مروان نے امام حسین رضی اللہ عنہ کے سامنے ولید سے کہا کہ ابھی امام حسین رضی اللہ عنہ تمہارے ہاتھ میں ہیں، اس لئے ان سے درگزر نہ کرو ،اگر یہ تمہارے ہاتھ سے نکل گئے تو پھر دوبارہ کبھی تمہارے ہاتھ نہیں آئیں گے ۔ لیکن ولید ایک عافیت پسند شخص تھا، اُس نے مروان کی بات کی پرواہ کیے بغیر امام حسین رضی اللہ عنہ کے لئے راستہ کھول دیا اور وہ واپس چل پڑے۔ مروان نے ولید کو ملامت کی کہ تو نے موقع ضائع کردیا ، مگر ولید نے کہا کہ: ’’ اللہ کی قسم ! میں امام حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے سے میں ڈرتا ہوں ، کہیں ایسا نہ ہوکہ قیامت کے دن وہ اپنے خون کا مطالبہ مجھ سے کردیں ، اس لئے کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کے خون کا مطالبہ جس کی گردن پر ہوگا وہ قیامت کے دن نجات نہیں پاسکے گا۔‘‘
مکہ مکرمہ کی طرف ہجرت:
چنانچہ امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے اہل و عیال کو لے کر مدینہ منورہ سے نکل کر مکہ مکرمہ کی طرف چل دیئے اور وہیں جاکر پناہ گزین ہوگئے ۔ یزید کو جب ولید کے عفو و درگزر کا علم ہوا تو اُس نے انہیں مدینہ سے معزول کردیا۔
اہل کوفہ کے خطوط:
اہل کوفہ کو جب اس بات کا علم ہوا کہ امام حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کی بیعت سے انکار کردیا ہے تو کچھ حضرات سلیمان بن صرد خزاعی کے مکان پر جمع ہوئے اور امام حسین رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ ہم بھی یزید کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں،آپ فوراً کوفہ تشریف لے آئیں ، ہم سب آپ کے ہاتھ ہر بیعت کرلیںگے اور یزید کی طرف سے مقرر کیے ہوئے کوفہ کے امیر نعمان بن بشیرص کو یہاں سے نکال دیں گے ۔
اِس کے دو دن بعد ان لوگوں نے اسی مضمون کا ایک خط امام حسین رضی اللہ عنہ کی طرف لکھا اور چند دوسرے خطوط بھی آپ کے پاس بھیجے ،جن میں یزید کی شکایات اور اس کے خلاف اپنی نصرت و تعاون اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کا یقین دلایا گیا تھا ۔ علاوہ ازیں چند وفود بھی آپ کی خدمت میں بھیجے ۔ جن سے متاثر ہوکر امام حسین رضی اللہ عنہ نے بڑی حکمت و دانش مندی سے یہ کام کیا کہ بجائے خود جانے کے اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیلص کو کوفہ روانہ کیا اور ان کے ہاتھ یہ خط لکھ کر اہل کوفہ کی طرف بھیجاکہ :’’میں اپنی جگہ اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو بھیج رہا ہوں تاکہ یہ وہاں کے حالات کا جائزہ لے کر مجھے ان کی اطلاع دیں۔ اگر حالات درست ہوئے تو میں فوراً کوفہ پہنچ جاؤںگا۔‘‘
کوفہ آنے کی دعوت:
مسلم بن عقیل صنے جب چند دن کوفہ میں گزارے تو انہیں اندازہ ہواکہ یہ لوگ واقعتایزید کی بیعت سے متنفر اور امام حسین رضی اللہ عنہ کی بیعت کے لئے بے چین ہیں ، چناں چہ انہوں نے چندہی دنوں میں اہل کوفہ سے اٹھارہ ہزار مسلمانوں کی امام حسین رضی اللہ عنہ کے لئے بیعت کرلی اور حسب ہدایت امام حسین رضی اللہ عنہ کو کوفہ آنے کی دعوت دے دی۔ (الکامل فی التاریخ)
دوستوں کا مشورہ:
جب لوگوں میں یہ خبر مشہور ہوئی امام حسین رضی اللہ عنہ نے کوفہ جانے کا عزم کرلیا ہے تو بجز عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے اور کسی نے آپ کو کوفہ جانے کا مشورہ نہیں دیا ، بلکہ بہت سے حضرات آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو یہ مشورہ دیا کہ آپ کوفہ ہرگز نہ جائیں اور اہل عراق و اہل کوفہ کے وعدوں اور ان کی بیعتوں پر بھروسہ نہ کریں ، کیوں کہ وہاں جانے میں آپ کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے۔
کوفہ کے لئے روانگی:
لیکن امام حسین رضی اللہ عنہ کو کوفہ کی طرف روانہ ہونے کامکمل شرح صدر ہوچکا تھا اِس لئے آپ رضی اللہ عنہ اپنی خداداد بصیرت اور دُور اندیشی کے سبب مؤرخہ۸ یا ۹ذی الحجہ ۶۰ھکو مکہ مکرمہ سے کوفہ کے لئے روانہ ہوگئے ۔ کوفہ میں جب ابن زیاد کو آپ کی آمد کی اطلاع ملی تو اُس نے مقابلے کے لئے پیشگی ہی اپنا ایک سپاہی ’’قادسیہ‘‘ کی طرف روانہ کردیا ۔ امام حسین رضی اللہ عنہ جب مقام’’ زیالہ‘‘ پر پہنچے تو آپ کو یہ الم ناک خبر پہنچی کہ آپ کے رضاعی اور چچا زاد دونوں بھائیوں کو اہل کوفہ نے قتل کردیا ہے ۔ اب آپ نے اپنے تمام ساتھیوں کو ایک جگہ جمع کرکے ان سے فرمایا کہ اہل کوفہ نے ہمیں دھوکہ دیا ہے اور ہمارے متبعین ہم سے پھر گئے ہیں ۔
امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی ابھی راستہ میں چل ہی رہے تھے کہ دوپہر کے وقت دُور سے کچھ چیزیں حرکت کرتی نظر آئیں ، غور کرنے پر معلوم ہوا کہ گھڑ سوار ہیں ، اس لئے امام حسین رضی اللہ عنہ اور آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں نے ایک پہاڑی کے قریب پہنچ کر محاذ ِ جنگ بنالیا ۔
حر بن یزید کا ایک ہزار کا لشکر:
ابھی یہ حضرات محاذ کی تیاری میں مصروف ہی تھے کہ ایک ہزار گھڑ سوار وں کی فوج حر بن یزید کی قیادت میں مقابلہ پر آگئی اور اِن سے مقابلہ کے لئے آکر پڑاؤ ڈال دیا ۔ حر بن یزید کو حصین بن نمیر نے ایک ہزار گھڑ سواروں کی فوج دے کر ’’قادسیہ‘‘ بھیجا تھا ، اس لئے یہ اور اِس کا لشکر آکر امام حسین رضی اللہ عنہ کے مقابل ٹھہر گئے ۔ امام حسین رضی اللہ عنہ نے حر بن یزید سے فرمایا:’’تمہارا کیا ارادہ ہے؟۔‘‘ حر نے کہا: ’’ہمارا ارادہ یہ ہے کہ ہم آپ کو ابن زیاد کے پاس پہنچادیں ۔‘‘ امام حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’میں تمہارے ساتھ ہر گز نہیں جاسکتا ۔‘‘ حر نے کہا: ’’اللہ کی قسم ! پھر ہم بھی آپ کو یہاں تنہا نہ چھوڑیں گے۔‘‘
حر بن یزید کا اعترافِ حق:
اس کے بعد حر نے کہاکہ: ’’مجھے آپ سے قتال کرنے کا حکم نہیں دیا گیا ، بلکہ حکم یہ ہے کہ میں آپ سے اس وقت تک جدا نہ ہوں جب تک کہ آپ کو ابن زیاد کے پاس کوفہ نہ پہنچاآؤں ، اس لئے آپ کوئی ایسا راستہ اختیار کریں جو نہ کوفہ کو جاتا ہو اور نہ مدینہ کو ، یہاں تک کہ میں ابن زیاد کو خط لکھوں اور آپ بھی یزید یا ابن زیاد کو خط لکھیں شاید اللہ تعالیٰ میرے لئے کوئی مخلص پیدا فرمادے اور میں آپ کے ساتھ مقاتلہ کرنے اور آپ کو ایذا پہنچانے سے کسی طرح بچ جاؤں!۔‘‘ امام حسین رضی اللہ عنہ نے ’’عذیب‘‘ اور ’’قادسیہ‘‘ کے راستہ سے بائیں جانب چلنا شروع کردیا اور حر بن یزید بھی اپنے لشکر سمیت ان کے ساتھ چلتا رہا ۔ (تاریخ طبری)
امام حسین رضی اللہ عنہ کا خواب:
امام حسین رضی اللہ عنہ جب’’ نصر بنی مقاتل‘‘ پہنچ گئے تو آپ پر ذرا سی غنودگی طاری ہوگئی لیکن اس کی تھوڑی ہی دیر بعدآپ رضی اللہ عنہ ’’ انا للہ وانا الیہ راجعون ‘‘کہتے ہوئے بیدار ہوگئے آپ کے صاحب زادے علی اکبر نے جب یہ سنا تو دوڑتے ہوئے آئے اور پوچھنے لگے : ’’ ابا جان! کیا بات ہے؟۔‘‘ امام حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ: ’’میں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی گھڑ سوار میرے پاس آیاہے اور وہ مجھ سے کہہ رہا ہے کہ : ’’ کچھ لوگ چل رہے ہیں اور ان کی موتیں بھی ان کے ساتھ چل رہی ہیں ۔‘‘ اس سے میں سمجھا کہ یہ ہماری موت ہی کی خبر ہے۔‘‘
علی اکبر کی ثابت قدمی:
صاحب زادے نے عرض کیا : ’’اباجان! کیا ہم حق پر نہیں ہیں۔؟‘‘آپؓ نے فرمایا : ’’بلا شبہ ہم حق پر ہیں ۔‘‘ صاحب زادے نے عرض کیا : ’’پھر ہمیں کیا ڈر ہے ، جب کہ ہم حق پر مر رہے ہیں؟۔ ‘‘ امام حسین رضی اللہ عنہ نے ان کو شاباش دی اور فرمایا کہ : ’’واقعی تم نے اپنے باپ کا صحیح حق ادا کیاہے۔‘‘ (تاریخ طبری)
حر بن یزید پر جاسوسوں کا تسلط:
اس کے بعد امام حسین رضی اللہ عنہ آگے کی طرف چل دیئے اور جب مقام’’ نینویٰ ‘‘پر پہنچے تو ایک گھڑ سوار کوفہ سے آتا ہوا نظرآیا ، یہ سب اس کی آمد میں اپنی اپنی سواریوں سے نیچے اتر گئے ۔ اس نے آکر امام حسین رضی اللہ عنہ کو تو نہیں البتہ حر بن یزید کو سلام کیا اور ابن زیاد کا خط اس کو دیا ،حر نے ابن زیاد کا خط پڑھ کر اس کا مضمون امام حسین رضی اللہ عنہ کو سنا یا اور ساتھ ہی اپنی مجبوری بھی ظاہر کی کہ: ’’اِس وقت میرے سر پر جاسوس مسلط ہیں ، اس لئے فی الحال میں آپ کے ساتھ کسی بھی قسم کی کوئی مصالحت نہیں کرسکتا۔‘‘
عمرو بن سعد کا چار ہزار کا لشکر:
اِس کے بعد ابن زیاد نے کوفہ سے عمرو بن سعد کو مجبور کرکے چار ہزار کا لشکر دے کر امام حسین رضی اللہ عنہ کے مقابلے کے لئے بھیج دیا۔ عمرو بن سعد نے یہاں پہنچ کر امام حسین رضی اللہ عنہ سے کوفہ آنے کی وجہ پوچھی تو آپ نے پورا واقعہ سنایا اور فرمایا کہ:’’ اہل کوفہ نے خود مجھے یہاں آنے کی دعوت دی ہے ۔ اگر اب بھی ان کی رائے بدل گئی ہو تو میں واپس مدینہ جانے کے لئے تیار ہوں ۔‘‘ عمرو بن سعد نے اسی مضمون کا ایک خط لکھ کر ابن زیاد کی طرف لکھاکہ امام حسین رضی اللہ عنہ واپس جانے کے لئے تیار ہیں ۔
پانی کی بندش:
ابن زیاد نے جواب میں لکھا کہ: ’’ امام حسین رضی اللہ عنہ کے سامنے صرف یہ ایک شرط رکھوکہ وہ یزید کے ہاتھ پر بیعت کرلیں! جب وہ ایسا کرلیں گے تو پھر ہم غور کریں گے کہ اُن کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے ؟ اور ساتھ ہی عمر وبن سعد کو یہ حکم دیا کہ وہ امام حسین رضی اللہ عنہ اور اُن کے ساتھیوں کا پانی بند کردیں ۔‘‘ یہ واقعہ امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت سے تین دن پہلے کا ہے ۔
پانی پر تصادم:
چناں چہ عمرو بن سعد نے ان کا پانی بالکل بند کردیا، یہاں تک کہ جب یہ سب حضرات پیاس کی شدت سے نڈھال ہوئے تو امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے بھائی عباس بن علیص کو تیس گھڑ سواروں اور تیس پیادہ پاؤں کے ساتھ پانی لانے کے لئے بھیجا ، جب یہ لوگ پانی لینے کے لئے جارہے تھے تو راستہ میں عمرو بن سعد کی فوج سے ان کی مڈبھیڑ ہوگئی، لیکن اس کے باوجود پانی کی تقریباً بیس مشکیں یہ حضرات اپنے ساتھ بھر کر لے آئے ۔
عمرو بن سعد سے مکالمہ:
امام حسین رضی اللہ عنہ نے عمرو بن سعد کے پاس پیغام بھیجا کہ: ’’ آج رات ایک دوسرے کے لشکروں کے ساتھ ہماری ملاقات ہونی چاہیے تاکہ ہم سب بالمشافہ ایک دوسرے کے سامنے گفتگو کرسکیں۔‘‘ عمرو بن سعد نے آپ کا یہ پیغام قبول کیا اور رات کو دونوں لشکروں نے باہم ایک دوسرے سے ملاقات ہوئی۔
تین شرطیں:
ملاقات میں امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے متعلق عمرو بن سعد کے سامنے مندرجہ ذیل تین شرطیں رکھیں :
۱- ’’میں جہاں سے آیا ہوں وہیں واپس چلا جاؤں۔
۲- میں یزید کے پاس چلا جاؤں اور خود اس سے اپنا معاملہ طے کرلوں ۔
۳-مجھے مسلمانوں کی کسی سرحد پر پہنچادو ، وہ لوگ جس حال میں ہوں گے میں بھی اسی حال میں رہ لوں گا۔‘‘
عمرو بن سعد نے امام حسین رضی اللہ عنہ کی یہ تینوں باتیں سن کر ابن زیاد کی طرف دوبارہ ایک خط روانہ کیا، جس میں لکھاتھا کہ: ’’ اللہ تعالیٰ نے جنگ کی آگ بجھادی اور مسلمانوں کا کلمہ متفق کردیا ۔ مجھ سے امام حسین رضی اللہ عنہ نے ان (مذکورہ) تین باتوںکا اختیار مانگا ہے جن سے آپ کا مقصد پورا ہوجاتا ہے اور امت کی اسی میں صلاح و فلاح ہے۔‘‘
ابن زیاد نے جب یہ خط پڑھا تو وہ کافی متاثر ہوا اور کہا کہ: ’’ یہ خط ایک ایسے شخص کا ہے جو امیر کی اطاعت بھی چاہتا ہے اور اپنی قوم کی عافیت کا بھی خواہش مند ہے، اس لئے ہم نے اس خط کو قبول کرلیا ہے ۔ ‘‘
شمرکی مخالفت:
لیکن شمر بن ذی الجوشن جو ابن زیاد کے پاس ہی ایک طرف بیٹھا ہوا تھا ،کہنے لگا کہ: ’’ کیا آپ امام حسین رضی اللہ عنہ کو مہلت دینا چاہتے ہیں تاکہ وہ قوت حاصل کرکے دوبارہ تمہارے مقابلہ کے لئے نکل کھڑے ہو ں؟ یاد رکھو! اگر آج وہ تمہارے ہاتھ سے نکل گئے تو پھر کبھی تم ان پر قابو نہ پاسکو گے ، مجھے اس خط میں عمرو بن سعد کی سازش معلوم ہوتی ہے ،کیوں کہ میں نے سنا ہے کہ وہ راتوں کو آپس میں باتیں کیا کرتے ہیں۔‘‘
ابن زیاد کا جواب:
ابن زیاد نے شمر کی رائے کو قبول کرتے ہوئے عمر وبن سعد کی طرف اسی مضمون کا ایک خط لکھا اور اسے شمر کے ہاتھ روانہ کیا اوراسے ہدایت کی کہ اگر عمرو بن سعد میرے اس حکم کی فوراً تعمیل نہ کرے تو تو اسے قتل کردینا اور اس کی جگہ لشکر کا امیر تو خود بن جانا!۔
عمرو نے دُور سے ہی شمر کو پڑھ لیا:
شمربن ذی الجوشن جب ابن زیاد کا خط لے عمرو بن سعد کے پاس پہنچا تو وہ سمجھ گئے کہ شمر کے مشورہ سے یہ صورت عمل وجود میں آئی ہے اور میرا مشورہ ردّ کردیا گیا ہے ، اس لئے عمرو نے شمر سے کہا کہ: ’’تونے بڑا ظلم کیا ہے کہ مسلمانوں کا کلمہ متفق ہورہا تھا اور تونے اس کو ختم کرکے قتل و قتال کا بازار گرم کردیا ہے ۔‘‘ بالآخر امام حسین رضی اللہ عنہ کو یہ پیام پہنچایا گیا ، توآپ نے اس کے قبول کرنے سے صاف انکار کردیا اور فرمایا کہ : ’’ اس ذلت سے تو موت ہی بہتر ہے۔‘‘
خواب میں آنحضرت ا کی زیارت:
شمربن ذی الجوشن محرم کی نویں تاریخ کو اس محاذ پر پہنچا تھا ۔ امام حسین رضی اللہ عنہ اُس وقت اپنے خیمے کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے کہ اسی حالت میں آپ پر کچھ غنودگی سی طاری ہوگئی اور آنکھ لگ گئی ، لیکن پھر اچانک ہی ایک آواز کے ساتھ آپ بیدار ہوگئے ۔ آپ کی ہم شیرہ زینب ؓنے جب یہ آواز سنی تو دوڑتی ہوئی آئیں اورپوچھا کہ یہ آواز کیسی تھی؟ ۔ آپ نے فرمایا کہ : ’’ابھی ابھی خواب میں مجھے رسول اللہا کی زیارت ہوئی ہے ، آپؐ فرمارہے ہیں کہ: ’’ اب تم ہمارے پاس آنے والے ہو۔‘‘ حضرت زینب ؓیہ سن کر رُوپڑیں ،لیکن امام حسین رضی اللہ عنہ نے انہیں چپ کرایا اور تسلی دی ۔
اتنے میں شمر کا لشکر سامنے آگیا ، آپ کے بھائی حضرت عباس رضی اللہ عنہ آگے کی جانب بڑھے اور اپنے مدمقابل حریف سے گفتگو شروع کی ، لیکن اس نے بلا مہلت قتال کا اعلان کردیا ۔ حضرت عباس صنے جب جنگ کا اعلان سنا تو انہوں نے جاکر امام حسین رضی اللہ عنہ کو اس کی اطلاع دے دی۔ امام حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’ ان سے کہوکہ آج کی رات قتال ملتوی کردو،تاکہ آج کی رات میں وصیت ، نماز ، دعاء اور استغفار میں گزار لوں ۔‘‘ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے امام حسین رضی اللہ عنہ کا پیغام جاکر شمر تک پہنچادیا۔ شمر ذی الجوشن اور عمر وبن سعد نے لوگوں سے مشورہ کیا اور آپ رضی اللہ عنہ کو اس رات عبادت کرنے کی مہلت دے دی اور واپس چل دیئے۔
عاشوراء کی رات اہل بیت کے سامنے تقریر:
امام حسین رضی اللہ عنہ نے رات کو اپنے اہل بیت اور اصحاب کو جمع کرکے ایک خطبہ دیا جس کا لب لباب یہ تھا: ’’میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں ٗ راحت میں بھی اور مصیبت میں بھی ۔ اے اللہ! میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں کہ تونے ہمیں شرافت نبوت اسے نوازا ، ہمیں کان اور آنکھیں اور دل دیئے ، جن سے ہم آپ کی آیات سمجھیں اور ہمیں آپ نے قرآن پاک سکھلایا اور دین کی سمجھ عطا فرمائی ، ہمیں آپ اپنے شکر گزار بندوں میں داخل فرمالیجئے۔‘‘
اس کے بعد ارشاد فرمایا: ’’ میرے علم میں آج تک کسی شخص کے ساتھی ایسے وفا شعار اور نیکو کار نہیںہیں جیسے میرے ساتھی ہیں اور نہ ہی کسی کے اہل بیت میرے اہل بیت سے زیادہ ثابت قدم نظر آتے ہیں، آپ لوگوں کو اللہ تعالیٰ میری طرف سے بہت بہت جزائے خیر عطا فرمائے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ کل ہمارا آخری دن ہے ، میں آپ سب کو خوشی سے اجازت دیتا ہوں کہ سب اس رات کی تاریکی میں متفرق ہوجاؤ اور جہاں پناہ ملے وہاں چلے جاؤ اور میرے اہل بیت میں سے ایک ایک کا ہاتھ پکڑلو ، اور مختلف علاقوں میں پھیل جاؤ ، کیوں کہ دشمن میرا طلب گار ہے ، وہ مجھے پائے گا تو دوسروں کی طرف التفات نہ کرے گا۔‘‘
یہ تقریر سن کر آپ کے بھائی ، آپ کی اولاد ، آپ کے بھتیجے اور حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کے صاحب زادے یک زبان ہوکر بولے : ’’ واللہ! ہم ہرگز ایسا نہیں کریں گے ، ہمیں اللہ تعالیٰ آپ کے
بعد باقی نہ رکھے۔‘‘
عاشوراء کی رات بنو عقیل کے سامنے تقریر:
اس کے بعد امام حسین رضی اللہ عنہ نے بنو عقیل کو مخاطب کرکے فرمایا : ’’تمہارے ایک بزرگ مسلم بن عقیل صشہید ہوچکے ہیںتمہاری طرف سے وہی ایک کافی ہیں ، تم سب واپس چلے جاؤ ، میں تمہیں خوشی سے اجازت دیتا ہوں ۔‘‘ انہوں نے کہا کہ : ’’ہم لوگوں کو کیا منہ دکھائیں گے کہ اپنے بزرگوں اور بڑوں کو موت کے سامنے چھوڑ کر اپنی جان بچا لائے ، بلکہ اللہ کی قسم! ہم تو آپ پر اپنی جانیں اور اولاد و اموال سب کچھ نچھاور کردیں گے۔‘‘
اپنی ہم شیرہ زینب کو وصیت:
آپ کی ہمشیرہ حضرت زینب ؓبے قرار ہوکر رُونے لگیں تو آپ نے انہیں تسلی دی اور وصیت فرمائی کہ :’’میری بہن! میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ میری شہادت پر نہ تم اپنے کپڑے پھاڑنا اور نہ ہی سینہ کوبی کرنا ، نیز چیخ اور چلا کر رونے سے بھی گریز کرنا ۔‘‘
ہمشیرہ کو یہ وصیت فرماکر امام حسین رضی اللہ عنہ باہر آگئے اور اپنے اصحاب کو جمع کرکے تمام شب تہجد اور دعاء و استغفار میں مشغول رہے ۔ یہ عاشورہ کی رات تھی اور صبح عاشوراء (۱۰ محرم) کا دن تھا ۔ (تاریخ طبری و تاریخ یعقوبی)
یوم عاشوراء کی صبح:
دسویں محرم جمعہ یا ہفتہ کے دن فجر کی نماز سے فارغ ہوتے ہی عمرو بن سعد لشکر لے کر امام حسین رضی اللہ عنہ کے سامنے آگیا ۔ اس وقت امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ کل بہتر (۷۲) اصحاب تھے ، جن میں سے بتیس (۳۲) گھڑ سوار اور چالیس (۴۰) پیادہ پا تھے ۔چنانچہ آپ نے بھی اس کے مقابلہ کے لئے اپنے اصحاب کی صف بندی فرمالی۔
حر بن یزید امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ:
عمرو بن سعد نے اپنے لشکر کو چارحصوں میں تقسیم کرکے ہر حصہ کا ایک امیر بنالیا تھا ۔ ان میں سے ایک حصہ کا امیر حر بن یزید تھا ، جو سب سے پہلے ایک ہزار کا لشکر لے کر امام حسین رضی اللہ عنہ کے مقابلہ کے لئے بھیجا گیا تھا اور امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا ، اس کے دل میں اہل بیت اطہار کی محبت کا جذبہ بیدار ہوچکا تھا ، وہ اس وقت اپنی سابقہ کار روائی پر نادم ہوکر امام حسین رضی اللہ عنہ کے قریب ہوتے ہوتے یک بارگی گھوڑا دوڑا کر آپ کے لشکر میں آملا اور عرض کیا کہ میری ابتدائی غفلت اور آپ کو واپسی کے لئے راستہ نہ دینے کا نتیجہ اس صورت میں ظاہر ہوا جو ہم دیکھ رہے ہیں ۔ واللہ! مجھے یہ اندازہ نہ تھا کہ یہ لوگ آپ کے خلاف اس حد تک پہنچ جائیں گے اور آپ رضی اللہ عنہ کی کوئی بات نہ مانیں گے ، اگر میں یہ جانتا تو ہر گز آپ رضی اللہ عنہ کا راستہ نہ روکتا ، اب میں آپ کے پاس توبہ تائب ہوکر آیا ہوں ، اس لئے اب میری توبہ اور سزا یہی ہے کہ میں بھی آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہوکر ان کے خلاف لڑتا رہوں یہاں تک کہ جان دے دوں۔
اہل کوفہ سے بدظنی:
اس کے بعد امام حسین رضی اللہ عنہ نے رؤسائے کوفہ کا نام لے لے کر پکارا : ’’اے شیث بن ربعی ، اے حجاز بن ابحر ، اے قیس بن اشعث ، اے زید بن حارث ! کیا تم لوگوں نے کوفہ بلانے کے لئے مجھے خطوط نہیں لکھے تھے ؟‘‘ لیکن یہ سب لوگ مکر گئے ۔امام حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ: ’’میرے پاس تمہارے تمام خطوط موجود ہیں۔‘‘ اس کے بعد فرمایا : ’’اے لوگو! اگر تم میرا آنا پسند نہیں کرتے تو مجھے چھوڑ دو ، تاکہ میں کسی ایسی زمین میں چلا جاؤں جہاں مجھے امن ملے۔‘‘ قیس بن اشعث نے کہاکہ: ’’آپ اپنے چچا زاد بھائی ابن زیاد کے حکم پر کیوں نہیں اتر آتے ؟ وہ پھر آپ کا بھائی ہے ، آپ کے ساتھ برا سلوک نہیں کرے گا ۔‘‘ لیکن امام حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ : ’’مسلم بن عقیلص کے قتل کے بعد بھی اگر تمہاری رائے یہی ہے تو اللہ کی قسم! میں کبھی بھی اس کو قبول نہ کروں گا ۔‘‘ یہ فرماکر آپ گھوڑے سے نیچے اتر آئے۔
زہیر بن القینص کی پرجوش تقریر:
حضرت زہیر بن القینص کھڑے ہوئے اور ان لوگوں کونصیحت کی کہ : ’’تم آلِ رسول اکے خون سے باز آجاؤ ، اگر تم اس سے باز نہ آئے تو خوب سمجھ لو کہ تم کو ابن زیاد سے کوئی فلاح نہ پہنچے گی ،بلکہ بعد میں وہ تم پر بھی قتل و غارت کرے گا۔‘‘ ان لوگوں نے زہیر بن القین رضی اللہ عنہ کو خوب برا بھلا کہا اور ابن زیاد کی خوب تعریف کی اور کہا کہ: ’’ ہم تم سب کو قتل کرکے ابن زیاد کے پاس بھیجیں گے۔‘‘
لڑائی کا آغاز:
جب گفتگو طویل ہونے لگی تو شمر ذی الجوشن نے اپنا پہلا تیر ان پر چلا دیا ، اس کے بعد حر بن یزید جو توبہ تائب ہوکر امام حسین رضی اللہ عنہ کے لشکر میں شامل ہوگئے تھے ٗ آگے بڑھے اور لوگوں کو مخاطب کرکے کہا: ’’ اے اہل کوفہ! تم ہلاک و برباد ہوجاؤ ! کیا تم نے ان کو اس لئے بلایا تھا کہ جب یہ آجائیں تو تم ان کو قتل کردو ؟ تم نے تو کہا تھا کہ: ’’ ہم اپنا تن، من ،دھن سبھی کچھ ان پر قربان کردیں گے۔‘‘ اور اب تم ہی ان کے قتل کے درپے ہوگئے ہو ، ان کو تم نے قیدیوں کی مثل بنا رکھا ہے اور دریائے فرات کا جاری پانی ان پر بند کردیا ہے ٗ جسے یہودی ، نصرانی اور مجوسی سبھی پیتے ہیں اور علاقے کے خنزیر اس میں لوٹتے ہیں ، امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے اہل بیت پیاس سے مرے جارہے ہیں ، اگر تم نے اپنی اس حرکت سے توبہ نہ کی اور اس سے باز نہ آئے تو یاد رکھنا !کل قیامت کے دن میدانِ حشر میں اللہ تعالیٰ تمہارا پانی بند کرے گا۔‘‘
لشکر حسین رضی اللہ عنہ کی شجاعت و بہادری:
اب حر بن یزید پر بھی تیر پھینکے گئے وہ واپس آگئے اور امام حسین رضی اللہ عنہ کے آگے کھڑے ہوگئے ، اس کے بعد تیر اندازی کا سلسلہ شروع ہوگیا ، پھر گھمسان کی جنگ ہوئی ، فریق مخالف کے بھی کافی آدمی مارے گئے ، امام حسین رضی اللہ عنہ کے بعض رفقاء بھی شہید ہوئے ۔ حر بن یزید نے امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہوکر شدید قتال کیا اور بہت سے دشمنوں کو قتل کیا ۔
اس کے بعد شمر نے چاروں طرف سے امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقاء پر ہلہ بول دیا ، جس کا امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقاء نے بڑی بہادری کے ساتھ مقابلہ کیا ، وہ کوفہ کے لشکر پر جس طرف سے حملہ کرتے ٗ میدان صاف ہوجاتا ۔ اُدھر دوسری طرف عمرو بن سعد نے جو کمک اور تازہ دم پانچ سو گھڑ سوار بھیجے وہ مقابلہ پر آکر ڈٹ گئے ، لیکن امام حسین رضی اللہ عنہ کے رفقاء نے ان کا بھی نہایت جرأت اور بہادری کے ساتھ مقابلہ کیا اور گھوڑے چھوڑ کر میدان میں پیادہ پا آگئے۔ اس وقت بھی حر بن یزید نے دشمنوں سے سخت قتال کیا، لیکن اب دشمنوں نے خیموں میں آگ لگانا شروع کردی تھی۔
گھمسان کی جنگ میں نماز ظہر کی ادائیگی:
امام حسین رضی اللہ عنہ کے اکثر و بیشتر ساتھی شہید ہوچکے تھے اور دشمن کے دستے آپ کے قریب پہنچ چکے تھے ۔ حضرت ابو شمامہ صائدی رضی اللہ عنہ نے امام حسین رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ : ’’میری جان آپ پر قربان ہو ، میں چاہتا ہوں کہ آپ کے سامنے قتل کیا جاؤں ، لیکن دل یہ چاہتا ہے کہ ظہر کی نماز کا وقت ہوچکا ہے ، نماز ادا کرکے اپنے پروردگار کے پاس جاؤں ۔‘‘ امام حسین رضی اللہ عنہ نے بآوازِ بلند اعلان کیا کہ : ’’جنگ ملتوی کردی جائے ،تا کہ ظہر کی نماز ہم ادا کرلیں۔‘‘ گھمسان کی جنگ میں نمازِ ظہر کے اعلان کی طرف کون کان لگاتا ؟ طرفین کی طرف سے شدید قتل و قتال برابر جاری رہا ،یہاں تک کہ ابو شمامہ صائدی رضی اللہ عنہ نماز کی حسرت دل ہی دل میں لیے شہید ہوگئے ، لیکن امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے چند اصحاب کے ساتھ نمازِ ظہر’’ صلوٰۃ الخوف‘‘ کے مطابق ادا فرمائی۔
نماز ادا کرلینے کے بعد امام حسین رضی اللہ عنہ نے پھر قتال شروع کردیا، اب یہ لوگ آپ تک پہنچ چکے تھے ، حنفی آپ کے سامنے آکر کھڑے ہوگئے اور سب تیر اپنے بدن پر کھاتے رہے ، یہاں تک کہ زخموں سے چور ہوکر گرگئے ، زہیر بن القین صنے آپ کی مدافعت میں سخت قتال کیا، یہاں تک کہ وہ بھی شہید ہوگئے ۔ اس وقت امام حسین رضی اللہ عنہ کے پاس بجز اپنے چند گنے چنے رفقاء کے اور کوئی نہ رہا تھا اور بچے کھچے رفقاء بھی خوب اچھی طرح سمجھ گئے کہ اب ہم نہ امام حسین رضی اللہ عنہ کی جان بچا سکتے ہیں اور نہ اپنی جان ، اس لئے ہر شخص کی خواہش یہ ہوئی کہ میں امام حسین رضی اللہ عنہ کے سامنے سب سے پہلے شہید کیا جاؤں ، اس لئے ہر شخص نہایت شجاعت و بہادری کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کر تا رہا ، اسی اثناء میں امام حسین رضی اللہ عنہ کے بڑے صاحب زادے (بلکہ بڑے شہزادے) علی اکبرشعر پڑھتے ہوئے دشمن کی طرف بڑھے جس کا ترجمہ یہ ہے : ’’ میں حسین بن علیص کا بیٹا ہوں ، رب کعبہ کی قسم! ہم اللہ کے رسول ا کے بہت قریب ہیں۔‘‘ اتنے میں مرہ بن منقذ آگے بڑھا اور ان کو نیزہ مار کر زمین پر گرادیا ، پھر کچھ اور بدبخت آگے بڑھے اور لاش مبارک کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے ۔ امام حسین رضی اللہ عنہ لاش کے قریب تشریف لائے اور فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ اس قوم کو برباد کرے جس نے تجھ کو قتل کیا ، یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے معاملے میں کیسے بے وقوف ہیں ؟ تیرے بعد اب زندگی پر خاک ہے۔‘‘پھر ان کی لاش اٹھا کر خیمہ کے پاس لائی گئی ۔ عمرو بن سعد نے حضرت حسن صکے بیٹے قاسم بن حسن صکے سر پر تلوار ماری، جس سے وہ زمین پر گر پڑے اور ان کے منہ سے نکلا : ’’ہائے میرے چچا!(حسینص)‘‘۔ امام حسین رضی اللہ عنہ نے بھاگ کر ان کو سنبھالا اور عمرو بن سعد پر تلوار سے جوابی وار کیا جس سے کہنی سے اس کا ہاتھ کٹ گیا ۔ امام حسین رضی اللہ عنہ بھتیجے کی لاش اپنے کندھے پر اٹھا کر لائے اور اپنے بیٹے اور دوسرے اہل بیت کی لاشوں کے قریب لاکر رکھ دی۔
دُشمن کی فوج سے تن تنہا مقابلہ:
اب امام حسین رضی اللہ عنہ تقریباً تن تنہا اور بے یار و مددگار رہ گئے تھے، لیکن آپ کی طرف بڑھنے کی کسی کو ہمت نہیں ہورہی تھی ، کافی دیر تک یہی کیفت رہی کہ جو شخص بھی آپ رضی اللہ عنہ کی طرف بڑھتا فوراًواپس لوٹ جاتا اس لئے کہ کوئی بھی آپ کے قتل کا گناہ اپنے سر لینا نہیں چاہتا تھا ، یہاں تک کہ قبیلہ کندہ کا ایک شقی القلب شخص مالک بن نسیر آگے بڑھا اور اس نے امام حسین رضی اللہ عنہ کے سر مبارک پر حملہ کردیا ، جس سے آپ شدید زخمی ہوگئے، اس وقت آپ نے اپنے چھوٹے صاحب زادے عبد اللہ بن حسین کو اپنے پاس بلایا اور ابھی اپنی گود میں بٹھایا ہی تھاکہ بنو اسد کے ایک بد نصیب شخص نے ان پر ایک تیر چلایا جس سے وہ بھی شہید ہوگئے، امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے معصوم بچے کا خون دونوں ہاتھوں میں لے کر زمین پر بکھیر دیا اور اللہ تعالیٰ سے دعاء کی کہ : ’’اے اللہ! تو ہی ان بدبخت اور ظالموں سے ہمارا انتقام لینا۔‘‘
اب امام حسین رضی اللہ عنہ کی پیاس حد کو پہنچ چکی تھی ، آپ پانی پینے کے لئے دریائے فرات کے قریب تشریف لے گئے ، مگر حصین بن نمیر ایک ظالم شخص نے آپ کی طرف ایک تیر پھینکا جو آپ کے منہ پر جاکر لگا جس سے آپ کے دہن مبارک سے خون پھوٹنے لگ گیا۔
امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت:
اس کے بعد شمر ذی الجوشن دس آدمی اپنے ساتھ لے کر امام حسین رضی اللہ عنہ کی طرف آگے بڑھا ، آپ اس وقت پیاس کی شدت نڈھال اور زخموں سے چور ہوچکے تھے، لیکن اس کے باوجود ان کا دلیرانہ مقابلہ کرتے رہے اور جس طرف سے آپ آگے بڑھتے یہ سب کے سب وہاں سے بھاگتے نظر آتے تھے ۔ شمر نے جب یہ دیکھاکہ امام حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے میں ہر شخص لیت و لعل سے کام لے رہا ہے تو اس نے آواز لگائی کہ :’’ سب یک بارگی ان پر حملہ کردو ۔‘‘ اس پر بہت سے بدنصیب آگے بڑھے اور نیزوں اور تلواروں سے یک بارگی امام حسین رضی اللہ عنہ پر حملہ کردیا اور اس طرح ان ظالموں کا دلیرانہ مقابلہ کرتے کرتے بالآخر کار امام حسین رضی اللہ عنہ نے جا م شہادت نوش فرمالیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
شمربن ذی الجوشن نے خولیٰ بن یزید سے کہا کہ ان کا سر بدن سے جدا کردو ، مگر آگے بڑھتے ہی اس کے ہاتھ کانپ کر رہ گئے ، پھر ایک اور بدبخت سنان بن انس آگے بڑھا اور اس نے یہ کارنامہ سرانجام دیا ۔ بعد میں جب آپ کی لاش کو دیکھا گیا تو آپ کے بدن مبارک پر تینتیس ( ۳۳) زخم نیزوں کے ،چونتیس ( ۳۴) زخم تلواروں کے اور متعدد زخم تیروں کے تھے۔ رضی اللہ عنہم وارضاہ ورزقنا حبہ وحب من والاہ ۔
شمر کو سرزنش:
امام حسین رضی اللہ عنہ اور عام اہل بیت کے قتل سے فارغ ہوکر یہ ظالم اور بدبخت قسم کے لوگ آپ کے چھوٹے صاحب زادے علی اصغر کی طرف متوجہ ہوئے، شمر نے ان کو بھی قتل کرنا چاہا مگر حمید بن مسلم نے کہا: ’’سبحان اللہ! تم بچہ کو قتل کرتے ہوحالاں کہ وہ بیمار بھی ہے۔ ‘‘ شمر نے چھوڑ دیا، عمرو بن سعد آگے بڑھا اور اس نے کہا کہ: ’’اِن عورتوں کے خیمہ کے پاس کوئی نہ جائے اور اس بیمار بچے کے درپے کوئی نہ ہوئے!۔ (شہید کربلا: ص۹۰)
لاش کو روندا گیا:
ابن زیاد شقی کی طرف سے عمر وبن سعد کو حکم تھا کہ قتل کے بعد امام حسین رضی اللہ عنہ کی لاش کو گھوڑوں کے ٹاپوں سے رُوندا جائے، اب اس کا وقت آیا، اُس نے پکار کر کہا: ’’اِس کام کے لئے کون تیار ہے؟۔‘‘ دس (۱۰) آدمی تیار ہوئے ، اور گھوڑے دوڑا کر جسم مبارک کو روندا گیا۔
مقتولین اور شہداء کی تعداد:
جنگ کے خاتمے پر مقتولین اور شہداء کی تعداد شمار کی گئی تو امام حسین رضی اللہ عنہ کے اصحاب میں بہتر (۷۲) حضرات شہید ہوئے اور عمرو بن سعد کے لشکر کے اٹھاسی (۸۸) سپاہی مارے گئے۔ امام حسین رضی اللہ عنہ اور اُن کے رفقاء کو ’’اہل غاضریہ‘‘ نے ایک روز بعد دفن کردیاتھا۔ ( تاریخ طبری ، تاریخ یعقوبی ، الکامل فی التاریخ )
اہل بیت کے سر ابن زیاد کے دربار میں:
خولیٰ بن یزیداور حمید بن مسلم حضرات اہل بیت کے سروں کو لے کر کوفہ روانہ ہوئے اور ابن زیاد کے سامنے پیش کیے ، ابن زیاد نے لوگوں کو جمع کرکے سب سروں کو سامنے رکھا اور ایک چھڑی سے امام حسین رضی اللہ عنہ کے دہن مبارک کو چھونے لگا ، حضرت زید بن ارقم صسے رہا نہ گیا، وہ فوراً چلا اُٹھے اوربولے: ’’ (اُوئے بدبخت!) اِن مبارک ہونٹوں سے اپنی چھڑی ہٹا ! قسم ہے اُس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیںمیں نے رسول اللہ ا کو ان ہونٹوں کا بوسہ لیتے دیکھا ہے ۔‘‘ یہ کہہ کر زار و قطار رونے لگے، ابن زیاد نے کہا کہ اگر تم سن رسیدہ بوڑھے نہ ہوتے تو میں تمہاری گردن بھی اُڑا دیتا۔ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ یہ کہتے ہوئے مجلس سے اُٹھ کر باہر آگئے کہ: ’’اے عرب کی قوم! آج کے بعد تم غلام ہو کیوں کہ آج تم نے سیدۃ النساء حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہاکے لخت جگر کو قتل کردیا ہے اور مرجانہ کے بیٹے (ابن زیاد) کو اپنا امیر بنا لیا ہے، وہ تمہارے اچھے لوگوں کو قتل کرے گااور شریر لوگوں کو اپنا غلام بنائے گا ، تمہیں کیا ہوا کہ تم اس ذلت پر راضی ہوگئے؟۔‘‘
اہل بیت کا ابن زیاد سے مکالمہ:
عمرو بن سعد دو روز کے بعد بقیہ اہل بیت امام حسین رضی اللہ عنہ کی بیٹیوں،بہنوں اور بچوں کو ساتھ لے کر کوفہ کے لئے نکلاہی تھا کہ انہیں امام حسین رضی اللہ عنہ اور اُن کے اصحاب کی لاشیں پڑی ہوئی نظر آئیں ، عورتوں اور بچوں نے جب یہ منظر دیکھا تو کہرام مچ گیا، گویا آسمان و زمین رونے لگ گئے۔
عمرو بن سعد نے جب اہل بیت کو ابن زیاد کے سامنے پیش کیا تو اُس وقت امام حسین رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ حضرت زینب رضی اللہ عنہانے بہت میلے اور خراب کپڑے پہن رکھے تھے اور اُن کی باندیاں اُن کے ارد گرد تھیں، وہ ایک طرف جاکر خاموش ہوکر بیٹھ گئیں، ابن زیاد نے پوچھا: ’’یہ ایک طرف جاکر علیحدہ بیٹھنے والی کون ہے؟۔‘‘حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے کوئی جواب نہ دیا، ابن زیاد نے تین مرتبہ اسی طرح دریافت کیا، مگر حضرت زینب رضی اللہ عنہا اسی طرح خاموش رہیں، جب کسی باندی نے کہا کہ : ’’ یہ زینب بنت فاطمہ ؓہیں۔‘‘ تو ابن زیاد بولا : ’’شکر ہے اللہ کا جس نے تمہیں رُسوا کیا اور قتل کیااور تمہاری بات کو جھوٹا کیا۔‘‘ اِس پر حضرت زینب رضی اللہ عنہا کڑک دار لہجے میں بولیں: ’’شکر ہے اُس اللہ کا جس نے ہمیں محمد مصطفی اکے نسب سے شرف بخشااور قرآنِ مجید میں ہمارے پاک ہونے کو بیان کیا۔ رُسوا وہ ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرے۔‘‘یہ سن کر ابن زیاد غصہ سے بھڑک اُٹھا اور کہنے لگا کہ:’’ اللہ تعالیٰ نے مجھے تمہارے غیظ سے شفاء دی اور تمہارے سرکش کو ہلاک کیا۔‘‘ حضرت زینب رضی اللہ عنہاکا دل بھر آیا، وہ اپنے تئیں سنبھال نہ سکیں، اس لئے بے اختیاررونے لگیںاور فرمانے لگیں: ’’اگر یہی تیری شفاء ہے تو تو اسی کو اپنی شفاء سمجھے رکھ!۔‘‘
ابن زیاد علی اصغرصکے ساتھ:
اس کے بعد ابن زیاد علی اصغرص کی طرف متوجہ ہوا اور آپ کا نام پوچھا۔ علی اصغرص نے بتایا کہ: ’’ میرا نام علی ہے۔‘‘ ابن زیاد نے کہا : ’’علی تو قتل کردیا گیاہے۔‘‘ لیکن علی اصغر رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ: ’’ وہ میرے بڑے بھائی تھے، اِن کا نام بھی علی تھا (علی اکبرص)‘‘ ابن زیاد نے جب علی اصغرص کو بھی قتل کرنے کا ارادہ کیا تو علی اصغرص نے کہاکہ: ’’میرے بعد ان عورتوں کا کفیل کون ہوگا؟ اُدھر حضرت زینب رضی اللہ عنہا جو اِن کی پھوپھی تھیں اِن کو لپٹ گئیںاور کہنے لگیں: ’’اے ابن زیاد! کیا ابھی تک ہمارے خون سے تیری پیاس نہیں بجھی؟ میں تجھے اللہ کی قسم دیتی ہوں کہ اگر تو اِن کو قتل کرنا چاہتا ہے تو پھر اِن کے ساتھ ہم سب کو بھی قتل کردے۔‘‘علی اصغر رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’اے ابن زیاد! اگر تیرے اور اِن عورتوں کے درمیان کوئی قرابت ہے تو تو اِن کے ساتھ کسی متقی ، پرہیز گار اور صالح مسلمان شخص کو بھیجنا جو اسلامی تعلیمات کے مطابق اِن کی رفاقت کرے ۔‘‘ یہ سن کر ابن زیاد نے کہاکہ: ’’اچھا! اس لڑکے کو چھوڑدو کہ خود اِن عورتوں کے ساتھ جائے۔‘‘
ابن کا خطبہ اور ابن عفیف رضی اللہ عنہ کے قتل کا منصوبہ:
اس کے بعد ابن زیاد نے جامع مسجد میں شہر والوں کو جمع کیا، نماز پڑھائی اور اُس کے بعد ایک خطبہ دیا، جس میں کہا کہ : ’’ تعریف اُس اللہ کے لئے ہے کہ جس نے حق کو ظاہر کیا، حق والوں کو فتح یاب کیا، امیر المؤمنین یزید بن معاویہ اور اُن کی جماعت کو غالب کیا اور کذاب حسین بن علی اور اُس کے ساتھیوں کو ہلاک کر ڈالا۔‘‘
اُس وقت مجمع میں مشہورصحابی حضرت عبد اللہ بن عفیف ازدی رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے، جو (جنگ جمل و صفّین میں حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی طرف سے شریک ہوکر اپنی دونوں آنکھیں کھو چکے تھے ) ہمہ وقت مسجد میں پڑے رہتے ،اُٹھ کھڑے ہوئے اور چلاکر کہا کہ: ’’اللہ کی قسم! اے ابن زیاد کذاب ابن کذاب تو تو ہے نہ کہ حسین بن علیص ! تم لوگ انبیاء علیہم السلام کی اولاد کو قتل کرتے ہواور صدیقین کی سی باتیں بناتے ہو۔‘‘ابن زیاد نے اِن کو گرفتار کرنا چاہا، لیکن ان کے قبیلے کے لوگ چھڑانے کے لئے کھڑے ہوگئے، اس لئے ان کو چھوڑ دیا گیا۔
امام حسین رضی اللہ عنہ کا سر کوفہ کے بازاروں میں:
ابن زیاد کی شقاوت نے اسی پر بس نہیں کیا، بلکہ حکم دیا کہ: ’’امام حسین رضی اللہ عنہ کے سر کو ایک لکڑی پر رکھ کر ’’کوفہ‘‘ کے بازاروں اور گلی کوچوں میں سر عام گھمایا جائے، تاکہ سب لوگ دیکھ سکیں۔‘‘ چنانچہ یہ سب کچھ بھی ہوا اور پھر اِس کے بعد ابن زیاد نے امام حسین رضی اللہ عنہ اور آپ کے دیگر اصحاب کے سروں کو یزید کے پاس ملک شام بھیج دیا اور ان کے ساتھ اہل بیت کی عورتوں اور بچوں کو بھی قیدی بناکر روانہ کردیا، جب یہ لوگ ملک شام پہنچے تو انعام کے شوق میں حر بن قیس جو اِن کو لے کر گیا تھا فوراً یزید کے پاس پہنچا، یزید نے پوچھا : ’’کیا خبر ہے؟۔‘‘ حر بن قیس نے میدانِ کربلا کے معرکے کی ساری تفصیل بتائی اور آخر میں کہنے لگا کہ: ’’امیر المؤمنین کو بشارت ہوکہ مکمل فتح حاصل ہوئی ہے، اہل بیت سارے کے سارے مارے گئے اور ان کی ساری عورتیں اور بچے قیدی بن کر حاضر ہیں۔‘‘
یزیدپلید رونے لگا:
یزید پلید نے جب یہ سنا تو اُس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اوروہ حر بن قیس سے کہنے لگاکہ: ’’ میں فقط تم سے اتنی ہی اطاعت چاہتا تھا کہ اہل بیت کو قتل کیے بغیر صرف گرفتار کرلیتے ، اللہ تعالیٰ ابن زیادپر لعنت کرے کہ اُس نے ان ( عورتوں اور بچوںکے مردوں ) کو قتل کروادیا ۔ اللہ کی قسم! اگر میں وہاں ہوتا تو انہیں معاف کردیتا، اللہ تعالیٰ امام حسین رضی اللہ عنہ پر رحم فرمائے!۔‘‘ یہ کہا اور حر بن قیس کو کوئی انعام نہیں دیا۔ (تاریخ طبریؒ و تاریخ اسلام للذہبیؒ)
امام حسین رضی اللہ عنہ کا سر یزید پلید کے دربار میں:
امام حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک جب یزید کے سامنے رکھا گیا تو اُس وقت اُس کے بھی ہاتھ میں ایک چھڑی تھی ، وہ اسے امام حسین رضی اللہ عنہ کے موتیوں جیسے دانتوں پر لگاکر حصین بن ہمام کے اشعار پڑھ رہا تھا،جن کا ترجمہ یہ ہے ’’جب ہماری قوم نے ہمارے ساتھ انصاف نہ کیا تو پھر ہماری خونچکاں تلواروں نے خود ہی انصاف کیا ، جنہوں نے ایسے مردوں کے سر پھاڑ دیئے جو ہم پر سخت تھے اور تعلقات قطع کرنے والے ظالم تھے۔‘‘اتفاقاً وہاں حضرت ابوبرزہ اسلمیص بھی موجود تھے، اُنہوں نے جب یہ دیکھاتو فرمانے لگے: ’’اے یزید! تو اپنی چھڑی امام حسین رضی اللہ عنہ کے دانتوں پر لگاتا ہے، حالاں کہ میں نے رسول اللہ ا کو ان ہونٹوں کا بوسہ لیتے ہوئے دیکھا ہے، اے یزید! قیامت کے دن جب تو آئے گا تو تیری شفاعت ابن زیاد ہی کرے گااور امام حسین رضی اللہ عنہ آئیں گے تو اُن کی شفاعت نبی اکرم ا کریں گے ۔‘‘ یہ کہہ کر حضرت ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ مجلس سے نکل گئے۔
یزید پلید کے گھر ماتم:
جب یزید کی بیوی ہند بنت عبد اللہ نے یہ خبر سنی کہ امام حسین رضی اللہ عنہ شہید کردیئے گئے اور اُن کا سر یزید کے دربار میں لایا گیا ہے تو کپڑا اُوڑھ کر باہر نکل آئیں اور کہنے لگیں کہ: ’’اے امیر المؤمنین! کیا رسول اللہ ا کے لخت جگر کے ساتھ یہ معاملہ کیا گیا ہے؟ اُس نے کہا: ’’ہاں! اللہ تعالیٰ ابن زیاد کو ہلاک کرے! اُس نے قتل کرنے میں بڑی جلد بازی کا مظاہرہ کیا۔‘‘ ہند بنت عبد اللہ یہ سن کر بے اختیار رو پڑیں۔
اس کے بعد اہل بیت کی قیدی عورتیں اور بچے یزید کے سامنے لائے گئے، اورسر مبارک مجلس میں رکھا ہوا تھا، امام حسین رضی اللہ عنہ کی دونوں شہزادیاں فاطمہؓ اور سکینہؓ پنجوں کے بل کھڑے ہوکر اپنے والد کا سر مبارک دیکھنا چاہتی تھیں ، جب کہ یزید اُن کے سامنے کھڑا ہوکر چاہتا تھا کہ وہ یہ سر نہ دیکھ سکیں، لیکن جب اُن کی نظر اپنے والد کے سر مبارک پر پڑہی گئی تو وہ بے ساختہ روپڑیں، حتیٰ کہ اُن کے رونے کی آواز سن کر یزید کے گھر کی عورتیں بھی چلا اُٹھیںاور یزید کے محل میں ایک ماتم کا سماں بندھ گیا۔
حضرت زینب ؒ کی دلیرانہ گفتگو:
حضرت فاطمہ بنت علیص سے مروی ہے کہ جب ہم لوگ یزید کے سامنے پیش کیے گئے تو اُس نے ہم پر ترس ظاہر کیا، ہمیں کچھ دینے کا حکم کیا اورہمارے ساتھ بڑی مہربانی سے پیش آنے لگا، اسی اثناء میں ایک سرخ رنگ کا شامی لڑکاکھڑا ہوا اور کہنے لگا: ’’اے امیر المؤمنین! یہ لڑکی مجھے عنایت کردیجئے! اور میری طرف اشارہ کیا، میں اُس وقت کم سن اور خوب صورت تھی، اس لئے خوف سے کانپنے لگی اور میں نے اپنی بہن حضرت زینب کی چادر پکڑ لی، وہ مجھ سے بڑی اور زیادہ سمجھ دار تھیں اور جانتی تھیں کہ یہ بات نہیں ہوسکتی،اس لئے انہوں نے نہایت سختی سے چلا کر کہا کہ: ’’تو کمینہ ہے! نہ تجھے اس کا اختیار ہے اور نہ ہی یزید کو اِس کا حق ہے۔‘‘ حضرت زینب رضی اللہ عنہاکی اِس جرأت پر یزید کو غصہ آگیااور وہ برہم ہوکر کہنے لگا: ’’تو جھوٹ بکتی ہے ، اللہ کی قسم! مجھے یہ اختیار حاصل ہے اگر چاہوں تو ابھی کرسکتا ہوں۔‘‘ حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ’ ’ ہرگز نہیں! اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ حق ہرگز نہیں دیا، یہ دوسری بات ہے کہ تم ہماری ملت و مذہب سے نکل جاؤ اور ہمارا دین چھوڑ کر دوسرا دین اختیار کرلو!۔‘‘ اِس پر یزید اور زیادہ برہم ہوا اور کہنے لگاکہ: ’’دین سے تیرا باپ اور بھائی دونوں نکل چکے ہیں۔‘‘ حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے بلا تامل دوٹوک جواب دیا : ’’اللہ کے دین سے، میرے باپ کے دین سے، میرے بھائی کے دین سے، میرے نانا کے دین سے، تونے، تیرے باپ نے اور تیرے دادا نے ہدایت پائی ہے۔‘‘ یزید چلایاکہ: اے دُشمن خدا! تو جھوٹی ہے ۔‘‘ حضرت زینب رضی اللہ عنہا بولیں: ’’تو زبردستی حاکم بن بیٹھا ہے، ظلم سے گالیاں دیتا ہے اور اپنی قوت سے مخلوق کو دباتا ہے۔‘‘ حضرت فاطمہؓ بنت علیص کہتی ہیں کہ یہ گفتگو سن کر شاید یزید شرمندہ ہوگیا، کیوں کہ پھر اس کے بعد مزید وہ کچھ نہ بول سکا ، مگر وہ شامی لڑکا پھر کھڑا ہوا اور اُس نے پھر وہی بات دہرائی،لیکن اِس مرتبہ یزید نے اُسے غضب ناک آواز میں ڈانٹ پلائی اور کہا: ’’اوئے کم بخت! اللہ تیرا بیڑا غرق کرے ، یہاں سے دفع ہوجا!۔‘‘
اہل بیت کی عورتیں یزید کی عورتوں کے پاس:
اِس کے بعد یزید نے اہل بیت کی عورتوں کو اپنی عورتوں کے پاس بھیج دیا، یزید کی عورتوں میں سے کوئی عورت ایسی نہ تھی کہ جس نے ان کے پاس آکر آہ و بکاء اور گریہ و زاری نہ کی ہو، اور جو زیورات وغیرہ ان سے لے لئے گئے تھے اُن سے کہیں زیادہ زیورات یزید کی عورتوں نے ان کی خدمت میں پیش کیے۔
امام علی اصغر ؒیزید کے دربار میں:
اِس کے بعد علی اصغر ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں یزید کے سامنے لائے گئے ،تو اُنہوں نے یزید کے سامنے آکر کہا کہ: ’’اگر رسول اللہ ا ہمیں اس طرح قید میں دیکھتے تو قید سے رہا فرمادیتے۔‘‘ یزید نے کہاکہ: ’’سچ ہے۔‘‘اور قید سے رہا کردینے کا حکم دے دیا۔ علی اصغرؒ نے کہا: ’’ رسول اللہا ہمیں اس طرح مجلس میں بیٹھا دیکھتے تو اپنے قریب بلا لیتے۔‘‘ یزید نے ان کو اپنے قریب بلالیا اور کہا کہ: ’’اے علی بن حسینص! تمہارے والد ہی نے مجھ سے قطع رحمی کی اور میرے حق کو نہ پہچانااور میری سلطنت کے خلاف بغاوت کی، اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ معاملہ کیا جو تم نے دیکھا۔‘‘علی اصغررحمہ اللہنے قرآنِ مجید کی یہ آیت پڑھی، جس کا ترجمہ ہے: ’’جو کوئی مصیبت بھی تمہیں پہنچتی ہے زمین میں یا تمہاری جانوں پر سو وہ کتابِ تقدیر میں لکھی ہوئی ہے، زمین کے پیدا کرنے سے قبل اور یہ کام اللہ تعالیٰ کے لئے آسان ہے(اور تمام کاموں کا تابع تقدیر ہونا) اس لئے بیان کیا گیا کہ جو چیز تم سے فوت ہوجائے اس پر زیادہ غم نہ کرو! اور جو چیز مل جائے اس پر زیادہ خوش نہ ہو، اللہ تعالیٰ فخر کرنے والے متکبر کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (سورۃ الحدید: ۲۲،۲۳)
یہ سن کر یزید خاموش ہوگیا، پھر حکم دیا کہ: ’’ان کو اور ان کی عورتوں کو ایک مستقل مکان میں رکھا جائے اور یزید جو کوئی بھی ناشتہ اور کھانا کھاتا تھااس میں علی بن حسین رضی اللہ عنہ کو ضرور بلاتا تھا، ایک دن ان کو بلایا تو اُن کے ساتھ اُن کے چھوٹے بھائی عمرو بن الحسین رضی اللہ عنہ بھی آگئے، یزید نے (اپنے لڑکے خالد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) عمرو بن الحسین رضی اللہ عنہ سے بطورِ مزاح کے کہا کہ: ’’تم اس سے کشتی کرسکتے ہو؟۔‘‘ عمرو بن الحسین رضی اللہ عنہ نے کہاکہ: ’’جی ہاں! کرسکتاہوں! لیکن شرط یہ ہے کہ: ’’ آپ ایک چھری اُسے دیں اور ایک چھری مجھے دیں۔‘‘یزید نے کہا:’’ آخر سانپ کا بچہ سانپ ہی ہوتا ہے۔‘‘
یزید کی زود و پشیمانی:
بعض روایات میں آتا ہے کہ شروع میں یزید امام حسین رضی اللہ عنہ کے قتل پر راضی تھا، اس لئے کہ جب ان کا سر مبارک لایا گیا اُس نے خوشی کا اظہار بھی کیا ، لیکن اس کے بعد جب یزید کی بدنامی سارے عالم اسلام میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور تمام دُنیا کے مسلمان اسے اپنا مبغوض ترین شخص سمجھنے لگے تو وہ اپنے کیے پر بہت نادم ہوا اور کہنے لگا :’’اے کاش! میں مشقتیں برداشت کر لیتا، لیکن امام حسین رضی اللہ عنہ کو اپنے ساتھ گھر میں رکھتا اور ان کو اختیار دے دیتا کہ وہ جو چاہیں کریں، اگرچہ میرے اس اقتدار کو نقصان ہی کیوں پہنچتا، اس لئے کہ رسول اللہ ا کا ، ان کا اور ان کی قرابت کا یہی حق تھا، اللہ تعالیٰ ابن مرجانہ پر لعنت کرے! اُس نے ان کو مجبور کرکے قتل کردیا، حالاں کہ اُنہوں نے یہ کہا تھا کہ: ’’مجھے یزید کے پاس جانے دو، یا کسی سرحدی مقام پر پہنچادو!۔‘‘ مگر اِس نالائق نے قبول نہ کیا اور ان کو قتل کرکے ساری دُنیا کے مسلمانوں میں مجھے مبغوض ترین شخص ٹھہرادیا، اِن کے دلوں میں میری عداوت کا بیج بودیا، اب ہر نیک و بد مجھ سے بغض رکھنے لگ گیا ہے، اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو ابن مرجانہ پر!۔‘‘
اہل بیت کی رخصتی:
اِس کے بعد یزید نے ارادہ کیا کہ اہل بیت کو مدینہ منورہ واپس بھیج دیا جائے ، اس لئے اُس نے حضرت نعمان بن بشیرص کو حکم دیا کہ:’’ وہ ان کے لئے ان کی شان کے مناسب ضروریاتِ سفر مہیا کریں اور اِن کے ساتھ کسی امانت دار، متقی و پرہیز گار آدمی کو بھیجیں ، نیز ان کے ساتھ ایک حفاظتی دستہ فوج کا بھی روانہ کردیں جو اِن کو مدینہ منورہ تک حفاظت اور خیریت کے ساتھ پہنچا آئے ۔‘‘
اس کے بعد یزید نے امام علی اصغرص کو رخصت کرنے کے لئے اپنے پاس بلایااور ان سے کہاکہ:’’اللہ تعالیٰ ابن مرجانہ پر لعنت کرے! اللہ کی قسم! اگر میں خود اس جگہ ہوتا تو امام حسین رضی اللہ عنہ جو کچھ کہتے میں اُسے قبول کرلیتا اور جہاں تک ممکن ہوتا میں انہیں ہلاک ہونے سے بچاتا، اگرچہ مجھے اس کام کے لئے اپنی اولاد کو ہی کیوں نہ قربان کرنا پڑتا، لیکن جو کچھ مقدر تھا وہ ہوگیا، صاحب زادے! تمہیں جب کوئی ضرورت ہومجھے خط لکھنا اور میں نے تمہارے ساتھ جانے والوں کو بھی یہ ہدایت کردی ہے۔‘‘
یزید کی زود و پشیمانی اور بقیہ اہل بیت کے ساتھ بظاہر اکرام کا معاملہ محض اپنی بدنامی کا داغ مٹانے کے لئے تھا یا حقیقت میں اسے کچھ اللہ تعالیٰ کا خوف اور آخرت کا خیال آگیا تھا؟ یہ تو دلوں کے بھید جاننے والی’’ علیم بذات الصدور‘‘ ذات ہی جانتی ہے ، مگر یزید کے اس کے بعد کے بھی سب اعمال اور کارنامے سیاہ کاریوں اور بدکاریوں ہی سے لبریز ہیں۔
اہل بیت کی مدینہ کو واپسی:
بہرحال اس کے بعد اہل بیت اپنے محافظ شخص کی حفاظت میں مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوگئے، اس نے راستہ میں ان کی بڑی ہم دردی سے خدمت کی، وہ شخص رات کو ان کی سواریاں اپنے سامنے رکھتا اور جب کسی منزل پر یہ اُترتے تووہ ان سے علیحدہ ہوجاتا اور اپنے چاروں طرف پہرہ دیتا اور ہر وقت اُن کی ضروریات کو دریافت کرکے پورا کرنے کا اہتمام کرتا یہاں تک یہ سب حضرات خیر و عافیت کے ساتھ مدینہ منورہ پہنچ گئے۔
اہل بیت کی فیاضی:
اپنے وطن مدینہ منورہ پہنچ کر امام حسین رضی اللہ عنہ کی صاحب زادی حضرت فاطمہؓ نے اپنے بہن حضرت زینبؓ سے کہا کہ اِس شخص نے ہم پر احسان کیا ہے کہ سفرمیں ہمیں راحت و آرام پہنچایا ، اس لئے ہمیں ضرور اس کی نیکی کا کچھ نہ کچھ صلہ دینا چاہیے ۔‘‘ حضرت زینبؓ نے فرمایاکہ: ’’اب ہمارے پاس اپنے زیورات کے علاوہ تو اور کچھ بھی دینے کے لئے نہیں اس لئے زیورات ہی میں سے کچھ نہ کچھ دے دیتی ہیں۔‘‘ چنانچہ دونوں بہنوں نے اپنے اپنے زیورات میں سے دو کنگن اور دو بازو بند (چوڑیاں) سونے کی نکالیں ا ور اُن کے سامنے پیش کردیئے اور اپنی بے مائیگی کا عذر پیش کیا۔ اُس شخص نے کہاکہ:’’ اللہ کی قسم! اگر میں نے یہ کام دُنیا کے لئے کیا ہوتا تو میرے لئے یہ انعام بہت کچھ تھا، لیکن میں نے تو اپنا فرض ادا کیا ہے جو رسول اللہا کی قرابت کی وجہ سے مجھ پر عائد ہوتا ہے۔‘‘یہ کہا اورزیورات واپس کردیئے۔
امام حسین رضی اللہ عنہ کی خوش دامن کا غم اور وصال:
امام حسین رضی اللہ عنہ کی خوش دامن اور آپ کی زوجۂ محترمہ رباب بنت امرء القیس بھی آپ کے ساتھ اسی سفر میں تھیںاور شام بھیجی گئیں تھیں، پھر سب کے ساتھ مدینہ منورہ پہنچیں ، تو باقی عمر اسی طرح گزار دی کہ کبھی مکان کے سایہ میں نہ رہتیں، کوئی کہتا کہ: ’’ دوسری شادی کرلو!‘‘ تو جواب دیتیں کہ: ’’میں رسول اللہا کے بعد اور کسی کو اپنا خسر بنانے کے لئے تیار نہیں۔‘‘ بالآخر ایک سال بعد یہ بھی انتقال فرماگئیں۔
مدینہ منورہ میں ماتم:
امام حسین رضی اللہ عنہ اور اُن کے اصحاب کی شہادت کی خبریں جب مدینہ منورہ میں پہنچیں تھیں تو اس وقت پورے مدینے میں کہرام مچ گیا تھا اور مدینہ منورہ کے در و دیوار بھی رُونے لگ گئے تھے اور اب جب خاندانِ اہل بیت کے یہ بقیہ نفوس مدینہ منورہ پہنچے تو مدینہ والوں کے وہ پرانے زخم اب از سر نو تازہ ہونے لگ گئے۔
عبد اللہ بن جعفرص کی غیرت:
جس وقت حضرت عبد اللہ بن جعفرص کو یہ خبر پہنچی کہ اُن کے دو بیٹے بھی امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ شہید ہوگئے ہیں، تو اس وقت بہت سارے لوگ اُن کی تعزیت کو آئے ، ایک شخص کی زبان سے نکل گیا کہ: ’’ہم پر یہ مصیبت امام حسین رضی اللہ عنہ کی وجہ سے آئی ہے۔‘‘ حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کو غصہ آگیا اور اُس کو جوتا اُٹھاکر پھینک مارا کہ کم بخت یہ تو کیا کہہ رہا ہے؟ اللہ کی قسم! اگر میں وہاں ہوتا تو میں بھی اُن کے ساتھ قتل کیا جاتا۔ اللہ کی قسم! آج میرے بیٹوں کا قتل ہی میری تسلی کے لئے کافی ہے کہ اگر میں امام حسین رضی اللہ عنہ کی کوئی مدد نہ کرسکا تو میری اولاد نے یہ کام کردیا ہے۔‘‘
شہادت حسین رضی اللہ عنہ کا فضائے آسمانی پر اثر:
عام مؤرخین ابن اثیر وغیرہ نے لکھا ہے کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد تقریباً دو تین مہینوں تک آسمانی فضاء کی یہ کیفیت رہی کہ جب سورج طلوع ہوتا اور دھوپ در و دیوار پر پڑتی تو اتنی سرخ ہوتی تھی جیسے دیواروں کو خون سے رنگا گیا ہو۔‘‘ (الکامل فی التاریخ)
قاتلانِ حسین رضی اللہ عنہ کا عبرت ناک انجام:
امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ’’جو لوگ قتل حسین رضی اللہ عنہ میں شریک تھے، اُن میں سے ایک بھی ایسا نہ تھا کہ جسے آخرت سے پہلے دُنیا ہی میں اس کی سزا نہ ملی ہو، کوئی قتل کیا گیا، کسی کا چہرہ سخت سیاہ ہوگیا، کسی کا چہرہ مسخ ہوگیا، کسی سے چند ہی دنوں میں ملک و سلطنت چھن گئی۔
ان کی یہ سزا آخرت میں ان کو ملنے والی دردناک سزا کا ایک معمولی سا نمونہ تھا، جس کی ایک ادنیٰ سی جھلک لوگوں کی عبرت کے لئے دُنیا ہی میں دکھادی گئی تھی ۔
امام حسین رضی اللہ عنہ کا قاتل اندھا ہوگیا:
سبط ابن جوزی رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے کہ ایک بوڑھا آدمی امام حسین رضی اللہ عنہ کے قتل میں شریک تھا، وہ دفعتاً نابینا ہوگیا، لوگوں نے اُس سے اس طرح اچانک نابینا ہونے کی وجہ پوچھی تو اُس نے کہا کہ: ’’میں نے رسول اللہا کو خواب میں دیکھا کہ آستین مبارک چڑھائے ہوئے ہیں، ہاتھ میں تلوار ہے، اور آپ ا کے سامنے چمڑے کا وہ فرش ہے جس پر کسی کو قتل کیا جاتا ہے اور اِس پر قاتلانِ حسین رضی اللہ عنہ میں سے دس (۱۰) آدمیوں کی لاشیں ذبح کی ہوئی پڑی ہیں، اِس کے بعد آپ ا نے مجھے ڈانٹا اور خونِ حسین رضی اللہ عنہ کی ایک سلائی میری آنکھوں میں لگائی، اب جب صبح میں اپنی نیند سے اُٹھا تو اندھا ہوچکا تھا۔‘‘ (اسعاف الراغبین)
امام حسین رضی اللہ عنہ کے قاتل کا منہ کالا ہوگیا:
امام ابن جوزی رحمہ اللہ نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ جس شخص نے امام حسین رضی اللہ عنہ کے سر مبارک کو اپنے گھوڑے کی گردن میں لٹکایا تھا،اِس کے بعد اُسے دیکھا گیا کہ اُس کا منہ تارکول کی طرح سیاہ ہوگیا، لوگوں نے اُس سے دریافت کیا کہ: ’’تو تو سارے عرب میں خوش رو آدمی تھا تجھے کیا ہوگیا؟۔‘‘ اُس نے کہا کہ: ’’جس روز سے میں نے امام حسین رضی اللہ عنہ کا سر اپنے گھوڑے کی گردن میں لٹکایاہے ، جب ذرا سوتا ہوں تو دو آدمی میرے بازو پکڑتے ہیں اور مجھے ایک دہکتی ہوئی آگ میں لے جاکر ڈال دیتے ہیں اور وہ مجھے جھلس دیتی ہے۔‘‘ چند دن بعد وہ بھی اسی حالت میں مرگیا۔
امام حسین رضی اللہ عنہ کا قاتل آگ میں جل گیا:
امام ابن جوزی رحمہ اللہ نے سدی ؒسے نقل کیا ہے کہ اُنہوں نے ایک شخص کی دعوت کی، مجلس دعوت میں یہ ذکر چھڑ پڑا کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کے قتل میں جو بھی شریک ہوا اس کو دُنیا میں بھی بہت جلد سزا مل گئی ، اُس شخص نے کہا کہ: ’’یہ بالکل غلط ہے! میں خود اُن کے قتل میں شریک تھا، میرا کچھ بھی نہیں بگڑا۔‘‘ یہ شخص مجلس سے اُٹھ کر گھر گیا اور گھر جاکر جب چراغ کی بتی درست کرنے لگا تو اُس کے کپڑوں میں آگ لگ گئی اور وہ وہیں جل بھن کر راکھ ہو گیا۔ سدی ؒکہتے ہیں کہ: ’’میں نے خود صبح اس کو دیکھا کہ وہ جل بھن کر کوئلہ بن چکا تھا۔‘‘
امام حسین رضی اللہ عنہ کا قاتل تڑپ تڑپ کر مرگیا:
جس شخص نے امام حسین رضی اللہ عنہ کے تیر مارا تھااور پانی نہیں پینے دیاتھا، اس پر اللہ تعالیٰ نے پیاس کا ایسا عذاب مسلط کیا کہ اُس کی پیاس کسی بھی طرح بجھتی نہ تھی، پانی کتنا ہی پی لیتا لیکن پھر بھی پیاس سے تڑپتا رہتا ، یہاں تک کہ اُس کا پیٹ پھٹ گیا اور وہ بھی مرگیا۔ (شہید کربلا: ص۱۱۰، ۱۱۱)
یزید کی ہلاکت:
شہادتِ امام حسین رضی اللہ عنہ کے بعد یزیدپلید کو ایک دن بھی سکھ، چین کا نصیب نہ ہوا ۔ اُدھر دوسری طرف تمام اسلامی ممالک میں شہدائے اہل بیت کے خون نے شدید مطالبہ پکڑا اور بغاوتیں ہونا شروع ہوگئیں۔ شہادتِ امام حسین رضی اللہ عنہ کے بعد یزید کی زندگی تقریباً دو سال، آٹھ ماہ، اور ایک روایت کے مطابق تین سال اور آٹھ ماہ رہی ، دُنیا ہی میں اللہ تعالیٰ نے اُس کو ذلیل و خوار کیا اور اسی ذلت و خواری کی حالت میں وہ ہلاک ہوگیا۔ (شہید کربلا: ۱۱۱)
کوفہ پر مختار کا تسلط:
الغرض قاتلانِ حسین رضی اللہ عنہ پر طرح طرح کی آفاتِ ارضی وسماوی کا ایک سلسلہ تو تھا ہی، لیکن واقعہ شہادت سے پانچ ہی سال بعد ۶۶ ھ میں جب مختار نے قاتلانِ حسین رضی اللہ عنہ سے قصاص لینے کا ارادہ ظاہر کیا تو عام مسلمان اس کے ساتھ ہوگئے اور تھوڑے ہی عرصہ میں اس کو یہ تقویت ہوگئی کہ کوفہ اور عراق پر اس کا تسلط ہوگیا، اُس نے اعلانِ عام کردیا کہ: ’’قاتلانِ حسین رضی اللہ عنہ کے سوا سب کو امن دیا جاتا ہے۔‘‘ اور قاتلانِ حسین رضی اللہ عنہ کی تفتیش و تلاش پر اُس نے اپنی ساری قوت خرچ کردی اور ایک ایک کو گرفتار کرکے سب کو قتل کردیا،حتیٰ کہ ایک روز میں دو سو اڑتالیس (۲۴۸) آدمی اِس جرم میں قتل کیے گئے کہ وہ قتل حسین رضی اللہ عنہ میں شریک تھے،اِس کے بعدخاص لوگوں کی تلاش اور گرفتاری شروع ہوئی۔
عمرو بن حجاج زبیدی پیاس اور گرمی میں بھاگا، پیاس کی وجہ بے ہوش ہوکر گر پڑا اور اسی حالت میں ذبح کردیا گیا۔شمر ذی الجوشن جو امام حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں سب سے زیادہ شقی اور بدبخت تھا اس کو قتل کرکے اِس کی لاش کتوں کے آگے ڈالی گئی۔عبد اللہ بن اسید جہنی، مالک بن بشیر بدی اور حمل بن مالک (ان تینوں ) کا محاصرہ کرلیا گیا، اُنہوں نے رحم کی اپیل کی، مختار نے کہا: ’’ظالمو! تم نے جگر گوشۂ رسول اپر رحم نہ کھایا، تم پر کیسے رحم کھایا جائے؟ چنانچہ سب کو قتل کردیا گیا۔ مالک بن بشیر جس نے امام حسین رضی اللہ عنہ کی کلاہِ مبارک اُٹھا رکھی تھی اُس کے دونوں ہاتھ اور دونوں پاؤں کاٹ کر اسے میدان میں ڈال دیا گیا اور وہ وہیں تڑپ تڑپ کر مرگیا۔عثمان بن خالد اور بشیر بن شمیط (جنہوں نے امام حسین رضی اللہ عنہ کے چچا زاد بھائی حضرت مسلم بن عقیلص کے قتل میں یزیدی فوج کی مدد کی تھی ) اِن کو قتل کرکے آگ میں جلا دیا گیا۔عمرو بن سعد جو امام حسین رضی اللہ عنہ کے مقابلہ پر لشکر کی کمان کر رہا تھا، اس کو قتل کرکے اس کا سر مختار کے سامنے لایا گیا اور مختار نے اس کے لڑکے حفص کو پہلے ہی سے اپنے دربار میں بٹھا رکھا تھا، جب یہ سر مجلس میں آیا تو مختار نے حفص سے کہا : ’’تو جانتا ہے کہ یہ سر کس کا ہے؟۔‘‘ اُس نے کہاکہ: ’’ہاں! اور اِس کے بعد مجھے بھی اپنی زندگی پسند نہیں۔‘‘ مختار نے حکم دیا کہ: ’’ اِس کا بھی سر قلم کردیا جائے۔‘‘ چنانچہ اِس کو بھی قتل کردیا گیا ۔ اِس کے بعد مختار نے کہاکہ: ’’عمرو بن سعد کا قتل تو امام حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کے بدلے میں ہے اور حفص کا قتل علی بن حسین رضی اللہ عنہ کے بدلے میں ہے اور حقیقت یہ ہے کہ پھر بھی برابری نہیں ہوئی، اگر میں تین چوتھائی قریش کو بھی بدلہ میں قتل کردوں، تب بھی امام حسین رضی اللہ عنہ کی ایک اُنگلی کا بھی بدلہ نہیں ہوسکتا۔‘‘حکیم بن طفیل کہ جس نے امام حسین رضی اللہ عنہ کے تیر مارا تھااِس کا بدن تیروں سے چھلنی کردیا گیا،یہاں تک کہ وہ بھی تڑپ تڑپ کر ہلاک ہوگیا۔زید بن رفاد کہ جس نے امام حسین رضی اللہ عنہ کے بھتیجے اور مسلم بن عقیلص کے صاحب زادے عبد اللہص کے تیر مارا، اُس نے ہاتھ سے اپنی پیشانی چھپائی، تیر پیشانی پر جا لگااور ہاتھ پیشانی کے ساتھ بندھ گیا، اِس کو گرفتار کرکے اوّل اِس پر تیر اور پتھر برسائے گئے پھر اس کو زندہ آگ میں جلادیا گیا۔ سنان بن انس کہ جس نے امام حسینصکا سر مبارک تن سے جدا کیا تھا کوفہ بھاگ گیا اِس کا گھر منہدم کردیا گیا۔ ۱؎(شہید کربلا: ص۱۱۴)
منحوس گھر:
عبد الملک بن عمیر کوفی کا بیان ہے کہ جس وقت حضرت مصعب بن زبیرص کا سر لاکر عبد الملک بن مروان کے سامنے رکھا گیا تو اس وقت میں عبد الملک کے پاس کوفہ کے مشہور محل ’’دار الامارہ ‘‘ میں موجود تھا ،عبد الملک نے مجھے لرزہ اندام دیکھ کر کہا : ’’ تجھے کیا ہوا ؟ ‘‘ میں نے کہا :’’ اے امیر المؤمنین ! اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت کرے ، ایک مرتبہ میں اسی محل میں اسی جگہ عبید اللہ بن زیاد کے ساتھ موجود تھا ، تو میں نے اس جگہ امام حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک عبید اللہ بن زیاد کے سامنے رکھا دیکھا ، پھر ایک مرتبہ اسی محل میں اسی جگہ مختار بن ابی عبید ثقفی کے ساتھ تھا ، تو عبد اللہ بن زیاد کا سر مختار کے سامنے رکھا دیکھا، اس کے بعد ایک مرتبہ اسی محل میں اسی جگہ میں حضرت مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا ، تو مختار بن ابی عبید کا سر مصعب رضی اللہ عنہ کے سامنے رکھا دیکھا، اب کی بار میں مصعب بن زبیر صکا سر آپ کے سامنے رکھا ہوا دیکھ رہا ہوں‘‘۔ عبد الملک کا بیان ہے کہ یہ سنتے ہی عبد الملک بن مروان اُس جگہ سے اُٹھ کھڑا ہوا اور جس محراب میں ہم بیٹھے ہوئے تھے ، اس کو ڈھا دینے کا حکم نافذ کردیا۔چنانچہ ا ِس کے بعد اِس گھر کو گرا دیا گیا ۔‘‘ (وفیات الاعیان)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی دُور اندیشی:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو شاید اِس فتنہ کا پہلے ہی سے علم ہوگیا تھا، اس لئے وہ آخری عمر میں دُعاء کیا کرتے تھے کہ: ’’یا اللہ! میں آپ سے پناہ مانگتا ہوں ’’ساٹھویں سال‘‘ سے اور ’’نوعمروں کی امارت‘‘ سے ۔‘‘ ہجرت کرکے ساٹھویں سال ہی یزید پلید جیسے نو عمر کی خلافت کا قضیہ چلا اور یہ فتنہ پیش آیا۔