مفتیٔ اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور دوسروں کے جذبات کی رعایت
اللہ تعالیٰ نے( میرے والد ماجد مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو) دوسروں کے جذبات کی رعایت کا خصوصی ملکہ عطا فرمایا تھا۔ ہر شخص سے اس کے مزاج و مذاق اور اس کی ضروریات کے مطابق معاملہ فرماتے اور اپنی ہر نقل و حرکت میں اس بات کا خیال رکھتے کہ دوسرے کو آپ کی ذات سے تکلیف نہ پہنچے، کسی کے یہاں جانا ہوتا تو پہلے سے معلوم فرماتے کہ کون سے وقت اس کے لیے ملاقات آسان ہوگی اگر کھانے کا وقت قریب ہوتا اور وہاں کھانے کا ارادہ نہ ہوتا تو جاتے ہی مناسب انداز میں اس پر واضح فرمادیتے کہ اس کے یہاں کھانے کا ارادہ نہیں ہے ایسا نہ ہو کہ وہ کھانے کا انتظام کرے اور بعد میں تکلیف ہو، کسی کے یہاں کھانے کا ارادہ ہوتا اتنا پہلے اسے باخبر فرماتے کہ وہ بآسانی انتظام کرسکے۔ *کسی کو ٹیلیفون کرتے وقت اس بات کی رعایت فرماتے کہ اس وقت اس کے لیے فون پر آنا مشکل نہ ہو۔*
کسی شخص پر اس کے مزاج کے خلاف اصرار کرنے یا دباؤ ڈالنے کا تو دستور ہی نہ تھا، کسی کی سفارش کرنے سے پہلے بار بار یہ سوچتے تھے کہ جس شخص سے سفارش کی جارہی ہے اس کی طبیعت پر بار تو نہیں ہوگا اور سفارش کرتے وقت بھی اس پر دباؤ ڈالنے کے بجائے یہ فرماتے کہ اگر قواعد و ضوابط میں گنجائش ہو اور آپ کی وسعت میں ہو تو فلاں کام کردیجیے۔
*فرمایا کرتے تھے کہ کسی ایک شخص کی حاجت بر آری کے لیے دوسرے شخص کو ناجائز کام پر آمادہ کرنا یا اس کے اصول توڑنے پر مجبور کرنا یا اس کی طبیعت پر ناقابلِ برداشت بوجھ ڈالنا مجھے گوارا نہیں۔*
جتنا کام آپ کے لئے اپنے ہاتھ سے کرنا ممکن ہوتا، عموماً اس کے لئے دوسرے شخص کو تکلیف نہیں دیتے تھے، بارہا اپنے کمرے کی خود جھاڑو دے لیتے، کبھی کبھی کپڑے بھی خود دھولیتے، درختوں کو اپنے ہاتھ سے پانی دے لیتے، مہمانوں کے لئے خود دسترخوان بچھا کر خود کھانا لے آتے، غرض اپنے کسی کام سے نہ صرف یہ کہ کوئی اعراض نہیں تھا، بلکہ اتباعِ سنت کی نیت سے اس قسم کے کاموں کا شوق تھا، اور جب تک صحت رہی معمول یہی رہا کہ اگر ہم لوگوں کو کسی اور کام میں مشغول دیکھا تو ہمیں بلانے کے بجائے خود اپنے ہاتھ سے یہ کام انجام دے لئے۔یہ عادت اس قدر راسخ ہوچکی تھی کہ مرض وفات میں شدید بیماری کے دوران بھی جتنا کام خود کرنا بس میں ہوتا، ہماری بار بار کی التجاؤں کے باوجود خود ہی کرتے تھے۔
*آپ کی تمام ضروریات کی ایک جگہ مقرر تھی، اور کسی چیز کی ضروت پڑتی تو جگہ مقرر ہونے کی بنا پر وہ اندھیرے میں بھی مل جاتی، جب کبھی کوئی چیز اس کی جگہ سے اٹھائی، ضرورت پوری ہونے کے بعد فوراً وہیں رکھ دی، اس عادت میں کبھی تخلف نہیں ہوتا تھا،* ہم لوگ اپنی بدنظمی سے حضرتؒ کو بڑی تکلیف پہنچاتے تھے کہ کوئی چیز اس کی جگہ سے اٹھائی اور دوسری جگہ رکھ دی، اس پر کئی بار ہمیں تنبیہ فرمائی، اور ایک دن *فرمایا کہ"لوگوں نے ان آدابِ معاشرت کو دین سے خارج ہی سمجھ لیا ہے، اور ان باتوں کی پرواہ نہیں کرتے، حالانکہ مشترک استعمال کی چیزوں کی جو جگہ مقرر ہو اسے وہاں سے بے جگہ لے جانا صرف مروت اور اخلاق ہی کے خلاف نہیں، اس لحاظ سے بڑا گناہ بھی ہے کہ ضرورت کے وقت چیز اپنی جگہ پر نہيں ملتی تو اس سے دوسرے کو تکلیف پہنچتی ہے۔ اور کسی مسلمان کو ایذا پہنچانا بہت بڑا گناہ ہے"۔*
ملازموں سے کام لینے میں بھی اس بات کا ہمیشہ لحاظ رکھتے کہ وہ ان کے لئے زیادہ مشقت کا موجب نہ ہو، ان کے آرام کے اوقات میں کام بتانے سے پرہیز فرماتے، کسی جگہ رات کو جانا ہوتا تو اس بنا پر جلدی واپس لوٹنے کی کوشش فرماتے کہ ڈرائیور کو رات کے وقت زیادہ جاگنا نہ پڑے۔ ایک ساتھ بہت سے کام بتلا کر ملازم کے ذہن پر بار نہ ڈالتے، بلکہ جب وہ ایک کام سے فارغ ہوجاتا تو دوسرا بتاتے، غرض آپ کی پوری زندگی اس شعر کی عملی تشریح تھی جو آپ اکثر پڑھا کرتے تھے:
*تمام عمر اسی اہتمام میں گزری*
*کہ آشیاں کسی شاخ چمن پہ بار نہ ہو*
اور اس فکر کی انتہا یہ ہے کہ وفات سے دس روز پہلے جو رمضان کا مہینہ ختم ہوا، اس میں وقتاً فوقتاً آپ کی طبیعت بگڑنے لگتی تھی، دل کی تکلیف بار بار ہونے لگی تھی، جب یہ رمضان المبارک ختم ہوگیا تو *ایک دن حسرت کے ساتھ فرمانے لگے کہ:
"اس رمضان میں جب میری طبیعت بار بار خراب ہوتی تو بعض اوقات یہ خیال ہوتا تھا کہ شاید اللہ تعالٰی مجھے اس مبارک مہینے کی موت کی سعادت عطا فرمادیں، لیکن میرا بھی عجیب حال ہے، اس خیال کے باوجود میں اس بات کی تمنا اور دعا نہ کرسکا کہ میرا انتقال رمضان میں ہو، کیونکہ مجھے خیال یہ تھا کہ اگر یہ واقعہ رمضان میں پیش آیا تو "اوپر والوں" کو (یعنی تجہیز و تکفین کے منتظمین اور اس میں شرکت کرنے والوں کو) بہت تکلیف ہوگی۔"*
میں حضرتؒ کی زبان سے یہ جملے سن رہا تھا، اور سوچ رہا تھا کہ ان کی پروازِ فکر ہمارے تخیل و تصور کی ہر سرحد سے کتنی بلند ہے۔
اللہ اکبر!........ اعتدال و توازن میں ڈھلی ہوئی اس زندگی کی مثال اب نگاہوں کو کہاں نصیب ہوگی؟ یہی تو وہ باتیں ہیں جنہیں یاد کرکے بے ساختہ یہ شعر زبان پر آتا ہے؎
ہمہ شہر پر زخوباں، منم و جمال ماہے
چہ کنم کہ چشم خوش بیں نہ کند بکس نگاہے
خوبصورت(و باکمال ) لوگوں سے شہر کا شہر بھرا پڑا ہے،لیکن میں اپنے محبوب کے حسن و جمال میں محو ہوں۔
میں اپنی اس خوبصورتی کی متلاشی نگاہ کا کیا کروں کہ یہ تمہارے سوا کسی پر جا کر ٹکتی ہی نہیں ہے، راشد)
????- کتاب: میرے والد میرے شیخ
????- مؤلف : حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب
????- ناشر : مکتبہ معارف القرآن کراچی پاکستان
????- صفحہ نمبر158
????- انتخاب: ابومعاذ راشدحسین