سیکولرائزیشن کے پاکستان پراثرات

سیکولرائزیشن  کےپاکستان پراثرات

اہل مغرب دور حاضر کی مادی ترقی کا نقطہ آغاز تیرہویں صدی عیسوی میں اٹلی سے جنم لینے والی تحریک احیائے علوم کا مرہون منت سمجھتے ہیں۔ ا س تحریک کا آغاز مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان ہونے والی صیلبی جنگوں سے ہوا ۔اس سے قبل یورپ کا قریب ایک ہزار سال(500-1500CE) پر محیط عرصہ Dark Agesکہلاتا ہے ۔ یہ دور یورپ میں چرچ کی بلا شرکت غیر ے حکمرانی کا دور تھا جہاں سائنسی ترقی کا سفر نہ ہونے کے برابر تھا۔رومی (مسیحی ) تہذیب میں مادی علوم کو نہ پا کر یورپ قدیم یونانی علما ء و فلاسفہ کے کام کی طرف متوجہ ہوا ۔لاطینی و یونانی زبانوں کی تحصیل کا سفر شروع ہوا۔یہاں قدم قدم پر کلیسیاء متلاشیان ِعلم کے رستے میں مزاحم ہوا۔اس کی بنیاد ی وجہ عیسائی مذہبی علوم کا علمی وسائنسی اکتشافات میں تفاوت تھا۔ کلیسیائی مسیحیت اور عقل دانش و آگہی کے مابین کشمکش کئی صدیوں جاری رہی جس میں انجام کار سائنس و حرفت کو فتح ہوئی اور کلیسیاء کی جمودی فکر شکست پاگئی چونکہ کلیسیاء مذہب و خدا کا نمائندہ تصور کیاجاتا تھا ۔لہذا بد قسمتی سے اسے مسیحیت کی بجائےکلی پسپائی قرار دیا گیا ۔مغرب نے من حیث المجموع مذہب کا انکار نہیں کیا لیکن اس کشمکش کا ایک ردِعمل انکار خدا اور انکار مذہب کی کمیونسٹ اور سوشلسٹ تحریکوں کے جنم کی صورت میں نکلا۔ ہزاروں سالہ پختہ مذہبی روایت کے نتیجہ میں خدا کا کلیتاً انکار ہرذی شعور کے لیے قریب قریب نا ممکن تھا ۔چنا نچہ یورپ نے مادی ترقی کی راہ میں حائل مذہب کا یہ حل نکالا کہ مذہب کو فرد کا ذاتی معا ملہ قرار دے کر اس کا معاشرتی ،سیاسی اور معاشی کردار ختم کردیا گیا اورتھیالوجی سے زیادہ مذہب کے ثقافتی اظہار پر ارتکاز کیا گیا۔ اس جدید فکر کو سیکولرازم کا نام دیا گیا۔اس کا بنیادی مقصد مذہب کو ریاست کے دائرہ کا ر سے الگ کرنا تھا یورپ میں یہ تجربہ خاصاً کا میاب رہا۔جہاں مادی ترقی کی راہ میں کلیسیا ء حائل تھا۔

سیکولرائزیشن کی تعریف

’’یہ وہ عمل ہے جس کے ذریعہ کوئی اپنا مذہبی کردارکو ترک کر دیاجائے۔ مذہبی علامتوں  یا طرز عمل کویکسرمسترد کرتے  مذہبی شناخت ختم کردیاجائے۔‘‘

مغربی دنیا میں سیکولرائزیشن

مغربی دنیا میں سیکولرائزیشن پر ایک لامتناہی بحث کاآغازہوچکا ہے. امریکہ جیساملک جوطویل عرصے سے  کٹرعیسائیت پر غور کر رہا تھا،اورعیسائی اقدار کی پالیسیوں اور قوانین کی راہیں ہموارکررہاتھااس کےعلاوہ حالیہ برسوں میں، دیگر مذاہب خودکومذہبی پابندیوں سےآزادسمجھتےہیں، جیسےکہ مذہبی واقعات سے مذہب کو دور کرنے کے لئے تحریکیں موجود ہیں اور ہم جنسی  شادی پرستی،  ظاہر ہوتا ہے کہ مغربی اقوام میں سیکولرائزیشن کاتیزی سے آغاز ہوگیاہے۔

Smith, Christian. The Secular Revolution: Powers, Interests, and Conflicts in the Secularization of American Public Life (2012) pp.25-28

Inc., Gallup. "2017 Update on Americans and Religion". Gallup.com. Retrieved 2018-09-03.

سپین یورپ کے سب سے زیادہ مذہبی ممالک میں سے ایک تھا ، لیکن پچھلے کچھ دہائیوں کے دوران سیکولرائزیشن میں تیزی سے ترقی ہوئی ہے۔جس سے سپین میں چرچ اور ریاستی معاملات پرنادخل اندازی کرنےپرایک معاہدے ہوا۔ 2001 میں ، ہسپانویوں کی 82٪ شناخت کیتھولک کی حیثیت رکھتی تھی لیکن 2021 میں صرف نصف لوگوں سےبھی کم تک محدودہوئی ۔

  Anonymous (2021-05-01). "Religion in Spain - Empty pews, big pulpit". The Economist. May 1, 2021: 26–27

عصر حاضر میں سیکولر، سیکولرازم اور سیکولرائزیشن سے متعلقہ بحثیں نہایت پیچیدہ نوعیت کی ہو چکیں ہیں، کیونکہ تقریباً ہر سماج میں ان اصطلاحات کا مفہوم لغوی، اصطلاحی اور اطلاقی مفہوم میں مختلف لیا جاتا ہے۔ فرانسیسی سیکولرازم اور سیکولرائزیشن، امریکی اور برطانوی سیکولرازم و سیکولرائزیشن سے مختلف ہے اور اسی طرح سے مختلف یورپی ممالک میں ان اصطلاحات کا مفہوم مختلف لیا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ ایشیائی اور مسلم ممالک میں بھی ان اصطلاحات کا مفہوم اور استعمال مختلف ہوتا ہے، مثلاً بعض راسخ العقیدہ مسلمانوں کے نزدیک سیکولرازم اور سیکولرائزیشن، مقامی مذاہب کو کنٹرول اور اجتماعی زندگی سے بیدخل کرنے کا ایک مذہب دشمن نظریہ اور طریقہ کار ہے۔

مغرب میں چوٹی کے ماہرین سماجیات اور فلاسفرز کے سیکولرازم اور سیکولرائزیشن پر خیالات و نظریات کو جان لیا جائے تا کہ مقامی سطح پر ان موضوعات پر گفتگو کرنا آسان و مفید ہو جائے۔ اس سیاق میں اس لیے کاسانوا José Casanova کے سیکولرازم اور سیکولرائزیشن پر افکار کا جائزہ پیش خدمت ہے۔

کاسانوا نے سیکولریٹی کے سماجی مطالعہ جات میں واضح کیا ہے کہ جس طرح سیکولرازم کو واحد متبادل تصور حقیقت Reality کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے اور سیکولرائزیشن کے پروسس کو ایک فطری ارتقاء کے ساتھ ملحق کیا جاتا ہے جوایک مصنوعی پیوند کاری ہے۔کاسانوا، ری تھنکنگ سیکولرازم کتاب کے مضمون میں اس کی وضاحت یوں کرتے ہیں:

’’کسی تناظر میں سیکولر یا سیکولریٹی ایک ایسی جدید اہم اور مرکزی اصطلاح ہے اور ایک تھیالوجیکل، فلاسفیکل، قانونی و سیاسی اور سماجی و ثقافتی کیٹگری ہے، جو نفسی و اجتماعی معاملات میں ایسی قدر و محور بن جاتی ہے جس کے گرد ایک ایسا “مصنوعی تصور حقیقت” تخلیق، تعمیر، کوڈیفائی کیا جا سکے، جسے بحیثیت نظریہ و عملی اطلاقی تجربے کی حیثیت سے “مذہبی تصور حقیقت یا Reality” کے بالمقابل استوار کیا جاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اطلاقی طور پر اپنے ارد گرد مختلف قسم کی “سیکولریٹیز” کو دیکھتے ہیں جنہیں مختلف جدیدیت خوردہ پس منظر میں، سماجیاتی و قانونی زبان میں ڈھالا جاتا ہے، اداریاتی صورتیں دی جاتیں ہیں۔‘‘(Rethinking Secularism, p55)

کاسانوا کا ماننا ہے کہ “بے مذہب اور سیکولر” باہم مدغم اصطلاحات ہیں۔ جہاں مذہب کا ذکر آئے گا وہاں سیکولریٹی کا ذکر بھی آئے گا یا جہاں سیکولریٹی کا نام لیا جائے گا وہاں پس منظر میں مذہب خودبخود متعلقہ ہو جائے گا۔ لیکن کیونکہ ماڈرنٹی کے تحت سماجی علوم میں مذہب کی سائنسی تفہیم پر زیادہ توجہ مرکوز رہی ہے اس لیے سیکولر اور سیکولریٹی کی ساخت و ہیئت گری، اور اس اصطلاح اور تصور کی سماجی و تاریخی حوالوں پر زیادہ توجہ مرکوز نہیں کی جا سکی، اس لیے خود مغرب میں سیکولر سٹڈیز اب ہونا شروع ہوئی ہیں۔

کاسانوا کے نزدیک سیکولرازم کے مفہوم کی وضاحت اس طرح کی گئی ہے:

’’وسیع ترین سطح پر جدید سیکولر تصور حقیقت اور نظریات کے ایسے مجموعہ کا نام ہے جسے جدید انسان نے شعوری طور پر ایک طرف مختلف تاریخی فلاسفیز کی صورت میں فروغ دیا اور باقی رکھا ہے۔ مزید یہ کہ سیکولرازم کا اظہاریہ، مختلف نظریات کے تحت نہ صرف ریاستی ڈھانچوں اور ہیئتوں کی ترتیب، ارتکاز اور انصرام میں نظر آتا ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ سیکولرازم کی پیش کاری, ماڈرنٹی کے تحت سامنے لانے والے سماجی پروجیکٹس اور پروگرامات کے ذریعے بھی ہوتی ہے، جس کے تحت اسے انسانی زندگی کے لیے ایک ایسی علمیاتی فطری حالت کے طور پر قبول کر لیا جاتا ہے۔ جو اپنے مظہری اور اطلاقی دائرے میں “لاشعور unthought” کا عین ہو یا متبادل ہو، یعنی بالفاظ دیگر سیکولرازم، ایسا ماڈرن doxa فطری بہاؤ اور نمو ہے، جس کی طرف ہم سب نے گویا بہنا ہی ہے۔‘‘(Rethinking secularism chapter۔ 2 ,page 56)

بعض مغربی مفکرین نےلکھاکہ سیکولرائزیشن ایک تاریخی پروسس ہے جوسیکولرازم بحیثیت نظریہ سے الگ پہچان رکھتا ہے،  پبلک ریلجن ان ماڈرن ورلڈ میں اس پروسس کی وضاحت کچھ یوں کی ہے:

“سیکولرائزیشن، ایک نظری یا حقیقی تجربی تبدیلیوں و بدلاؤ کا ایسا پیٹرن ہے جو تاریخی تسلسل کے ساتھ جاری و ساری ہے اور مذہبی علمیت و شعائر اور سیکولر اداراتی ڈھانچوں مثلاً ریاست، معیشت، سائنس، آرٹ، تفریح، صحت و بہبود کے مابین تفریقی امتیازات قائم کرتا ہے۔ بالخصوص سماجی سائنس میں، سیکولرائزیشن کی ایک عمومی تھیوری ترتیب دی جا چکی ہے جسے پہلے شرمندہ تعبیر جدید یورپ میں کیا گیا، اور یہ مانا گیا ہے کہ جسے دنیا کے باقی حصوں میں بھی، انسانی تاریخی عمل کے ذریعے سے، مذہبی انسان سے سیکولر انسان بننے کے سفر میں، انسانی و سماجی ترقی و خوشحالی کے حصول کے لئے چار و ناچار اپنانا ہوتا ہے۔(Rethinking Secularism, p,54-55)

مغربی مفکرین کےنزدیک، جدید دنیا میں مذہب کے زوال اور پرائیویٹائزیشن، سیکولرائزیشن کا بنیادی مقدمہ اور ماڈرنٹی کے تحت پنپنے کا فطری راستہ ہے۔ اگرچہ پچھلے پندرہ سالوں میں اس مقدمے پر کافی تنقیدی کام بھی ہونے لگے ہیں لیکن ابھی بھی اس موقف کا سٹیس کو قائم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سماجیاتی علمیت اور سوشیالوجی میں، سیکولرائزیشن کو ماڈرنائزیشن کے بنیادی پروسس میں اور ماڈرن معاشروں میں اداراتی سٹرکچرل اور اس کے مختلف جزوی شعبہ جات میں، مذہب و مذہبیت سے امیتاز و فرق پیدا کرنے کے لحاظ سے بنیادی عامل کے طور پر سمجھا اور اختیار کیا جاتا ہے۔

سیکولرازم اور سیکولرائزیشن

عام طور پر “سیکولر ہونے” کا مطلب ماسوا مذہبی و روحانی یا ہر وہ چیز جو غیر مذہبی ہو، لیا جاتا ہے۔ جیسے ہم اگر فطرت یا حقیقت سے مذہب کو علیحدہ کر دیں تو پھر جو چیز اپنے آپ میں باقی رہے گی یا بچے گی، وہ مذہب ہو گی، عام لوگوں نے اس اصطلاح residual category کو استعمال کیا ہے، یعنی مذہب کو الگ کر دیا جائے توسیکولر یا سیکولریٹی ایک فطری اور داخلی و اندرونی رہائشی قدر کے طور پر باقی بچے گی۔
لیکن ماڈرن ایج یا جدید سیکولر دنیا میں، سیکولر ہونے یا سیکولریٹی کا مفہوم صرف اس حد تک مقید نہیں رہا بلکہ سیکولریٹی نے اپنا مطلق مفہوم میں تصور حقیقت خود تخلیق کرنے کے دعوٰی شروع کردیااورساتھ ہی مذہب کو اس کے فطری مقام سے ہٹانا بھی شروع کر دیا گیا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ سیکولر یا سیکولریٹی ہمارے سامنے اپنا fabricated تصور فطرت و قدرت اور حقیقت سامنے لارہا ہے، اگرچہ کمال عیاری سے فطری سائنس، سماجیاتی علمیت اور دیگر علوم کے ذریعے اس موقف کو بتدریج نمو پانے والی disenchantment کے پردے میں پیش کیا جا رہا ہے گویا مذہب کا پردہ اٹھا دیا جائے تو خود بخود جو چیز فطری طور پر اور تصور حقیقت کے سامنے آئے گی اورجو مغرب اور مشرق کی غالب جدید یونیورسٹیوں اور کالجز میں علمیاتی اسلوب کے ذریعے پڑھایا جا رہا ہے۔ چارلس ٹیلر نے اپنی معروف کتاب “A Secular age” میں اسی علمیاتی رحجان پر تنقید کرتے ہوئے اسے “subtraction stories” کا نام دیا ہے۔

سیکولر یا سیکولریٹی کے بیک وقت، مذہب کے ماسوا ایک فطری اور residual قدر ہونے کے ساتھ ساتھ اس مطلق اور مکمل تصور حقیقت کے طور پر، سمجھنے کی وجہ سے خواص اور عوام میں یہ تصور نہایت سرعت سے پروان چڑھا ہے کہ مذہب کو سیکولر بمفہوم دنیاوی امور کے بمقابل سمجھنے کے بجائے ایک مابعد الطبیعیاتی اور افسانوی اضافت کے طور پر قبول کیا جائے۔جیساکہ ایک مغربی مصنف نےلکھاہے

’’دوسری جانب مذہب کو ایک ایسی فطری داخلی قدر (جو سیکولر بمفہوم دنیاوی امور کے بمقابل قائم رہتی ہے)، سمجھنے کے بجائے ایک مابعد الطبیعیاتی اور افسانوی اضافت کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے، جس کے بغیر بھی انسان اور انسانی سماج زندہ رہ سکتا ہے۔‘‘Rethinking Secularism, p56

مغربی لوگوں کایہ مانناہےکہ سیکولر اور سیکولریٹی کا داخلی سطح پر متناقض مفہوم، اکادمیہ میں سیکولرائزیشن کی مختلف سماجی تھیوریز کو پیدا کرتا ہے یہ تھیوریز اپنی اصل میں “سیکولر اور سیکولریٹی” کے مفاہیم کی مذہبی سکوپ اور دائرہ کار سے آزادی اور تفریق differentiation بیان کرنے کی تفصیل ہے۔ جس میں یہ مفروضہ پہلے سے ہی فرض شدہ ہوتا ہے کہ سیکولرائزیشن ایک آفاقی تاریخی پروسس ہے جس سے مفر یا انکار کرنا، کسی بھی انسان کے لیے ممکن نہیں ہے۔ اور پھر اس آفاقی تاریخی سفر کے تسلسل کے دوران، آزاد خیال سیکولر دانشوروں کی طرف سے پیش کیے گئے سیکولر تصور جہاں Secular world views، دراصل اس مذہب اور سیکولر کے سکوپ اور دائرہ عمل اور تعاملات کی الگ الگ ہونے کی وضاحتوں کے طور پر سامنے آئے۔ جس نے نہ صرف سیکولر تصور حقیقت کی برتری، مذہب پر ثابت کر دی بلکہ مذہب کو از کار رفتہ زمانے کی میتھالوجی جیسا بنانے کی کوشش کی۔

مغربی عوام نے سیکولرائزیشن بحیثیت آفاقی تاریخی پروسس اور اس کے جلو میں پنپنے والی سیکولسٹ تھیوریز مفروضے کو مزید تقویت دیتے ہیں کہ سیکولرائزیشن واقعتاً حقیقی آفاقی پروسس ہے اور سیکولر تھیوریز ہی سماجی تبدیلی اور حقیت کی سب سے زیادہ وضاحت کرتیں ہیں۔ چنانچہ اس مفروضے نے ایک ماسک پیدا کیا جس کے پیچھے سیکولر اور سیکولریٹی کی بحیثیت عام انسانی نظریہ کے مطالعہ کرنے کے داعیات اور سیکولرائزیشن کا تاریخیت کے اصولوں کے تحت ناقدانہ مطالعہ جات کے امکانات معدوم ہو گئے:

’’سیکولرائزیشن بحیثیت آفاقی تاریخی پروسس اور سیکولر تھیوریز) دونوں نے ایک ایسے ناقابل تنقید اور ناقابل منعطف نظریات کی حیثیت اختیار کر لی جس نے ایک ماسک (حجاب) پیدا کیا جس کے تحت سیکولرائزیشن کو بحیثیت ایک عارضی اور جزوی تاریخی تناظر و عمل کے تحت سمجھنے کے عمل کو معطل کر دیا گیا اور اس کو عالمی و آفاقی انسانی ترقی کے نمونے کے طور پر سامنے لایا گیا۔‘‘Rethinking Secularism۔ p57

چنانچہ ان مفروضات کے علمی حلقوں اور عوامی سطح پر پھیلاؤ کی وجہ سے سیکولر اور سیکولریٹی نے مروجہ مغربی مفہومات میں، ایسی فطری اور آفاقی تعبیرات مزید تہیں پیدا کیں اوراس تاثر اور پروپیگنڈہ کو فروغ دیا کہ اگر مذہبی پردہ ہٹا دیا جائے یعنی ویبیرئن کے مفہوم disenchantment کر دی جائے کہ تو سیکولر و سیکولریٹی فطری و آفاقی قدر کے طور پر خود بخود ابھر کر سامنے آجاتی ہے۔

تاہم مغربی مفکرین کایہ بھی مانناہےکہ علمی تاثر بندی اور پروپیگنڈہ کا ایک نقصان یہ بھی ہوا، کہ سوشل ساہنسز کے سماجی مطالعہ جات میں سیکولرلائزیشن کی تھیوریز نے سیکولر اور سیکولریٹی کی اصطلاحات کا تجزیہ، مطالعہ اور وضاحت کرنا ہی چھوڑ دیا گیا اور سیکولر اور سیکولریٹی کو متحد الجسم اور متحد الوجود قدر اور آفاقی سچائی کے طور پر اپنا لیا۔ گویا ان کے نزدیک یہ صرف مذہب ہی ہوتا ہے جو فرقے رکھتا ہے مختلف تعبیرات رکھتا ہے، منتشر خیالی پیدا کرتا ہے، تشدد پر ابھارتا ہے اور ہر قسم کی مشترکات سے عاری ہے۔

اس غیر حقیقی مفروضات نے حالیہ عشروں مغرب میں سیکولر سٹڈیز کے ناقدانہ سماجی مطالعہ جات کی راہ میں روڑے اٹکائے رکھے۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے، اس لیے یہی وجہ ہے کہ سیکولریٹی کی مختلف جہات اپنی اطلاقی حیثیت میں، مختلف مغربی سماجوں میں مختلف انداز سے ظہور پذیر ہوتی رہیں ہیں۔

لہذا مغربی مسحیت اور اس سے جڑے سماجوں میں سیکولریٹی کو لے کر جو سماجی، ثقافتی و سیاسی اور تھیالوجیکل مباحث موجود رہیں ہیں، اس کی مثال دیگر مذاہب سے منسلک سماجوں میں موجود نہیں ہے، حتی کہ اس قسم کی سیکولریٹی و سیکولررائزیشن بذات خود مشرقی مسحیی سماجوں میں بھی موجود نہیں رہی۔

شاید یہی وجہ ہے کہ سیکولریٹی کا مفہوم بھی مسلسل تبدیلیوں و اضافوں کی زد میں رہا ہے مثلاً اصل لاطینی لفظ saeculum, جسے عام طور پر saecula saeculorum بھی کہا جاتا تھا اس کا مطلب محض یہ تھا کہ وقت کا غیر معین دورانیہ۔۔۔

لیکن پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسے مذہبی /سیکولر دوہریت کو بیان کرنے کے تناظر میں استعمال کیا جانے لگا، جس نے آگے چل کر ان سٹرکچرز کی ہیت گری کی، جنہوں نے قرون وسطٰی کی مسحیت کی تاریخ کو دو مختلف دنیاؤں کے تناظر میں الگ الگ بیان کرنا تھا جہاں ایک طرف مذہبی و روحانی دنیا تھا جس پر مغربی مسیحی افراد کی۔  اخروی نجات کا دارومدار تھا اور دوسری طرف سیکولر بمفہوم دنیاوی، عارضی و فوری و فانی دنیا سے جڑے معاملات و امور تھے۔

اور ان دونوں جہات و امور کے لیے مسیحی مذہبی برداری کے الگ الگ گروہ تھے۔  اس میں سے ایک گروہ “خالصتاً” مذہبی نوعیت کا تھا جس نے مذہبی دائرے میں کمال (پرفیکشن) کے لیے خود کو وقف کر دیا تھا جس طرح ہمارے ہاں تزکیہ نفس کی اصطلاح ہے اس طرح مسحیت میں یہ گروہ روحانی درجہ کمال مختلف رہبانیت پر مبنی طریقوں سے حاصل کرتا تھا۔  جبکہ دوسری طرف دنیاوی زندگی میں عام لوگوں کی رہنمائی کے لیے “سیکولر” مذہبی رہنما تھے جو عام لوگوں کو رہنمائی فراہم کرتے تھے اور ان میں گھل مل کر رہتے تھے۔

پاکستان میں سیکولرائزیشن

ہمارے ملک میں سیکولرائزیشن اور لبرل لابی قیامِ پاکستان کے وقت سے موجود ہے۔ کمیونسٹ اور سوشلسٹ بھی قیامِ پاکستان کے مرحلے کے ساتھ ہی یہاں متحرّک ہو گئے تھے۔ علّامہ اقبالؒ نے برّصغیر میں مُسلم کمیونٹی کے عقیدے، تہذیب و ثقافت، تاریخ و تمدّن کو ملحوظ رکھتے پاکستان کا تصوّر پیش کیا تھا اور بانیانِ پاکستان نے تحریکِ پاکستان کے دوران میں مذہبی، تاریخی، تہذیبی و تمدّنی پہلووں کو مسلسل اجاگر کیا تھا۔قائدِ اعظمؒ کی رحلت کے بعد  قادیانیوں اور مغربی تہذیب کے دلدادہ دیگر سیاسی و سماجی گروہوں کے اسلام مخالف طبقے اس مملکت کو اس کی نظریاتی منزل سے دور کرنے میں سرگرم ہو گئے تھے اور وہ بڑی حد تک کامیاب بھی رہے۔

لیکن نوابزادہ لیاقت علی خان نے بحیثیتِ وزیرِ اعظم خود اسمبلی میں وہ تاریخی قرارداد پیش کی جو تاریخِ پاکستان میں ’’قراردادِ پاکستان‘ ‘کے نام سے محفوظ ہے۔ تفصیلی بحث کے بعد 12مارچ 1949 کو یہ قرارداد پاس ہوئی۔اس قرارداد میں ایک نظریاتی مسلم ریاست کے اہداف اور مزاج کی نشاندہی کرنے والے اہم نکات کا نچوڑ یہ تھا کہ ساری کائنات پر اقتدارِ اعلیٰ اللہ سُبحانہٗ و تعالیٰ کاہے۔ پاکستان میں منتخب نمائندے اس اقتدار ِاعلیٰ کے نائبین کی حیثیت سے عوام کی طرف سے تفویض کردہ ذمہ داری کو پور کریں گے اور اللہ کے دیے ہوئے اصول و قوانین کو نافذ کریں گے۔ ریاست کا نظام جمہوریت، مساوات، تحمّل و بردباری اور عدلِ اجتماعی کے اصولوں پر قائم ہو گا۔ قانون کی نظر میں ملک کے سارے باشندے برابر ہوں گے۔ تمام شہریوں کو بنیادی حقوق کی ضمانت ہو گی۔ ان کواپنے مذہب و عقیدہ کے مطابق عبادات اور مذہبی رسومات کی ادائیگی کی مکمل آزادی ہو گی۔ سب کو بلا کسی تفریق و تعصب ترقی کے یکساں مواقع حاصل ہوں گے۔ اس قرار داد نے ریاست کے فکری و نظری اور دستوری خطوط متعیّن کر دیے۔ یہ قیاس بجا طور پر پختہ ہوا کہ اس قرار داد نے سیکولر، لبرل، کمیونسٹ اور مغرب پرست طبقوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا تھا۔

 اسلامسٹ اور سیکولرائزیشن

تاریخ دہرانا مقصود نہیں تھا۔ سیکولرائزشن ،سیکولر، لبرل اور سوشلسٹ لابیاں مدت سے ’’ سیکولرائزشن ‘ ‘ کا راگ الاپ رہی ہیں۔ اب کچھ عرصے سے ملک کے نظریاتی چہرے پر مغالطوں کی گرد ڈالنے والا ایک نیافکری گروہ نمودار ہوا ہے۔سیکولرزم حکومتی اداروں اور ریاست کی نمائندگی کرنے والی شخصیات کے مذہبی قواعد و ضوابط اور تعلیمات سے جدا رہنے کا اصول ہے، یا ایک ایسی ریاست میں جس نے مذہبی عقائد کے معاملات میں غیر جانبدار اور بے تعلق رہنے کا اعلان کر رکھا ہو اسے بھی لوگوں پر مذہب یا مذہبی رسومات کے عمل کو لاگو کرنے سے الگ تھلگ رہنے کا نام سیکولرائزیشن ہے۔ اس نظریے کا ایک اظہاریہ تصور ہے کہ سرکاری اور خاص طور پر سیاسی سرگرمیوں اور فیصلوں پر مذہبی عقائد اور اعمال کا کوئی اثر نہ پڑے۔ سیکولرزم کی فکری و نظریاتی جڑیں یونانی اور رومن فلاسفہ سے اخذ کی گئی ہیں۔ اپیکورس اور مارکوس آریلیس جیسے سیکولرزم کے قدیم فلسفیوں سے لے کر روشن خیالی (Renaissance) کے دور کے جان لاک، ڈینس ڈائرٹ، والٹیئر، بروش سپائنوزا، جیمز میڈیسن، تھامس جیفرسن اور تھامس پائینے اور ماضی قریب کے رابرٹ اِنگرسول اور برٹرانڈ رسل جیسے فری تھنکر اور منکرینِ مذہب تک اس کی جڑیں پھیلی ہوئی ہیں۔‘‘

سیکولرائزشن کے شجر کی جڑیں تیسری چوتھی صدی قبل مسیح سے لے کر دوسری صدی عیسوی میں ہیں اور اس کی شاخیں اکیسویں صدی تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اگر کوئی دیسی دانشور پاکستان یا امریکہ یا کسی یورپی ملک میں بیٹھ کر یہ سمجھتا ہے کہ سیکولرائزشن کی جو تعریف ان یونانی، لاطینی، رومن اور یورپی و امریکی حُکماء اور اہلِ دانش نے متعیّن کی اور اس فلسفے کی جو اطلاقی حدود کھینچیں، وہ ان کو مٹا کر اپنی نئی تعریف منوائیں گے یا اس فلسفے کے نفاذ کے اپنے دائرے لگائیں گے تو ساری دنیا جہاں سیکولرائزشن نے ایک نظریہ کی حیثیت اختیار کر لی وہ ان کی بات کیسے تسلیم کرے گی۔(القرضاوی،یوسف،اسلام اورسیکولرزم،ادارہ تحقیقات اسلامی،اسلام آباد،۱۹۹۷ء ص۵۴)

سیکولرائزشن کے نتیجے میں مذہبی انحطاط

ریاست وسیاست وہ میدان ہے جو اپنی لا محدود طاقت اور اختیارات کی وجہ زندگی کے ہر شعبے پر اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ ریاست و سیاست تو قطعی طور پر سیکولر ہو اور اس کے سماج پر اثرات مرتّب نہ پڑتے ہوں۔ تعلیم ذہن سازی اور سیرت گری کا ذمہ دار دوسرا سب سے موثّر عامل ہے۔ سیکولرزم کے فکر سازوں نے اہتمام اور اختصاص کے ساتھ اقتدار کے ساتھ تعلیم کوبھی مذہب کے اثر سے محفوظ رکھنے کا ’حکم‘ جاری کیا اور صاف کہہ دیا کہ جس طرح حکومت کا مذہبی رنگ سے پاک صاف ہونا ضروری ہے اسی طرح تعلیم پربھی مذہب کا سایہ نہیں پڑنا چاہیے۔ اجتماعی شعور کی تشکیل میں اس چیز کے جو نتائج ہو سکتے ہیں اور جو صاف دیکھے جا سکتے ہیں ان سے کوئی مفتور العقل آدمی ہی انکار کر سکتا ہے۔ ریاست و سیاست اور حکومت و اقتدار اور تعلیم کے گرد سیکولرزم کی دیوار کھڑی کر دینے کے مضمرات جدید یورپ اور امریکہ کے ادب وفنون اور عملی زندگی میں دورِ تنویریت (Enlightenment Age) سے بتدریج ظاہر ہونا شروع ہوئے اور اب معیشت و معاشرت، میل جول، آداب و رسوم، اکل و شرب، نشست و برخاست، معاملات و تعلقات سے لے کر ریاست کے داخلی خارجی سارے امور تک پھیل گئے ہیں۔ مذہب سے تعلق مسلسل رو بہ انحطاط ہے۔( القرضاوی،یوسف،اسلام اورسیکولرزم، ص ۸۴

گذشتہ کلام کاماہرینِ مذہبیات کی طرف اشارہ ہے اُن کی رائے سیکولرزم کے ٹاٹ میں زبردستی عیسائیت کا ریشمی ٹکڑا ٹانکنے اور عیسٰی علیہ السّلام کی تعلیمات کی بالواسطہ secularization کے مترادف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یسوع مسیح کے پیغام کے اصل معانی و مفاہیم کی دریافت لامذہبیت کی روز مرہ زندگی میں ہی ممکن ہے اور لا مذہبیت کے ماحول ہی میں ان کے تقاضے پورے ہو سکتے ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس راستے کو اختیار کرنے سے عیسیٰ علیہ السّلام کی تعلیمات سے وابستگی میں وسعت آئی ہے یا کمی ہوئی ہے؟ اس کا جواب بیسویں صدی میں امریکہ کے بااثر ترین عیسائی مبلّغوں میں شمار ہونے والے ایک مذہبی لیڈربِلّی گراہم (William Franklin Graham) کے ایک قول سے ملتا ہے۔ انہوں نے کہا تھا:

’’یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے کہ پچھلے تیس برسوں میں (صرف) نیو یارک میں چرچوں سے مادّہ پرستی، لا دینیت اور انسانیت پسندی کی طرف المناک حد تک اخراج او ررجوع ہوا۔ ‘‘

 )Berger, Peter (2012-02-15). "Is Confucianism a Religion?". The American Interest. The American Interest LLC. ISSN 1556-5777Archived from the original on 2015-08-17. Retrieved 2016-03-03. (

یہ دیکھنے کے لیے کہ سیکولرائزشن نفسِ مذہب کو کتنی زک پہنچا رہا ہے ہمیں کچھ اور ذرائع میں جھانکنا ہو گا۔ واشنگٹن میں قائم معروف تھنک ٹینک Pew Foundation ملکوں اور معاشروں کے فکری اور اعتقادی اُتار چڑھائو پر اپنے تحقیقی جائزے پیش کرتا رہتا ہے۔ اس ادارے نے 2018/19کے ایک تفصیلی سروے میں امریکہ کے اندر مذہبی وابستگی میں روز افزوں تنزّل پر جو تحقیقی سروے پیش کیا اُس کے مطابق 2009 میں اپنے عیسائی مذہب کااقرار کرنے والے امریکیوں کی تعداد 65فیصد تھی، اب آبادی میں اضافہ کے باوجود ایسے اقراری عیسائیوں کی تعدادمیں 12 فیصد کمی آ گئی ہے۔ پچھلے دس سال میں سیکولرائزشن ماحول نے مُلحدوں اور لا مذہبوں (atheists, agnostics or nothing) کو 17 فیصد سے بڑھا کر 26 فیصد کردیا ہے۔ 2009میں اپنے آپ کو پروٹسٹنٹ عقیدے کے پیروکار ہونے کا دعویٰ کرنے والے 51فیصد تھے، اب وہ گھٹ کر 43فیصد رہ گئے ہیں۔ کیتھولک عقیدہ بھی اس عرصے میں عددی گراوٹ کا شکار ہوا اور23فیصد سے کم ہو کر 20پر اُتر آیا۔ اسی طرح مذہبی احساس میں جو ضعف پیدا ہوا اس کے نتیجے میں 2009 میں 12 فیصد لوگ کندھے اچکا کر بڑی بے پروائی سے nothing in particular یعنی’ کوئی خاص شناخت نہیں ہے‘ کہتے تھے, اب امریکی معاشرے میں ان کی تعداد 17فیصد ہو گئی ہے۔ یہ اعداد و شمار جس اعتقادی انحطاط کی نشاندہی کرتے ہیں وہ ریاست اور تعلیم جیسے دو شعبوں کو مذہب سے کاٹ دینے کی وجہ سے رونما ہوا ہے۔

) Rick Phillips, Can Rising Rates of Church Participation be a Consequence of Secularization?, Sociology of Religion, Volume 65, Issue 2, Summer 2004, Pages 139–153, https://doi.org/10.2307/3712403(

اِسلاموفوبیا (Islamophobia)

برطانیہ میں بودوباش کی مثالیں دینے والے ہمارے یہ لبرل اسلامسٹ دانشور یورپ اور امریکہ میں مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک، نفرت و حقارت، مخالفت وتعصب اور اُن سے خوف و وحشت اور بیزاری اور دُوری کے بڑھتے ہوئے جذبات سے بے خبر نہیں ہوں گے۔ وہ جانتے ہیں کہ اسلاموفوبیا کے یہ رویّے مغربی میڈیا اور دانش گاہوں سے نکل کر عالمی اداروں میں بھی زیرِ بحث آ رہے ہیں۔ دو چار یا کئی نسلوں سے کسی ملک میں جا بسنے والے افراد اور گھرانوں کو اجنبی سمجھا جائے اور ان سے غیریت و اجنبیت کا برتائو ہو تو اسےXenophobia کہتے ہیں۔ یورپ اور امریکہ میں پھیلتے ہوئے مسلم مخالف جذبات اب کوئی راز کی بات نہیں رہے ہیں۔ نائین الیون (11/9)کے بعد ان جذبات میں تیزی آئی ہے۔ مسلمانوں نے یورپ اور امریکہ کی ترقی میں اپنا پورا کردار ادا کیا لیکن 2007 کے عالمی معاشی بحران کے بعد مسلمانوں کو وہاں اصل باشندوں کی ’حق ماری‘ کرنے والوں کا درجہ بھی دیا جانے لگا، جیسے بھارت میں مودی نے یہ تصوّر ہندو ذہن میں راسخ کر دیا ہے کہ مسلمانوں کے وجود کا مطلب ہندووں کی محرومی ہے۔ گیلپ کا 2008-10کا ایک سروے بتاتا ہے کہ یورپ کے بعض ملکوں میں بعض ایسی پارٹیاں مقبول ہو رہی ہیں جو مسلم دشمن جذبات کو ہوا دے رہی ہیں اور انہیں یورپی معاشروں کے لیے خطرہ قرار دیتی ہیں۔ برطانیہ کی کنزرویٹو پارٹی کی صفوں کے اندر سے اسلامو فوبیا کے شعلے اٹھ رہے ہیں جنہیں بجھانے میں بورس جانسن ناکام ہو گیا ہے۔ یورپ میں اس وقت 20ملین مسلمان بستے ہیں، ان کی بڑھتی ہوئی تعداد کو یورپی معاشروں کے لیے ایک خطرہ سمجھا جارہاہے۔ یورپی معاشروں کا دعویٰ تھا کہ وہ عدمِ امتیاز، رواداری، تحمّل و برداشت، عدل و انصاف، یگانگت و وحدت، مساوات اور آزادیِ رائے کی اقدار پر قائم ہیں لیکن 2017 میں EU Minorities and Discrimination Survey میں بتایا گیا ہے کہ وہاں ہر تین میں سے ایک مسلمان کو کسی نہ کسی صورت میں نفرت و تعصب کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

Inc., Gallup. "2017 Update on Americans and Religion". Gallup.com. Retrieved 2018-09-03.

خلاصہ

یورپ اور امریکہ کے سیکولرائزشن چہرے کی یہ تصویر ہم نے دیکھ لی۔ سماجی ہم آہنگی کی کھوکھلی دیوار پر سیکولرزم کا چکنا اور خوبصورت پلستر چڑھا دیا گیا ہے۔ پاکستان کو لبرل اور سیکولرائزشن رنگ میں دیکھنے کے متمنی حلقوں سے یہ حقیقت پوشیدہ نہیں ہے کہ قائدِ اعظم ؒ کی رحلت اور لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد جہاں ملک کے اسلامی تہذیبی و فکری خطوط کے اندرجمہوری کلچر، آئین و دستور کے تابع نظام اور سِول بالادستی کا خواب چکنا چور ہوا وہاں ملک کی اسلامی روح کو مار کر اسے سیکولرائزشن میں ڈھال دیا گیا تھا۔اقتدار میں آنے والی دائیں یا بائیں بازو کی ہر پارٹی مزاج کے اعتبار سے سیکولر تھی۔ بالا دست اور نظام پر ہمیشہ حاوی رہنے والی اسٹیبلشمنٹ کی فطرت لبرل بھی ہے اور سیکولرائزشن بھی۔ 

 

انوارالحق

طالب علم
انوارالحق ، رحیم یارخان ، شہرسےتعلق ہے،کراچی یونیورسٹی سے PhD سکالر رہا ہوں۔
کل مواد : 2
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن
ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024