مولانا محمد احمد بہاولپوری ؒ کا سفر آخرت

 مورخہ 26 جنوری 2019ء مطابق 19 جمادی الاولیٰ 1440ھ، بروز ہفتہ، صبح کے وقت دعوت و تبلیغ کے عالمی رہنما حضرت مولانا محمد احمد بھاولپوریؒ کے انتقال کی خبر تبلیغی اور علمی حلقوں میں غم و افسوس کے ساتھ سنی گئی۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون!

 مولانا محمد احمد بھاولپوریؒ موجودہ وقت میں اونچی نسبتوں کے حامل، چند ایک باقی رہ جانے والے سینئر بزرگوں میں سے ایک تھے، اور میرے خیال میں حاجی عبد الوہاب صاحبؒ کے بعد مولانا بھاولپوریؒ شاید تبلیغی حلقہ میں آخری بزرگ تھے، جنہوں نے مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ کی صحبت اٹھائی تھی، مولاناؒ بڑی اونچی نسبتیں رکھتے تھے، مولاناؒ کے والد مفتی فاروق احمد صاحبؒ دار العلوم دیوبند کے صدر مفتی تھے، اُن کا حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، دار العلوم دیوبند اور جامعہ مظاہر علوم سہارنپور سے خاص تعلق تھا، اسی تعلق کے سبب بنگلہ والی مسجد نظام الدین دہلی میں حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ کے پاس بھی آنا جانا رہتا تھا، اس طرح بچپن ہی سے مولانا محمد احمد بھاولپوریؒ کو مولانا محمد الیاسؒ اور دعوت و تبلیغ سے خاص تعلق پیدا ہوگیا تھا، چناں چہ مولانا بھاولپوریؒ کے صاحب زادے مولانا علی احمد لکھتے ہیں: ”حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ نے دادا جان (حضرت مفتی فاروق احمدؒ) کی درخواست پر تقریباً آدھا گھنٹہ حضرت والد ماجد (مولانا محمد احمد بھاولپوری) کے لیے خصوصی دعا فرمائی۔“ (دین و دنیا کی سیر)

 جب کہ مولانا بھاولپوریؒ کے دادا حضرت مولانا صدیق احمدؒ حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ کے سگے چچا زاد بھائی اور ان کے ہم عصر تھے اور عجیب اتفاق ہے کہ دونوں حضرات (مولانا صدیق احمدؒ اور مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ ) نے اکٹھے حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ سے بیعت کی اور اکٹھے ہی مجاز ہوئے۔ (براویت مولانا عاشق اِلٰہی میرٹھیؒ) ۔ مولانا بھاولپوریؒ کے خاندان کی ایک اور معروف شخصیت مولانا محمد میاں منصور انصاریؒ بھی ہیں، یہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے نواسے ہیں، حضرت شیخ الہندؒ کی نگرانی میں ان کے جن شاگردوں نے تحریک آزادی و ریشمی رومال وغیرہ میں بے پناہ قربانیاں دیں ان میں مولانا منصور انصاریؒ ایک بڑا نام ہے۔ مولانا انصاریؒ بھی مولانا صدیق احمدؒ کے چچا زاد بھائی تھے۔ الغرض مولانا محمد احمد صاحب بھاولپوریؒ ایسی عظیم نسبتوں والے خاندان میں 1926ء میں مفتی فاروق احمد صاحبؒ کے گھر میں پیدا ہوئے، مولانا محمد احمد صاحبؒ کا سلسلہ نسب جلیل القدر صحابیؓ حضرت ابو ایوب انصاریؓ سے جاملتا ہے، فارسی اور عربی کی ابتدائی تعلیم کی تحصیل مروجہ طریق پر اپنے والد گرامی سے شروع کی، پھر جامعہ اسلامیہ عباسیہ بھاولپور تشریف لے گئے اور وہاں مختلف کتابیں مختلف اساتذہ سے پڑھیں، 1941ء میں دورہ حدیث کے لیے دار العلوم دیوبند تشریف لے گئے اور وہاں ایک سال زیر تعلیم رہ کر صحاح ستہ کی کتابیں شیخ الاسلام حضرت مدنیؒ، مولانا محمد اعزاز علی امروہویؒ، مولانا محمد ابراہیم بلیاویؒ اور مولانا فخر الدین مراد آبادیؒ سے پڑھیں، حضرت مدنیؒ سے اسباق چند ہی دن پڑھے تھے کہ تحریک آزادی کے سلسلہ میں مولانا مدنیؒ نینی تال جیل میں نظر بند ہوگئے تھے، یہ 41-1942ء کا درمیانی عرصہ تھا، آپ دار العلوم دیوبند سے 1942ء میں فارغ التحصیل ہوئے۔ حضرت مولانا خواجہ خان محمد صاحبؒ آپ کے دورہ حدیث کے ساتھیوں میں سے ہیں۔ تعلیم کے حصول سے فراغت کے بعد آپ 1945ء میں جامعہ عباسیہ بھاولپور میں مدرّس مقرر ہوئے اور مسلسل 1982ء تک پڑھاتے رہے۔

 مولانا محمد احمد بھاولپوری صاحبؒ کا پہلا تبلیغی سفر 1950ء میں ہوا، اس سفر میں آپ بحرین تشریف لے گئے اور دعوت و تبلیغ کا کام کیا، اسی سفر سے آپ نے پابندی کے ساتھ سفر کے حالات و واقعات اور بیرون ملکوں کی کارگزاری پر مشتمل خطوط بڑے اہتمام سے اپنے والد ماجدؒ کو بھیجنا شروع کیے، والد کے انتقال کے بعد اپنے بچوں کو خطوط بھیجتے رہے، یہ تمام خطوط 1997ء تک ہر سفر میں بھیجے جاتے رہے، ظاہر ہے تاریخی اور دینی حوالہ سے ان خطوط کی بڑی اہمیت تھی، چناں چہ آپ کے ہونہار صاحب زادے مولانا علی احمد صاحبؒ نے 2003ء میں ان خطوط کو مرتب کر کے 786 صفحات کی کتابی شکل میں شائع کیا۔

 مولانا محمد احمد صاحبؒ نے اصلاحی تعلق قائم کرنے کے لیے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا مہاجر مدنیؒ کا دامن سلوک تھاما اور حضرت شیخؒ ہی سے آپ کو خلافت بھی ملی، حضرت شیخ کے خلفاء کی فہرست میں ابتدا ہی میں آپ کا نام موجود ہے، شیخؒ بھی آپ سے بڑی محبت فرماتے تھے، اور اونچی نسبتوں کی وجہ سے احترام بھی، بلکہ صرف حضرت شیخؒ ہی کیا، دعوت و تبلیغ کے امیر ثانی حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلویؒ اور امیر ثالث مولانا انعام الحسن کاندھلویؒ سبہی حضرات آپ کو قدر و اہمیت سے دیکھتے تھے، لیکن دیکھنے والوں نے مولانا محمد احمد صاحبؒ کی یہ قابل قدر صفت بھی دیکھی کہ ان سب نسبتوں کے باوجود کبھی انہوں نے اپنے آپ کو بڑا بناکر پیش نہیں کیا، اور نہ ہی اپنے روز مرہ کے اور بڑے بڑے اجتماعات کے بیانات میں ان نسبتوں کو بیان کر کے اپنے آپ کو ”مصنوعی بزرگ“ بنانے کی کوشش کی، بلکہ وہ ہمیشہ ایسی مصنوعی چیزوں اور دنیوی جھمیلوں سے دُور ہی رہے، ان کے نزدیک کام اور محنت و جدوجہد کی اہمیت تھی۔

 وہ ایک عرصہ سے دعوت و تبلیغ کے صف اَوّل کے بزرگوں میں تھے، ہر اجتماع چاہے وہ رائے ونڈ کا عالمی اجتماع ہو یا بیرون ملکوں کے اجتماعات؛ جس میں وہ موجود ہوتے، مغرب کے بعد کا کلیدی اور مرکزی بیان انہی کا ہوتا، مولانا محمد احمد صاحبؒ نے اپنا اوڑھنا بچھونا، حیات اور ممات، صحت اور مرض اور سفر اور حضر غرض زندگی کے ہر شعبہ کو تبلیغی کام پر نثار کردیا تھا، وہ حضرت جی مولانا محمد یوسف صاحبؒ کے زمانہ سے پورے عالم میں تبلیغی فکر کے لیے پھرے، نصف صدی سے زائد کے مسلسل تبلیغی اسفار، تجرباتِ تبلیغ اور پوری دنیا کے مسلمانوں کے حالات کے دیکھنے نے آپ کو بعض آرا پر مجبور کیا تھا، مولاناؒ دعوت و تبلیغ کی محنت کا اپنے ذہن میں ایک خاص نقطہ نظر رکھتے تھے، اور وہ دعوت کی حجت تام کیے بغیر اگلے مرحلہ میں قدم رکھنے کو مناسب خیال نہیں کرتے تھے، اور اصول و ضابطوں کے ساتھ اپنی گفتگو کو قرآن و حدیث سے مدلل کر کے پیش کیا کرتے تھے، ممکن ہے ان کے موقف سے بعض لوگوں کو اختلاف بھی ہو، لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان کی گفتگو سن کر بہت سے اور بڑے بڑے علما اطمینان کا اظہار بھی کیا کرتے تھے، ان کی بہت سی باتوں کی تائید بعد کے حالات سے بھی ہوجاتی تھی، بہرحال! ان سب باتوں کے باوجود وہ یہ سب گفتگو اخلاص اور خیر خواہی کی بنیاد پر ہی کیا کرتے تھے، ان کی اس گفتگو میں ان کا کوئی دنیوی مفاد پوشیدہ نہیں تھا، بس ایک زاویہ نظر اور سوچ و فکر تھی، جو ظاہری حالات کو دیکھ کر اور امت مسلمہ کے موجودہ حالات پر کڑھ کر وہ اخلاص و غم و درد کے ساتھ کہہ دیتے تھے، اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت فرمائے!

 تبلیغی جماعت کے اندر بھی مولاناؒ کی اصول پسندی مشہور تھی، چناں چہ وہ کئی تبلیغی اُمور پر بھی برملا اختلاف کا اظہار فرمادیا کرتے تھے، اور جس چیز پر شرح صدر نہ ہوتا، اس پر خود عمل پیرا نہ ہوتے تھے، مولانا رحمة اللہ علیہ کو اللہ نے بیان کا بھی ایک خاص انداز عطا فرمایا تھا، آواز بڑی رعب دار تھی، تبلیغی اجتماعات میں جب بعد مغرب ان کا بیان شروع ہوتا تو یک دم پوے مجمع میں سناٹا ہی چھا جاتا، مولاناؒ نپی تلی اپنے مخصوص انداز میں گفتگو کرتے، دورانِ بیان اگر کسی کو کوئی بے اصولی کرتے دیکھ لیتے، بر سر منبر ہی جھاڑ دیتے اور بہت ہی سخت انداز میں بر وقت ہی اس کی کھنچائی ہوجاتی، تشکیل کے وقت جب مجمع اٹھنے لگتا تو انتہائی سخت انداز میں ان کو وعیدیں سنادیتے، الغرض! تبلیغی بزرگوں میں مولانا ایک انفرادی شان رکھتے تھے، جس کا اظہار ان کے چہرے بشرے سے بھی ہوجاتا تھا، لیکن یہ بھی واقعہ ہے کہ وہ جس طرح عمومی مجمع میں سخت نظر آتے، انفرادی ملاقاتوں میں وہ اتنے ہی نرم تھے، کئی دوستوں کو اس کا مشاہدہ ہوا۔

 آج ان کے انتقال کی خبر پر ایسا محسوس ہواکہ تبلیغی جماعت کے سینئر بزرگوں کی لڑی شاید ٹوٹ گئی ہے، ابھی ڈھائی ماہ پہلے ہی حاجی عبد الوہاب صاحبؒ کا انتقال ہوا تھا، ان کے دس دن بعد مولانا محمد جمیل صاحبؒ سفر آخرت پر روانہ ہوئے تھے، اس کے اگلے دن بھائی اسحاق پٹیل صاحبؒ کی رحلت ہوئی، اب مولانا محمد احمد صاحب بھاولپوریؒ بھی عقبیٰ کے سفر کو چلے گئے، یہ دنیا فنا ہی فنا ہے، جو آیا جانے ہی کے لیے آیا، لیکن یہ حقیقت ہے کہ موجودہ وقت میں ایسے چار سینئر بزرگوں کی یکے بعد دیگرے رحلت تبلیغی جماعت کے لیے بڑا حادثہ ہے، جماعت اس وقت بہت ہی نازک حالات سے گزر رہی ہے، اللہ تعالیٰ جماعت کی قیادت کو سنبھل کر اتحاد و اتفاق سے چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان بزرگوں کے نقش قدم پر چلنے والا بنائے۔ آمین!

(تحریر: سید محمد زین العابدین، کراچی)

شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2025

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن
ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2025