عمرِ رفتہ کبھی لوٹتی نہیں!!

طلبہ کے لئے وقت کتنا اہم ہے؟ اس حقیقت کو اجاگر کرتی ایک لاجواب تحریر۔۔

          وہ ایک بار پھر نئے عزم کے ساتھ کتاب لے کر پڑھنے بیٹھا ہی تھا کہ موبائل کی گھنٹی بجی ،فون اٹھایا تو دوسری طرف اس کا ھم سبق ساتھی اس سے مخاطب تھا کہ وہ گھر میں اکیلا بیٹھا اکتا رہا ہے،لہذا اسے کسی ہم مزاج کے ساتھ وقت گزارنا ہے ،اس نےاس عمل کو خدمت خلق تصور کرتے ہوئے کتاب ایک طرف رکھی، بائک پر سوار ہوکر آنا فانا ساتھی کے یہاں جا پہنچا ،گفتگو کا آغا درس گاہ کی باتوں سے ہوا اورحالات حاضرہ تک آن پہنچا ، دوران گفتگو دونوں نے ھر معاملہ میں اپنی اپنی رائے اور دوسرے کی رائے کے برخلاف دلائل دے کر اسے کمزور ثابت کرنے کی کوشش کی ،بحث و مباحثہ کا یہ سلسلہ ڈھائی گھنٹے طویل ہوگیا، تو وہ بقیہ گفتگو اگلی نشست پر موقوف کر کے گھر کی طرف نکل گیا ۔
 گھر پہنچ کر ایک بار پھر اس نے پڑھنے کے ارادہ سےکتاب اٹھائی تو اس کی آنکھوں میں نیند کا خمار چھاگیا، کمر بستر کی شدت سے کمی محسوس کرنے لگی، جسم کا نیم دراز ہونے کا تقاضہ بڑھتا چلاگیا ،بالآخر اس نے اگلے دن سے عزم وجزم کے ساتھ پڑھنے کا ارادہ کر کے کتاب ایک طرف رکھی اور لیٹ گیا۔
 مگر شومئی قسمت اگلےدن ملک میں ایک نیا واقعہ رونما ہوگیا، ہر طرف اسی کا چرچا تھا ایسے میں یہ کیونکر پیچھے رہتا، اس نے سوشل میڈیا کا رخ کیا ،مذکورہ واقعہ کے متعلق مختلف لوگوں کے تبصرہ پڑھے، ان سب میں اس کا کافی سارا وقت خرچ ہوگیا، اب وہ دوستوں کی مجلس کی طرف گامزن ہوا تاکہ رونما ہونے والے واقعہ پر وہ بھی ان کے درمیان اپنی رائے کا اظہار کرے اور داد کے ڈونگرے وصول کرے ،محفل میں سب کی توجہ کا مرکز بنے، صد افسوس یوں آج کا دن بھی بنا پڑھے گزر گیا ، اور   اس کا  عزم ایک بار پھر ٹوٹتا چلا گیا
 میرے ساتھیوں !!  یہ ہمارے عزائم کے ٹوٹنے کےعام اسباب کی ایک جھلک تھی، ہم میں سے ہر ایک اپنے وقت کے ساتھ یوں ہی کھلواڑ کرتا ہے ، دیگر چیزیں ہی ہماری ترجیحات بن چکی ہیں، ہم نے پڑھائی کو ثانوی درجہ دے رکھا ہے ، بجائے اس کے ہم اس وقت کو پڑھ لکھ کر کارآمد بنائیں ہم اسے بے فائدہ باتوں میں،سونے جاگنے میں گزار دیتے ہیں، ہم میں سے بہت سوں کی عادت ہے کہ جوں ہی وقت ملا تو اسے لوگوں سے میل ملاپ ،طویل طویل مجلسیں قائم کر کے لمبی لمبی گفتگو میں ضائع کر دیتے ہیں ،خوشی غمی کے موقع پر کہیں جانا ہو تو ہماری ملاقاتیں محض ضرورت کی حد تک محدود نہیں رہتیں بلکہ غیر مفید بحثوں میں لگ کر وقت کا بےدریغ استعمال کیا جاتا ہے ۔افسوس کہ بعض نادان دوست اور ظاہر بین اس وقتی تلذذ اور مزہ کو ہی حقیقی زندگی گردانتے ہیں۔
 ہم نے بارہا عربی کا یہ مقولہ سنا :"الوقت سیف اقطعه والا قطعك"《 وقت ایک تیزدھاری تلوار ہے،آپ اسے(کسی عمل میں )کاٹیے ورنہ(فضولیات میں مشغول کر کے) یہ آپ کو کاٹ ڈالے گا》 ،وقت کا کام ہے گزرنا سو وہ تو گزر ہی جائے گا، کہا جاتا ہے کہ الوقت من ذھب(وقت سونا ہے) بلکہ یوں کہیے کہ سونے سے بھی بڑھ کر ہے، سونا اگر ہاتھ سے نکل جائے تو واپس ہاتھ آسکتا مگر

                            سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں
                            گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں

 کھوئی ہوئی دولت محنت سے دوبارہ حاصل ہوسکتی ہے،کھویا ہوا علم مطالعہ سے مل جاتا ہے، کھوئی تندرستی دوا سے حاصل ہوجاتی ہے لیکن جس طرح بہہ جانے والےپانی سے پن چکی نہیں چل سکتی اسی طرح کھویا ہوا وقت لاکھ کوششوں کے باوجود دوبارہ حاصل نہیں ہو سکتا، ایک شاعر کو یہی شکایت تھی کہ:

                جب آجاتی ہے دنیا گھوم پھر کر اپنے مرکز پر
                تو واپس لوٹ کر گزرے زمانے کیوں نہیں آتے۔

یاد رکھیے!! وقت سے کام لینے والے اسی مختصر سی زندگی میں مصنف و فلاسفر بن گئے ،بتوفیق الہی بزرگان دین، اولیاء اللہ بن گئے ،اور دین ودنیا کے مالک بن گئے، اس کے بر خلاف جنہوں نے وقت کو کھویا سو وقت نے بھی ان کے ساتھ وفا نہ کی ،ان کی صلاحیتیں ضائع ہوتی چلی گئیں اور وقت جو نعمتیں ساتھ لایا تھا وہ ان سے دور ہوتی گئیں ،کیونکہ وقت ناقدروں کے ساتھ یوں ہی کیا کرتا ہےاور کرتا رہے گا:

                     وقت برباد کرنے والوں کو

                   وقت برباد کر کے چھوڑے گا 

کیونکہ ایسا تو کبھی نہ ہوگا کہ :

                    لٹا دیا جنہیں جیتی ہوئی رقم کی طرح

                    وہ دن پلٹ تو نہ آئیں گے ہاتھ ملنے سے

اے تشنگان علم!! اپنا زمانہ طالب علمی ہوٹلوں، قہوہ خانوں ، اسمارٹ فون اور فضولیات کی نذر نہ کریں ،محفل سجا کر گھنٹوں گپ شپ کی عادت ختم کریں اور خاص طورپر ایام تعطیلات اپنے اساتذہ اور بڑوں کے مشورہ سے نظام الاوقات کے تحت مفید مشغلوں میں گزریں، ایسا نہ ہو کہ جب ہم تعلیم کا رسمی زمانہ پورا کر کے نکلیں تو بزبان حال یہ کہہ رہے ہوں:

               اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غم ناک 
               نہ زندگی،نہ محبت،نہ معرفت،نہ نگاہ

محمد سعد عبداللہ

متعلم جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی
محمد سعد عبداللہ
متعلم جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی

کل مواد : 2
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن
ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024