ماضی وقاضی، حال وجال۔ اے مسلمان، عزّتِ رفتہ یاد رکھ!
دنیاوی امور ہوں، دینی احکامات ہوں تسلسل،استقامت ، ثابت قدمی اور مقصد شناسی مطلوبات میں سرفہرست ہیں۔ عروج و زوال انہی صفات و مطلوبات پر مبنی ہے۔
بہر کیف چند ادوار قبل مسلم اقوام عروج پر تھیں ۔ حاکمیت،غالبیت ، مؤثرانہ فیصلے ، مقصد شناسی اور رعب مسلم سوسائٹی کازیور و ہتھیار تھا ۔ غیرت مندانہ اقدامات ، باہمی الفت ومحبت،للہیت ، ذاتی مفاد پر اسلامی مفاد کو فوقیت و ترجیح حاصل تھی۔جس کا نتیجہ یہ تھا کہ قاضی کی قضا ، حکمران کی حکمرانی ،حاکم کی حاکمیت اسلامی قوانین اور اصولوں کے عین مطابق تھی۔جب مسلمانوں میں غیرت کی روشنائی و چاشنی تھی تو"اعمالکم عُمَّالُکم" کے پیش نظر عروج ان کا سہرا تھا ، زوال ان سے اسطرح دور تھاجس طرح ارض و فلک کے مابین فاصلہ۔
بہر حال تحقیق کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو مسلمانوں کےعروج کے اسباب دو چیزوں میں منحصر ہیں ۔
- اسلامی غیرت و جذبہ
- واعتصموا بحبل اللہ جمیعا و لاتفرقواکے پیش نظر باہمی اتحاد و اتفاق
ان دونوں صفات سے متصف ہو کر امت مسلمہ کا مقصدِ حیات ، دستور و منشور زندگی صرف اور صرف سرزمین خدادار پر آسمانی نظام کا نفاذ تھا۔
اسی مخلصانہ رویے نے اس وقت کے مسلمانوں کو جلال الدین خوازمی ،سلطان محمد الفاتح ، سلطان ٹیپو ، سلطان صلاح الدين ایوبی اورسلطان محمود غزنوی جیسے ہیرے دیے ۔ محمد بن قاسم کی جہد مسلسل انقلابی اقدامات افکار و نظریات ماتحتوں کی طلب کا نچوڑ ہیں ۔
مگر اے آج کے نام نہادقولی مسلمان! کہاں ہے تیری جرأت ؟ اکابر سے حاصل شدہ ورثہ کس کو گروی کر دیا ؟کل کا عروج آج کے زوال میں تبدیل ہوتا کیوں نہیں دکھائی دیتا؟ حکمرانوں کی نا انصافیاں و جابرانہ فیصلے تجھے اپنے گریبان میں جھانکنے پر کیوں مجبور نہیں کرتے ؟ ماضی کی غالبیت و حاکمیت کو حال کی مغلوبیت و محکومیت کیوں بنا دیا ؟ قرآنی تعلیمات و فیصلوں کو دل میں کیوں جگہ نہیں دیتا ؟ نفسانیت تجھ پر کیوں غالب ہے ؟ اٹل شرعی احکامات میں کیوں کیڑے نکالنے لگا؟
آج مسلم معاشرہ اغیار کو کامل العقل سمجھ بیٹھا ہے۔ اپناماضی مسلمانوں کو یاد نہ رہا ، اور عیاشی کو عین ترقی، کامیابی و کامرانی گرداننے لگے۔ بقول اقبال
سبب کچھ اور ہے تو جس کو خود سمجھتا ہے
زوال بندہ مومن کا بے زری سے نہیں
ایمانیات ، اخلاقیات ، عقائد و نظریات اور باہمی اتحاد و اتفاق حقیقی عروج ہے ۔ جس سےآج کلمہ گو کوسوں دور ہیں۔ غیرت کی جدید اشکال نے امت مسلمہ کو زوال کا شکار کر دیا ہے۔حالانکہ یہ جدید شکلیں اسلامی غیرت کے منافی ہیں ۔ ان شکلوں کے لیڈر اغیار کے پروردہ ہیں۔ حقیقی غیرت کا متلاشی مسلمان ملتا ہی نہیں۔ چراغ تلے اندھیرا کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔بقول اقبال
تاکجا بے غیرت دیں زیستن
ایں مسلماں مردن است ایں زیستن
زندگی میں عمومی اتار چڑھاؤ مقدر ہے البتہ مذہبی حوالے سے زوال جذباتِ مطلوبہ میں کاہلی کی علامت ہے۔
بہرحال تاریخ کے اوراق کی فہرست طویل ہے۔ تادیر یاد رکھے جانے والے اوراق ان غیرت مندوں کے متلاشی ہیں جو ان اوراق کا حصہ بن سکیں، مگر افسوس دن بدن بیسیوں مسلم حیات مستعار کو الوداع کہتے ہیں، ان میں اکابر شخصیات کے سوا ایک بھی اس قابل نہیں ہوتا کہ ماضی کی مثالوں کی طرح سنہرے الفاظ اس کے نام کیے جائیں۔ بقول اقبال
کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں سے تاج سرِدارا
ضرورت اس بات کی ہے کہ آج کا مسلمان اپنا آپ پہچانے، اپنا ماضی مد نظر رکھے، ماضی کو حال بناۓ اور جرأت مند، غیرت مند اقدامات کرےتاکہ گمشدہ ورثہ تک رسائی ہو اور طاغوتی قوتوں کو ناکوں چنے چبانے پڑیں۔