المدونة الجامعة کا مختصر تعارف اور کام کی نوعیت...مفتی تقی عثمانی صاحب کے تعارفی مضمون سے ماخوذ 

مولانا محمد تقی عثمانی نے اپنے اس تعارفی مضمون میں لکھا ہے کہ آج سے تقریباً پندرہ سال پہلے ان کے ایک دوست نے جو اپنا نام بھی ظاہر نہیں کرنا چاہتے یہ تجویز پیش کی کسی طرح تمام احادیث پر ایسے نمبر پڑ جائیں جو عالمی سطح پر مسلّم ہوں، اس وقت اگر کسی حدیث کا حوالہ دیا جاتا ہے تو جس کتاب میں وہ حدیث موجود ہے یا تو اس کے صفحہ نمبر کا حوالہ دیا جاتا ہے یا اس کتاب اور باب کا ذکر کردیا جاتا ہے جس میں وہ حدیث بیان کی گئی ہے، بعض کتابوں میں احادیث پر نمبر بھی ڈال دئے گئے ہیں، کبھی حوالے کے لئے وہ نمبر لکھ دئے جاتے ہیں، بسا اوقات وہ حوالہ حدیث نکالنے کے لئے کافی نہیں ہوتا، پھر احادیث کی تخریج کے وقت بہت سی کتابوں کا ذکر کرنا پڑتا ہے، اس کے باوجود کچھ کتابیں چھوٹ جاتی ہیں، ان صاحب کی تجویز یہ تھی کہ بلاتشبیہ جس طرح قرآن کریم کی آیات کا حوالہ دینے کے لئے سورت نمبر اور آیت نمبر کا حوالہ دے دینا کافی ہوتا ہے اور یہ نمبر نسخوں کے اختلاف سے بدلتا نہیں ہے اسی طرح کسی حدیث کا حوالہ دینے کے لئے صرف حدیث کا نمبر ذکر کردینے سے اس حدیث کی تمام تفصیلات یکجا دستیاب ہوجائیں تو یہ بڑا کام ہوگا، اس تجویز پر غور کرنے کے لئے ۵/ اور ۷/ رمضان المبارک ۱۴۲۲ھ کو مکہ مکرمہ میں ایک اجتماع منعقد ہوا جس میں حضرت مولانا محمد تقی عثمانی کے علاوہ ان کے برادر اکبر حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی، ڈاکٹر مصطفی اعظمی، ڈاکٹر یوسف قرضاوی، ڈاکٹر عبد الملک بن بکر القاضی، شیخ محمد الطحّان، ڈاکٹر عبد الستار ابوغدہ اور شیخ نظام یعقوبی جیسے اہل علم اور ارباب فضل وکمال شریک ہوئے اور اس کام کا خاکہ تیار کیا گیا اور منہج طے کیا گیا، ان حضرات نے یہ بھی طے کیا کہ یہ عظیم کام دار العلوم کراچی میں ہو، اور مولانا محمد تقی عثمانی اس کام کی نگرانی کریں، 


اس طرح دار العلوم کراچی میں ’’قسم موسوعۃ الحدیث‘‘ کے نام سے ایک مستقل شعبے کا قیام عمل میں آیا، دار العلوم کراچی کے چند فضلاء کی خدمات حاصل کی گئیں اور مولانا نعیم اشرف کو اس شعبے کا ناظم مقرر کیا گیا۔
کام کا یہ طریقۂ کار طے کیا گیا تھا کہ حدیث کی ان کتابوں سے جو متداول ہیں اور جن کا حوالہ بہ کثرت دیا جاتا ہے تمام احادیث ان کے جملہ طرق سے لے لی جائیں، یہ کُل اسّی کتابیں ہیں، ان کے مؤلفین نے تمام روایتیں اپنی سند سے ذکر کی ہیں اور احادیث کا بیشتر ذخیرہ ان ہی کتابوں میں پایا جاتا ہے، ان اسّی (۸۰)کتابوں کے علاوہ بھی حدیث کی بہت سی کتابیں ایسی ہیں جن کے مؤلفین اپنی سند سے حدیث بیان کرتے ہیں، اگرچہ ان کا زیادہ حوالہ نہیں دیا جاتا، مگر ان میں بھی حدیث کا بڑا ذخیرہ ملتا ہے، ایسی کتابوں کی تعداد سات سو انیس (۷۱۹) تک پہنچتی ہے، ان کتابوں کا بالاستیعاب مطالعہ کرکے ان سے وہ احادیث الگ کرلی جائیں جو سابقہ اسّی(۸۰) کتابوں میں موجود نہیں ہیں، مختلف طرق کے متون میں اگر کوئی اہم اختلاف ہو تو اس کو بھی ذکر کردیا جائے اور ان کی اسنادی حیثیت کے متعلق اگر متقدمین کی کوئی رائے کہیں مذکور ہو تو اس کو بھی حدیث کے ساتھ بیان کردیا جائے، اس طرح کل سات سو ننانوے (۷۹۹)کتابیں ہوئیں، جن میں سے اکثر مطبوعہ شکل میں دستیاب ہیں اور کچھ کے مخطوطے ہیں، احادیث کے تتبع اور تلاش کے دوران کچھ ایسی احادیث بھی سامنے آئیں جو ان کتابوں میں نہیں تھیں، مگر حدیث وتفسیر کی شروح میں ان کا ذکر ملتا ہے کام کے دائرے کو بڑھاتے ہوئے ان کتابوں کو بھی شامل کیا گیا ایسی کتابوں کی تعداد ایک سو گیارہ (۱۱۱) تھی، اس طرح نو سو دس (۹۱۰)کتابوں کو سامنے رکھ کر کام کا آغاز کیا گیا۔
حدیث کی جمع و ترتیب کے دوران یہ سوال بھی سامنے آیا کہ احادیث کا مجموعہ حروف تہجی کی ترتیب سے تیار کیا جائے یا ابواب کی ترتیب پر، کافی غور وخوض کے بعد یہ طے ہوا کہ ابواب کی ترتیب ہی مناسب رہے گی، کیوں کہ احادیث اور خاص طور پر فعلی احادیث کے مختلف طرق کے متن کیوں کہ مختلف ہوتے ہیں، اس لئے حروف تہجی کی ترتیب مفید نہیں ہوگی بل کہ ان کے لئے ابواب کا مروّج طریقہ ہی مفید وموزوں رہے گا، چناں چہ ابواب قائم کئے گئے اور ہر باب کے تحت احادیث جمع کی گئیں، ہر حدیث کے تمام طرق اور مختلف طرق سے مروی تمام متن ایک ہی جگہ ذکر کرنے کا اہتمام کیا گیا، البتہ یہ رعایت کی گئی کہ ابواب قائم کرنے میں کسی فقہی یا کلامی مذہب کی کوئی چھاپ نہ ہو، حدیث کی تخریج میں یہ اصول اپنایا گیا اور پوری کتاب میں اسی اصول کا تتبع کیا گیا کہ جو حدیث سند کے اعتبار سے زیادہ مضبوط اور قابل اعتماد ہو اس کو ’’حدیث مختار‘‘ قرار دے کر پہلے ذکر کیا جائے، اسی طرح وہ حدیث اگر کسی طریق میں سب سے زیادہ جامع سیاق میں آئی ہو اس کو الطریق الاجمع کے عنوان سے سند کے ساتھ نقل کیا جائے، پھر جس صحابی سے وہ حدیث مروی ہے اس کی روایات کے تمام طرق جس حدیث کی کتاب میں بھی آئے ہوں ان سب کو ذکر کیا جائے، اگر ان میں الفاظ کا کوئی اہم اختلاف ہو تو اسے بھی بیان کردیا جائے، اس کے بعد اس ’’حدیث مختار‘‘ کو ایک عالمی نمبر دے دیا جائے، بعض اوقات ایک ہی حدیث ایک سے زیادہ صحابہؓ سے مروی ہوتی ہے، ایسی تمام روایات کو بھی جمع کرنے کا اہتمام کیا جائے اور اُن کو بہ طور شواہد ذکر کرکے ان کو فرعی نمبر دے دئے جائیں، مولانا محمد تقی عثمانی صاحب نے اپنے تعارفی مضمون میں کام کی نوعیت پر روشنی بھی ڈالی ہے، اور اس کو ایک مثال سے واضح بھی کیا ہے، جس سے کام کی نوعیت کے ساتھ ساتھ اس کی اہمیت اور افادیت بھی واضح ہوجاتی ہے۔

????المدونة الجامعة  کی خصوصیات ????????

کتاب کا پہلا باب ایمانیات پر مشتمل ہے اور اس باب میں جو حدیث سب سے پہلے لائی گئی ہے وہ مشہور حدیث: إنما الأعمال بالنیات۔ ہے صحیح بخاری میں یہ حدیث حضرت عمرؓ سے مروی ہے اور اس کو حدیث کا سب سے صحیح طریق قرار دیا جاتا ہے، چناں چہ اس کو ’’حدیث مختار‘‘ قرار دے کر سند کے ساتھ نقل کیا گیا ہے، پھر اس کے جتنے طرق صحیح بخاری اور دوسری کتابوں میں موجود ہیں ان کو اکٹھا کیا گیا ہے، اور اگر کہیں لفظ کا کوئی اختلاف ہے اس کو بھی ذکر کردیا گیا ہے، اس حدیث کو نمبر (۱) دیا گیا ہے، اور اس کے باقی تمام طرق کو بھی نمبر ۱ ہی دیا گیا ہے، البتہ نیچے فرعی نمبر بھی دے دئے گئے ہیں، چناں چہ یہ حدیث امام ابو نعیم نے حلیۃ الاولیاء میں حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت کی ہے اس کو ۱/۱ نمبر دیا گیا ہے، پھر یہ حدیث طبرانی کی معجم کبیر میں حضرت ابو الدرداءؓ سے منقول ہے اسے ۲/۱ نمبر دیا گیا ہے، ابن عساکر کی تاریخ دمشق میں یہ روایت حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے، اس کو ۳/۱ نمبر دیا گیا ہے، یہ حدیث بخاری کے علاوہ سات کتابوں میں ہے اور ان سب کو الگ الگ فرعی نمبر دئے گئے ہیں، خلاصہ یہ ہے کہ جو حدیث جتنے دستیاب مصادر میں جہاں کہیں مروی ہے وہ اس مدوّنہ میں صرف نمبر کے حوالے سے اپنے تمام طرق اور تمام مختلف اور مشترک متون کے ساتھ دستیاب ہوجائے گی، اب تک سترہ ہزار دو سو بانوے (۱۷۲۹۲) احادیث پر کام ہوچکا ہے، ان کے سترہ ہزار چار سو تریپن (۱۷۴۵۳) شواہد بھی جمع کئے جاچکے ہیں، ان کے مختلف طرق کی مجموعی تعداد تین لاکھ اڑتیس ہزار آٹھ سو سینتس (۳۳۸۸۳۷)ہے، یہ کام مسلسل جاری ہے، احادیث اور طرق احادیث میں بھی برابر اضافہ ہورہا ہے، فی الحال اس کی پہلی جلد جو کتاب الایمان پر مشتمل ہے اور جس میں چار سو تینتالیس (۴۴۳) ’’حدیث مختار‘‘ اور پانچ سو سات (۵۰۷)شواہد اور نو ہزار دو سو چھیاسی (۹۲۸۶) طرق جمع کئے گئے ہیں چھپ کر تیار ہے یہ جلد بیروت کے اشاعتی ادارے دار القلم نے نہایت اعلا معیار کے ساتھ شائع کی ہے، باقی جلدیں بھی ممکنہ تیز رفتاری کے ساتھ شائع ہونے والی ہیں۔
کام کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں اور جس نہج سے یہ کام ہورہا ہے، بہ ظاہر وہ بہت محنت طلب معلوم ہوتا ہے، سینکڑوں کتابوں کے لاکھوں صفحات پڑھ کر حدیث تلاش کرنا، پھر اس کے شواہد جمع کرنا، پھر اس حدیث کے مختلف طریقوں کو ڈھونڈنا، پھر متون کے اختلاف کو دیکھنا، یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے۔

ادارہ


کل مواد : 101
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن
ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024