حقوق العباد معاف نہیں ہوں گے جب تک صاحبـ حق معاف نہ کرے
حقوق العباد:
حقوق سے مراد:حقوق جمع ہے حق کی جس کا مطلب ہے لازمی اور ضروری ہے۔
عباد جمع ہے عبد کی جس سے مراد ہے انسان یا بندہ۔ اس طرح حقوق العباد کا مطلب ہے بندوں کے لئے ضروری حقوق۔ حقوق العباد میں دنیا کے ہر مذہب، ہر ذات و نسل، ہر درجے اور ہر حیثیت کے انسانوں کے حتی کہ جانوروں کے حقوق بھی آجاتے ہیں۔ اگر ہم عزیزوں کے حقوق ادا کریں تو اس کے ساتھ غیروں کے حقوق بھی ادا کریں۔ غلام اگر مالک کی خدمت کرے تو مالک بھی غلام کا پورا پورا خیال رکھے۔ والدین اگر اولاد کے لئے اپنی زندگی کی ہر آسائش ترک کردیں تو اولاد بھی ان کی خدمت اور عزت میں کمی نہ کرے یہی اسلام کی تعلیم ہے پوری انسانیت کے لئےہے۔لہذا اپنی زندگی میں بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی خوب فکر کریں،وگرنہ آخرت میں اپنی نیکیاں اصحاب حقوق کو اداء کرنی ہوں گی،کیونکہ یہ اصول ہے کہ اللہ تعالی تو اپنا حق معاف کردیگا لیکن بندہ جب تک معاف نہیں کرے تو اس حق کی معافی ممکن نہیں ہے۔
دنیا میں حق تلفی بدلہ کا:
وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْأَنْفَ بِالْأَنْفِ وَالْأُذُنَ بِالْأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ فَمَنْ تَصَدَّقَ بِهِ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَهُ وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ(سورہ مائدہ آیت 45)
ترجمہ:
اور ہم نے ان پر تورات میں لکھ دیا کہ جان جان کہ بدلہ، اور آنکھ آنکھ کے بدلہ اور ناک ناک کہ بدلہ اور کان کان کے بدلہ اور دانت دانت کے بدلہ اور زخموں کا بدلہ ہے۔ سو جو شخص معاف کر دے وہ اس کے لیے کفارہ ہے اور جو شخص اسکے موافق حکم نہ کرے جو اللہ نے نازل فرمایا سو یہی لوگ ظالم ہیں۔
فَھُوَ کَفَّارَۃٌ لَّه کے معنی :
پھر فرمایا (فَمَنْ تَصَدَّقَ بِه فَھُوَ کَفَّارة لَّه ) حضرات مفسرین کرام نے اس کے دو مطلب لکھے ہیں، اصل سوال یہ ہے کہ لہ کی ضمیر کس طرف راجع ہے اگر جریح (زخمی) اور قتیل کے ولی کی طرف راجع ہے تو آیت کا یہ مطلب ہے کہ مجروح نے یا مقتول کے ولی نے اگر جارح اور قاتل کو معاف کردیا اور اپنے حق کا صدقہ کردیا یعنی جارح اور قاتل کو معاف کردیا تو یہ اس کے لئے کفارہ ہے حضرت عبداللہ بن عمر و بن عاص (رض) اور حسن شعبی اور قتادہ سے ایسا ہی مروی ہے۔
اور اگر لہ کی ضمیر جارح اور قاتل (یعنی زخم کرنے والے اور قتل کرنے والے) کی طرف راجع ہو تو پھر معنی یہ ہوگا کہ مجروح نے یا مقتول کے ولی نے جب معاف کردیا تو یہ زخمی کرنے والے اور قتل کرنے والے کے گناہ کا کفارہ ہوگیا اب اس پر آخرت میں مواخذہ نہ ہوگا رہا معاف کرنے کا اجرو ثواب تو وہ اپنی جگہ ہے جو دوسری آیت (فَمَنْ عَفَا وَ اَصْلَحَ فَاَجْرُہ عَلَی اللّٰہ) میں بیان فرمایا ہے، حضرت ابن عباس (رض) سے ایسا ہی منقول ہے اور بعض تابعین ابراہیم، نخعی، مجاہد اور زید بن اسلم کا بھی یہی قول ہے۔
(معالم التنزیل ج ٢ ص ٤١ و ٤٣)
اس سے معلوم ہوا کہ اگر کسی کو کوئی جانی نقصان کیا تو اس کا بدلہ دنیا میں بھی دینا ہوگا،اگر معاف کرنا چاہے تو دنیا میں اختیار ہوگا کہ معاف کردے۔
رائی کے دانے کے برابر بھی عمل ہو گا تو اس کا بھی حساب دینا ہوگا:
وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا وَإِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا وَكَفَى بِنَا حَاسِبِينَ(سورہ انبیاء آیت 47)
ترجمہ:
اور قیامت کے دن ہم عدل والی میزان قائم کردیں گے۔ سو کسی پر ذرا سا ظلم بھی نہ ہوگا اور اگر کوئی عمل رائی کے دانہ کے برابر بھی ہوگا تو ہم اسے حاضر کردیں اور ہم حساب لینے والے کافی ہیں۔
تفسیر:
سورۂ نساء میں فرمایا (اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّة ) (بلاشبہ اللہ کسی پر ذرہ کے برابر بھی ظلم نہیں فرماتا) اور سورة الزلزال میں فرمایا (فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذرّة خَیْرًا یَّرَه وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرّة شَرًّا یَّرَہ) (سو جس نے ذرہ کے برابر خیر کا کام کیا ہوگا وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر کوئی برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا) آیت کے ختم پر فرمایا (وَ کَفٰی بِنَا حَاسِبِیْنَ ) (اور ہم حساب لینے والے کافی ہیں) یعنی ہمارے وزن اور حساب کے بعد کسی اور حساب کتاب کی ضرورت نہ رہے گی۔ ہمارا حساب لینا کافی ہے ہمارے فیصلے کے بعد کوئی فیصلے کرنے والا نہیں ۔
عن عائشة، أن رجلا قعد بين يدي النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله، إن لي مملوكين يكذبونني ويخونونني ويعصونني، وأشتمهم وأضربهم فكيف أنا منهم؟ قال: «يحسب ما خانوك وعصوك وكذبوك وعقابك إياهم، فإن كان عقابك إياهم بقدر ذنوبهم كان كفافا، لا لك ولا عليك، وإن كان عقابك إياهم دون ذنوبهم كان فضلا لك، وإن كان عقابك إياهم فوق ذنوبهم اقتص لهم منك الفضل». قال: فتنحى الرجل فجعل يبكي ويهتف، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " أما تقرأ كتاب الله {ونضع الموازين القسط ليوم القيامة فلا تظلم نفس شيئا وإن كان مثقال} [الأنبياء: 47] الآية ". فقال الرجل: والله يا رسول الله ما أجد لي ولهم شيئا خيرا من مفارقتهم، أشهدك أنهم أحرار كلهم. «سنن الترمذي برقم 3165» (5/ 320 ت شاكر)
یعنی حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) نے بیان کیا کہ ایک شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کے سامنے بیٹھ گیا۔ اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ میرے چند غلام ہیں جو مجھ سے جھوٹ بولتے ہیں اور میری خیانت کرتے ہیں اور میری نافرمانی کرتے ہیں۔ میں انہیں برا کہتا ہوں اور مارتا بھی ہوں تو میرا اور ان کا کیا بنے گا ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جب قیامت کا دن ہوگا تو ان کی خیانت اور نافرمانی اور جھوٹ بولنے کا اور تیرے سزا دینے کا حساب کیا جائے گا، سو اگر تیرا سزا دینا ان کی خطاؤں کے برابر ہوگا تو معاملہ برابر سرابر رہے گا نہ ان سے تجھے کچھ ملے گا نہ تجھ پر کچھ و بال ہوگا۔ اور اگر تیرا سزا دینا ان کی خطاؤں سے کم ہوگا تو تجھے اس سے بدلہ دیا جائے گا اور اگر تیرا سزا دینا ان کی خطاؤں سے زیادہ ہوگا تو اس زائد کا انہیں تجھ سے بدلہ دیا جائے گا۔ یہ سن کر وہ شخص وہاں سے ہٹ گیا اور اس نے چیخنا اور رونا شروع کردیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کیا تو اللہ کی کتاب نہیں پڑھتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمة فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْأ) (یہ سن کر اس شخص نے کہا یا رسول اللہ، اللہ کی قسم میں ان کے لیے اس سے بہتر کوئی چیز نہیں سمجھتا کہ ان سے جدا ہوجاؤں۔ میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ یہ سب آزاد ہیں۔ (انوار البيان)
زندہ در گور لڑکی سے بھی سوال کیا جائے گا:
وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ بِأَيِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ (سورة التکویر آیت8،9)
ترجمہ:
اور جب زندہ دفن کی ہوئی لڑکی کے بارے میں سوال کیا جائے۔ کہ وہ کس گناہ کے سبب قتل کی گئی؟
یعنی اس سے معلوم ہوا کہ یہ مظلوم لڑکی جس کو خود اس کے ماں باپ نے قتل کیا ہے اس کے خون کا انتقام لینے کے لئے اس کی طرف سے کوئی دعویٰ کرنے والا تو ہے نہیں خصوصاً جبکہ اس کو خفیہ دفن کردیا ہو تو کسی کو اس کی خبر بھی نہیں ہوئی کہ شہادت دے سکے محشر کے میدان میں جو عدل و انصاف کی عدالت الہیہ قائم ہوگی، وہ ایسے مظالم کو بھی سامنے لائے گی جس کے ظلم پر نہ کوئی شہادت ہے نہ کوئی اس مظلوم کا پرسان حال ہے۔ واللہ اعلم(معار ف القرآن)
إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا} [النساء:10].
بیشک جو لوگ ظلم کے طریقے پر یتیموں کا مال کھاتے ہیں بات یہی ہے کہ وہ اپنے پیٹوں میں آگ بھرتے ہیں اور عنقریب دہکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے۔
دوسروں کی عزت، جان اور مال کا تحفظ کریں:
«إِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ حَرَامٌ عَلَيْكُمْ، كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا.
«صحيح مسلم برقم 1218» (2/ 889 ت عبد الباقي)
یقینا تمہارے خون اموال تم پر محترم ہیں جیساکہ آج کا یہ دن اس مہینے میں ،تمہارا یہ شہر۔
کسی کا مال بغیر اجازت کے نہ لیں:
وقال صلى الله عليه وسلم: لَا يَحِلُّ مَالُ امْرِئٍ إِلَّا بِطِيبِ نَفْسٍ مِنْهُ «مسند أحمد برقم 20695» (34/ 299 ط الرسالة) "
کسی کا مال اس کی خوش دلی کے بغیر نہ لیا جائے۔
سب سے پہلے نا حق خون کا فیصلہ کیا جائے گا:
عن عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَوَّلُ مَا يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ بِالدِّمَاءِ». «صحيح البخاري برقم 6533» (8/ 111 ط السلطانية)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”سب سے پہلے جس چیز کا فیصلہ لوگوں کے درمیان ہو گا وہ ناحق خون کے بدلہ کا ہو گا۔“
حقیقی مفلس کون ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «أَتَدْرُونَ مَا الْمُفْلِسُ؟» قَالُوا: الْمُفْلِسُ فِينَا مَنْ لَا دِرْهَمَ لَهُ وَلَا مَتَاعَ، فَقَالَ: «إِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ أُمَّتِي يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِصَلَاةٍ، وَصِيَامٍ، وَزَكَاةٍ، وَيَأْتِي قَدْ شَتَمَ هَذَا، وَقَذَفَ هَذَا، وَأَكَلَ مَالَ هَذَا، وَسَفَكَ دَمَ هَذَا، وَضَرَبَ هَذَا، فَيُعْطَى هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ، وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ، فَإِنْ فَنِيَتْ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقْضَى مَا عَلَيْهِ أُخِذَ مِنْ خَطَايَاهُمْ فَطُرِحَتْ عَلَيْهِ، ثُمَّ طُرِحَ فِي النَّارِ». «صحيح مسلم برقم 2581» (4/ 1997 ت عبد الباقي)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟“ لوگوں نے عرض کیا: مفلس ہم میں وہ ہے جس کے پاس روپیہ اور اسباب نہ ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مفلس میری امت میں قیامت کے دن وہ ہو گا جو نماز لائے گا، روزہ اور زکوٰۃ لیکن اس نے دنیا میں ایک کو گالی دی ہو گی، دوسرے کو بدکاری کی تہمت لگائی ہو گی، تیسرے کا مال کھا لیا ہو گا، چوتھے کا خون کیا ہو گا، پانچویں کو مارا ہو گا، پھر ان لوگوں کو (یعنی جن کو اس نے دنیا میں ستایا) اس کی نیکیا ں مل جائیں گی اور جو اس کی نیکیاں اس کے گناہ ادا ہونے سے پہلےختم ہو جائیں گی تو ان لوگوں کی برائیاں اس پر ڈالی جائیں گی آخر وہ جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔“
حق دنیا ہی میں اداء کریں وگرنہ نیکیاں دینی ہوں گی:
فعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :"مَنْ كَانَتْ لَهُ مَظْلَمَةٌ لِأَخِيهِ مِنْ عِرْضِهِ أَوْ شَيْءٍ ، فَلْيَتَحَلَّلْهُ مِنْهُ اليَوْمَ ، قَبْلَ أَنْ لاَ يَكُونَ دِينَارٌ وَلاَ دِرْهَمٌ ، إِنْ كَانَ لَهُ عَمَلٌ صَالِحٌ أُخِذَ مِنْهُ بِقَدْرِ مَظْلَمَتِهِ ، وَإِنْ لَمْ تَكُنْ لَهُ حَسَنَاتٌ أُخِذَ مِنْ سَيِّئَاتِ صَاحِبِهِ فَحُمِلَ عَلَيْهِ. (أخرجه البخاري برقم 2449)
حضرت ابوہریرہ نے بیان کیا کہ رسول اللہنے فرمایا، اگر کسی شخص کا ظلم کسی دوسرے کی عزت پر ہو یا کسی طریقہ سے ظلم کیا ہو تو آج ہی اس دن کے آنے سے پہلے معاف کرا لے جس دن نہ دینار ہوں گے، نہ درہم، بلکہ اگر اس کا کوئی نیک عمل ہو گا تو اس کے ظلم کے بدلے میں وہی لے لیا جائے گا اور اگر کوئی نیک عمل اس کے پاس نہیں ہو گا تو اس کےمظلوم ساتھی کی برائیاں اس پر ڈال دی جائیں گی۔
حقداروں کے حق ادا کرو:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لَتُؤَدُّنَّ الْحُقُوقَ إِلَى أَهْلِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ، حَتَّى يُقَادَ لِلشَّاةِ الْجَلْحَاءِ، مِنَ الشَّاةِ الْقَرْنَاءِ». «صحيح مسلم برقم 2582» (4/ 1997 ت عبد الباقي)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم حقداروں کے حق ادا کرو گے قیامت کے دن یہاں تک کہ بے سینگ والی بکری کا بدلہ سینگ والی بکری سے لیا جائے گا۔“ (گو جانوروں کو عذاب و ثواب نہیں پر قصاص ضرور ہو گا)۔
جو کچھ لیا ہے جب تک اداء نہ کرے اس کے ذمہ میں واجب ہے:
عَنْ سَمُرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «عَلَى اليَدِ مَا أَخَذَتْ حَتَّى تُؤَدِّيَ». «أخرجه الترمذي في سننه 1266» (3/ 558 ت شاكر)
حضرت سمرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کچھ ہاتھ نے لیا ہے جب تک وہ اسے ادا نہ کر دے اس کے ذمہ ہے“
شہید کے سارے گناہ معاف ہیں سوائے قرض کے:
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ «يُغْفَرُ لِلشَّهِيدِ كُلُّ ذَنْبٍ إِلَّا الدَّيْنَ». «صحيح مسلم برقم 1886» (3/ 1502 ت عبد الباقي)
حضرت عبد اللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: شہید کے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے سوائے قرض کے۔
’’سوائے قرض کے‘‘اسـ میں تمام حقوق داخل ہیں:
قال الإمام النووي: "وأما قوله صلى الله عليه وسلم: "إلا الدَّين" ففيه تنبيه على جميع حقوق الآدميين، (شرح صحيح مسلم للنووي 5/28)
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:اس میں تنبیہ ہے کہ:اس میں بندوں کے تمام حقوق داخل ہیں۔
جنت اور دوزخ کے درمیان پل پر روک کر مظالم کابدلہ دلوایا جائے گا:
أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : إِذَا خَلَصَ الْمُؤْمِنُونَ مِنْ النَّارِ حُبِسُوا بِقَنْطَرَةٍ بَيْنَ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ ، فَيَتَقَاصُّونَ مَظَالِمَ كَانَتْ بَيْنَهُمْ فِي الدُّنْيَا ، حَتَّى إِذَا نُقُّوا وَهُذِّبُوا أُذِنَ لَهُمْ بِدُخُولِ الْجَنَّةِ ، فَوَ الَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لأَحَدُهُمْ بِمَسْكَنِهِ فِي الْجَنَّةِ أَدَلُّ بِمَنْزِلِهِ كَانَ فِي الدُّنْيَا . (رواه البخاري برقم 2440 )
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جب مومنوں کو دوزخ سے نجات مل جائے گی تو انہیں ایک پل پر جو جنت اور دوزخ کے درمیان ہو گا روک لیا جائے گا اور وہیں ان کے مظالم کا بدلہ دے دیا جائے گا۔ جو وہ دنیا میں باہم کرتے تھے۔ پھر جب پاک صاف ہو جائیں گے تو انہیں جنت میں داخلہ کی اجازت دی جائے گی۔ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، ان میں سے ہر شخص اپنے جنت کے گھر کو اپنے دنیا کے گھر سے بھی بہتر طور پر پہچانے گا۔
ایک طمانچہ کا بدلہ بھی دلوایا جائے گا:
عن جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ، يَقُولُ: بَلَغَنِي حَدِيثٌ عَنْ رَجُلٍ سَمِعَهُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاشْتَرَيْتُ بَعِيرًا، ثُمَّ شَدَدْتُ عَلَيْهِ رَحْلِي، فَسِرْتُ إِلَيْهِ شَهْرًا، حَتَّى قَدِمْتُ عَلَيْهِ الشَّامَ فَإِذَا عَبْدُ اللهِ بْنُ أُنَيْسٍ، فَقُلْتُ لِلْبَوَّابِ: قُلْ لَهُ: جَابِرٌ عَلَى الْبَابِ، فَقَالَ ابْنُ عَبْدِ اللهِ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، فَخَرَجَ يَطَأُ ثَوْبَهُ فَاعْتَنَقَنِي، وَاعْتَنَقْتُهُ، فَقُلْتُ: حَدِيثًا بَلَغَنِي عَنْكَ أَنَّكَ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْقِصَاصِ، فَخَشِيتُ أَنْ تَمُوتَ، أَوْ أَمُوتَ قَبْلَ أَنْ أَسْمَعَهُ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " يُحْشَرُ النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ - أَوْ قَالَ: الْعِبَادُ - عُرَاةً غُرْلًا بُهْمًا " قَالَ: قُلْنَا: وَمَا بُهْمًا؟ قَالَ: " لَيْسَ مَعَهُمْ شَيْءٌ، ثُمَّ يُنَادِيهِمْ بِصَوْتٍ يَسْمَعُهُ مِنْ [بُعْدٍ كَمَا يَسْمَعُهُ مِنْ] قُرْبٍ: أَنَا الْمَلِكُ، أَنَا الدَّيَّانُ، وَلَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، أَنْ يَدْخُلَ النَّارَ، وَلَهُ عِنْدَ أَحَدٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ حَقٌّ، حَتَّى أَقُصَّهُ مِنْهُ، وَلَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ أَنْ يَدْخُلَ الْجَنَّةَ، وَلِأَحَدٍ مِنْ أَهْلِ النَّارِ عِنْدَهُ حَقٌّ، حَتَّى أَقُصَّهُ مِنْهُ، حَتَّى اللَّطْمَةُ " قَالَ: قُلْنَا: كَيْفَ وَإِنَّا إِنَّمَا نَأْتِي اللهَ عَزَّ وَجَلَّ عُرَاةً غُرْلًا بُهْمًا؟ قَالَ: " بِالْحَسَنَاتِ وَالسَّيِّئَاتِ ". «مسند أحمد» (25/ 432 ط الرسالة) رواه أحمد (3/495) (16042)، وحسن إسناده المنذري في ((الترغيب والترهيب))
حضرت جابر ؓ سے مروی ہے کہ مجھے ایک حدیث نبی ﷺ کے حوالے سے معلوم ہوئی جو ایک صاحب نبی ﷺ سے خود سنی تھی میں نے ایک اونٹ خریدا اس پر کجاوہ کسا اور ایک مہینے کا سفر کا طے کرکے پہنچا وہاں مطلوبہ صحابی حضرت عبداللہ بن انیس سے ملاقات ہوئی میں نے چوکیدار سے کہا ان سے جا کر کہو دروازے پر جابر ؓ ہے انہوں نے پوچھا عبداللہ کے بیٹے ہیں میں نے اثبات میں سر ہلادیا تو وہ اپنے کپڑے گھسیٹتے ہوئے نکلے اور مجھ سے چمٹ گئے میں نے بھی ان سے معانقہ کیا اور ان سے کہا کہ قصاص کے متعلق مجھے ایک حدیث کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ آپ نے نبی ﷺ سے خود سنی ہے مجھے اندیشہ ہوا کہ اسے سننے سے پہلے آپ یا مجھ میں سے کوئی دنیا سے رخصت نہ ہوجائے۔ انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا قیامت کے دن لوگ برہنہ، غیر مختون اور’’ بُہم ‘‘اٹھائے جائیں گے ہم نے ان سے ’’بُہم ‘‘کا معنی پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ جس کے پاس کچھ نہ ہو، پھر انہیں اپنے انتہائی قریب سے ایک منادی کی آواز سنائی دے گی کہ میں ہی حقیقی بادشاہ ہوں میں بدلہ لینے والا ہوں اہل جہنم میں سے اگر کسی کو کسی جنتی پر کوئی حق ہو تو اس کا بدلہ لینے سے پہلے وہ جہنم میں داخل نہ ہوگا حتی کہ ایک طمانچے کا بدلہ بھی لوں گا ہم نے پوچھا کہ جب ہم اللہ کے سامنے غیرمختون اور خالی ہاتھ حاضر ہوں گے تو کیسالگے لگا انہوں نے جواب دیا کہ وہاں نیکیوں اور گناہوں کا حساب ہوگا۔
اللہ کی عدالت میں صاحب حق اپنے گناہ ہم پر ڈلوائے گا:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ إِذْ رَأَيْنَاهُ ضَحِكَ حَتَّى بَدَتْ ثَنَايَاهُ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: مَا أَضْحَكَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي؟ قَالَ: " رَجُلَانِ مِنْ أُمَّتِي جَثَيَا بَيْنَ يَدَيْ رَبِّ الْعِزَّةِ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا: يَا رَبِّ خُذْ لِي مَظْلِمَتِي مِنْ أَخِي، فَقَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لِلطَّالِبِ: فَكَيْفَ تَصْنَعُ بِأَخِيكِ وَلَمْ يَبْقَ مِنْ حَسَنَاتِهِ شَيْءٌ؟ قَالَ: يَا رَبِّ فَلْيَحْمِلْ مِنْ أَوْزَارِي " قَالَ: وَفَاضَتْ عَيْنَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْبُكَاءِ، ثُمَّ قَالَ: " إِنَّ ذَاكَ الْيَوْمَ عَظِيمٌ يَحْتَاجُ النَّاسُ أَنْ يُحْمَلَ عَنْهُمْ مِنْ أَوْزَارِهِمْ «المستدرك على الصحيحين للحاكم - ط العلمية برقم 8718» (4/ 620)(هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخْرِجَاهُ )
حضرت انس سے روایت ہےکہ حضور بیٹھے بیٹھے ایک مرتبہ مسکرائے اور پھر ہنس دیئے۔ حضرت عمر نے دریافت کیا کہ آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں، کیسے ہنس دیئے ؟ آپ نے فرمایا میری امت کے دو شخص اللہ رب العزت کے سامنے گھٹنوں کے بل کھڑے ہوگئے ایک نے کہا اللہ میرے بھائی سے میرے ظلم کا بدلہ لے اللہ نے اس سے فرمایا ٹھیک ہے اسے بدلہ دے اس نے کہا اللہ میرے پاس تو نیکیاں اب باقی نہیں رہیں اس نے کہا پھر اللہ میری برائیاں اس پر لا دھ دے۔ اس وقت حضور کے آنسو نکل آئے اور فرمانے لگے وہ دن بڑا ہی سخت ہے لوگ چاہتے ہوں گے تلاش میں ہوں گے کہ کسی پر ان کا بوجھ لادھ دیا جائے۔
حضور ﷺ نے خود دنیا ہی میں اپنی طرف سے بدلہ اداء کیا:
عَنْ أُسَيْدِ بْنِ حُضَيْرٍ، رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ قَالَ: بَيْنَمَا هُوَ يُحَدِّثُ الْقَوْمَ وَكَانَ فِيهِ مِزَاحٌ بَيْنَا يُضْحِكُهُمْ فَطَعَنَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي خَاصِرَتِهِ بِعُودٍ فَقَالَ: أَصْبِرْنِي فَقَالَ: «اصْطَبِرْ» قَالَ: إِنَّ عَلَيْكَ قَمِيصًا وَلَيْسَ عَلَيَّ قَمِيصٌ، «فَرَفَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ قَمِيصِهِ، فَاحْتَضَنَهُ وَجَعَلَ يُقَبِّلُ كَشْحَهُ»، قَالَ إِنَّمَا أَرَدْتُ هَذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ. «سنن أبي داود برقم 5224» (4/ 356 ت محيي الدين عبد الحميد) صحیح الإسناد
حضرت اسید بن حضیرانصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ کچھ لوگوں سے باتیں کر رہے تھے اور وہ مسخرے والے آدمی تھے لوگوں کو ہنسا رہے تھے کہ اسی دوران نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی کوکھ میں لکڑی سے ایک کونچہ دیا، تو وہ بولے: اللہ کے رسول! مجھے اس کا بدلہ دیجئیے، آپ نے فرمایا: ”بدلہ لے لو“ تو انہوں نے کہا: آپ تو قمیص پہنے ہوئے ہیں میں تو ننگا تھا، اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قمیص اٹھا دی، تو وہ آپ سے چمٹ گئے، اور آپ کے پہلو کے بوسے لینے لگے، اور کہنے لگے: اللہ کے رسول! میرا منشأ یہی تھا۔
ایک بالشت ظلماً زمین دبانے کا وبال:
عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَنَّ أَبَا سَلَمَةَ، حَدَّثَهُ أَنَّهُ، كَانَتْ بَيْنَهُ وَبَيْنَ أُنَاسٍ خُصُومَةٌ فَذَكَرَ لِعَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَقَالَتْ: يَا أَبَا سَلَمَةَ اجْتَنِبِ الأَرْضَ، فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ ظَلَمَ قِيدَ شِبْرٍ مِنَ الأَرْضِ طُوِّقَهُ مِنْ سَبْعِ أَرَضِينَ». «صحيح البخاري برقم 2453» (3/ 130 ط السلطانية)
حییٰ بن ابی کثیر نے کہا کہ مجھ سے محمد بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا کہ ان کے اور بعض دوسرے لوگوں کے درمیان (زمین کا) جھگڑا تھا۔ اس کا ذکر انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کیا تو انہوں نے بتلایا، ابوسلمہ! زمین سے پرہیز کر نبی کریم نے فرمایا، اگر کسی شخص نے ایک بالشت بھر زمین بھی کسی دوسرے کی ظلم سے لے لی تو سات زمینوں کا طوق (قیامت کے دن) اس کے گردن میں ڈالا جائے گا۔
ناحق زمین دبانے سے قیامت کے دن سات زمینوں تک دھنسایا جائے گا:
عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَخَذَ مِنَ الْأَرْضِ شَيْئًا بِغَيْرِ حَقِّهِ خُسِفَ بِهِ يَوْمَ القِيَامَةِ إِلَى سَبْعِ أَرَضِينَ». «صحيح البخاري برقم 2454» (3/ 130 ط السلطانية)
ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا سالم سے اور ان سے ان کے والد (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما) نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس شخص نے ناحق کسی زمین کا تھوڑا سا حصہ بھی لے لیا، تو قیامت کے دن اسے سات زمینوں تک دھنسایا جائے گا۔
اگر مرگیا اور ذمہ میں قرض ہوا توصاحب حق کو نیکیاں دینی ہوں گی:
عن عبد الله بن عمر I قال النبي صلى الله عليه وسلم: «مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ دِينَارٌ أَوْ دِرْهَمٌ قُضِيَ مِنْ حَسَنَاتِهِ، لَيْسَ ثَمَّ دِينَارٌ وَلاَ دِرْهَمٌ» صحيح – (رواه ابن ماجه برقم 2414)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو مر جائے اور اس کے ذمہ کسی کا کوئی دینار یا درہم ہو تو (قیامت میں) جہاں دینار اور درہم نہیں ہو گا، اس کی نیکیوں سے ادا کیا جائے گا“۔
غیبت کرنے والی کی معافی نہیں ہوگی حتی کہ وہ صاحب معاف کردے:
عن أبي سيعد وجابر وَإِنَّ صَاحِبَ الْغِيبَةِ لَا يُغْفَرُ لَهُ حَتَّى يغفِرَها لَهُ صَاحبه».مشكاة المصابيح (3/ 1366)
حضرت ابو سعيد اور حضرت جابر سے روايت هے كه حضور نے فرمایا کہ غیبت کرنے والی کی معافی نہیں ہوگی حتی کہ جس کی غیبت کی ہے وہ معاف کردے۔
حقوق دلوائے جائیں گے حتی کہ جانوروں میں بھی بدلہ دلوایا جائے گا:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَقْتَصُّ الْخَلْقُ بَعْضُهُمْ مِنْ بَعْضٍ حَتَّى الْجَمَّاءُ مِنْ الْقَرْنَاءِ وَحَتَّى الذَّرَّةُ مِنْ الذَّرَّةِ. رواه أحمد (برقم 8401)
حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن مخلوقات کو ایک دوسرے سے قصاص دلایا جائے گا حتیٰ کہ بےسینگ بکری کو سینگ والی بکری سے اور چیونٹی کو چیونٹی سے بھی قصاص دلوایا جائے گا۔
سینگ والی بکری سے بےسینگ والی بکری کا بھی قصاص لیا جائے گا:
عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ عَنْ عُثْمَانَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ الْجَمَّاءَ لَتُقَصُّ مِنْ الْقَرْنَاءِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.(مسند أحمد رقم الحديث: 489)
حضرت عثمان غنی ؓ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن سینگ والی بکری سے بےسینگ والی بکری کا بھی قصاص لیا جائے گا۔
بلی کا حق اداء نہ کرنے والی عورت جہنم میں:
عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى صَلَاةَ الكُسُوفِ، فَقَامَ فَأَطَالَ القِيَامَ، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ، ثُمَّ قَامَ فَأَطَالَ القِيَامَ، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ، ثُمَّ رَفَعَ، ثُمَّ سَجَدَ، فَأَطَالَ السُّجُودَ، ثُمَّ رَفَعَ، ثُمَّ سَجَدَ، فَأَطَالَ السُّجُودَ، ثُمَّ قَامَ، فَأَطَالَ القِيَامَ، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ، ثُمَّ رَفَعَ فَأَطَالَ القِيَامَ ثُمَّ رَكَعَ، فَأَطَالَ الرُّكُوعَ، ثُمَّ رَفَعَ، فَسَجَدَ، فَأَطَالَ السُّجُودَ، ثُمَّ رَفَعَ، ثُمَّ سَجَدَ، فَأَطَالَ السُّجُودَ، ثُمَّ انْصَرَفَ، فَقَالَ: " قَدْ دَنَتْ مِنِّي الجَنَّةُ، حَتَّى لَوِ اجْتَرَأْتُ عَلَيْهَا، لَجِئْتُكُمْ بِقِطَافٍ مِنْ قِطَافِهَا، وَدَنَتْ مِنِّي النَّارُ حَتَّى قُلْتُ: أَيْ رَبِّ، وَأَنَا مَعَهُمْ؟ فَإِذَا امْرَأَةٌ - حَسِبْتُ أَنَّهُ قَالَ - تَخْدِشُهَا هِرَّةٌ، قُلْتُ: مَا شَأْنُ هَذِهِ؟ قَالُوا: حَبَسَتْهَا حَتَّى مَاتَتْ جُوعًا، لَا أَطْعَمَتْهَا ، وَلَا أَرْسَلَتْهَا تَأْكُلُ - قَالَ نَافِعٌ: حَسِبْتُ أَنَّهُ قَالَ: مِنْ خَشِيشِ - أَوْ خَشَاشِ الأَرْضِ ". «صحيح البخاري برقم 745» (1/ 149 ط السلطانية)
حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہاسے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج گہن کی نماز پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کھڑے ہوئے تو دیر تک کھڑے رہے پھر رکوع میں گئے تو دیر تک رکوع میں رہے۔ پھر رکوع سے سر اٹھایا تو دیر تک کھڑے ہی رہے۔ پھر (دوبارہ) رکوع میں گئے اور دیر تک رکوع کی حالت میں رہے اور پھر سر اٹھایا، پھر سجدہ کیا اور دیر تک سجدہ میں رہے۔ پھر سر اٹھایا اور پھر سجدہ کیا اور دیر تک سجدہ میں رہے پھر کھڑے ہوئے اور دیر تک کھڑے ہی رہے۔ پھر رکوع کیا اور دیر تک رکوع میں رہے۔ پھر آپ نے سر اٹھایا اور دیر تک کھڑے رہے۔ پھر (دوبارہ) رکوع کیا اور آپ دیر تک رکوع کی حالت میں رہے۔ پھر سر اٹھایا۔ پھر آپ سجدہ میں چلے گئے اور دیر تک سجدہ میں رہے۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ جنت مجھ سے اتنی نزدیک ہو گئی تھی کہ اگر میں چاہتا تو اس کے خوشوں میں سے کوئی خوشہ تم کو توڑ کر لا دیتا اور مجھ سے دوزخ بھی اتنی قریب ہو گئی تھی کہ میں بول پڑا کہ میرے مالک میں تو اس میں سے نہیں ہوں؟ میں نے وہاں ایک عورت کو دیکھا۔ نافع بیان کرتے ہیں کہ مجھے خیال ہے کہ ابن ابی ملیکہ نے بتلایا کہ اس عورت کو ایک بلی نوچ رہی تھی، میں نے پوچھا کہ اس کی کیا وجہ ہے؟ جواب ملا کہ اس عورت نے اس بلی کو باندھے رکھا تھا تاآنکہ بھوک کی وجہ سے وہ مر گئی، نہ تو اس نے اسے کھانا دیا اور نہ چھوڑا کہ وہ خود کہیں سے کھا لیتی۔ نافع نے بیان کیا کہ میرا خیال ہے کہ ابن ابی ملیکہ نے یوں کہا کہ نہ چھوڑا کہ وہ زمین کے کیڑے وغیرہ کھا لیتی۔
غیرمسلم کا حق دبایا تو اس کا مطالبہ بھی خود حضورﷺ کی طرف سے کیا جائے گا:
عن صوان بن سلیم قال النبی صلى الله عليه وسلم : ( مَنْ ظَلَمَ مُعَاهِدًا أَوْ انْتَقَصَهُ أَوْ كَلَّفَهُ فَوْقَ طَاقَتِهِ أَوْ أَخَذَ مِنْهُ شَيْئًا بِغَيْرِ طِيبِ نَفْسٍ فَأَنَا حَجِيجُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ) رواه أبو داود (3052) وحسنه ابن حجر في "موافقة الخبر" (2/184)
حضرت صفوان بن سلیم رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ کے اصحاب کے کچھ بیٹوں سے اور انہوں نے اپنے آبائ سے (جو ایک دوسرے کے عزیز تھے) اور انہوں نے رسول اللہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سنو! جس نے کسی ذمی پر ظلم کیا یا اس کا کوئی حق چھینا یا اس کی طاقت سے زیادہ اس پر بوجھ ڈالا یا اس کی کوئی چیز بغیر اس کی مرضی کے لے لی تو قیامت کے دن میں اس کی طرف سے ”وکیل“ ہوں گا“۔
ابن كثیر رحمہ اللہ کے نزدیک تو بہ سے حقوق العباد معاف نہیں ہوتے:
وقال الشيخ ابن كثير: "حقوق الآدميين وهي لا تسقط بالتوبة، ولا فرق بين المقتول والمسروق منه، والمغصوب منه والمقذوف وسائر حقوق الآدميين، فإن الإجماع منعقدٌ على أنها لا تسقط بالتوبة، ولا بد من أدائها إليهم في صحة التوبة، فإن تعذر ذلك فلا بد من الطلابة يوم القيامة، (تفسير ابن كثير 2/381)
چونکہ اس میں انسانی حق ہے وہ توبہ سے ٹل نہیں جاتا۔ بلکہ انسانی حق تو توبہ ہونے کی صورت میں بھی حقدار کو پہنچانا ضروری ہے اس میں جس طرح قتل ہے اسی طرح چوری ہے غضب ہے تہمت ہے اور دوسرے حقوق انسان ہیں جن کا توبہ سے معاف نہ ہونا اجماعاً ثابت ہے بلکہ توبہ کے لئے صحت کی شرط ہے کہ ان حقوق کو ادا کرے۔ اور جب ادائیگی محال ہے تو قیامت کے روز اس کا مطالبہ ضروری ہے۔
ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول:
مظلوم کا حق توبہ سے ساقط نہیں ہوتا،توبہ کی تکمیل یہ ہے کہ مظلوم کو بدلہ دے اگر دنیا میں بدلہ نہ دیا تو آخرت میں بدلہ دلوایا جائے گا۔حتی کہ تائب ظالم کثیر نیکیاں لے کر آئے گااور مفلس بن جائے گا۔(مجموع الفتاوى 18/187-189)
امام قرطبی کے ہاں توبہ کرنے سے کسی کا حق معاف نہیں ہوتا:
وقال القرطبي في "الجامع لأحكام القرآن" (18/199) :" فَإِنْ كَانَ الذَّنْبُ مِنْ مَظَالِمِ الْعِبَادِ : فَلَا تَصِحُّ التَّوْبَةُ مِنْهُ إِلَّا بِرَدِّهِ إِلَى صَاحِبِهِ ، وَالْخُرُوجِ عَنْهُ ، عَيْنًا كَانَ أَوْ غَيْرَهُ ؛ إِنْ كَانَ قَادِرًا عَلَيْهِ .
فَإِنْ لَمْ يَكُنْ قَادِرًا : فَالْعَزْمُ أَنْ يُؤَدِّيَهُ إِذَا قَدَرَ ، فِي أَعْجَلِ وَقْتٍ وَأَسْرَعِهِ.وَإِنْ كَانَ أَضَرَّ بِوَاحِدٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ ، وَذَلِكَ الْوَاحِدُ لَا يَشْعُرُ بِهِ ، أَوْ لَا يَدْرِي مِنْ أَيْنَ أُتِيَ : فَإِنَّهُ يُزِيلُ ذَلِكَ الضَّرَرَ عَنْهُ ، ثُمَّ يَسْأَلُهُ أَنْ يَعْفُوَ عَنْهُ ، وَيَسْتَغْفِرَ لَهُ . فَإِذَا عَفَا عَنْهُ فَقَدْ سَقَطَ الذَّنْبُ عَنْهُ.
وَإِنْ أَرْسَلَ مَنْ يَسْأَلُ ذَلِكَ لَهُ ، فَعَفَا ذَلِكَ الْمَظْلُومُ عَنْ ظَالِمِهِ- عَرَّفَهُ بِعَيْنِهِ أَوْ لَمْ يُعَرِّفْهُ- فَذَلِكَ صَحِيحٌ.وَإِنْ أَسَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَجُلٍ بِأَنْ فَزَّعَهُ بِغَيْرِ حَقٍّ ، أَوْ غَمَّهُ أَوْ لَطَمَهُ ، أَوْ صَفَعَهُ بِغَيْرِ حَقٍّ ، أَوْ ضَرَبَهُ بِسَوْطٍ فَآلَمَهُ ، ثُمَّ جَاءَهُ مُسْتَعْفِيًا نَادِمًا عَلَى مَا كَانَ مِنْهُ ، عَازِمًا عَلَى أَلَّا يَعُودَ ، فَلَمْ يَزَلْ يَتَذَلَّلْ لَهُ حَتَّى طَابَتْ نَفْسُهُ ، فَعَفَا عَنْهُ : سَقَطَ عَنْهُ ذَلِكَ الذَّنْبُ. وَهَكَذَا إِنْ كَانَ شَانَهُ بِشَتْمٍ لَا حَدَّ فِيهِ ".
اگر گناہ ایسا ہے جو بندوں پر ظلم کرنے سے تعلق رکھتا ہے تو اس سے توبہ اس وقت تک درست نہ ہوگی جب تک وہ چیز مالک کو نہ لوٹا دے اور خود اس سے الگ تھلگ ہوجائے، وہ عینی چیز ہو یا کوئی اور چیز ہو اگر وہ اس کو واپس کرنے پر قادر ہو۔ اگر وہ اس پر قادر نہ ہو تو اس کا پختہ عزم ہو کہ جب وہ قادر ہوگا تو قریب ترین وقت میں اسے واپس کر دے گا۔ اگر وہ کسی مسلمان کو نقصان پہنچاتا ہے اور اس آدمی کو شعور نہیں یا نہیں جانتا کہ یہ مصیبت کہاں سے اس کے پاس آتی ہے تو اس آدمی سے اس ضرر کو دور کرے۔ پھر اس سے معافی کا سوال کرے اور یہ مطالبہ کرے کہ وہ آدمی اس کے حق میں بخشش کا طالب ہو۔ جب وہ آدمی اس کو معاف کر دے گا تو اس سے گناہ ساقط ہوجائے گا۔ اگر وہ ایسے آدمی کو بھیجے جو اس آدمی سے اس امر کا سوال کرے وہ مظلوم اس ظالم کو معاف کر دے وہ اسے ذاتی طور پر جانتا ہو یا نہ جانتا ہو تو پھر صحیح ہے۔ اگر ایک آدمی دوسرے آدمی کے ساتھ زیادتی کرے اس طرح کہ ناحق اسے ڈرائے، تکلیف دے، اسے طمانچہ مارے، ناحق تھپڑ مارے، چھری مارے اور اسے درد پہنچائے پھر جو اس سے غلطی ہوئی تھی اس پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے معافی کا طلب گار ہو اور یہ پختہ عزم ہو کہ وہ دوبارہ ایسا نہیں کرے گا۔ وہ لگاتار اس کے سامنے عاجزی کا اظہار کرے یہاں تک اس مظلوم کا دل خوش ہوجائے کہ وہ اسے معاف کر دے تو اس سے یہ گناہ ساقط ہوجائے گا۔ یہی صورتحال ہوگی جب وہ ایسی گالی گلوچ نکالے جس پر کوئی حد نہ ہو۔
حقوق العباد کی معافی میں رب العلمین کی طرف سے آخرت میں ایک پیش کش:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ إِذْ رَأَيْنَاهُ ضَحِكَ حَتَّى بَدَتْ ثَنَايَاهُ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: مَا أَضْحَكَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي؟ قَالَ: " رَجُلَانِ مِنْ أُمَّتِي جَثَيَا بَيْنَ يَدَيْ رَبِّ الْعِزَّةِ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا: يَا رَبِّ خُذْ لِي مَظْلِمَتِي مِنْ أَخِي، فَقَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لِلطَّالِبِ: فَكَيْفَ تَصْنَعُ بِأَخِيكِ وَلَمْ يَبْقَ مِنْ حَسَنَاتِهِ شَيْءٌ؟ قَالَ: يَا رَبِّ فَلْيَحْمِلْ مِنْ أَوْزَارِي " قَالَ: وَفَاضَتْ عَيْنَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْبُكَاءِ، ثُمَّ قَالَ: " إِنَّ ذَاكَ الْيَوْمَ عَظِيمٌ يَحْتَاجُ النَّاسُ أَنْ يُحْمَلَ عَنْهُمْ مِنْ أَوْزَارِهِمْ فَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى لِلطَّالِبِ: " ارْفَعْ بَصَرَكَ فَانْظُرْ فِي الْجِنَّانِ فَرَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ: يَا رَبِّ أَرَى مَدَائِنَ مِنْ ذَهَبٍ وَقُصُورًا مِنْ ذَهَبً مُكَلَّلَةً بِالُّلؤْلُؤِ لِأَيِّ نَبِيٍّ هَذَا أَوْ لِأَيِّ صِدِّيقٍ هَذَا أَوْ لِأَيِّ شَهِيدٍ هَذَا؟ قَالَ: هَذَا لِمَنْ أَعْطَى الثَّمَنَ، قَالَ: يَا رَبِّ وَمَنْ يَمْلِكُ ذَلِكَ؟ قَالَ: أَنْتَ تَمْلِكُهُ، قَالَ: بِمَاذَا؟ قَالَ: بِعَفْوِكَ عَنْ أَخِيكَ، قَالَ: يَا رَبِّ فَإِنِّي قَدْ عَفَوْتُ عَنْهُ، قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: فَخُذْ بِيَدِ أَخِيكَ فَأَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ " فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ: «اتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يُصْلِحُ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ» «المستدرك على الصحيحين للحاكم - ط العلمية برقم 8718» (4/ 620)(هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخْرِجَاهُ )
حضرت انس سے روایت ہےکہ حضور بیٹھے بیٹھے ایک مرتبہ مسکرائے اور پھر ہنس دیئے۔ حضرت عمر نے دریافت کیا کہ آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں، کیسے ہنس دیئے ؟ آپ نے فرمایا میری امت کے دو شخص اللہ رب العزت کے سامنے گھٹنوں کے بل کھڑے ہوگئے ایک نے کہا اللہ میرے بھائی سے میرے ظلم کا بدلہ لے اللہ نے اس سے فرمایا ٹھیک ہے اسے بدلہ دے اس نے کہا اللہ میرے پاس تو نیکیاں اب باقی نہیں رہیں اس نے کہا پھر اللہ میری برائیاں اس پر لا دھ دے۔ اس وقت حضور کے آنسو نکل آئے اور فرمانے لگے وہ دن بڑا ہی سخت ہے لوگ چاہتے ہوں گے تلاش میں ہوں گے کہ کسی پر ان کا بوجھ لادھ دیا جائے۔اس وقت اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے طالب اپنی نگاہ اٹھا اور ان جنتیوں کو دیکھ وہ دیکھے گا اور کہے گا چاندی کے قلعے اور سونے کے محل میں دیکھ رہا ہوں جو لؤ لؤ اور موتیوں سے جڑاؤ کئے ہوئے ہیں پروردگار مجھے بتایا جائے کہ یہ مکانات اور یہ درجے کسی نبی کے ہیں یا کسی صدیق کے یا کسی شہید کے ؟ اللہ فرمائے گا یہ اس کے ہیں جو ان کی قیمت ادا کر دے۔ وہ کہے گا اللہ کس سے ان کی قیمت ادا ہو سکے گی ؟ فرمائے گا تیرے پاس تو اس کی قیمت ہے وہ خوش ہو کر پوچھے گا کہ پروردگار کیا ؟ اللہ فرمائے گا یہی کہ تیرا جو حق اس مسلمان پر ہے تو اسے معاف کر دے، بہت جلد کہے گا کہ اللہ میں نے معاف کیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوگا کہ اب اس کا ہاتھ تھام لے اور تم دونوں جنت میں چلے جاؤ پھر رسول اللہ () نے اس آیت کا آخری حصہ تلاوت فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور آپس کی اصلاح کرو دیکھو اللہ تعالیٰ خود قیامت کے دن مومنوں میں صلح کرائے گا۔
اپنی امت کےظالم اور مظلوم کیلئے حضور ﷺ کی دعاء:
عن عَبْدِ اللَّهِ بْنُ كِنَانَةَ بْنِ عَبَّاسِ بْنِ مِرْدَاسٍ السُّلَمِيُّ، أَنَّ أَبَاهُ أَخْبَرَهُ عَنْ أَبِيهِ: أَنَّ النَّبِيَّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - دَعَا لِأُمَّتِهِ عَشِيَّةَ عَرَفَةَ بِالْمَغْفِرَةِ، فَأُجِيبَ: إِنِّي قَدْ غَفَرْتُ لَهُمْ مَا خَلَا الظَّالِمَ، فَإِنِّي آخُذُ لِلْمَظْلُومِ مِنْهُ، قَالَ أَيْ رَبِّ، إِنْ شِئْتَ أَعْطَيْتَ الْمَظْلُومَ مِنْ الْجَنَّةِ، وَغَفَرْتَ لِلظَّالِمِ" فَلَمْ يُجَبْ عَشِيَّتَهُ، فَلَمَّا أَصْبَحَ بِالْمُزْدَلِفَةِ أَعَادَ الدُّعَاءَ، فَأُجِيبَ إِلَى مَا سَأَلَ، قَالَ: فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أَوْ قَالَ: تَبَسَّمَ - فَقَالَ لَهُ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ: بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي! إِنَّ هَذِهِ لَسَاعَةٌ مَا كُنْتَ تَضْحَكُ فِيهَا، فَمَا الَّذِي أَضْحَكَكَ؟ أَضْحَكَ اللَّهُ سِنَّكَ! قَالَ: "إِنَّ عَدُوَّ اللَّهِ إِبْلِيسَ، لَمَّا عَلِمَ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ اسْتَجَابَ دُعَائِي، وَغَفَرَ لِأُمَّتِي، أَخَذَ التُّرَابَ فَجَعَلَ يَحْثُوهُ عَلَى رَأْسِهِ، وَيَدْعُو بِالْوَيْلِ وَالثُّبُورِ، فَأَضْحَكَنِي مَا رَأَيْتُ مِنْ جَزَعِهِ". «سنن ابن ماجة برقم 3013» (4/ 216 ت الأرنؤوط)
حضرت عباس بن مرداس سلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفہ کی شام کو اپنی امت کی مغفرت کی دعا کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب ملا کہ میں نے انہیں بخش دیا، سوائے ان کے جو ظالم ہوں، اس لیے کہ میں اس سے مظلوم کا بدلہ ضرور لوں گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے رب! اگر تو چاہے تو مظلوم کو جنت دے اور ظالم کو بخش دے“، لیکن اس شام کو آپ کو جواب نہیں ملا، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدلفہ میں صبح کی تو پھر یہی دعا مانگی، آپ کی درخواست قبول کر لی گئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے یا مسکرائے، پھر آپ سے ابوبکرو عمر رضی اللہ عنہما نے عرض کیا: ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، یہ ایسا وقت ہے کہ آپ اس میں ہنستے نہیں تھے تو آپ کو کس چیز نے ہنسایا؟ اللہ آپ کو ہنساتا ہی رہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے دشمن ابلیس کو جب معلوم ہوا کہ اللہ نے میری دعا قبول فرما لی ہے، اور میری امت کو بخش دیا ہے، تو وہ مٹی لے کر اپنے سر پر ڈالنے لگا اور کہنے لگا: ہائے خرابی، ہائے تباہی! جب میں نے اس کا یہ تڑپنا دیکھا تو مجھے ہنسی آ گئی“۔