صدقہ فطر کے فضائل واحکام
کے احکام فضائل ومسائل بیان کیے گئے ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
صدقہٴ فطر کے فضائل واحکام
صدقہٴ فطر کا وجوب بھی رمضان کے روزوں کی فرضیت کے وقت یعنی: مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کے دوسرے سال ہوا۔
﴿…… صدقہٴ فطر کی شرعی حیثیت ……﴾
احناف کے نزدیک صدقہ فطر کی حیثیت وجوب کی ہے، دلیل حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث مبارکہ ہے جس میں انہوں نے فرمایا: ”فَرَضَ رَسُوْلُ للهِ ﷺ زَکَاةَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ اَوْ صَاعًا مِنْ شَعِیْرٍ عَلَی الْعَبْدِ وَالْحُرِّ وَالذَّکَرِ وَالْاُنْثَی وَالصَّغِیْرِ وَالْکَبِیْرِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ“․(صحیح البخاري) ترجمہ:رسول اللہ ﷺنے فطرانے کی زکوٰة فرض فرمائی ہے کہ ایک صاع کھجوریں یا ایک صاع جَو ہر غلام اور آزاد مرد اور عورت، چھوٹے اور بڑے مسلمان کی طرف سے ۔
﴿…… صدقہٴ فطر کس شخص پر واجب ہے؟……﴾
اوپر حدیث مبارکہ سے صدقہ فطر کے وجوب کا علم ہوا ، اب یہ وجوب ہر امیر وغریب پر ہے، یا صرف امراء پر؟ تو دلائل کی روشنی میں یہ وجوب فقط امراء پر ہے، جو مخصوص مقدار کے مال کے مالک ہوں، جس کی تفصیل یہ ہے کہ
جو مسلمان اتنا مال دار ہو کہ اس پر زکاة واجب ہو، یا اس پرزکاة تو واجب نہیں لیکن ضروری اَسباب واشیاء سے ز ائد اتنی قیمت کا مال یا سامان اس کے پاس موجود ہے جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر پہنچتی ہو تو اس پر عیدالفطر کے دن صدقہ دینا واجب ہوتاہے چاہے وہ مال؛ تجارت کا ہو یانہ ہو، اور چاہے اُس مال پر پورا سال گزر چکا ہو یا نہ گزرا ہو ، تو اس صدقہ کو شریعت میں صدقہ فطر کہتے ہیں ۔
البتہ جو شخص غریب ہو، اُوپر ذکر کردہ تفصیل کے مطابق مالدار نہ ہو، تو بعض احادیث مبارکہ کو سامنے رکھتے ہوئے ایسے اَفراد کو بھی صدقہٴ فطر ادا کر دینا چاہیے۔ یہ بڑے خیر کا عمل ہے۔ حضرت عبد اللہ بن ابی صعیر رضی اللہ عنہ اپنے باپ ابو صعیر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:…… ”أَمَّا غَنِیُّکُمْ؛ فَیُزَکِّیْہِ اللهُ، وَاَمَّا فَقِیْرُکُمْ؛ فَیُرَدُّ عَلَیْہِ أَکْثَرُ مِمَّا یُعْطِيْ“․ (مسند أحمد حنبل)
ترجمہ: غنی کو اللہ تعالیٰ (اس کے ذریعے)پاک کر دیتا ہے اور فقیر جتنا دیتا ہے اس کی طرف اس سے زیادہ اسے واپس لوٹا دیا جاتا ہے۔
﴿…… صدقہٴ فطر کے وجوب کا مقصد……﴾
صدقہٴ فطر کی ادائیگی کا مقصد یا فائدہ کیا ہے؟ اس بارے میں احادیث مبارکہ سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں، 1: یہ کہ اس سے روزے دار کے روزوں میں رہ جانے والی کمی کوتاہیوں کا ازالہ ہو جاتا ہے۔ 2: اس کی برکت سے غرباء ومساکین کا بھلا ہو جاتا ہے، وہ بھی اس کی وجہ سے اپنی ضروریات پوری کرنے کے اہل ہوجاتے ہیں، جناب نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”زکاةُ الفطرِ طُہْرَةٌ للصائِمِ مِنَ اللغوِ والرفَثِ، و طُعْمَةٌ للمساکینِ“․ (سنن أبي داوٴد) ”صدقہٴ فطر روزہ داروں کی بے کار اور بے ہودہ باتوں سے پاکیزگی اور مساکین کو کھلانے یعنی مدد کی غرض سے واجب کیا گیا ہے“۔
ملاعلی قاری رحمہ اللہ نے مشکوٰة شریف کی شرح مرقاة المفاتیح میں لکھا ہے کہ: ”یقال: صدقة الفطرة وزکاة الفطر أو الفطرة، کأنھا من الفطرة التي ھي الخلقة، فوجوبھا علیھا تزکیة للنفس، أي: تطھیراً لھا وتنقیة لعملھا“․ (مرقاة الفاتیح)
ترجمہ: ”صدقہٴ فطر کو صدقہٴ فطرہ اور زکاة فطر یا فطرہ بھی کہا جاتا ہے، گویا صدقہٴ فطر اُس فطرت سے تعلق رکھتا ہے جو کہ پیدائش ہے، لہٰذا صدقہٴ فطر کا اس پر واجب ہونا نفس کو پاک کرنے کے لیے اور نفس کے عمل کو پاکیزہ بنانے کے لیے ہے“۔
حضرت جریر رضی اللہ عنہ کی ایک روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”صومُ شہرِ رمضانَ معلَّقٌ بین السَّماءِ والأرضِ ولا یُرفعُ إلَّا بزکاةِ الفطرِ“․ (الترغیب والترہیب)
ترجمہ: رمضان کے روزے آسمان او رزمین کے درمیان معلق (لٹکے)رہتے ہیں، جنہیں (اللہ کی طرف)صدقہٴ فطر کے بغیر نہیں اٹھایا جاتا۔
﴿…… صدقہٴ فطر کی ادائیگی کا وقت ……﴾
عیدالفطر کے دن جس وقت فجر کا وقت شروع ہوتا ہے (یعنی: جب سحری کا وقت ختم ہوتاہے)اُس وقت یہ صدقہ واجب ہوتا ہے۔ اور عید کی نماز کے لیے جانے سے پہلے پہلے اِسے ادا کرنا وجوبی طور پر ضروری ہے۔(أنَّ رسولَ اللّٰہِ ﷺکانَ یأمرُ بإخراجِ الزَّکاةِ قبلَ الغدُوِّ للصَّلاةِ یومَ الفطرِ․ (سنن الترمذي))
اگر کوئی شخص کسی بھی وجہ سے عیدالفطر کی نماز سے پہلے ادا نہ کر سکا تو عید کی نماز کے بعد میں بطورِ قضاء اس صدقہ فطر کو ادا کرنا لازم ہوگا، لیکن بعد میں ادا کرنے کی صورت میں اُس سے صدقہ فطر کی فضیلت ختم ہوجائے گی، اور یہ عام نفلی صدقہ کی طرح بن جائے گا، حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی الله عنہما نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: ”مَنْ اَدَّاہَا قَبْلَ الصَّلَاةِ فَہِيَ زَکَاةٌ مَقْبُوْلَةٌ وَمَنْ اَدَّاہَا بَعْدَ الصَّلَاةِ فَہِيَ صَدَقَةٌ مِنَ الصَّدَقَاتِ“. ( سنن أبي داوٴد)کہ جس نے نماز عید سے پہلے اسے ادا کیا تو یہ مقبول زکوٰة ہے اور جس نے اسے نماز عید کے بعد ادا کیا تو یہ دوسرے صدقات کی طرح ایک صدقہ ہوگا۔
اور بہتر وافضل صورت یہ ہے کہ رمضان المبارک میں ہی کسی بھی وقت ادا کر دیا جائے، تاکہ غرباء ومساکین کا تعاون ہو سکے اور وہ بھی عید کی تیاریاں مکمل کر کے عیدکی خوشیوں میں شریک ہو سکیں۔
لیکن رمضان المبارک سے قبل ادا کرنا مفتی بہ قول کے مطابق درست نہیں ہے، اس سے وجوب ساقط نہیں ہو گا۔ (والمختار إذا دخل شہر رمضان یجوز، وقبلہ لا یجوز، وفي الظہیریة: وعلیہ الفتویٰ․(الفتاوی التاترخانیة)
﴿…… صدقہٴ فطر کس کس کی طرف سے دینا واجب ہے؟……﴾
صدقہ فطر اپنی طرف سے، اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے ،بشرطیکہ وہ فقیر یعنی : صاحب نصاب نہ ہو، واجب ہے ۔نابالغ اولاد اگر مالدار ہو تو صدقہ فطر اُن کے مال سے ادا کرے ۔ مالدار ہونے کی صورت میں تو ان کی طرف سے ادا کرنا والد پر واجب نہیں ہے، ہاں اگر احساناً ادا کردے تو جائز ہے۔ عورت پر جب کہ وہ صاحب نصاب ہو تو صدقہ فطر اس پر خود واجب ہے، اگر اُس کا شوہر ادا کرے گا تو احسان ہوگا اور ادا ہوجائے گا، عورت کا صدقہ اس کے باپ پر واجب نہیں ہے۔ اور عورت پر کسی اور کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا واجب نہیں۔
﴿…… صدقہٴ فطر کی مقدار……﴾
احادیث مبارکہ سے جن اشیاء کا صدقہ فطر میں دینا ثابت ہوتا ہے اُن میں گندم، جو، کھجور اور کشمش ہے، کہ ان چار قسم کی اجناس میں سے کسی ایک جنس سے صدقہ فطر ادا کر دیا جائے، اِن اَجناس میں سے اگر کوئی شخص اپنا صدقہ فطر؛ کھجور، کشمش یا جَو کی صورت میں دینا چاہے تو ایک صاع کی مقدار دینا ہو گی، اور اگر صدقہ گندم کی صورت میں دینا چاہے تو اس کا نصف صاع دینا ہو گا۔
موجودہ دور کے پیمانوں کو سامنے رکھتے ہوئے ”ایک صاع“کی مقدار تقریباً ساڑھے تین کلو ، اور ”نصف صاع“ کی مقدار تقریباً پونے دو کلو بنتی ہے۔ (اوزانِ شرعیہ از مفتی محمد شفیع، ص: 34، 38 ملخصاً) یعنی: گندم کا آدھا صاع پونے دو کلو گندم بنے گا، اور بقیہ تین چیزوں کا ایک صاع ساڑھے تین کلو بنے گا، پھر دینے والے کو اختیار ہے کہ چاہے تو یہی اَجناس صدقہ میں دے دے، چاہے ان اجناس میں سے مذکورہ مقدار کے وزن کی قیمت دے دے۔
اور اگر ان چار اَجناس کے علاوہ کسی اور جنس سے صدقہ دینا چاہے، مثلا: چاول ، باجرہ یا کوئی سبزی وغیرہ ، تو اس کا طریقہ یہ ہو گا کہ اوپر ذکر کی گئی چار اَجناس میں سے کسی ایک جنس کی قیمت سے اپنے مطلوبہ دینے والی چیز کو خریدے، یا اس کے برابر اس کی مطلوبہ جنس کا جو وزن بنتا ہو وہ دے دے۔
﴿…… صدقہٴ فطر کے مصارف ……﴾
صدقہ فطر کے مصارف وہی ہیں جو زکوٰة کے مصارف ہیں، کہ کسی مستحق ِ زکوٰة کو مالکانہ طور پر صدقہ فطر کی رقم یا وہ جنس ہی دے دی جائے۔
البتہ! یہ صدقہ اپنی اوپر والی نسل؛ یعنی: ماں، باپ، دادا، دادی، یا نانا، نانی وغیرہ، اور نیچے والی نسل ؛ یعنی: بیٹا بیٹی، پوتا پوتی اور نواسا نواسی وغیرہ کو دینا درست نہیں ہے۔ ایسے ہی شوہر اپنی بیوی کو ، یا بیو ی اپنے شوہر کو غریب ومسکین ہونے کے باوجود اپنا صدقہ فطر نہیں دے سکتی۔
ان رشتہ داروں کے علاوہ دیگر رشتہ داروں ، مثلاً: بھائی بہن، بھتیجا بھتیجی، بھانجا بھانجی، چچا چچی، پھوپا پھوپی، خالہ خالو، ماموں ممانی، سسر ساس، سالہ بہنوئی، سوتیلی ماں سوتیلا باپ وغیرہ ان سب کو صدقہ فطر دینا درست ہے بشرطیکہ یہ غریب اور مستحق ہوں۔
نیز! سید مرد اور سیدہ عورت کو صدقہ فطر دینا جائز نہیں ہے، ایسے اَفراد اگر غریب ومستحق و ضرورت مند ہوں تو ان کی مدد صدقاتِ واجبہ اور زکوٰہ وغیرہ کے علاوہ دیگر اَموال سے کی جائے۔
﴿…… صدقہٴ فطر دوسرے شہر میں ادا کرنا ……﴾
جس کی جانب سے صدقة الفطر نکالنا ہو، وہ جہاں اور جس شہر میں ہو، وہیں صدقہ دینا بہتر ہے، اگر ایک شخص خود دور ہو، اور بال بچے گھر پر رہتے ہوں تو بچوں کا صدقہ وہاں ادا کرے جہاں وہ ہیں، اور اپنا صدقہ وہاں کے فقراء پر صرف کرے جہاں وہ خود مقیم ہے۔
﴿…… صدقہٴ فطر ایک شہر سے دوسرے شہر میں بھیجنا ……﴾
ایک شہر سے دوسرے شہر میں صدقہ فطر بھیجنا مکروہ ہے۔ ہاں اگر دوسرے شہر میں اس کے غریب رشتہ دار رہتے ہوں یا وہاں کے لوگ زیادہ محتاج ہوں ، یا وہ لوگ دین کے کام میں لگے ہوئے ہوں تو ان کو بھیج دینا مکروہ نہیں ، کیونکہ طالب علموں اور دین دار غریب علماء کو دینا بڑا ثواب ہے۔ صدقہ دینے میں اپنے غریب رشتہ داروں اور دینی علم کے سیکھنے سکھانے والوں کو مقدم رکھنا افضل ہے۔
﴿…… غیر ملک میں مقیم شخص کس قیمت سے اپنا صدقہٴ فطر ادا کرے؟……﴾
بہت سے افراد کاروباری سلسلے میں اپنا ملک چھوڑ کے دوسرے ممالک میں گئے ہوتے ہیں، تو ان کے لیے اپنی اور اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے صدقہٴ فطر نکالنے کی تفصیل یہ ہے کہ
اگر صدقہٴ فطر جنس کے اعتبار سے دینا چاہتا ہے تو گندم کے حساب سے پونے دو کلو گندم دے، اور کھجور، جو اور کشمش کے حساب سے ساڑھے تین کلو کھجور، جَو اور کشمش دے ۔چاہے جس ملک میں وہ ہے وہاں ہی دے دے ، یا جہاں اس کے اہل وعیال ہوں وہاں وہ اس کی طرف سے دے دیں۔
اور اگر قیمت کے اعتبار سے صدقہٴ فطر دینا چاہتا ہے تو جہاں ادائیگی کرنے والا موجود ہے وہاں کا اعتبار ہوگا، لہذا ایسا شخص اس ملک میں اپنا اور اپنے نابالغ بچوں کا صدقہٴ فطر اس ملک کے نرخ کے حساب سے دے گا، البتہ اس بات کا اختیار ہے کہ ایسا شخص وہ قیمت خود اسی ملک میں ادا کر دے یا اُس کی اجازت سے پاکستان میں اتنی ہی مقدار ادا کر دی جائے۔
اس کے علاوہ اُس شخص کی بیوی اور اس کے بالغ بچے جو کہ پاکستان میں ہیں، ان پر ان کا اپنا صدقہٴ فطر پاکستان کے نرخ کے مطابق دینا لازم ہوا ہے، لہذا وہ خود پاکستان میں پاکستان کی قیمت کے حساب سے دیں گے، اور اگر وہ شخص پاکستان سے باہر والے میں ملک میں ان کی طرف سے ادا کرنا چاہے تو پر اس پر صدقہٴ فطر نکالنے کے لیے ایسی قیمت اختیار کرنابہتر ہے جس میں فقراء کا زیادہ فائدہ ہو۔
﴿…… صدقہٴ فطر کی مقدار روزے کا فدیہ ادا کرنا……﴾
اگر کوئی شخص روزے نہ رکھ سکتا ہو، ایسا دائمی مریض ہوجسے شفایابی کی امید نہ ہو ، یا بہت زیادہ بوڑھا ہو چکا ہواور روزہ رکھنے کی طاقت نہ ہو تو ایسا شخص اپنے روزوں کا فدیہ دے گا، اور ایک روزے کا فدیہ ایک صدقہٴ فطر کے برابر ہے، چاہے کسی بھی جنس سے یا اس کی قیمت دے دے۔