ناخن کاٹنے کے آداب و مسائل

اللہ تعالی نے عورت کی زینت کے لئے اس کو بالوں کی نعمت عطا فرمائی ہے، چنانچہ ان بالوں کو حدود شرع کے اندر کسی قدر کاٹنے کی گنجائش ہے جس کے احکامات درج ذیل ہیں۔ (✍ : سفیان بلند)

دین اسلام پاک صاف رہنے کی ترغیب دیتا ہے، اور اسی لئے ہر وہ چیز جو انسانی صحت کے لئے مضر ہو، اس سے بچنے کی ترغیب دی گئی ہے، یہی دین فطرت کا تقاضہ ہے، ناخن کاٹنا بھی انسانی صحت کے لئے ضروری ہے، اسی لئے اس کو امورِ فطرت میں شمار کیا گیا ہے اور سابقہ انبیاء کرام علیہم السلام کا طریقہ بتلایا گیا ہے، خود حضور اکرم ﷺ کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ آپ ناخن اور لبوں کے بال ہر جمعہ کو ترشواتے تھے، زیر ناف بال بیس دن میں صاف کرتے تھے اور بغل کے بال چالیس دن میں صاف کراتے تھے۔

 

  • حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مونچھیں ترشوانے، ناخن کٹوانے، بغل کے بال صاف کرانے اور زیر ناف مونڈنے کے بارے میں ہمارے لئے جو مدت متعین کی گئی ہے وہ یہ کہ ہم ان کو چالیس دن سے زیادہ نہ چھوڑیں۔ (مسلم)

قنیہ میں لکھا ہے کہ افضل یہ ہے کہ ہفتہ میں ایک بار ناخن ترشوا کر لبوں کے بال ہلکے کرا کر اور جسم کے زائد بال صاف کر کے غسل کے ذریعہ اپنے بدن کو صاف ستھرا کیا جائے، اگر ہر ہفتہ یہ ممکن نہ ہو تو ہر پندرھویں دن اس پر عمل کیا جائے، یہاں تک کہ چالیس دن سے زائد کا عرصہ گزر جائے تو یہ "بلا عذر ترک" کہلائے گا، گویا ان چیزوں کے لئے ایک ہفتہ تو افضل مدت ہے، پندرہ دن اوسط مدت پر مشتمل ہے اور آخری مدت چالیس دن ہے، چالیس سے زیادہ گذارنے والا "بلا عذر ترک کرنے والا" شمار ہوگا جس پر وہ وعید کا مستحق ہو گا۔

 

مظہر کہتے ہیں کہ ابو عمر رضی اللہ عنہ اور عبد اللہ الاغر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ حضور اکرم ﷺ ہر جمعہ کے دن جمعہ کی نماز کو جانے سے پہلے لبوں کے بال اور ناخن کترتے تھے اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ آپ ﷺ بغل کے بال اور ناف کے نیچے کے بال چالیس دن میں اور بعض حضرات کی روایت کے مطابق ایک مہینہ میں صاف کرتے تھے، ایک مہینہ والی روایت ایک معتدل قول ہے۔ (مظاہر حق)

 

□ یستحب ان یقلم اظفارہ ویقص شاربه ویحلق عانته وینظف بدنه فی کل اسبوع مرۃ یوم الجمعة افضل ثم فی خمسة عشریوماً والزائد علی الاربعین اٰثما (طحطاوی ۳۰٤)

 

  • حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا راوی ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ دس چیزیں فطرت میں سے ہیں، یعنی دین کی وہ باتیں ہیں جن کا تعلق انسانی زندگی کے ساتھ ہے۔

١- قَصُّ الشَّارِبِ یعنی لبوں کے بال کٹوانا

٢- اِعْفَاءُ اللِّحْیَةِ یعنی داڑھی کا بڑھانا

٣- السِّوَاکُ یعنی مسواک کرنا

٤- اسْتِنْشَاقُ الْمَاءِ یعنی ناک میں پانی ڈالنا

٥- قَصُّ الْاَظْفَارِ یعنی ناخن کٹوانا

٦- غَسْلُ الْبَرَاجِمِ یعنی جوڑوں کی جگہ کو دھونا

٧- نَتْفُ الْاِبِطِ یعنی بغل کے بال صاف کرنا

٨- حَلْقُ الْعَانَةِ یعنی زیر ناف بالوں کو مونڈنا

٩- انْتِقَاصُ الْمَاءِ یَعْنِیْ الْاِسْتِنْجَاءِ یعنی پانی کا کم کرنا یعنی استنجاء کرنا۔

راوی (مصعب یا زکریا) کا بیان ہے کہ دسویں چیز کو میں بھول گیا، ممکن ہے کہ الْمَضْمَضَةُ ہو یعنی کلی کرنا (صحیح مسلم)

 

1- ناخن کاٹنے کا کوئی خاص دن اور وقت مقرر نہیں

ناخن کترنے کے لئے حضور اکرم ﷺ نے کوئی خاص دن متعین نہیں فرمایا، یہ ایک طبعی ضرورت ہے، آدمی جب ضرورت محسوس کرے ناخن کاٹ لے۔

 

□ سئل أبو یوسف عن قص الأظافیر في اللیل، فقال: ینبغي، فقال: مالدلیل علی ذلک؟ فقال قولہ علیه السلام: الخیر لا یؤخر۔ (ہندیة، الباب التاسع عشر، زکریا قدیم ۵/ ۳۵۸، جدید ۵/ ٤١٣)

 

2- ناخن کاٹنے کا مستحب طریقہ

امام غزالی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی سے شروع کرے اور اس کے بعد کی چاروں انگلیوں کے ناخن تراشنے کے بعد بائیں ہاتھ کے ناخن چھوٹی انگلی سے کاٹتے ہوئے انگوٹھے پر ختم کرے پھر آخر میں دائیں ہاتھ کے انگوٹھے کا ناخن تراشے (احیاء العلوم ۱/ ۱۲۷)

محققین فرماتے ہیں کہ اس سلسلہ میں کوئی حدیث ثابت نہیں، چنانچہ علامہ ابن دقیق العید نے لکھا ہے کہ اس کے مستحب ہونے کی کوئی دلیل نہیں ( فتح الباری : ۱۰/ ٤٢٤) اور خود حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی صراحت کی ہے کہ ناخن کاٹنے میں انگلیوں کی ترتیب کا احادیث میں کوئی ذکر نہیں۔

"ولم یثبت فی ترتیب الأصابع عند القص شییٔ من الأحادیث"

البتہ چونکہ حضور اکرم ﷺ اس بات کو پسند فرماتے تھے کہ دائیں جانب سے اس کی ابتداء ہو (صحیح البخاري، حدیث نمبر : ۱٦٨ ، باب الیمین في الوضوء و الغسل) اور ناخن کاٹنا بھی ایک اچھا کام ہے، اس لئے پہلے دائیں ہاتھ کے اور پھر بائیں ہاتھ کے ناخن تراشنا چاہیئں

 

3- ناخن کاٹنے کے آداب

فقہاء کرام نے کچھ آداب و مستحبات لکھے ہیں :

١- ہفتہ میں ایک بار ناخن کاٹنا چاہیئے، یہ افضل طریقہ ہے، اوسط درجہ یہ ہے کہ دو ہفتہ میں ایک بار کاٹ لے، بہر حال چالیس دن سے زیادہ تاخیر نہیں ہونی چاہئیے۔

□ وینبغي أن یکون ابتداء قص الأظافیر من الید الیمنی وکذا الانتہاء بہا فیبدأ بسبابة الید الیمنی ویختم بإبہاہما وفي الرجل یبدأ بخنصر الیمنی ویختم بخنصر الیسری (ہندیہ: ۵/ ۳۵۸)

٢- دائیں ہاتھ کی شہادت والی انگلی سے شروع کرے جیسا کہ اوپر ترتیب گزری۔

٣- کاٹے ہوئے ناخن دفن کردے، خاص کر بیت الخلاء یا گندی جگہ میں ڈالنا مکروہ ہے، بعض اہل علم نے لکھا ہے کہ اس سے برص کی بیماری پیدا ہوتی ہے۔

مفتی سفیان بلند صاحب

رکن شریعہ کمیٹی حلال آگہی و تحقیقاتی کونسل
مدرس جامعہ دارالہدی گلستان جوہر
رکن شریعہ کمیٹی حلال آگہی و تحقیقاتی کونسل

کل مواد : 29
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن
ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024