نماز عید میں مسبوق (یعنی وہ افراد جن کی کوئی رکعت یا تکبیرات رہ گئی ہوں) کے احکام
ذیل میں وہ صورتیں جو پیش آسکتی ہیں، ان کا حکم مذکور ہے:
1= اگرکوئی شخص ایسے وقت نماز میں شریک ہوا جب امام تکبیراتِ زوائد کہہ کر تلاوت شروع چکا تھا،
تو ایسے شخص کے لیے حکم یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ کہہ کر ہاتھ باندھنے کے بعد فورا تین تکبیراتِ زوائد کہے اور اس کے بعد خامو شی سے امام کی قرات سنے۔(ردالمحتار:3/64،دار
المعرفہ،بیروت)
2= اگرکوئی شخص ایسے وقت نماز میں شریک ہوا جب امام رکوع میں چلا گیا تھا،
تو یہ شخص اندازہ کر ے کہ اگر وہ قیام کی حالت میں ہی تکبیرات کہہ کر امام کے ساتھ رکوع میں شامل ہو سکتا ہو، تو ایسا ہی کرے اور
اگر اس کا گمان یہ ہو کہ اگر میں نے قیام کی حالت میں تکبیرات کہیں تو امام رکوع سے اٹھ جائے گا،
تو اس آ نے والے کو چاہیے
کہ وہ رکوع میں چلا جائے اور رکوع میں تسبیحات کے بجائے تکبیرات کہے،
لیکن اس وقت تکبیرات کہتے ہوئے ہاتھ نہیں اٹھائے جائیں گے،
بلکہ ہاتھ گھٹنے پرہی رکھے رہیں،
ہاں! اگر رکوع میں تکبیرات کہنے کے بعد وقت ہو تو رکوع کی تسبیحات بھی کہہ لی جائیں
اور اگر آنے والا رکوع میں چلا گیا اور ابھی رکوع کی حالت میں ایک بار تکبیر کہہ پایاتھا، یازیادہ، یاکچھ بھی نہیں کہہ پایا تھا کہ
امام رکوع سے اٹھ گیا تو یہ بھی رکوع سے اٹھ جائے، بقیہ تکبیریں اس سے ساقط ہیں۔
(عالمگیریہ: 1/ 151، مطبعہ مکتبہ رشیدیہ)
3= اگر کوئی ایسے وقت نمازمیں شریک ہوا جب امام پہلی رکعت کے رکوع سے اٹھ گیا تھا، یا دوسری رکعت میں قرا ت شروع کرچکا تھا، تو اب آنے والا امام کی متابعت کرے،
یعنی جس طرح امام کر رہا ہے اسی طرح کرتا رہے،
پھر امام کے سلام پھیرنے کے بعد رہ جانے والی رکعت اس ترتیب سے ادا کرے گاکہ اول کھڑے ہو کر ثناء پڑھے،
پھرسورةالفاتحہ پڑھے، پھرسورت ملائے اور پھر رکوع میں جانے سے پہلے تین تکبیرات ِزوائد کہے، پھر رکوع میں جائے ،
یعنی صورت کے اعتبار سے ”امام کے ساتھ پڑھی ہوئی دوسری رکعت اور یہ رکعت جو ادا کی جا رہی ہے “دونوں رکعتیں ایک جیسی ہوں گی، یہ اصح قول ہے ۔(البحر الرائق:2/282،دارالکتب العلمیہ)
4= اگرکوئی شخص دوسری رکعت میں ایسے وقت پہنچاجب امام تکبیرات کہہ کر رکوع میں جا چکا تھا،
تو اب پھر پہلی رکعت کی طرح اندازہ کرے کہ تکبیرات کہہ کر امام کو رکوع میں پا سکتا ہے، یا نہیں؟
اگر پا سکتا ہے تو ایسا ہی کرے اور اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو رکوع میں جا کر تکبیرات کہے
اور اگرامام ر کوع سے اٹھ گیا یعنی مقتدی سے دونوں رکعتیں رہ گئیں،
تو یہ دونوں رکعتیں اسی طرح پوری کرے جیسے عام ترتیب میں امام کے پیچھے پڑھی جاتی ہیں۔
(تاتارخانیہ:2/73،قدیمی)
5= اگر کوئی ایسے وقت میں پہنچا جب امام سلام پھیرچکا تھا،
تو اب اکیلا اس نماز عید کو نہیں پڑھ سکتا،
اس شخص کو چاہیے کہ کسی ایسی مسجد، یا عیدگاہ کو تلاش کرے جہا ں ابھی تک عید کی نماز نہ ہوئی ہو ،
وہاں جا کر نماز ادا کرے
اور اگر اس کو کوئی ایسی جگہ نہ ملے تو اس کے لیے مستحب ہے کہ
چاشت کے وقت چار رکعت نفل اداکرے۔
(ردالمحتار:3/67،دارالمعرفہ)
الغرض!
مذکورہ بالا ممکنہ صورتیں ہی کسی کو پیش آ سکتی ہیں،
اگر علمائے کرام اور ائمہ مساجد انہیں” عید“ سے کچھ دن پہلے ہی سے ایک ایک کرکے بیان کر دیاکریں، تو
یقینا بہت سارے مسلمانوں کی ”عیدین“کی نماز خراب ہونے سے بچ جائے گی۔
اللہ تعالی تمام مسلما نوں کے روزے اور عبادتوں کو شرف قبولیت عطا فرمائے۔
آمین