نماز ِاستسقاء — احکام و مسائل

اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انسان کو جن نعمتوں سے سرفراز کیا ہے،وہ بے شمار ہیں، ان میں کچھ نعمتیںروحانی ہیں اور کچھ مادی ہیں ، یہ مادی نعمتیںانسانوں کی اس بستی میں جینے اور رہنے کے لئے ناگزیر ہیں ، ان ضرورتوں میں سب سے اہم ہوا اورہوا کے بعد پانی ہے ، ہوا اور پانی اس فراوانی کے ساتھ مہیا ہیں کہ ہمیںکبھی ان کی اہمیت اور قدر و قیمت کے بارے میں سوچنے کا خیال بھی نہیں گذرتا ، غور کیجئے کہ ایک لیٹر صاف وشفاف پانی ہم بازار سے دس تا بارہ روپے میں خرید کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے پانی کی بے حساب مقدار کھیت اور باغات کی آبیاری ، انسان کی سیرابی اور انسان سے متعلق چیزوں کی صفائی اور دھلائی کے لئے پیدا فرمائی ہے ، اگر اس پانی کی قیمت بارہ کے بجائے پانچ یا دو ہی روپے لیٹر کے حساب سے انسان سے وصول کی جاتی تویہ انسان کے لئے کس قدر گراں بار ہو جاتا ؟ اگر آکسیجن کا ایک سلنڈر حاصل کیا جائے توسینکڑوں روپے قیمت ادا کرنی پڑتی ہے ، انسان کو سانس لینے کے لئے ہر وقت آکسیجن مطلوب ہے ، اگر اسے اس آکسیجن کی قیمت ادا کرنی پڑتی تو کتنادشوار ہوتا ! یہ اللہ تعالیٰ کی شان ربوبیت ہے ، کہ کائنات کے اس چھوٹے سے محلہ میں جسے زمینی دنیا کہا جاتا ہے ، پانی اور ہوا کی نہایت ہی وافر مقدار موجود ہے ، جب کہ فضاء میںاس سے بڑے سیارے موجود ہیں ؛ لیکن وہاں نہ پانی کاکوئی قطرہ دستیاب ہے اور نہ ہوا کا کوئی جھونکا ، اس سے اندازہ کیجئے کہ حضرت انسان کی ضیافت و مہمان نوازی اور راحت رسانی کا کس خوبی سے انتظام کیا گیا ہے۔
قرآن مجید نے اللہ تعالیٰ کی جن نعمتوں کابار بار ذکر کیا ہے ، ان میںایک پانی بھی ہے ؛ بلکہ فرمایا گیا کہ ہم نے ہر زندہ چیز کو پانی ہی سے پیدا کیا ہے : ’’ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَآئِ کُلَّ شَیْیٍٔ حَیٍّ‘‘( الانبیاء : ۳۰) انسان کی زندگی کامدار تو پانی پر ہی ہے ، جتنے بھی ذی روح جانور ہیں ، ان کی زندگی کابقاء بھی پانی ہی پر منحصر ہے؛ چوںکہ مادۂ تخلیق میںبھی پانی کا ایک جزء موجود ہوتا ہے ، اسی لئے قرآن نے انسانی نطفہ کو بھی ’’ ماء دافق ‘‘ یعنی اچھلتے ہوئے پانی سے تعبیر کیا ہے ، (الطارق : ۶) اور یہ بھی فرمایا گیا کہ تمام جاندار کی تخلیق اصل میں پانی ہی سے ہوئی ہے : ’’ وَاﷲ ُخَلَقَ کُلَّ دَآبَّۃٍ مِّنْ مَّآئٍ‘‘( النور : ۴۵) نباتات کا تو وجود ہی پانی پر موقوف ہے ، کہ اسی سے زمین سے کونپلیں نکلتی ہیں اور پھر آہستہ آہستہ سایہ دار درختوں اورلہلہاتے ہوئے سر سبز پودوں کے سانچے میں ڈھل جاتی ہیں : ’’ وَاَنْزَلْنَامِنَ السَّمَآئٍ مَآئً فَاَنْبَتْنَا فِیْھَامِنْ کُلِّ زَوْجٍ کَرِیْمٍ‘‘(لقمان : ۱۰) جو جمادات ہیں ، وہ بھی پانی سے بے نیاز نہیں، چاہے زمین ہو یا نمو پذیر زندہ پتھر ہوں، سب کو پانی کی ضرورت ہے ، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ زمین جب مردہ ہو جاتی ہے تو آسمان سے آبِ حیات بن کر بارش اس سے ہم آغوش ہوتی ہے اور اس طرح اس کے لئے زندگی کا ایک نیا سروسامان مہیاکرتی ہے : ’’وَاﷲ ُاَنْزَلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآئً فَاَحْیَابِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا‘‘ ۔( النحل : ۶۵) 
پھر خدا کی قدرت دیکھئے کہ انسان کے لئے کس طرح پانی کا انتظام کیا جاتا ہے ، دنیابھر کا استعمال شدہ گندہ اور آلودہ پانی دریاؤں ، نہروں اور ندیوں کے ذریعہ اپنی تمام غلاظتوں کے ساتھ سمندر تک پہنچتا ہے ، سمندر کا نمکین پانی اس آلودگی کو جذب کر لیتا ہے ، اگر سمندر کے کھارے پانی میں آلودگی کو جذب کرنے کی صلاحیت نہ ہوتی تو انسان کے لئے اس کرۂ ارض پر جینا دوبھر ہو جاتا ، پھر ایک طرف سمندر کی تہہ میں گندھک کی بچھی ہوئی چادر پانی کو گھلاتی ہے اور دوسری طرف سورج اپنے جگر کو بھون بھون کر سمندر کی اوپری سطح کو گرم کرتا ہے ، یہاں تک کہ سمندر سے بھاپ اُٹھتی ہے اور ہوائیں اسے گود لے کر اڑن کھٹولا بن فضاؤں میں گھومتی پھرتی ہیں اور ایک ایسی سطح پر لے جاتی ہیں ، کہ اسی بھاپ میں کثافت پیدا ہوتی ہے اور اب یہ ابر ِرحمت بن کر ہوا کے دوش پر سوار فضاء کی سیر کرتا رہتا ہے اور جہاں چاہے برس جاتا ہے۔
پھر اس میں بھی خدا کا نظام قدرت یہ ہے کہ صحراؤں اور ریگستانوں کو چوںکہ اپنے بقاء کے لئے پانی کی چنداں ضرورت نہیں ، اس لئے وہاں کم سے کم بارش ہوتی ہے ، جہاں سر سبز وشاداب کھیت ہوں ، درخت اور جنگلات ہوں ، وہاں پانی کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے ، کہ ان کا بقاء پانی ہی پر موقوف ہے ، اس لئے یہاں بادل کی نگاہ التفات بھی بڑھ جاتی ہے ، غالباً اللہ تعالیٰ کے اسی نظام ربوبیت کی طرف اس حدیث میں اشارہ ہے ، جس میں فرمایا گیا ہے کہ پودوں اور جانوروں کی وجہ سے اللہ بارش نازل فرماتے ہیں ؛ چوںکہ جہاں درخت اورجنگلات ہوتے ہیں ، وہیں پالتو اور جنگلی ، چلنے والے اور رینگنے والے جانوروں اور کیڑے مکوڑوں کی بہتات ہوتی ہے ۔ 
یہ پانی کا ظاہری اور نظر آنے والا نظام ہے ؛ لیکن اصل قوت خدا کی قوت ہے ، جس کے اشارے اور حکم سے ہی انسان کو کوئی نعمت حاصل ہوتی ہے اور وہ کسی نعمت سے محروم کیا جاتا ہے ، اب یہی دیکھئے کہ سمندر کے پانی کی حرارت اور سورج کی تپش کم و بیش ہمیشہ رہتی ہے ، ہوائیں بھی ایک طرف سے دوسری طرف اپنا سفر جاری رکھتی ہیں ، بادل بھی فضاء میں جگہ جگہ اپنے گھروندے بنائے رہتا ہے ، سوکھی ہوئی زمین اور نیم مردہ درخت ہر سال موسم گرما میں آسمان کی طرف دست سوال پھیلائے رہتے ہیں ؛ لیکن کسی سال معتدل بارش ہوتی ہے ، کسی سال ضرورت سے زیادہ اور کسی سال خشک سالی اور قحط کی وجہ سے زمین قطرہ قطرہ کو ترس جاتی ہے ، یہ وہی مشیت خداوندی کا کرشمہ ہے ، کہ جب اس کی مشیت نہیں ہوتی تو ظاہری اسباب کے موجود ہونے کے باوجود مطلوبہ نتیجہ حاصل نہیں ہوتا ۔ 
اس وقت ہندوستان کا بڑا حصہ قحط کی جس کیفیت سے دو چار ہے اور کسان کی آنکھوں میں دوپہر کی دھوپ میں بھی جس طرح اندھیرا چھایا ہوا ہے ، یہ بہت ہی تشویشناک ہے ، اس سلسلہ میں ایک طرف تو ہمیں اپنا احتساب کرنا چاہئے ، کہ کہیں ہماری بد اعمالیاں تو اللہ کی اس پکڑ کا باعث نہیںہیں ؟ رسول اللہا نے فرمایا کہ جب کوئی قوم زکوٰۃ ادا کرنا چھوڑ دیتی ہے تواس سے بارش روک لی جاتی ہے ، یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے یہاں حساب کے ساتھ پوری زکوٰۃ ادا کرنے والوں کا تناسب کم ہے ، اگر تمام صاحب نصاب مسلمان اپنی پوری زکوٰۃ ادا کریں تو اس ملک میں کوئی بھوکا مسلمان نہ رہے حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جب کوئی گروہ آمادۂ ظلم و جور ہوجاتا ہے تو اس پر آسمانی آزمائشیں مسلط کر دی جاتی ہیں ، جیسا کہ اہل مکہ پر قحط نازل کیا گیا تھا ، ظاہر ہے ہمارے ملک میں جس بے دردی کے ساتھ انسانوں کا خون بہایا جا رہا ہے ، بوڑھوں کو تہہ تیغ کیا جاتا ہے ، عورتوں اور معصوم بچوں کو زندہ جلایا جاتا ہے ، برسر عام خواتین کی بے آبروئی کی جاتی ہے ، یہاں تک کہ پیٹ میں پلنے والے بچے کو بھی نہیں بخشا جاتا ، ایسی قوم پر اللہ کے عذاب کے لئے کسی اورحجت کی ضرورت ہے؟ یہ تو ایسے واقعات ہیں کہ اگر آسمان کی آنکھیں خون کے آنسو برسائیں تب بھی تعجب نہیں ہونا چاہئے ۔ 
یہ تو اپنے احتساب کا پہلو ہے ، دوسرا پہلو خدا سے مانگنے اور رب کائنات سے رجوع کرنے کا ہے ، اللہ تعالیٰ نے نماز اور صبر کو اللہ سے مدد مانگنے کا ذریعہ و وسیلہ قرار دیا ہے ، ’’اِسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ‘‘ ( البقرۃ : ۱۵۳) رسول اللہ ا نے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی عملی تطبیق فرمائی ہے کہ ہر ضرورت کے لئے آپ ا نے نماز رکھی ، کوئی خوشی کی بات پیش آئے تو نمازِ شکر ، کسی مسلمان کی موت ہو جائے تو استغفار کے لئے نمازِ جنازہ ، کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو نماز توبہ ، کسی معاملہ میں خیر و شر اور نفع و نقصان سمجھ میں نہ آتا ہو ، تو نمازِ استخارہ ، سورج گہن ہو تو نمازِ کسوف ، چاند گہن ہو تو نمازِ خسوف ، کوئی ضرورت در پیش ہو تو نمازِ حاجت ، اسی طرح اگر بارش رُک جائے تو نمازِ استسقاء ۔
رسول اللہ انے استسقاء یعنی اللہ تعالیٰ سے بارش طلب کرنے کے لئے نماز بھی پڑھی ہے اور صرف دُعاء پر بھی اکتفا فرمایا ہے ، ایک بار آپ ا خطبۂ جمعہ ارشاد فرما رہے تھے ، کہ ایک دیہاتی آیا ، اس نے عرض کیا کہ مویشی ہلاک ہو رہے ہیں اور بال بچے بھوکے مر رہے ہیں ، آپ اللہ تعالیٰ سے بارش کے لئے دُعاء مانگئے ، آپ ا نے تین بار دُعاء کی ، کہ اے اللہ ! ہمیں بارش عطا فرما ، بعض روایات میں : ’’اللھم اسقنا‘‘ کے الفاظ ہیں اور بعض میں ’’ أغثنا‘‘ کے ، اس وقت آسمان بالکل صاف تھا؛ لیکن آپ ا کی دُعاء ایسی قبول ہوئی کہ فوراً بادل ظاہر ہوا اور چھ دن تک بارش ہوتی رہی ، اگلے جمعہ جب آپ ا خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے ، تو پھر وہی دیہاتی یا کوئی اور شخص عرض کناں ہوا کہ اللہ کے رسول ! گھر گر رہے ہیں اور جانور غرقاب ہو رہے ہیں ، آپ دُعاء فرمایئے کہ بارش تھم جائے ، آپ نے دُعاء فرمائی کہ ہمارے گرد بارش ہو ، ہم پر نہ ہو : ’’اللھم حوالینا ولا علینا‘‘چنانچہ مدینہ پر بارش تھم گئی اور گرد و پیش بارش کا سلسلہ ایک ماہ کے قریب جاری رہا، ( بخاری ، حدیث نمبر : ۱۰۳۳) حضور ا نے ہاتھ اُٹھا کر بارش کے لئے دُعاء فرمائی تھی اور آپ ا کے ساتھ تمام لوگوں نے ہاتھ اُٹھا کر دُعاء کی ؛ حالاںکہ خطبہ میں ہاتھ اُٹھا کر دُعاء مانگنے کا معمول نہیں تھا ، حضرت انس ص فرماتے ہیں کہ آپ ا نے دست ِمبارک اتنا اونچے اُٹھائے کہ بغل کی سفیدی نظر آتی تھی، (بخاری ، حدیث نمبر : ۳۱ ، ۳۰ ، ۱۰۲۹) حضور ا کے اسی عمل کی بناء پر امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک استسقاء کے لئے نماز پڑھنا ہی ضروری نہیں ، دُعاء پر بھی اکتفا کیا جاسکتا ہے ۔ (رد المحتار : ۳ ؍۷۱)
بہتر یہ ہے کہ دُعاء کرنے کے ساتھ ساتھ نماز استسقاء بھی پڑھی جائے ؛ چنانچہ رسول اللہ ا نے دو رکعت نماز بھی خاص اس مقصد کے لئے ادا فرمائی ہے ، متعدد حدیثوں میں اس کا ذکر موجود ہے ، اکثر فقہاء اور حنفیہ میں امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک یہ مستحب ہے ، نماز استسقاء دورکعت ہے ، جس میںزور سے قرأت کی جائے گی ، عبادبن تمیم نے اپنے چچا کے واسطہ سے رسول اللہ ا کا یہی عمل نقل کیا ہے ، ( بخاری ، حدیث نمبر : ۱۰۲۴) بہتر ہے کہ : ’’سبح اسم ربک الاعلیٰاورھل أتک حدیث الغاشیہ‘‘ کی سورت پڑھی جائے ۔ (الفقہ الاسلامی وادلۃ : ۲ ؍ ۴۱۵) 
نماز کے بعد زمین پر کھڑے ہو کر اور عصا کاسہارا لے کر عید کی طرح دو خطبے دیئے جائیں ، یہ رائے فقہاء حنفیہ میں امام محمدؒ کی ہے اور اسی کے قائل مالکیہ اور شوافع ہیں ، (رد المحتار: ۱؍ ۷۱، الفقہ الاسلامی وادلۃ : ۲ ؍ ۴۲۰) کیوںکہ متعدد حدیثوں میں خاص کر عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما نے نقل کیا گیا ہے کہ آپ ا نے نمازِ عید کی طرح نمازِ استسقاء ادا فرمائی ہے ، اس خطبہ میں زیادہ تر استغفار کے کلمات کہے جائیں اور جیسے خطبۂ عیدین میں کلماتِ تکبیر بار بار کہے جاتے ہیں ، اس میں استغفار کیا جائے ؛ کیوںکہ یہ موقع ہی اللہ تعالیٰ سے استغفار کا ہے ، یہ رائے حنفیہ میں حضرات صاحبینؒ کی ہے ، ( الفقہ الاسلامی وادلۃ : ۲ ؍ ۴۲۰) اور امام شافعیؒ کے نزدیک تو جیسے خطباتِ عید ین میں تکبیرات تشریق کہی جاتی ہیں ، اسی طرح استسقاء کے خطبہ اولی میں نو بار اور خطبہ ثانیہ میں سات بار کلمہ استغفار کہنا مستحب ہے ۔ ( حوالۂ سابق : ۲؍ ۴۲۱) 
خطبہ شروع کرنے کے بعد جب کچھ حصہ گذر جائے ، تو امام اپنی چادر کی ہیئت بدل دے ، اگر کپڑا چوکور ہو ، تو اوپر کا حصہ نیچے اور نیچے کا حصہ اوپر کر دے اور گول ہو تو دائیں طرف کا حصہ بائیں اور بائیں طرف کا حصہ دائیں کر دے ؛ لیکن یہ صرف امام کرے ، مقتدیوں کو اس طرح نہیں کرنا چاہئے ، عبد اللہ بن زید صکی روایت ہے کہ رسول اللہا نے اپنی رداء مبارک کی ہیئت اسی طرح تبدیل فرمائی ہے ، ( بخاری ، حدیث نمبر : ۱۰۱۱) یہ چادر کا پلٹنا گویا زبان حال سے اللہ کے سامنے اپنی عرض داشت پیش کرنا ہے ، کہ قحط کی حالت کو اسی طرح بدل دیجئے ۔ 
نماز کے لئے جاتے ہوئے بہتر ہے کہ ننگے پاؤں ہوں ، جسم پر نئے کپڑے نہ ہوں ؛ بلکہ پرانے دھلے ہوئے، یاپیوند لگائے ہوئے کپڑے ہوں، جبین ندامت سے جھکی ہوئی ہو، دل میں خشیت ہو اور ظاہر میں بھی اللہ کے سامنے تذلل اور درماندگی کا اظہار ہو ، مسجد حرام ، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ کے علاوہ جہاں کہیں ہو، تو بہتر ہے کہ نماز استسقاء آبادی سے نکل کر میدان میں کھلی جگہ ادا کی جائے ، ( الدرالمختار مع الرد : ۳ ؍ ۷۲) یہ بھی مستحب ہے کہ نماز استسقاء کے موقع سے بوڑھوں اور بچوں کو بھی ساتھ رکھاجائے؛ بلکہ یہ بھی کہ بے زبان جانور بھی ساتھ ہوں (ردالمختار : ۳ ؍ ۷۲) کہ ان کمزوریوں کو دیکھ کرللہ کا دریائے رحمت جوش میں آجائے ۔ 
اگر بارش نہ ہو تو مسلسل تین دن نماز ادا کی جائے ، یہ بھی بہتر ہے کہ نماز استسقاء پڑھنے سے پہلے تین دنوں تک لوگ روزہ رکھیں اور توبہ کا خوب اہتمام کریں، نیز اگر کسی کا حق غصب کئے ہوئے ہوں، تو حق ادا کر دینے کی کوشش کریں، (در مختار و رد المحتار : ۲ ؍ ۷۲) اس نماز کے لئے کوئی خاص وقت مقرر نہیں؛ لیکن امام ابو داؤد نے حضرت عائشہgسے جو روایت نقل کی ہے ، اس میں یہ ہے کہ رسول اللہ ا سورج نکلتے وقت نمازِ استسقاء کے لئے تشریف لے گئے ، ( ابو داؤد ، باب رفع الیدین فی الاستسقاء) اس لئے ظاہر ہے کہ اس وقت نمازِ استسقاء ادا کرنی زیادہ بہتر ہے، اس کا بھی اہتمام کرنا چاہئے کہ نماز میںسماج کے دیندار لوگوں کو شامل رکھا جائے، حضرت عمرص نے خاص طور پر حضرت عباس صکو اور حضرت معاویہ صنے یزید بن اسود ص کو نماز استسقاء میں شامل رکھا تھا اور انھیں سے دُعاء کرائی تھی ۔
امام خطبہ کے درمیان بارش کے لئے دُعاء کرے گا اور دُعاء کے وقت اپنا رُخ قبلہ کی طرف کر لے گا ، جیسا کہ گذرا ہاتھ اُٹھا کر دُعاء کرے گا اور لوگ اس کی دُعاء پر آمین کہتے جائیں گے ، استسقاء کے لئے رسول اللہ ا کی مختلف دُعائیں منقول ہیں ، غالباً سب سے مختصر دُعاء وہ ہے جس کو امام بخاری نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے ، تین بار : ’’ اللھم أغثنا‘‘ کے الفاظ، یہاں ایک تفصیلی دُعاء کا نقل کر دینا بھی مناسب ہوگا ، جسے امام ابو داؤد نے نقل فرمایا ہے : 
اللھم اسقنا غیثاً مغیثاً مرئیاً مریعاً نافعاً غیر ضار عاجلاً غیر اٰجل ، اللھم اسق عبادک وبہائمک وانشر رحمتک وأحی بلدک المیت ۔ ( ابو داؤد ، حدیث نمبر : ۱۱۶۹، ۱۱۷۶) 
اے اللہ ! ہمیں بارش سے سیراب فرما ، ایسی بارش جو ہماری فریاد کو پوری کرے ، ہلکی پھواریں ، غلہ اگانے والی ہوں ، نفع دینے والی ، نہ کہ نقصان پہنچانے والی ، جلد آنے والی نہ کہ دیر لگانے والی ، خدا وندا ! اپنے بندوں اور جانوروں کو سیراب کر ، اپنی رحمت کو پھیلا اور اپنے مردہ شہروں کو زندہ کر دے ۔ 

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی


مولانا کا شمار ہندوستان کے جید علما ء میں ہوتا ہے ۔ مولانا کی پیدائش جمادی الاولیٰ 1376ھ (نومبر 1956ء ) کو ضلع در بھنگہ کے جالہ میں ہوئی ۔آپ کے والد صاحب مولانا زین الدین صاحب کئی کتابوً کے مصنف ہیں ۔ مولانا رحمانی صاحب حضرت مولانا قاضی مجا ہد الاسلام قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کے بھتیجے ہیں۔آپ نے جامعہ رحمانیہ مو نگیر ، بہار اور دارالعلوم دیو بند سے فرا غت حاصل کی ۔آپ المعھد الاسلامی ، حید رآباد ، مدرسۃ الصالحات نسواں جالہ ، ضلع در بھنگہ بہار اور دار العلوم سبیل الفلاح، جالہ ، بہار کے بانی وناظم ہیں ۔جامعہ نسواں حیدرآباد عروہ ایجو کیشنل ٹرسٹ ،حیدرآباد ، سینٹر فارپیس اینڈ ٹرومسیج حیدرآباد پیس فاؤنڈیشن حیدرآباد کے علاوہ آندھرا پر دیش ، بہار ، جھار کھنڈ ، یوپی اور کر ناٹک کے تقریبا دو درجن دینی مدارس اور عصری تعلیمی اداروں کے سر پرست ہیں ۔ المعھد العالی الھند تدریب فی القضاء والافتاء ، پھلواری شریف، پٹنہ کے ٹرسٹی ہیں ۔اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا اور مجلس تحفظ ختم نبوت ،آندھرا پر دیش کے جنرل سکریٹری ہیں ۔

آل انڈیا مسلم پر سنل لا بورڈ کے رکن تا سیسی اور رکن عاملہ ہیں ۔ مجلس علمیہ ،آندھرا پر دیش کے رکن عاملہ ہیں ۔امارت شرعیہ بہار ،اڑیسہ وجھار کھنڈ کی مجلس شوریٰ کے رکن ہیں ،امارت ملت اسلامیہ ،آندھرا پر دیش کے قاضی شریعت اور دائرۃ المعارف الاسلامی ، حیدرآباد کے مجلس علمی کے رکن ہیں ۔ آپ النور تکافل انسورنش کمپنی ، جنوبی افریقہ کے شرعی اایڈوائزر بورڈ کے رکن بھی ہیں ۔
اس کے علاوہ آپ کی ادارت میں سہ ماہی ، بحث ونظر، دہلی نکل رہا ہے جو بر صغیر میں علمی وفقہی میدان میں ایک منفرد مجلہ ہے ۔روز نامہ منصف میں آپ کے کالم ‘‘ شمع فروزاں‘‘ اور ‘‘ شرعی مسائل ‘‘ مسقتل طور پر قارئین کی رہنمائی کر رہے ہیں ۔
الحمد للہ آپ کئی کتابوں کے مصنف ہیں ۔آپ کی تصنیفات میں ،قرآن ایک الہامی کتاب ، 24 آیتیں ، فقہ القرآن ، تر جمہ قرآن مع مختصر تو ضیحات، آسان اصول حدیث، علم اصول حدیث ، قاموس الفقہ ، جدید فقہی مسائل ، عبادات اور جدیدمسائل، اسلام اور جدید معاشرتی مسائل اسلام اور جدید معاشی مسائل اسلام اور جدید میڈیل مسائل ،آسان اصول فقہ ، کتاب الفتاویٰ ( چھ جلدوں میں ) طلاق وتفریق ، اسلام کے اصول قانون ، مسلمانوں وغیر مسلموں کے تعلقات ، حلال وحرام ، اسلام کے نظام عشر وزکوٰۃ ، نئے مسائل، مختصر سیرت ابن ہشام، خطبات بنگلور ، نقوش نبوی،نقوش موعظت ، عصر حاضر کے سماجی مسائل ، دینی وعصری تعلیم۔ مسائل وحل ،راہ اعتدال ، مسلم پرسنل لا ایک نظر میں ، عورت اسلام کے سایہ میں وغیرہ شامل ہیں۔ (مجلۃ العلماء)

کل مواد : 106
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2025

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن
ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2025