ماہ شعبان کے فضائل و احکام ماہنامہ النخیل شعبان 1440
یہ ماہ مبارک مقدمہ ہے رمضان شریف کا، جیسا کہ ماہ شوال تتمہ ہے رمضان کا۔ قرآن شریف میں حق تعالیٰ نے جو ارشاد فرمایا ہے: حم والکتٰب المبین ، انا انزلناہ فی لیلۃ مبارکۃ انا کنا منذرین ، فیھا یفرق کل امر حکیم، امرًا من عندنا انا کنامرسلین
’’ قسم ہے کتاب واضح کی کہ ہم نے اس (کتاب) کو ایک برکت والی رات میں اتارا ہے، بے شک ہم آگاہ کرنے والے ہیں، ایسی رات میں ہر حکمت والا معاملہ ہمارے حکم سے طے کیا جاتا ہے، بیشک ہم( آپ کو) پیغمبر بنانے والے ہیں۔‘‘
اس آیت میں برکت والی رات سے شعبان کی پندرہویں رات مراد ہے؎ پس اس آیت سے اس ماہ کی اور خاص کرپندرہویں رات کی بہت بڑی فضیلت ثابت ہوگئی اور اس ماہ کے متعلق شریعت مقدسہ کے چند احکام ثابت ہوئے ہیں:(۱)…اس کے چاند کا بہت اہتمام کرنا چاہئے۔(۲)…پندرہویں شب کو عبادت کرنا اور پندرہویں تاریخ کو روزہ رکھنا مستحب ہے۔(۳)…نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنا خلاف اولیٰ ہے۔(۴)…یوم شک میں روزہ رکھنا منع ہے۔یہ سب احکام احادیث میں صراحۃً موجود ہیں۔ مختصر طور پر کچھ درج کئے جاتے ہیں:
(۱)…ارشاد فرمایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ـ’’شمار رکھو شعبان کے چاند کی رمضان کے لئے‘‘( یعنی جب ماہ شعبان کی تاریخ صحیح ہوگی تو رمضان میں اختلاف کم ہوگا)۔ (ترمذی)
(۲)…رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کا اتنا خیال رکھتے تھے کہ کسی ماہ( کے چاند) کا اتنا خیال نہ فرماتے تھے۔ (ابودائود)ان دو روایتوں سے قولاً وفعلاً اس ماہ کے چاند کا اہتمام ثابت ہوگیا۔
(۳)… ارشاد فرمایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے :’’ جب آدھے شعبان کی( یعنی پندرہویں )رات ہو تو اس رات کوشب بیداری کرو اور اس کے دن میں روزہ رکھو کیونکہ اللہ تعالیٰ اس رات غروب آفتاب کے وقت ہی سے آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے اور فرماتا ہے کہ کیا کوئی مغفرت چاہنے والا ہے کہ میں اس کو بخشش دوں، کیا کوئی روزی مانگنے والا ہے کہ میں اس کو روزی دوں، کیا کوئی مصیبت زدہ ہے( کہ عافیت کی دعا مانگے اور) میں اس کو عافیت دوں ، کیا کوئی ایسا ہے؟ کیا کوئی ایسا ہے؟…( رات بھر یہی رحمت کا دریا بہتا رہتا ہے) یہاں تک کہ صبح صادق ہوجائے‘‘۔(ابن ماجہ)
(۴)…حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے روایت کی ہے کہ میں نے اس رات(نفل) نماز کے سجدہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دعا مانگتے ہوئے سنا:
’’أعُوذُ بِعَفْوِکَ مِنْ عِقَابِکَ وَأَعُوْذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ وَأَعُوْذُبِکَ مِنْکَ جَلَّ وَجْھُکَ لَاأُحْصِي ثَنَاءً عَلَیْکَ أَنْتَ کَمَا أَثنَیْتَ عَلٰی نَفْسِکَ‘‘۔(البیھقي و النسائي)
’’ تیرے غصہ سے تیری رضا مندی کی پناہ لیتا ہوں اور تیرے عقاب سے تیرے درگزر کرنے کی پناہ لیتا ہوں اور تجھ سے تیری ہی پناہ مانگتا ہوں، برتر ہے تو ،میں تیری تعریف پوری نہیں کرسکتا تو ویسا ہی ہے جیسے تونے اپنی تعریف کی ہے۔‘‘
پھر جب صبح ہوئی تو میں نے اس دعا کا آپ سے ذکر کیا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ’’ اے عائشہ! اس کو سیکھ لے اور دوسروں کو بھی سکھادے کیونکہ یہ دعا جبرئیل علیہ السلام نے مجھ کو سکھائی ہے اور کہا ہے کہ اسے سجدہ میں بار بار پڑھوں۔‘‘
حدیث سوم سے اس رات کی اور اس میں عبادت کرنے کی نیزروزہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے اور حدیث چہارم سے ایک خاص دعا معلوم ہوگئی اور روایت مذکورہ کے علاوہ اور روایات بھی اس شب مبارک کی فضیلت میں واردہوئی ہیں چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان کی پندرہویں رات کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ’’ اس رات میں وہ سب بنی آدم بھی لکھ لئے جاتے ہیں جو اس سال پیدا ہوں گے اور اسی میں وہ سب بنی آدم بھی لکھ لئے جاتے ہیں جو اس سال میں مریں گے اور اسی رات میں ان کے اعمال اٹھائے جاتے ہیں اور اسی میں ان کے رزق نازل ہوتے ہیں‘‘۔(بیہقی)
(۶)… ارشاد فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے :’’ اللہ تعالیٰ متوجہ ہوتا ہے شعبان کی پندرہویں رات میں، پس مغفرت فرمادیتا ہے سب مخلوق کی، مگر شرک اور کینہ والے شخص کے لئے( مغفرت نہیں فرماتا)‘‘۔ (ابن ماجہ)
ایک اور روایت میں ہے:’’ مگر دو شخص ،ایک کینہ رکھنے والا اور ایک قتل ناحق کرنے والا‘‘۔ ایک اور روایت میں ہے: ’’قطع رحمی کرنے والا‘‘۔اور ایک روایت میں ہے کہ’’ اللہ تعالیٰ نظر(رحمت) نہیںکرتا ہے اس رات میں(بھی) مشرک کی طرف اور نہ کینہ والے کی طرف اور نہ قاطع رحم(یعنی رشتہ ناتہ والوں سے بلاوجہ شرعی تعلق توڑنے والے) کی طرف اور نہ پائجامہ (وغیرہ) ٹخنے سے نیچے لٹکانے والے کی طرف اور نہ ماں باپ کی نافرمانی کرنے والے کی طرف اور نہ ہمیشہ شراب پینے والے کی طرف‘‘(البتہ اگر کوئی توبہ کرچکاہے تو رحمت خداوندی اس پر بھی متوجہ ہوجاتی ہے) ۔
ان کے علاوہ اور گناہ گاروں پربھی نظر رحمت نہ ہونا دوسری روایتوں میں آیا ہے، پس سب گناہوں سے توبہ کرنا چاہئے۔ سب روایتوں پر نظر ڈالنے سے احقر کی فہم ناقص میں یہ آتا ہے کہ کبائر بدوں توبہ معاف نہیں ہوتے اور صغائر سب اس رات کی برکت سے حق تعالیٰ معاف کردیتا ہے۔ واللہ اعلم
(۷)… ایک حدیث شریف میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ(اس رات میں) کلب قبیلے کی بکریوں کے عدد سے بھی زیادہ(لوگوں) کی مغفرت فرمادیتا ہے۔ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ وہ لوگ اتنی کثیر تعداد میں ایسے ہوتے جو (ارتکاب معاصی کے سبب)عذاب جہنم کے مستحق ہوچکے ہیں۔
(۸)…آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ’’ جب شعبان آدھا ہوجائے تو روزہ نہ رکھو‘‘۔ (ابوداود)
(۹)…حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا ہے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان سے زیادہ روزہ رکھتے ہوئے کسی ماہ میں نہیں دیکھا اور ایک روایت میں ہے کہ آپ (کل) ماہ شعبان میں روزہ رکھتے تھے، سوائے تھوڑے دنوں کے۔(متفق علیہ) اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ شعبان کے نصف اخیر میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم روزہ رکھتے تھے اور اس سے پہلی روایت میں اس کی ممانعت آئی ہے، اس لئے یوںکہا جائے کہ امت کے واسطے تو نصف اخیر کے روزے خلاف اولیٰ ہیں مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس سے مستثنیٰ تھے اور یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ جس کو نصف اخیر میں روزے رکھ کر ضعف ہوجائے کہ رمضان کے روزے رکھنا دشوار ہوں اس کے لئے ممانعت ہے اور جس کو ضعف نہ ہو ، اس کے واسطے نہیں۔واللہ اعلم
(۱۰)…ارشاد فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ:’ ’تم میں سے کوئی شخص رمضان کے ایک یا دو دن پہلے سے روزہ نہ رکھے، مگر یہ کہ وہ شخص کسی(خاص ) دن کا روزہ رکھا کرتا ہو‘‘( اور رمضان کے ایک دن پہلے وہ دن ہو، مثلاً ہر پیر کو روزہ رکھنے کا معمول ہے اور۲۹ شعبان کو پیر کا دن ہے) تو وہ شخص اس دن بھی (نفل) روزہ رکھ لے۔(متفق علیہ)
اس سے یوم شک کے روزہ کی ممانعت ثابت ہوگئی اور ایک یا دو دن کا یہ مطلب ہے کہ بعض مرتبہ تو شعبان کا چاند بلا اختلاف نظر آجاتا ہے، ایسے موقع پر صرف ۳۰ شعبان کے متعلق شبہ ہوتا ہے اور بعض مرتبہ شعبان میں بھی اختلاف ہوجاتا ہے۔ اس موقع پر۲۹ کو بھی شبہ ہوتا ہے۔ غرض یہ ہے کہ شبہ کی وجہ سے نہ ۲۹ کو روزہ نہ ۳۰ کو بلکہ جب شریعت کے مطابق ثابت ہوجائے تب رمضان کو شروع سمجھا جائے، البتہ یوم شک میں یہ مستحب ہے کہ ضحوئہ کبریٰ تک خبر کا انتظار کیا جائے۔ اگر کہیں سے معتبر شہادت آجائے تو روزہ کی نیت کرلے ورنہ کھا پی لے۔
تتمہ عالمگیری میں تصریح ہے کہ شب برأت کو قبرستان میں جانا دوسرے اوقات میں جانے سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے اس لئے اس رات کو قبرستان میں جاکر مومنین اور مومنات کے واسطے دعا مانگنی چاہئے۔
اس مبارک رات میں صرف دو تین باتیں ثابت ہیں، عبادت کرنا اور قبرستان میں جاکر دعائے مغفرت کرنا۔ اس کے علاوہ شریعت میں کچھ وارد نہیں ہوا، حتیٰ کہ اس رات کو ایصال ثواب وغیرہ کی بھی کوئی اصل نہیں۔