شوال کے چھ روزوں کے فضائل واحکام

اس تحریر میں شوال کے چھ روزوں کی مسنونیت
اور ان سے متعلقہ احکام ومسائل اور فضائل بیان کیے گئے ہیں۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

  شوال کے چھ روزوں کے فضائل واحکام 

          رمضان المبارک کا ماہ مبارک مکمل ہو گیااور اس کے بعد شوال کا مہینہ شروع ہو چکا ہے، جس کی یکم تاریخ کو ہم عید الفطر کے نام سے جانتے ہیں، اس عید کے بعد شوال کے بقیہ مہینے میں چھ روزے رکھنے کی فضیلت اور ترغیب صحیح احادیث مبارکہ میں ملتی ہے ۔ چنانچہ ملاحظہ ہو کہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:”مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَہ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ کَانَ کَصِیَامِ الدَّہْرِ“․ (صحیح مسلم)

          ترجمہ: رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: ”جس نے رمضان کے روزے رکھے، پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ پورے زمانے کے روزے رکھنے کی طرح ہے“ ۔

           ایک دوسری حدیث میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”مَنْ صَامَ رَمَضَانَ، وَسِتًّا مِنْ شَوَّالٍ، فَکَأَنَّمَا صَامَ السَّنَةَ کُلَّھَا“․”جس نے رمضان کے روزے رکھے اور (اس کے بعد )شوال کے چھ روزے رکھے تو گویا اس نے پورے سال کے روزے رکھے“(مسند احمد)۔

          ان دونوں احادیث میں غور فرمائیں تو پہلی حدیث میں شوال کے چھ روزے رکھنے کوپورے زمانے کے روزے اور دوسری حدیث میں پورے سال کے روزے رکھنے کی مانند قرار دیا گیا ہے۔

          ان دونوں احادیث میں علماء کرام نے اس تطبیق دی ہے کہ مسلمان جب رمضان المبارک کے پورے مہینے کے روزے رکھتا ہے تو (اس قاعدہ کہ ایک نیکی کا کم از کم اجر دس گنا ہے، کے تحت)اس ایک مہینے (یعنی: رمضان المبارک)کے روزے دس مہینوں کے برابر بن جاتے ہیں۔ اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے جائیں تو یہ چھ روزے ساٹھ روزوں یعنی: دو مہینے کے روزوں کے برابر ہو جاتے ہیں،گویا رمضان اور اس کے بعدچھ روزے شوال میں رکھنے والا پورے سال کے (یعنی: تین سو ساٹھ )روزوں کے اجر کا مستحق بن جاتا ہے۔

          اس تشریح سے مذکورہ بالا حدیث کا مطلب واضح سمجھ میں آ جاتاہے کہ گویا اس طریقہ پر عمل کرنے والے شخص نے پورے سال کے روزے رکھے۔

          اور اگر مسلمان کی زندگی کا یہی معمول بن جائے کہ وہ ہر سال رمضان المبارک کے روزوں کے ساتھ ساتھ شوال کے چھ روزوں کا بھی اہتمام کرتا رہے تو یہ ایسے شمار ہو گا، جیسے: اس نے پوری زندگی روزوں میں ہی گزاری ہو۔

          اس توجیہ سے حدیث مذکور کا مضمون کہ ”یہ شخص پورے زمانے کے روزے رکھنے کی طرح ہے“، بالکل واضح ہو جاتا ہے۔

          مذکورہ فضیلت کے علاوہ علماء کرام فرماتے ہیں کہ رمضان المبارک کے روزوں میں جو کوتاہیاں سرزد ہوجاتی ہیں، شوال کے ان چھ روزوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کمیوں اور کوتاہیوں کو دور فرمادیتے ہیں۔ اس طرح ان چھ روزوں کی رمضان کے فرض روزوں سے وہی نسبت ہوگی جو سنن ونوافل کی فرض نمازوں کے ساتھ ہے کہ اللہ تعالیٰ سنن ونوافل کے ذریعہ فرض نمازوں کی کوتاہیوں کو دور کر دیتے ہیں، جیساکہ واضح طور پر احادیث مبارکہ میں موجود ہے ۔

          بعض حضرات ان روزوں کو مکروہ قرار دیتے ہیں، اپنی دلیل میں امام مالک رحمة اللہ علیہ کا قول پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے ان روزوں کو اپنی کتاب ”موٴطا امام مالک“ میں مکروہ قرار دیا ہے۔ نیز کراہت کی دوسری وجہ یہ قرار دیتے ہیں کہ عوام ان روزوں کو فرض روزوں کی طرح ضروری سمجھتی ہے، اس لیے ان روزوں کا رکھنا مکروہ ہے۔

          اس بارے میں عرض یہ ہے کہ جمہور فقہاء؛ احناف، شوافع، اور حنابلہ کے نزدیک یہ روزے مکروہ نہیں ہے، بلکہ مسنون ومستحب ہیں۔ رہا امام مالک رحمہ اللہ کا قول؛ تو اس کے بارے میں یہ عرض ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ نے اپنی کتاب موٴطا امام مالک رحمہ اللہ میں(رمضان کے فوراً بعد یعنی: عیدالفطر کے دوسرے دن سے ہی)ان روزوں کے اہتمام کو مکروہ تحریر کیا ہے۔

          علاوہ ازیں ! بعض حضرات نے عیدالفطر کے فوراً بعد ان چھ روزوں کو رکھ کر ساتویں شوال کی شام کو ایک تقریب کی صورت بنانی شروع کردی تھی، ممکن ہے کہ اسی وجہ سے امام مالک رحمہ اللہ نے عیدالفطر کے دوسرے دن سے اہتمام کے ساتھ ان روزے رکھنے کو مکروہ قرار دیا ہو تاکہ رمضان اور غیر رمضان کے روزوں میں فرق کیا جاسکے، جیساکہ امام قرطبی رحمہ اللہ نے تحریر کیا ہے کہ خراسان کے بعض حضرات نے رمضان کی طرح عیدالفطر کے بعد ان روزوں کا اہتمام کیا۔

          دوسرا احتمال جو بیان کیا جاتا ہے کہ اس زمانہ میں عوام نے اس کوضروری سمجھ رکھا ہے، اس لیے ان پرعمل کرنامنع ہے، تو یہ بھی درست نہیں ہے، اس لیے کہ آج کل کوئی بھی ان روزوں کوفرض یاواجب نہیں سمجھتا،خواص یعنی: اہل علم کاتوسوال ہی پیدانہیں ہوتا،عوام کوجب بھی ان روزوں کی ترغیب دی جاتی ہے تو ساتھ ساتھ یہ بھی واضح کیا جاتا ہے کہ یہ روزے فرض یاواجب نہیں ہیں، محض مسنون اورباعث اجر ہیں۔

شوال کے روزوں سے متعلق کچھ متفرق مسائل

          (#)عید الفطر کے بعد شوال کے یہ چھ روزے فرض، یا واجب نہیں ہیں۔ بلکہ مستحب ومسنون ہیں۔

          (#)اگر کسی شخص کے ذمے رمضان کے روزے بھی باقی ہوں تو افضل یہ ہے کہ پہلے قضاء روزے مکمل کرے، پھر شوال کے یہ روزے رکھے، لیکن اگر کوئی رمضان کے روزوں کی قضا سے پہلے ان چھ روزوں کو رکھنا چاہے تو یہ بھی جائز ہے ، کیونکہ رمضان کے روزوں کی قضا فوری طور پر واجب نہیں ہے بلکہ کسی بھی ماہ میں رمضان کے فوت شدہ روزوں کی قضاء کی جاسکتی ہے۔

          (#)شوال کے مہینے میں یہ چھ روزے رکھتے ہوئے قضاء اور ان روزوں کی نیت جمع کرنا درست نہیں ہے۔ بلکہ جدا جدا ہی رکھنا ضروری ہے۔

          (#)ان روزوں کو عید کے فورا بعد اور مسلسل رکھنا ضروری نہیں ہے، اگرچہ بعض علماء اس کے بھی قائل ہیں۔ لیکن معتبر بات یہ ہی ہے کہ شوال کے پورے مہینے میں جب چاہیں رکھ سکتے ہیں۔

          (#)ان چھ روزوں کے بعد عید منانے کا کوئی تصور شریعت میں نہیں ہے۔

          (#)ان روزوں کی نیت رات سے کرنا ہی ضروری نہیں ہے بلکہ صبح صادق کے بعد اگر کچھ بھی نہ کھایا ہو تو ضحوہ کبریٰ یعنی: زوال سے تقریبا ً ایک گھنٹہ پہلے تک نیت کر سکتے ہیں۔ سحری کھانا سنت ہے لیکن بغیر سحری کے بھی روزہ ہو جاتا ہے۔

          (#)اگر ان روزوں میں سے کوئی روزہ رکھ کر کسی وجہ سے توڑنا پڑ جائے تو اس کی صرف قضاء لازم ہو گی، کفارہ نہیں۔

          (#)اگر کسی شخص نے ان چھ روزوں کو رکھنا شروع کیا، لیکن کسی وجہ سے ایک یا دو روزہ رکھنے کے بعد بقیہ روزے نہیں رکھ سکا ، یعنی: شوال میں ہی چھ روزے مکمل نہیں رکھ سکا تو اس پر باقی روزوں کی قضاء لازم نہیں ہے۔

          (#)اسی طرح اگر کوئی شخص ہر سال ان روزوں کے رکھنے کا اہتمام کرتا ہے مگر اس سال نہ رکھ سکا تو وہ گناہگار نہیں ہو گا اور نہ ہی اس پر ان روزوں کی قضا واجب ہو گی ۔                 

 

 

 

مفتی محمد راشد ڈَسکوی

تدریس وتصنیف
مفتی محمد راشد ڈَسکوی عفی اللہ عنہ
دار الافتاء جامع مسجد اشتیاق، ڈسکہ، سیالکوٹ
سابق استاذ ورفیق شعبہ تصنیف وتالیف، جامعہ فاروقیہ، کراچی

کل مواد : 23
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2025

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن
ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2025