عشرہ ذو الحجہ کے فضائل ومسائل

ماہ ذو الحجہ قمری سال کا آخری مہینہ ہونے کے اعتبار سے مسلمانوں کے لیے درس عبرت ہے کہ الله نے زندگی کی صورت میں جو نعمت تمہیں عطا فرمائی تھی اس میں ایک سال اور کم ہو گیا اور یہ نعمت عظمی جس مقصد کے لیے عطا کی گئی تھی وہ کہاں تک پورا ہوا؟

اس اعتبار سے ماہ ذوالحجہ انسان کو اس کی غفلت سے بیدار کرنے والا بھی ہے۔رب ذوالجلال نے جس طرح سال کے بارہ مہینوں میں سے رمضان المبارک کو اور پھر رمضان المبارک کے تین عشروں میں سے آخری عشرہ کو جو فضیلت بخشی ہے بعینہ ماہ ذوالحجہ کے تین عشروں میں سے پہلے عشرہ کو بھی خاص فضیلت سے نوازا گیا ہے اور اس عشرہ میں اعمال پر خاص اجروثواب رکھا گیا ہے۔

عشرہ ذو الحجہ کے اعمال فضیلتـ میں جہاد فی سبیل اللہ سے بھی بڑھ کر ہیں

حضرت عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺنے ارشاد فرمایا کہ:” الله تعالیٰ کی بارگاہ میں دوسرے ایام کا کوئی عمل عشرہ ذوالحجہ ( یکم ذوالحجہ سے دس ذوالحجہ تک) کے دوران نیک عمل سے بڑھ کر پسندیدہ نہیں، صحابہ کرام  رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول الله! کیا یہ جہاد فی سبیل الله سے بھی بڑھ کر ہے ؟ آپ ﷺنے فرمایا: جہاد فی سبیل الله سے بھی بڑھ کر ہے، ہاں! جو شخص جان اور مال لے کر الله کی راہ میں نکلا، پھر ان میں سے کوئی چیز بھی واپس لے کر نہ آیا، سب کچھ الله کے راستے میں قربان کر دیا، بے شک یہ سب سے بڑھ کر ہے۔“

عن ابن عباس رضی اللہ عنہما قال: قال رسول ﷺ: «ما من أيام العمل الصالح فيها أحب إلى من هذه الأيام» يعني أيام العشر، قالوا: يا رسول الله، ولا الجهاد في سبيل الله؟ قال: «ولا الجهاد في سبيل الله، إلا رجل خرج بنفسه وماله، فلم يرجع من ذلك بشيء»

(سنن أبي داود 2/ 325 رقم الحديث 2438 باب  في صوم العشر)

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺنے فرمایا کہ جو عمل اس دن میں کیا جائے اس سے کوئی عمل افضل نہیں ہے، لوگوں نے سوال کیا کیا جہاد بھی نہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا جہاد بھی نہیں، بجز اس شخص کے جس نے اپنی جان ومال کو خطرے میں ڈالا اور کوئی چیز واپس لے کر نہ لوٹا۔

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہما، عَنِ النَّبِيِّ ﷺأَنَّهُ قَالَ: «مَا العَمَلُ فِي أَيَّامٍ أَفْضَلَ مِنْهَا فِي هَذِهِ؟» قَالُوا: وَلاَ الجِهَادُ؟ قَالَ: «وَلاَ الجِهَادُ، إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ يُخَاطِرُ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ، فَلَمْ يَرْجِعْ بِشَيْءٍ» (صحيح البخاري رقم الحديث 969 باب  فضل العمل في أيام التشريق)

عشرہ ذوالحجہ سال کے بارہ مہینوں میں بڑ ی ممتاز حیثیت رکھتا ہے، پارہ عم میں سورہ فجر کی آیات  والفجر ولیال عشرمیں الله رب العزت نے دس راتوں کی قسم کھائی اور کسی چیز پر الله تعالیٰ کا قسم کھانا اس چیز کی عزت اور حرمت پر دلالت کرتا ہے تو الله تعالیٰ نے سورہ فجر میں جن دس راتوں کی قسم کھائی ہے اس بارے میں مفسرین کی ایک بڑی جماعت کا قول یہ ہے کہ اس سے مراد ماہ ذوالحجہ کی ابتدائی دس راتیں ہیں، لہٰذا اس سے ان دس راتوں کی عزت،عظمت او رحرمت کی نشان دہی ہوتی ہے۔

ایک دن کی روزے کا ثوابـ ایک سال کے برابر  اور رات کی عبادت شب قدر کے برابر :

ایک  روایت میں ان دس ایام کی فضیلت واہمیت بیان فرماتے ہوئے آپ ﷺنے فرمایا کہ ”  ان دنوں میں سے کسی دن میں بھی بندے کا عبادت کرنا الله کو اتنا محبوب نہیں جتنا عشرہ ذوالحجہ میں محبوب ہے۔اس عشرہ کے ہر دن کا روزہ سال بھر کے روزں کے برابر ہے اور اس کی ہر رات کے نوافل شب قدر کے نوافل کے برابر ہیں۔“

عن أبي هريرةﷺ، عن النبي ﷺقال: ما من أيام أحب إلى أن يتعبد له فيها من عشر ذي الحجة، يعدل صيام كل يوم منها بصيام سنة، وقيام كل ليلة منها بقيام ليلة القدر.

(سنن الترمذي ت بشار  رقم الحديث 758 باب ما جاء في العمل في أيام العشر)

یعنی ایک روزہ کا ثواب بڑھا کر ایک سال کے روزوں کے ثواب کے برابر کر دیا اور ان راتوں میں سے ایک رات میں بھی اگر عبادت کی توفیق ہو گئی تو وہ اس طرح ہے جیسے لیلۃ القدر میں عبادت کر لی ہو۔

عشرہ ذو الحجہ کے محبوبـ اعمال:

ایک اور روایت میں ان دس ایام کی فضیلت واہمیت بیان فرماتے ہوئے آپ ﷺنے فرمایا کہ ” دنوں میں سے کسی دن میں بھی بندے کا عبادت کرنا الله کو اتنا محبوب نہیں جتنا عشرہ ذوالحجہ میں محبوب ہے۔ پس اس میں  تہلیل ،تکبیر اور اللہ کا ذکر کثرت سے کریں، اس عشرہ کے ہر دن کا روزہ سال بھر کے روزں کے برابر ہے اور اس کی ہر رات کے نوافل شب قدر کے نوافل کے برابر ہیں  اور اعمال ان دنوں میں سات سو گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے۔“

یعنی سبحان اللہ ،الحمد للہ، ،لا الہ الا اللہ واللہ اکبر ،کثرت سے پڑھا کریں۔

عَن ابْن عَبَّاس رضی اللہ عنہما قَالَ قَالَ رَسُول ﷺ  مَا من أَيَّام أفضل عِنْد وَلَا الْعَمَل فِيهِنَّ أحب إِلَى عز وَجل من هَذِه الْأَيَّام يَعْنِي من الْعشْر فَأَكْثرُوا فِيهِنَّ من التهليل وَالتَّكْبِير وَذكر وَإِن صِيَام يَوْم مِنْهَا يعدل بصيام سنة وَالْعَمَل فِيهِنَّ يُضَاعف بسبعمائة ضعف.(الترغيب والترهيب للمنذري 2/ 128 رقم الحديث 1787 كتاب الْحَج)

عشرہ ذو الحجہ کے اعمال اجرو ثوابـ میں بڑھ کر ہیں

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ:نیکی کا کوئی بھی عمل عشرہ ذو الحجہ میں کیے جانے والے کام سے اللہ تعالی کے نزدیک زیادہ پاکیزہ ہے نہ اجرو ثواب میں بڑھ کر ہے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہما عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: " مَا مِنْ عَمَلٍ أَزْكَى عِنْدَ عَزَّ وَجَلَّ وَلَا أَعْظَمَ مَنْزِلَةً مِنْ خَيْرِ عَمَلٍ فِي الْعَشْرِ مِنَ الْأَضْحَى (شرح مشكل الآثار  رقم الحديث 2970 )

عشرہ ذو الحجہ کا ایکـ دن فضیلتـ میں دسـ ہزار دنوں کے  برابر ہے

حضرت انس بن مالك رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین عشرہ ذو الحجہ کے متعلق یہ فرماتے تھے کہ :ایک دن ہزار دن کے برابر ہے اور عرفہ کا دن دس ہزار دنوں کے برابر ہے یعنی فضیلت میں۔

وَعَن أنس بن مَالك ﷺ قَالَ كَانَ يُقَال فِي أَيَّام الْعشْر بِكُل يَوْم ألف يَوْم وَيَوْم عَرَفَة عشرَة آلَاف يَوْم قَالَ يَعْنِي فِي الْفضل، رَوَاهُ الْبَيْهَقِيّ والأصبهاني وَإسْنَاد الْبَيْهَقِيّ لَا بَأْس بِهِ.

 (الترغيب والترهيب للمنذري 2/  128 رقم الحديث 1788 كتاب الحج)

عشرہ ذالحجہ کے مخصوص اعمال

عشرہ ذوالحجہ میں بال اور ناخن نہ کاٹنا

عشرہ ذوالحجہ کا خاص الخاص عمل حج ہے اور یہ اہل استطاعت مسلمان پر زندگی میں صرف ایک ہی دفعہ فرض کیا گیا ہے، لہٰذا اس کی خاص برکات صرف وہی لوگ حاصل کرسکتے ہیں جو بیت الله میں حاضر ہو کر حج کریں، لیکن الله نے اپنے فضل وکرم اور بے پایہ رحمت سے تمام اہل ایمان کو اس بات کا موقع عنایت فرما دیا کہ وہ اپنے مقام پر رہ کر بھی حجاج کرام سے ایک طرح کی نسبت پیدا کر لیں اور ان کے کچھ اعمال میں شریک ہو جائیں، لہٰذا ذوالحجہ کا چاند دیکھتے ہی جو حکم مسلمانوں کو سب سے پہلے ملتا ہے وہ یہ ہے کہ ام المؤمنین حضرت سلمہ  رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ رسول الله ﷺنے فرمایا کہ:”  جب ذی الحجہ کا پہلا عشرہ شروع ہو جائے تو تم میں سے جو آدمی قربانی کرنے کا ارادہ کرے وہ ( اس وقت تک کہ قربانی نہ کرے) اپنے بال اور ناخن بالکل نہ کتروائے" ایک روایت میں یوں ہے کہ " نہ بال کٹوائے اور نہ ناخن کتروائے۔" ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ " جو آدمی بقر عید کا چاند دیکھے اور وہ قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو وہ (قربانی کے لینے تک) اپنے بال اور ناخن نہ کٹوائے۔“

وَعَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رضي الله عنها قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ ﷺ : «إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ وَأَرَادَ بَعْضُكُمْ أَنْ يُضَحِّيَ فَلَا يَمَسَّ مِنْ شَعْرِهِ وَبَشَرِهِ شَيْئًا» وَفِي رِوَايَةٍ «فَلَا يَأْخُذَنَّ شَعْرًا وَلَا يَقْلِمَنَّ ظُفْرًا» وَفِي رِوَايَةٍ «مَنْ رَأَى هِلَالَ ذِي الْحِجَّةِ وَأَرَادَ أَنْ يُضَحِّيَ فَلَا يَأْخُذْ مِنْ شَعْرِهِ وَلَا مِنْ أَظْفَارِهِ» .

(رَوَاهُ مُسلم مشكاة المصابيح 1/ 458 رقم الحديث 1459 باب في الأضحية)

حضرت عبدالله بن عمرو بن العاص  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:” مجھے حکم دیا گیا ہے ، قربانی کے روز عید منانے کا، جو الله تعالیٰ نے اس امت کے لیے مقرر فرمائی ہے۔ ایک شخص عرض گزار ہوا کہ اگر مجھے کچھ میسر نہ آئے سوائے اس اونٹی یا بکری وغیرہ کے، جو دودھ دوہنے کے لیے عاریتاً یا کرائے پر ملی ہو تو کیا اس کی قربانی پیش کر دوں؟ آپ ﷺنے فرمایا نہیں! بلکہ تم اپنے بال کتراؤ، ناخن کاٹو، مونچھیں پست کرو اور موئے زیر ناف صاف کرو، الله تعالیٰ کے نزدیک بس یہی تمہاری قربانی ہے۔“

عَنْ عَبْدِ  بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ﷺ، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: «أُمِرْتُ بِيَوْمِ الْأَضْحَى عِيدًا جَعَلَهُ  عَزَّ وَجَلَّ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ». قَالَ الرَّجُلُ: أَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ أَجِدْ إِلَّا أُضْحِيَّةً أُنْثَى أَفَأُضَحِّي بِهَا؟ قَالَ: «لَا، وَلَكِنْ تَأْخُذُ مِنْ شَعْرِكَ وَأَظْفَارِكَ وَتَقُصُّ شَارِبَكَ وَتَحْلِقُ عَانَتَكَ، فَتِلْكَ تَمَامُ أُضْحِيَّتِكَ عِنْدَ عَزَّ وَجَلَّ»

(سنن أبي داود رقم الحديث 2789 بَابُ مَا جَاءَ فِي إِيجَابِ الْأَضَاحِيِّ)

یوم عرفہ کا روزہ دو سال کے گناہوں کی معافی کا  ذریعہ ہے

نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ ”یوم عرفہ یعنی 9 ذوالحجہ کا روزہ ایک سال گزشتہ او رایک سال آئندہ کے گناہوں کا کفارہ ہے۔“

صيام يوم عرفة، أحتسب على أن يكفر السنة التي قبله، والسنة التي بعده،

(صحيح مسلم رقم الحديث 1162 باب استحباب صيام ثلاثة أيام من كل شهر)

فضائل پر گناہوں کی معافی  سے مراد صغیرہ گناہ ہیں

احادیث فضائل میں جہاں بھی کسی نیک عمل سے گناہوں کے معاف ہونے کا ذکر ہے ان سے صغیرہ گناہ مراد ہیں او رجہاں تک کبیرہ گناہوں کا تعلق ہے وہ بغیر توبہ وندامت کے کسی عمل سے معاف نہیں ہوتے او رپھر توبہ سے بھی وہ گناہ کبیرہ معاف ہوتے ہیں جن کا تعلق حقوق الله سے ہو نہ کہ حقوق العباد سے۔

عرفہ کا روزہ غیر حاجی کے لئے ہے

عرفہ کے دن، جو دراصل حج کا اہم ترین دن ہے، روزہ کی یہ فضیلت غیر حاجیوں کے لیے ہے کہ اس طرح حجاج کرام پر نازل ہونے والی رحمتوں او ربرکتوں میں شامل ہو سکتے ہیں۔ جب کہ حجاج کے لیے مقبول ترین عمل اس دن وقوف عرفات ہے، اگر حجاج اس دن روزہ رکھیں گے تو انہیں وقوف عرفہ کے بعد مزدلفہ جانے میں مشکل پیش آئے گی، لہٰذا حجاج کرام کے لیے اس دن روزہ رکھنے کی ممانعت بھی ہے ۔

حضرت ام فضل رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ :صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عرفہ کے دن کے روزہ کے متعلق اختلاف کیا  بعضوں نے کہا کہ: آپ ﷺ روزہ سے ہیں، بعضوں نے کہا کہ :آپ ﷺ روزہ سے نہیں ہیں،میں نے حضور ﷺ کے پاس دودھ  کا ایک پیالہ بھیجا اور اس وقت آپ ﷺ اونٹ پر تھے تو آپ ﷺ نے اس کو پی لیا۔

عَنْ أُمِّ الفَضْلِ بِنْتِ الحَارِثِرضي الله عنها، أَنَّ نَاسًا اخْتَلَفُوا عِنْدَهَا يَوْمَ عَرَفَةَ فِي صَوْمِ النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ بَعْضُهُمْ: هُوَ صَائِمٌ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَيْسَ بِصَائِمٍ، «فَأَرْسَلْتُ إِلَيْهِ بِقَدَحِ لَبَنٍ وَهُوَ وَاقِفٌ عَلَى بَعِيرِهِ، فَشَرِبَهُ» (صحيح البخاري 2/ 162 رقم الحدیث 1661)

 تکبیراتـ تشریق

وَاذْكُرُوا فِي أَيَّامٍ مَعْدُودَاتٍ  اور یاد کرتے رہو اللہ کو گنتی کے چند دنوں میں ،ایام معدودات سے ایام تشریق مراد ہیں۔(مظہری)

تکبیر تشریق کی اصلیت یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسمعیل علیہ السلام کو لٹایا تو اﷲ تبارک وتعالیٰ نے حضرت جبرئیل  علیہ السلام کو حکم دیا کہ فدیہ لے کر جاؤ ۔ لیکن یہ فدیہ لے کر آئے تو اس ڈر سے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت اسمعیل  علیہ السلام کو ذبح کر ڈالیں  گے ، اﷲ اکبر اﷲ اکبر پکارنے لگے۔ حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام  نے جب یہ آواز سنی تو بشارت سمجھ کر پکاراٹھتے ’’ لا الہ الا اﷲ واﷲ اکبر‘‘ حضرت اسمعیل علیہ السلام  سمجھے کہ فدیہ آگیا تو اﷲ اکبر وﷲ الحمد کہتے ہوئے اﷲ تعالیٰ کی حمد اور اس کا شکر ادا کرنے لگے ۔(شامی ج۱ ص ۵۸۵)

تکبیرِ تشریق کب سے کب تک ہے؟

 تکبیرِ تشریق نویں ذی الحجہ کی نماز فجر سے تیرہویں ذی الحجہ کی نماز عصر تک ہر فرض نماز کے فوراً بعد مردوں کے لئے بآواز بلند اور عورتوں کے لئے ایک مرتبہ آہستہ کہنا واجب ہے۔

اجْتَمَعَ عُمَرُ وعَلِىٌّ وابْنُ مَسْعُودٍ عَلَى التَّكْبِيرِ فِى دُبُرِ صَلَاةِ الْغَدَاةِ مِنْ يَوْمِ عَرَفَةَ، فَأمَّا ابْنُ مَسْعُودٍ قَالَ: صَلَاةُ الْعَصْرِ مِنْ يَوْمِ النَّحْرِ، وَأَمَّا عُمَرُ وَعَلِىٌّ قَالَا: صَلَاةُ الْعَصْرِ مِنْ آخِرِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ".

(الجامع الكبير15/ 290)

عن عبيدةَ قالَ: قَدِمَ عَلينَا علىُّ بنُ أبِى طالبٍ فَكَبَّر يَومَ عرفةَ من صلاةِ الغداةِ إلى صلاةِ العصرِ من آخرِ أيَّامِ التشريقِ يقولُ: أكبرُ، أكبرُ، لاَ إِلَهَ إلاَّ الله، و أَكْبَرُ أكبرُ وِلله الحمدُ".

 «الجامع الكبير 17/ 631»

 أوله من فجر عرفة إلی عصر الیوم الخامس آخر أیام التشریق وعليه الاعتماد.

(شامی زکریا ۳؍۶۴، ایضاح المسائل ۳۷)

 تکبیر تشریق کے الفاظ یہ ہیں :

أکبر أکبر لا إله إلا و أکبر أکبر ولله الحمد․

تکبیرِ تشریق کتنی مرتبہ پڑھی جائے؟

تکبیرِ تشریق اصلا ایک مرتبہ پڑھنا واجب ہے، تاہم کوئی شخص ایک سے زیادہ مرتبہ پڑھ لے تو بھی حرج نہیں۔ ویجب تکبیر التشریق فی الأصح للأمر به مرة وإن زاد عليها یکون فضلاً۔

 (درمختار 2/177)

تکبیرِ تشریق کن لوگوں پر واجب ہے؟

 تکبیرِ تشریق مقیم، مسافر، منفرد، جماعت، عورت، اہلِ شہر اور دیہات کے رہنے والوں پر واجب ہے۔ ووجوبه علی إمام مقیم بمصر وعلی مقتد مسافر أو قروی أو امرأة لکن المرأة تخافت ویجب علی مقیم اقتدی بمسافر، وقالا بوجوبه فور کل فرض مطلقاً ولو منفرداً أو مسافراً أو امرأة لأنه تبع للمکتوبة۔ (رد المحتار ، زکریا ۳؍۶۴)

 تکبیرِ تشریق بھول جانا

تکبیرِ تشریق کہنا واجب ہے اگر کوئی مانع فعل صادر ہوجائے مثلاً مسجد سے باہر نکل گیا یا کوئی بات چیت کرلی یا عمداً وضو توڑ دیا، تو ان تمام صورتوں میں تکبیرِ تشریق ساقط ہوجائے گی لیکن سہواً وضو ٹوٹ جائے تو تکبیر کہہ لے اور اگر قبلہ سے سینہ پھر گیا تو اس میں دو روایتیں ہیں؛ لہٰذا احتیاطاً تکبیر کہہ لی جائے۔ عقب کل فرض عینی بلا فصل یمنع البناء فلو خرج من المسجد أو تکلم عامداً أو ساهیاً أو أحدث عامداً سقط عنه التکبیر وفی استدبار القبلة روایتان ولو أحدث ناسیاً بعد السلام الأصح أنه یکبر ولایخرج للطهارة۔ (شامی زکریا ۳؍۶۳، احسن الفتاویٰ ۴؍۱۲۴، فتاویٰ دارالعلوم ۵؍۲۰۶)

مسبوق پر تکبیرِ تشریق

مسبوق پر بھی تکبیرِ تشریق واجب ہے وہ اپنی بقیہ رکعات پوری کرنے کے بعد پڑھے گا۔ والمسبوق یکبر وجوباً کاللاحق۔ (شامی زکریا ۳؍۶۵، ہندیہ ۱؍۱۵۲)

عورتوں پر تکبیرِ تشریق

 عورتوں پر بھی تکبیرِ تشریق واجب ہے، لیکن وہ بالکل آہستہ آہستہ پڑھیں گی۔ یجب علی المرأة والمسافر، والمرأة تخافت بالتکبیر۔ (ہندیہ ۱؍۱۵۲، شامی زکریا ۳؍۶۴)

 

 

 

مفتی محمد خان عفی عنہ

فاضل جامعہ اشرفیہ لاہور
کل مواد : 7
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2025

تبصرے

    • جزاک اللہ خیرا،بہت ہی مفید اور مدلل تحریر ہے تمام احادیث کے حوالوں کے ساتھ تحریر کردہ ہے اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی شایان شان جزائے خیر عطافرمائے۔ ایک گزارش ہے کہ اپنی ویبسائٹ کو اردو یا انگریزی میں شفٹ کرلیں ، کیونکہ لاگ ان وغیرہ میں بہت دشواری کا سامنا ہے ۔

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن
ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2025