شب براءت کے فضائل و احکام

تفاسیر اور فقھاء کرام کے اقوال کی روشنی میں شب براءت کے فضائل واحکام کے متعلق جامع مانع تحریر

شب برأت  کے فضائل و احکام

مولانا محمد داؤد آزاد

رفیق شعبہ تصنیف و تحقیق جامعہ بنوریہ عالمیہ کراچی

شعبان اسلامی کیلنڈر کا آٹھواں مہینہ ہے۔اس میں ایک اہم رات ہے ،جو  مہینے کے بلکل وسط میں (14 اور 15 شعبان کی درمیانی رات کو) منائی جاتی ہے،یہی وجہ ہے کہ اسے نصف شعبان  بھی کہتے ہیں۔ یہ بابرکت رات 14 شعبان کو غروب آفتاب سے شروع ہوتی ہے اور 15 شعبان کی فجر پر ختم ہوتی ہے۔ اَحادیث مبارکہ سے بھی شعبان المعظم کی 15 ویں رات کی فضیلت و خصوصیت ثابت ہے جس سے مسلمانوں کے اندر اتباع و اطاعت اور کثرت عبادت کا ذوق و شوق پیدا کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔ عرفِ عام میں اسے شبِ برأت یعنی دوزخ سے نجات اور آزادی کی رات بھی کہتے ہیں، لفظ شبِ برأت اَحادیث مبارکہ کے الفاظ ’’عتقاء من النار‘‘ کا با محاورہ اُردو ترجمہ ہے۔ اس رات کو یہ نام خود رسول اﷲ ﷺ نے عطا فرمایا کیوں کہ اس رات رحمتِ خداوندی کے طفیل لاتعداد انسان جہنم سے نجات پاتے ہیں۔

اس فضیلت و بزرگی والی رات کے کئی نام ہیں:

  • اللیلۃ المبارکۃ: برکتوں والی رات۔
  • لیلۃ البراء ۃ      : دوزخ سے آزادی ملنے کی رات۔
  • لیلۃ الصَّک: دستاویز والی رات۔
  • لیلۃ الرحمۃ: اللہ تعالیٰ کی رحمت خاصہ کے نزول کی رات

اس کو شب برأت اور شب صک اس لئے کہتے ہیں کہ بُندار یعنی وہ شخص کہ جس کے ہاتھ میں وہ پیمانہ ہوکہ جس سے زمیوں سے پورا خراج لے کر ان کے لئے برأت لکھ دیتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ اس رات کو اپنے بندوں کے لئے بخشش کا پروانہ لکھ دیتا ہے۔ اس کے اور لیلۃ القدر کے درمیان چالیس راتوں کا فاصلہ ہوتا ہے۔ یہ بھی ایک قول ہے کہ یہ رات پانچ خصوصیتوں کی حامل ہوتی ہے۔

  • اس میں ہر کام کا فیصلہ ہوتا ہے۔
  • اس میں عبادت کرنے کی فضیلت ہے۔
  • اس میں رحمت کانزول ہوتا ہے۔
  • اس میں شفاعت کا اتمام ہوتا ہے۔
  • اور پانچویں خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس رات میں یہ عادت کریمہ ہے کہ اس میں آب زمزم میں ظاہراً زیادتی فرماتا ہے۔ (تفسیر کشاف)

مختلف ممالک میں اس دن کے الگ الگ نام بھی ہیں۔ نصف شعبان کو جنوبی ایشیا میں خاص طور پر برصغیر میں شب برأت کے نام سے جانا جاتا ہے،جبکہ  عربی میں لیلۃ البراء ۃ      ، انڈونیشیا اور ملائیشیا میں نسفو سیابان (مالم نسفو سیابان) اور ترکی میں برأت قندیل اسی طرح تقریبا ہر زبان میں ایک خاص نام   سے جانی جاتی ہے ۔

قرآن و حدیث کی روشنی میں  شب برأت  کا حکم    

اِنَّـآ اَنْزَلْنٰـهُ فِیْ لَيْلَةٍ مُّبٰـرَکَةٍ اِنَّا کُنَّا مُنْذِرِيْنَ فِيْهَا يُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِيْمٍ

بے شک ہم نے اسے ایک بابرکت رات میں اتارا ہے۔ بے شک ہم ڈر سنانے والے ہیں اس (رات) میں ہر حکمت والے کام کا (جدا جدا) فیصلہ کردیا جاتاہے۔(دخان2تا4)

ان آیات مبارکہ  کے تحت اکثر مفسرین  نے  لیلۃالقدر کے بعد ثانوی درجے میں شب برأت کا ذکر بھی فرمایا ہے اور اس رات کی فضیلت اور اہمیت پر توجہ دلانے کی کوشش کی گئی ہے جن میں سےچند معروف مفسرین کے اسما ئے گرامی یہ ہیں :

  1. تفسیر ابن کثیر                                             
  2.  تفسیرجلالین
  3.  تفسیرابن ابی حاتم
  4.  تفسیرالنکت والعیون
  5.  تفسیرثعلبی  اندلسی ۔
  6.  تفسیرکبیر الرازی
  7.  تفسیرمنیرزحیلی
  8.  تفسیرمظہری
  9.  تفسیردرمنثور
  10. تفسیرالبحرالمحیط

 

تقریبا دس صحابہ کرام سے شب برأت کے متعلق روایات منقول ہیں

حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے روایت ہے،   آپ فرماتی ہیں کہ:میں نے نبی اکرم ﷺ کو ایک رات بستر استراحت پر نہ پایا تو میں آپ کی جستجو میں نکلی آپ کو بقیع میں اس طرح پایا کہ آپ کا سر مبارک آسمان کی طرف اٹھا ہوا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے عائشہ کیا تمہیں اس کا خوف ہوا کہ اللہ اور اس کا رسول تم پر ظلم کرے گا،میں نے عرض کیا: مجھے یہ خوف نہیں ہے مگر میں نے یہ گمان کیا کہ شاید آپ کسی اور زوجہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ  تعالی آسمان دنیا کی طرف پندرھویں شعبان کی شب کو (اپنی شان کے مطابق) نزول فرماتا ہے۔ پس قبیلہ ’’بنی کلب‘‘ کی بکریوں کے بالوں کی گنتی سے زیادہ اللہ تعالیٰ مخلوق کو بخش دیتا ہے۔( ابن ابی شیبہ ترمذی، ابن ماجہ ،بیہقی)حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:نصف شعبان کی رات رحمتِ خداوندی آسمان دنیا پر نازل ہوتی ہے۔ سو ہر شخص کو بخش دیا جاتا ہے سوائے مشرک شخص کے یا جس کے دل میں کینہ ہو۔(بیہقی ، شعب الايمان) امام بغوی نے نبی اکرم ﷺ سے مرفوع روایت نقل کی ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:شعبان سے شعبان تک اموات لکھی جاتی ہیں یہاں تک کہ آدمی نکاح کرتا ہے اور اس کے گھر اولاد پیدا ہوتی ہے حالانکہ اس کا نام مُردوں میں لکھا جاچکا ہوتا ہے۔(تفسير ابن ابی حاتم)

اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ” اس رات میں تمام مخلوق کی مغفرت کردی جاتی ہے سوائے سات قسم کےافراد اور      وہ یہ ہیں:مشرک،والدین کانافرمان،کینہ پرور،شرابی،قاتل،شلوارکوٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا اورچغل خور،ان سات افرادکی اس عظیم رات میں بھی مغفرت نہیں ہوتی جب تک کہ یہ اپنے جرائم سے توبہ نہ کرلیں۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک روایت منقول ہے کہ: اس رات میں عبادت کیاکرواوردن میں روزہ رکھاکرو،اس رات سورج غروب ہوتے ہی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اوراعلان ہوتاہے کون ہے جوگناہوں کی بخشش کروائے؟کون ہے جورزق میں وسعت طلب کرے؟کون مصیبت زدہ ہے جومصیبت سے چھٹکاراحاصل کرناچاہتاہو؟ ۔

مفسر قرآن امام سیوطی        لکھتے ہیں کہ خطیب بغدادی اور ابن نجار نے حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے روایت کی ہے کہ:رسول اللہ ﷺ پورے شعبان کے روزے رکھ کر اس کو رمضان کے ساتھ ملادیتے تھے اور آپ کسی بھی ماہ کے تمام دنوں کے روزے نہ رکھتے تھے سوائے شعبان کے۔ میں نے عرض کی: یارسول اللہ ﷺشعبان کا مہینہ آپ کو بڑا پسند ہے کہ آپ اس کے روزے رکھتے ہیں؟ آپ ﷺنے فرمایا: ہاں اے عائشہ (رضی اللہ عنہا): کوئی نفس بھی پورے سال میں فوت نہیں ہوتا مگر اس کی اجل شعبان میں لکھ دی جاتی ہے۔ تو میں پسند کرتا ہوں کہ جب میری اجل لکھی جائے تو میں اللہ کی عبادت اور عمل صالح میں مصروف ہوں۔(تفسیر در منثور)

 حضرت ابن عمر (رضی اللہ عنہما) سے اللہ تعالیٰ کے اس قول مبارکہ ’فِیْہَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْم‘ کے تحت روایت کی ہے۔ آپ نے فرمایا:ایک سال سے دوسرے سال تک کے امور (شقاوت و سعادت) یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے پاس کتاب میں تحریر ہے اس میں کوئی تغیر و تبدل نہیں ہوتا۔(تفسير ابن ابی حاتم)

امام بیہقی نے حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے روایت کی ہے کہ:رسول اللہ ﷺ نے رات کو اٹھ کر نماز پڑھی اور بہت طویل سجدہ کیا، حتی کہ مجھے گمان ہوا کہ آپ کا انتقال ہوگیا ہے۔ میں اٹھی اور آپ کے پائے اقدس کا انگوٹھا ہلایا وہ ہلا تو پھر میں لوٹ آئی۔ جب آپ نے سجدہ سے سر اٹھایا اور نماز تمام کی۔ تو فرمایا: اے عائشہ اے حمیرا: کیا تم کو یہ گمان ہوگیا تھا کہ نبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تم سے زیادتی کی ہے؟ عرض کیا: نہیں خدا کی قسم! یارسول اللہ ﷺ لیکن آپ کے طویل سجدہ نے مجھے وفات کے خوف میں مبتلا کردیا تھا۔ فرمایا: کیا تم جانتی ہو کہ یہ کونسی رات ہے؟۔ عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتا ہے۔ فرمایا: پندرھویں شعبان کی رات ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ اس رات میں اپنے بندوں پر ظہور فرماتا ہے تو توبہ کرنے والوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اور رحم چاہنے والوں پر رحم فرماتا ہے اور کینہ پروروں کو جیسے وہ تھے۔ اسی پر رکھتا ہے۔            (بیہقی ، شعب الايمان)

شب برأت  نامور علماء کے نزدیک:

امام شافعی کے نزدیک:پانچ راتیں ایسی ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے دعائیں قبول ہوتی ہیں، یہ ہیں (1) جمعہ کی رات، (2) عید الفطر سے پہلے کی رات، (3) عید الاضحیٰ سے پہلے کی رات، (4) پہلی رات۔ رجب کی رات اور (5) نصف شعبان کی رات۔

امام مالک کے مطابق:چار راتیں ہیں جن میں نیکی کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، (1) عید الفطر کی رات، (2) عید الاضحیٰ سے پہلے کی رات، (3) عرفات کی رات (9 ذی الحجہ کو حج کے دوران) 5) نصف شعبان کی رات۔ (تفسیر در منثور)

شب برأت  میں نبوی تعلیمات

ان احادیث مبارکہ اورصحابہ کرام ؓاوربزرگانِ دینؒ کے عمل سے ثابت ہوتاہے کہ اس رات میں تین کام کرنے کے ہیں:

1۔قبرستان جاکرمردوں کے لئے ایصال ثواب اورمغفرت کی دعا کی جائے۔لیکن یادرہے کہ نبی کریم ﷺ سے ساری حیاتِ مبارکہ میں صرف ایک مرتبہ شب برأت میں جنت البقیع جاناثابت ہے۔اس لئے اگرکوئی شخص زندگی میں ایک مرتبہ بھی اتباع سنت کی نیت سے چلاجائے تواجروثواب کاباعث ہے۔

2۔اس رات میں نوافل،تلاوت،ذکرواذکارکااہتمام کرنا۔اس بارے میں یہ واضح رہے کہ نفل ایک ایسی عبادت ہے جس میں تنہائی مطلوب ہے یہ خلوت کی عبادت ہے، اس کے ذریعہ انسان اللہ کاقرب حاصل کرتاہے۔لہذانوافل وغیرہ تنہائی میں اپنے گھرمیں اداکرکے اس موقع کوغنیمت جانیں۔

3۔دن میں روزہ رکھنابھی مستحب ہے، ایک تواس بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے اوردوسرایہ کہ نبی کریم ﷺ ہرماہ ایام بیض(13،14،15) کے روزوں کااہتمام فرماتے تھے ،لہذااس نیت سے روزہ رکھاجائے توموجب اجروثوب ہوگا۔

شب برأت   کے فوائد؛

شب برأت دنیا و آخرت کے سنوارنے کے لئے ایک فکر کا نام ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اکرم ﷺ سے دوری کو ختم کرکے قربت کی طرف ایک الارم ہے۔ حب الہٰی اور محبت رسول ﷺ کی طرف ایک دعوت ہے۔ جس پر عمل پیرا ہوکر انسان دنیا اور آخرت سنوار سکتا ہے۔ شب برأت ہمارے لئے ایک الٹی میٹم ہے کہ اس رات اللہ کی یاد میں اشکبار ہوں۔ یہ رات اللہ کے فیوضات کا بحرِ بیکراں ہے جس میں غوطہ زن ہوکر اپنے من کو سیراب کیا جاسکے۔ لیکن آج کے دور میں ہم اس کے برعکس اس رات کو پٹاخوں اور آتش بازی جیسے کاموں کی نذر کردیتے ہیں۔شب برأت اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اسلام کے اصولوں سے عاری لوگوں کے خلاف ایک نقارہ ہے جس میں باور کروایا جارہا ہے کہ یہ یاس اور قنوطیت تمہارے کئے ہوئے اعمال کی بناء پر ہے۔ اس رات اپنے اعمال کی اصلاح کی طرف ترغیب دی جارہی ہےکہ شب برأت بھٹکے ہوئے اور سرکش لوگوں کے لئے ایک دستک ہے جو آخرت کی زندگی کو بھول کر دنیاوی زندگی کے گورکھ دھندوں میں بری طرح سے پھنسے ہوئے ہیں۔ یہ رات ان کے لئے اپنے رب کی طرف بلاوہ، اور اسے منانے کی رات ہے۔ جب کوئی شخص کماحقہ اس رات کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی یاد میں بسر کرتا ہے، تسبیح و تہلیل کرتا ہے، درود و سلام کے تحفے پیش کرتا ہے، گناہوں سے معمور دامن ذکر الہٰی سے صاف کرتا ہے تو یہ رات اسکے لئے بہت سے انعام و اکرام لاتی ہے۔ تقدیریں بدل جاتی ہیں، زندگی کے حالات بدل جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس ایک عظیم رات کو اس میں کار فرما روح کے مطابق گزارنے کے ہی بدولت ممکن ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے ۔

یَمْحُوا اﷲُ مَا یَشَآء وَ یُثْبِتُ وَ عِنْدَه اُمُّ الْکِتٰبِ

اﷲ جس (لکھے ہوئے) کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور (جسے چاہتا ہے) ثبت فرما دیتا ہے، اور اسی کے پاس اصل کتاب (لوحِ محفوظ) ہے۔(سورہ الرعد)

شب برأت ہمارے احوال کو بدل دیتی ہے۔ اگر انسان احسن طور پر اس کے لوازمات پورے کرے تو یہ رات گناہوں کے ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اگر اس رات اپنے رب کے حضور ندامت اشک کے آنسو بہائے اور نالہ و فریاد کرے، اپنے صغائر و کبائر گناہوں کے لئے معافی کا خواست گار بنے تو اس وقت بدحالی،تنگی، آسانی میں بدل جاتی ہے۔ بنی اسرائیل کے ایک بے حد گناہگار شخص نے صرف توبہ کا ارادہ کیا، ابھی مکمل طور پر توبہ نہ کی، مگر نیت و ارادہ کے سبب تقدیر بدل دی گئی اور جنت میں پہنچادیا گیا۔ اگر آج حضور ﷺ کی افضل امت کا ایک گناہگار اور سرکش شخص توبہ کرے تو کیا اس کی تقدیر نہیں بدل سکتی؟ بالخصوص شب برأت کا تو اور افضل مقام ہے جہاں حضور ﷺ کے ارشاد گرامی کی رو سے اپنے رب سے گناہوں کی معافی مانگنا اور آہ و زاری کرکے اپنے رب سے آئندہ گناہوں سے سچی توبہ کرنا ہے۔ شب برأت ہمیں اس عمل کی طرف دعوت دے رہی ہے کہ اس رات محاسبہ نفس، توبہ، تجدید عہد کے ذریعے دنیوی و اخروی فلاح کا ساماں تیارکریں۔

 شب برأت  میں ہونے والی خرافات

آپ ﷺ سے قبرستان جانا تو ثابت ہے لیکن قبروں پر پھول پتیاں،چادرچڑھاوے،اورچراغاں کااہتمام کرنااورہرسال جانے کولازم سمجھنااس کوشب برأت کے ارکان میں داخل کرنایہ ٹھیک نہیں ہے۔جوچیزنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جس درجے میں ثابت ہے اس کواسی درجہ میں رکھناچاہئے اسی کانام اتباع دین ہے، نوافل کی جماعت اورمخصوص طریقہ اپنانادرست نہیں ہے۔یہ فضیلت والی راتیں شوروشغب اورمیلے،اجتماع منعقدکرنے کی راتیں نہیں ہیں،بلکہ گوشۂ تنہائی میں بیٹھ کراللہ سے تعلقات استوارکرنے کے قیمتی لمحات ہیں ان کوضائع ہونے سے بچائیں، رات میں پٹاخے بجانا،آتش بازی کرنا اورحلوے کی رسم کااہتمام کرنایہ سب خرافات اوراسراف میں شامل ہیں،شیطان ان فضولیات میں انسان کومشغول کرکے اللہ کی مغفرت اورعبادت سے محروم کردیناچاہتاہے اوریہی شیطان کااصل مقصدہے۔

خلاصہ :

نصف شعبان کی رات کو عبادت کرنے والا اپنے رب سے راز و نیاز سلف صالحین  کے طریقے کے مطابق کر سکتا ہےاور عبادت نہ کرنے والا شریعت کے کسی حکم  کی نافرمانی کرنے والا نہیں گردانا جائے گا لہذا عبادت  میں مشعول ہونے والا اجر کا مستحق ہے اور اس رات کو عبادت نہ کرنے والا گناہ گار نہیں لھذا اس پر کسی قسم کی طعن و تشنیع وتنکیر کرنا شرعا درست نہیں ۔

 

مولانا محمد داؤدآزاد

استاد تفسیر جامعہ بنوریہ عالمیہ
نگران تخصص فی التفسیر(جامعہ بنوریہ عالمیہ)
کل مواد : 1
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2025

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن
ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2025