فقہیاتِ رمضان (02) : ماہ رمضان ؛ فضائل و مسائل
سحری میں برکت ہے :
حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ سحری کھاؤ کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے۔ (بخاری ومسلم)
حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے مجھے رمضان میں سحری کھانے کے لئے بلایا اور فرمایا کہ بابرکت کھانے کے لئے آؤ۔ (ابو داؤد، نسائی)
فائدہ: سحر رات کے آخری حصے کو کہتے ہیں، سَحور سین کے زبر کے ساتھ اسم ہے یعنی طعام سحر کے معنی میں اور سُحور سین کے پیش کے ساتھ مصدر ہے یعنی سحر کے وقت کھانا۔
برکت سے مراد یہ ہے کہ سحری کھانا چونکہ سنت نبوی پر عمل کرنا ہے، اس لئے اس کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ بڑا اجر ملتا ہے بلکہ روزہ رکھنے کی قوت بھی آتی ہے، ایک روایت میں ہے کہ سحری کھاؤ، چاہے وہ ایک گھونٹ پانی ہی کی شکل میں کیوں نہ ہو، البتہ یہ حکم واجب نہیں ہے بلکہ مستحب ہے۔
سحری؛ مسلمانوں کا امتیاز :
حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ہمارے روزے اور اہل کتاب (یعنی یہود و نصاری) کے روزے کے درمیان فرق سحری کھانا ہے۔ (مسلم)
فائدہ : اہل کتاب کے ہاں رات میں سو رہنے کے بعد کھانا حرام تھا، اسی طرح مسلمانوں کے ہاں بھی ابتداء اسلام میں یہی حکم تھا مگر بعد میں مباح ہو گیا، لہٰذا سحری کھانے سے اہل کتاب کی مخالفت لازم آتی ہے جو اس عظیم نعمت کی شکر گزاری کا ایک ذریعہ ہے۔
بہترین سحری :
حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ مومن کے لئے سحری کا بہترین کھانا کھجور ہے۔ (ابوداؤد)
حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ فضائل رمضان میں لکھتے ہیں :
علامہ عَینیؒ نے سترہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے سحری کی فضیلت کی احادیث نقل کی ہیں، اور اِس کے مستحب ہونے پر اِجماع نقل کیا ہے،بہت سے لوگ کاہِلی کی وجہ سے اِس فضیلت سے محروم رہ جاتے ہیں، اور بعض لوگ تراویح پڑھ کر کھانا کھاکر سوجاتے ہیں اور وہ اِس کے ثواب سے محروم رہتے ہیں، اِس لیے کہ لغت میں ’’سَحَر‘‘ اُس کھانے کو کہتے ہیں جو صبح کے قریب کھایاجائے۔(قامُوس) بعض نے کہاہے کہ آدھی رات سے اُس کا وقت شروع ہوجاتاہے، صاحبِ کَشَّافؒ نے اخیر کے چھٹے حصے کو بتلایا ہے، یعنی تمام رات کو چھ حصَّوں پر تقسیم کرکے اخیر کا حصَّہ مثلاً اگر غروبِ آفتاب سے طلوعِ صبحِ صادق تک بارہ گھنٹے ہوں تو اخیرکے دوگھنٹے سَحر کا وقت ہے، اور اِن میں بھی تاخیر اَولیٰ ہے، بشرطیکہ اِتنی تاخیر نہ ہو کہ روزے میں شک ہونے لگے .... ایک جگہ ارشاد ہے کہ تین چیزوں میں برکت ہے، جماعت میں، اور ثَرِید میں، اور سحری کھانے میں، حضور اکرم ﷺ جب کسی صحابی کو اپنے ساتھ سحر کھلانے کے لیے بُلاتے تو ارشاد فرماتے کہ آؤ! برکت کا کھانا کھالو، ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ سحری کھاکر روزے پر قوَّت حاصل کرو، اور دوپہر کو سوکر اخیر شب کے اُٹھنے پر مدد چاہاکرو، حضرت عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ ایک صحابی سے نقل کرتے ہیں کہ میں حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں ایسے وَقت حاضر ہوا کہ آپ ﷺ سحری نوش فرما رہے تھے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ ایک برکت کی چیز ہے جو اللہ نے تم کو عطافرمائی ہے، اِس کو مت چھوڑنا۔(ملخصاً)
سحری کے اہم مسائل :
- اگر کوئی شخص رات ہی کو اس اندیشہ سے روزے کی نیت کرکے سوجائے کہ سحری کے وقت اس کی آنکھ نہیں کھلے گی تو اس کا روزہ ہوجائے گا۔
- اگر صبحِ صادق ہوجانے کے بعد کھایا پیا تو روزہ نہ ہوگا، خواہ اذان ہوچکی ہو یا نہ ہوئی ہو، اور اذانیں عموماً صبحِ صادق کے بعد ہوتی ہیں، اس لئے اذان کے وقت کھانے پینے والوں کا روزہ نہیں ہوگا، عموماً مسجدوں میں اوقات کے نقشے لگے ہوتے ہیں، ابتدائے فجر کا وقت دیکھ کر اس سے چار پانچ منٹ پہلے سحری کھانا بند کردیا جائے۔
- سحری ختم ہونے کا وقت متعین ہے، سائرن اور اذان اس کے لئے ایک علامت ہے، ہر فرد گھڑی میں وقت دیکھ لے، اگر سائرن وقت پر بجا ہے تو وقت ختم ہوگیا، اب کچھ کھاپی نہیں سکتے، البتہ اگر کسی علاقے میں سائرن وقت کے ختم ہونے سے پانچ منٹ پہلے بجایا جاتا ہو اور سب کو معلوم بھی ہو تو اس وقت ایک منٹ میں اگر پانی پی لیا تو روزہ میں فرق نہ پڑے گا تاہم احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ سائرن بجنے سے پہلے پانی پی لیا جائے۔
- اُصول یہ ہے کہ روزہ رکھنے اور اِفطار کرنے میں اس جگہ کا اعتبار ہے جہاں آدمی روزہ رکھتے اور اِفطار کرتے وقت موجود ہو، پس جو شخص عرب ممالک سے روزہ رکھ کر کراچی آئے تو اس کو کراچی کے وقت کے مطابق اِفطار کرنا ہوگا، اور جو شخص پاکستان سے روزہ رکھ کر مثلاً سعودی عرب گیا ہو، اس کو وہاں کے غروب کے بعد روزہ اِفطار کرنا ہوگا، اس کے لئے کراچی کے غروب کا اعتبار نہیں۔
- اگر کسی علاقے میں اذان کی آواز نہ آتی ہو اور وہ ریڈیو کی اذان پر سحری بند کرتے ہوں اور افطار کرتے ہوں تو درست ہے بشرطیکہ ریڈیو پر صحیح وقت پر اطلاع اور اذان دی جاتی ہو، البتہ احتیاط کا تقاضہ یہ ہے کہ نقشہ اوقات بھی دیکھ لئے جائیں اور گھڑی بھی درست وقت پر رکھی جائے۔
- عام طور پر لوگ روزہ کی نیت ان الفاظ سے کرتے ہیں وبِصومِ غدٍ نویتُ من شہرِ رمضانَ یہ الفاظ سنت نبوی سے ثابت نہیں بلکہ مشائخ سے سہولت کے لئے منقول ہیں، واضح رہے کہ نیت دل کے ارادے کو کہتے ہیں، اگر کوئی شخص دل سے ارادہ کرلے کہ کل رمضان کا روزہ رکھوں گا تو بھی درست ہوجائے گا، زبان سے تلفظ کرلینا بہتر ہے، نیز زبان سے تلفظ کرتے وقت انہیں الفاظ سے نیت کرنا ضروری نہیں، یہ الفاظ عام آدمیوں کی سہولت کے لئے ہے کہ وہ عربی میں نیت کرلیں۔
والسنة أن یتلفظ بھا فیقول: نویت أصوم غدا أو ھذا الیوم إن نوی نہاراً للہ عز وجل من فرض رمضان أي سنة المشائخ لا النبي (صلی اللہ علیہ وسلم) لعدم ورود النطق بھا عنه (شامی: 345/3؛ زکریا دیوبند)
(مستفاد از مظاہر حق و فتاوی یوسفی و دارالافتاء دارالعلوم دیوبند)
ناشر: دارالریان کراتشی