حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ ۔۔ فضائل ومناقب

حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کی وہ خاص خصوصیات جو اللہ تعالیٰ نے ان میں رکھی تھیں،ان کا علم وعمل، اخلاص، تقویٰ، حب نبی صلی اللہ علیہ وسلم

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کا تعلق ان برگزیدہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین سے ہے جن کو دربار نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں خاص قرب حاصل تھا،جن کا علم وعمل،ورع وتقوی،قرآن فہمی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین میں مشہور و معروف تھا، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کا تعلق بھی اس جماعت کے ساتھ تھا جس جماعت کی صلاح وفلاح،رشدوہدایت،کامیابی وکامرانی کا ذکراللہ تعالی نے قرآن کریم میں کیاہے،چنانچہ سورةالمجادلةمیں ارشادہے۔

’’ان کے دلوں میں اللہ نے لکھ دیا ہے ایمان اور ان کی مدد کی ہے اپنے غیب کے فیض سے ۔ ‘‘(المجادلۃ:۲۲)

سورةالتوبةمیں ہے۔

’’اور جو لوگ قدیم ہیں سب سے پہلے ہجرت کرنے والے اور مدد کرنے والے اور جو ان کے پیرو ہوئے نیکی کے ساتھ، اللہ راضی ہوا اُن سے اور وہ راضی ہوئے اُس سے ۔‘‘(التوبۃ:۱۰۰)

سورةالفتح میں ارشادباری ہے۔

’’محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) رسول اللہ کا اور جو لوگ اس کے ساتھ ہیں زور آور ہیں کافروں پر، نرم دل ہیں آپس میں، تو دیکھے ان کو رکوع میں اور سجدہ میں ، ڈھونڈتے ہیں اللہ کا فضل اور اس کی خوشی ، نشانی (پہچان، شناخت) ان کی اُن کے منہ پر ہے سجدہ کے اثر سے۔‘‘ا(لفتح:۲۹)

اس عظیم جماعت کے بارے میں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے خود ارشاد فرمایا۔

 ’’اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو میرے صحابہؓ کے معاملے میں، میرے بعد ان کو (طعن وتشنیع کا) نشانہ نہ بناؤ، کیونکہ جس شخص نے ان سے محبت کی تو میری محبت کے ساتھ ان سے محبت کی، اور جس نے ان سے بغض رکھاتو میرے بغض کے ساتھ ان سے بغض رکھا، اور جس نے ان کو ایذاء پہنچائی اس نے مجھے ایذاء پہنچائی، اور جس نے مجھے ایذاء دی اس نے اللہ تعالیٰ کو ایذاء پہنچائی، اور جو اللہ کو ایذاء پہنچانا چاہتا ہے تو قریب ہے کہ اللہ اس کو عذاب میں پکڑلے گا۔‘‘(ترمذی)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ بھی انہیں مبارک ہستیوں میں سے تھے،آپ رضی اللہ عنہ کی چند خصوصیات کا ذیل میں ذکر کیاجاتاہے۔

(1)قرآن پڑھنے پڑھانے کا شوق

مسروق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے تھے قسم پروردگار کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں قرآن شریف کی کوئی سورت ایسی نہیں اتری جس کی نسبت میں یہ نہ جانتا ہوں کہ وہ کہاں اتری (مکہ میں یا مدینہ میں یا راستہ میں اتری) اور قرآن کی کوئی سورت ایسی نہیں اتری جس کی نسبت میں یہ نہ جانتا ہوں کہ وہ(کس باب میں) کس شخص کے حق میں اتری۔ اگر مجھ کو یہ معلوم ہو جائے کہ اللہ تعالٰی کی یہ کتاب مجھ سے زیادہ کوئی جاننے والا ہے اور اونٹ وہاں تک جا سکتے ہوں تو میں فورا سوار ہو کر (علم حاصل کرنے کے لئے) اس کے پاس جاؤں گا۔(بخاری،کتاب فضائل القرآن)

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ سےروایت ہےانہوں نے کہا نبیﷺ نے مجھ سے فرمایا :آپ مجھے قرآن سنائیے،میں نے کہا یا رسول اللہﷺ! بھلا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا سناؤں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تو قرآن اترا ہی ہے(آپ سے بہتر کون پڑھ سکتا ہے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں سنا۔ میں نے سورۃ النساء شروع کی۔جب اس آیت پر پہنچا فکیف اذا جئنا من کل امة بشھید آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بس کر بس۔ میں نے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔(صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن)

(2)حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مشابھت

حضرت عبدالرحمٰن بن یزید رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پوچھا کہ اخلاق وعادات اور عمومی طور طریقہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زیادہ قریب کون ہیں ؟ہم ان سے علم سیکھنا چاہتے ہیں۔

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فوراً بولے’’طور طریقوں اور عادات و اطوار میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ مشابہت حضرت ا بن مسعود رضی اللہ عنہ رکھتے تھے۔ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم جانتے ہیں کہ ان سب کے مقابلے میں ابن ام عبد(عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ )ان سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے سب سے زیادہ قریب ہیں‘‘(جامع الترمذی مناقب ابن مسعودرضی اللہ عنہ)

ایک اور مقام پرحضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے متعلق فرماتے ہیں:

کہ سیرت، رہنمائی اورقرابت میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ مشابہت حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ رکھتے تھے۔(مستدرک حاکم)

(3)علمی مرتبہ

حضرت مسروق رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سونگھا (یعنی علمی اعتبار سے بغور دیکھا )تو تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کے علم کو ان چھ میں پایا یعنی حضرت علی، حضرت عمر، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت زید، حضرت ابودرداء اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہم۔ پھر ان چھ کو سونگھا تو ان کے علم کو حضرت علی المرتضیٰ اور حضرت عبدللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما میں پایا۔(سیر اعلام النبلاء للذہبی)

(4)بشارت نبوی

سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے سامنے سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ذکر آیا تو انہوں نے کہا عبداللہ بن مسعود ایسے شخص ہیں جن سے میں محبت کرتا ہوں جب سے میں نے رسول اللہﷺ سے یہ سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فر ماتے تھے قرآن چار آدمیوں سے پڑھو عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے، پہلے ان کا نام لیا اور سالم رضی اللہ عنہ سے جو ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ کا غلام ہے اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے ،مسروق (یا عبداللہ) نے کہا مجھے یاد نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ابی رضی اللہ عنہ کا نام لیا یا پہلے معاذ رضی اللہ عنہ کا۔(صحیح بخاری كتاب فضائل الصحابة)

اسود بن یزید رحمہ اللہ نے کہتے ہیں میں نے ابو موسٰی اشعری رضی اللہ عنہ سے سنا وہ کہتے تھے میں اور میرا بھائی دونوں یمن سے آپﷺ کے پاس آئے ہم دیر تک سمجھے رہے کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نبیﷺ کے اہل بیت میں سے کوئی شخص ہیں کیونکہ وہ اور ان کی والدہ برابر آپﷺکے پاس آتے جاتے رہتے۔(صحیح بخاری کتاب فضائل الصحابة)

سیدنا علی رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیں،ایک بار رسول اللہ ﷺ نے سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو پیلو کے درخت پر چڑھ کراس کی مسواک اتارنے کو کہا۔ تیزہوا سے ان کی ٹانگوں سے کپڑا ہٹ گیا، لوگ ان کی سوکھی پنڈلیاں دیکھ کر ہنسنے لگے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا،تمھیں کس بات کی ہنسی آرہی ہے؟ جواب دیا، پتلی اور کم زور ٹانگیں دیکھ کر۔ فرمایا، میزان اعمال میں یہ احد پہاڑ سے زیادہ وزن کی حامل ہوں گی۔(مسند احمد)

(5)خوف خدا

حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کے مرض وفات میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ عیادت کے لئے تشریف لے گئے،حضرت عثمان غنیؓ نے پوچھا ماتشتکی(تمہیں کیاتکلیف ہے)توفرمایا ذنوبی(یعنی اپنے گناہوں کی تکلیف ہے)پھرپوچھا ماتشتھی(یعنی آپ کیاچاہتے ہیں)توفرمایا رحمةربی(یعنی اپنے رب کی رحمت چاہتاہوں)پھرحضرت عثمان غنیؓ نے فرمایاکہ میں آپ کیلئے کسی طبیب کو بلاتاہوں توفرمایاالطبیب امرضنی(یعنی مجھے طبیب ہی نے بیمارکیاہے)پھرحضرت عثمان غنیؓ نے فرمایاکہ میں آپ کے لئےبیت المال سے کوئی عطیہ بھیجدوں توفرمایالاحاجةلی فیھا(مجھے اس کی کوئی حاجت نہیں)حضرت عثمان غنیؓ نے فرمایاکہ عطیہ لے لیجئے وہ آپ کے بعد آپ کی لڑکیوں کے کام آئے گاتوفرمایاکہ کیا آپ کو میری لڑکیوں کے بارے میں یہ فکرہے کہ وہ فقروفاقہ میں مبتلاہوجائیں گی،مگرمجھے یہ فکر اس لئے نہیں کہ میں نے اپنی لڑکیوں کو تاکیدکررکھی ہے کہ ہررات سورہ واقعہ پڑھا کریں،کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جو شخص ہررات کو سورہ واقعہ پڑھاکرے وہ کبھی فاقہ میں مبتلانہیں ہوگا(ابن کثیر)

مولانا محمد راشد شفیع

فاضل،جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
فاضل،جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن واستاد جامعہ معہد القرآن کراچی
کل مواد : 5
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن
ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024