فقہیاتِ حلال (4) : میتہ یعنی مردار کے اہم احکام
إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (البقرة ١٧٣)
اس نے تو تمہارے لئے بس مردار جانور، خون اور سور حرام کیا ہے، نیز وہ جانور جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا گیا ہو، ہاں اگر کوئی شخص انتہائی مجبوری کی حالت میں ہو (اور ان چیزوں میں سے کچھ کھالے) جبکہ اس کا مقصد نہ لذت حاصل کرنا ہو اور نہ وہ (ضرورت کی) حد سے آگے بڑھے تو اس پر کوئی گناہ نہیں، یقینا اللہ بہت بخشنے والا بڑا مہربان ہے۔ (آسان ترجمہ قرآن)
He has only prohibited for you carrion, blood, the flesh of swine and that upon which a name of someone other than 'Allah‘ has been invoked. Then, whoever is compelled by necessity, neither seeking pleasure nor transgressing, there is no sin on him. Verily, Allah is Most-Forgiving, Very-Merciful. (Easy tarjama Qur'an)
1- لفظ اِنَّما سے حصرِ مطلق نہیں بلکہ حصرِ اضافی مراد ہے!
{اِنَّمَا حَرَّمَ} کلمہ اِنَّما حصر کے لئے آتا ہے، لیکن یہاں حصر مطلق نہیں ہے بلکہ حصر اضافی ہے کیونکہ یہاں آگے ذکر کردہ "محرمات اربعہ" میں حصر نہیں ہے، کیونکہ یہاں مطلق حلال و حرام کا بیان نہیں ہے بلکہ ان مخصوص جانوروں کی حلت و حرمت کا بیان ہے جن کے بارے میں مشرکین مکہ اپنے مشرکانہ عقائد کی غلطیاں کیا کرتے تھے، پچھلی آیت میں اس کی وضاحت آچکی ہے کہ بہت سے حلال جانوروں کو مشرکین حرام سمجھ لیتے تھے یا اپنے اوپر حرام کرلیتے تھے، اس کی مخالفت کی گئی تھی اس کے بالمقابل یہاں یہ بتلایا گیا کہ اللہ کے نزدیک فلاں فلاں جانور حرام ہیں، جن سے تم اجتناب نہیں کرتے اور جو اللہ کے نزدیک حلال ہیں، ان سے پرہیز کرتے ہو، اس لئے اس جگہ مشرکانہ عقائد کے بالمقابل حصر مطلق نہیں بلکہ اضافی ہے۔ (مستفاد: معارف القرآن)
مشرکین مکہ کے ان عقائد باطلہ کا مزید وضاحت سے رد دوسری جگہ بھی آیا ہے، ارشاد ہے : قُل لَّآ اَجِدُ فِيْ مَآ اُوْحِيَ اِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلٰي طَاعِمٍ الآیۃ (الانعام : ١٤٥) اس میں حضور اکرم ﷺ کو خطاب کرکے یہ حکم دیا گیا ہے کہ آپ اعلان کردیں کہ جو وحی مجھ پر نازل کی گئی ہے اس میں تو میں کوئی ایسی چیز نہیں پاتا جس کا کھانا کسی کھانے والے کے لیے حرام ہو، الا یہ کہ وہ مردار ہو، یا بہتا ہوا خون ہو، یا سور کا گوشت ہو، کیونکہ وہ ناپاک ہے، یا جو ایسا گناہ کا جانور ہو جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا گیا ہو، ہاں! جو شخص (ان چیزوں میں سے کسی کے کھانے پر) انتہائی مجبور ہوجائے جبکہ وہ نہ لذت حاصل کرنے کی غرض سے ایسا کر رہا ہو، اور نہ ضرورت کی حد سے آگے بڑھے، تو بیشک اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔
فائدہ : مطلب یہ ہے کہ جن جانوروں کو بت پرستوں نے حرام قرار دے رکھا ہے، ان میں سے کسی جانور کے بارے میں مجھ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ممانعت کا حکم ان چار چیزوں کے سوا نہیں آیا، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دوسرے جانوروں میں بھی کوئی جانور حرام نہیں، چنانچہ حضور اکرم ﷺ نے ہر قسم کے درندوں وغیرہ کے حرام ہونے کی وضاحت فرمادی ہے۔ (آسان ترجمہ قرآن)
تفسیر جمالین میں یہ علمی نکتہ مذکور ہے کہ اِنّما کے بارے میں نحاۃ کوفہ کا قول معتبر ہے جس میں انہوں نے کہا کہ کلمة اِنّما لیْسَتْ للقصر بل ھِیَ مرکبة من اِنّ للتحقیق ومَا الکافة اور اگر اِنّما کا کلمہ حصر ہونا تسلیم کرلیا جائے تو حصر اضافی ہوگا، اور یہ حصر ان چیزوں کے اعتبار سے ہوا جن کو کفار نے حرام کرلیا تھا یعنی بحیرہ، سائبہ، وصیلہ اور حام وغیرہ۔
محرمات اربعہ
آگے اس آیت میں جن چیزوں کو حرام قرار دیا گیا ہے، وہ چار چیزیں یہ ہیں :
١- میتہ (Crrion)
٢- خون (Blood)
٣- لحم خنزیر (Flesh of swine)
٤- وہ جانور جس پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو (That over which is invoked the name of other than Allah)
پھر ان چاروں چیزوں کی مزید تشریحات خود قرآن کریم کی دوسری آیات اور احادیث صحیحہ میں آئی ہیں، جن کو ملانے کے بعد ان چاروں چیزوں کے احکام حسب ذیل ہیں ان کو کسی قدر تفصیل سے لکھا جاتا ہے۔
2- میتہ یعنی مردار کی تعریف
وَالمَيْتةُ من الحَيوان : ما زال روحه بغیر تذكية یعنی اس حیوان کو میتہ کہتے ہیں جس کی روح بغیر تذکیہ کے زائل ہوگئی ہو قرآن میں ہے : حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ [المائدة ٣] تم پر مرا ہوا جانور حرام ہے۔
إِلَّا أَنْ يَكُونَ مَيْتَةً [ الأنعام ١٤٥] بجز اس کے کہ وہ مرا ہوا جانور ہو۔ (مفردات القرآن)
میتہ یعنی مردار وہ جانور ہے جو بغیر کسی کے ہلاک کئے از خود مرجائے، یا ہلاک تو کیا جائے لیکن ذبح شرعی کے مطابق نہ ہو۔
ھو غیر المزکی إما لانه لم یذبح أو أنه ذبح ولکن لم یکن ذبحه ذکاۃ (کبیر) وھی کل مافارقه الروح میں غیر ذکاۃ مما یذبح (مدارک)
زندہ جانور کے اگر گوشت کا کچھ حصہ کاٹ لیاجائے تو وہ بھی مراد ہی کے حکم میں داخل ہوگا۔ (ماجدی)
حضرت ابو واقد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ مدینہ منورہ میں تشریف لائے اور اس سے پہلے اہل مدینہ کی یہ عادت تھی کہ زندہ اونٹوں کے کوہان اور دنبوں کی چکتیاں کاٹ لیتے تھے اور ان کو کھا جاتے تھے، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ زندہ جانور سے جو حصہ کاٹ لیا جائے وہ میتہ ہے یعنی مردار ہے۔ (ترمذی و ابوداؤد، انوار البیان)
3- میتہ یعنی مردار کے احکام
معلوم ہوا کہ میتہ (مردار) سے مراد وہ جانور ہے جس کے حلال ہونے کے لئے ازروئے شرع ذبح کرنا ضروری ہے، مگر وہ بغیر ذبح کے خود بخود مرجائے یا گلا گھونٹ کر یا کسی دوسری طرح چوٹ مار کر مار دیا جائے تو وہ مردار اور حرام ہے، یہ خشکی کے جانور کا حکم ہے۔
پانی کے جانور کے بارے میں خود قرآن کریم کی دوسری آیت {اُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ} (٩٦: ٥) سے معلوم ہوا کہ دریائی جانور کے لئے ذبح کرنا شرط نہیں، وہ بلا ذبح بھی جائز ہے، اس بناء پر احادیث صحیحہ میں مچھلی اور ٹڈی کو میتہ سے مستثنیٰ قرار دے کر حلال کیا گیا ہے، حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ہمارے لئے دو مردار حلال کردئیے گئے : "مچھلی اور ٹڈی" اور دو خون حلال کردئیے گئے: "جگر اور طحال" (ابن کثیر از احمد، ابن ماجہ، دارقطنی)
١- دو مردار جانور بنص شرع حلال ہیں
معلوم ہوا کہ جانوروں میں سے مچھلی اور ٹڈی بغیر ذبح کے حلال ہیں، خواہ وہ خود مرجائیں یا کسی کے مارنے سے مرجائیں البتہ جو مچھلی سڑجانے کی وجہ سے خود پانی کے اوپر آجائے وہ حرام ہے، اس کو اصطلاح شریعت میں "سمک طافی" کہتے ہیں۔ (جصاص)
٢- ذبح اضطراری سے ذبح کیا گیا جانور
اسی طرح وہ شکاری جانور جو قابو میں نہیں کہ ذبح کرلیا جائے اور اس کو بھی بسم اللہ پڑھ کر تیر وغیرہ دھار دار چیز سے زخم لگا دیں تو بغیر ذبح کے حلال ہوجاتا ہے، مطلقا زخمی ہوجانا کافی نہیں کسی آلہ جارحہ تیز دھار سے زخمی ہونا شرط ہے۔
٣- بندوق کی گولی سے شکار کیا ہوا جانور
بندوق کی گولی سے کوئی جانور زخمی ہو کر ذبح سے پہلے مرجائے تو وہ ایسا ہے جیسے پتھر یا لاٹھی مارنے سے مرجائے جس کو قرآن کریم کی دوسری آیت میں "موقوذۃ" کہا گیا ہے اور حرام قرار دیا ہے، ہاں! مرنے سے پہلے اس کو ذبح کرلیا جائے تو حلال ہوجائے گا۔
آجکل بندوق کی ایک گولی نوکدار بنائی گئی ہے، اس کے متعلق بعض علماء کا خیال ہے کہ تیر کے حکم میں ہے مگر جمہور علماء کے نزدیک یہ بھی تیر کی طرح آلہ "جارحہ" نہیں بلکہ "خارقہ" (پھاڑنے والی) ہے جس سے بارود کی طاقت کے ذریعہ گوشت پھٹ جاتا ہے ورنہ خود اس میں کوئی دھار نہیں جس سے جانور زخمی ہوجائے، اس لئے ایسی گولی کا شکار بھی بغیر ذبح کے جائز نہیں۔
٤- مردار کے گوشت کی خرید و فروخت
آیت مذکورہ میں مطلقًا میتہ کو حرام قرار دیا ہے، اس لئے جس طرح اس کا گوشت کھانا حرام ہے، اس کی خرید و فروخت بھی حرام ہے، یہی حکم تمام نجاسات کا ہے کہ جیسے ان کا استعمال حرام ہے، ان کی خرید و فروخت اور ان سے نفع اٹھانا بھی حرام ہے یہاں تک کہ مردار جانور یا ناپاک کوئی چیز باختیار خود جانور کو کھلانا بھی جائز نہیں، ہاں! ایسی جگہ رکھ دے کہ جہاں سے کوئی کتا بلی خود کھالے تو یہ جائز ہے مگر خود اٹھا کر ان کو کھلانا جائز نہیں (جصاص، قرطبی وغیرہ)
٥- مردار جانور کے غیر ماکول اجزاء کا حکم
اس آیت میں میتہ کے حرام ہونے کا حکم عام معلوم ہوتا ہے جس میں میتہ کے تمام اجزاء شامل ہیں لیکن دوسری آیت میں اس کی تشریح "طاعِمٍ يَّطْعَمُهٗٓ" کے الفاظ سے کردی گئی ہے جس سے معلوم ہوا کہ مردار جانور کے وہ اجزاء حرام ہیں جو کھانے کے قابل ہیں، اس لئے مردار جانور کی ہڈی، بال، ناخن، کھر، سینگ وغیرہ جو کھانے کی چیز نہیں، وہ پاک ہیں اور ان کا خارجی استعمال جائز ہے، قرآن کریم کی آیت {وَمِنْ اَصْوَافِهَا وَاَوْبَارِهَا وَاَشْعَارِهَآ اَثَاثًا وَّمَتَاعًا اِلٰى حِيْنٍ} (النحل ٨٠) میں ان جانوروں کے بالوں کو مطلقاً جائز الانتفاع قرار دیا ہے، اس میں ذبیحہ کی شرط نہیں۔ (جصاص)
٦- مردار کے بال اور اون کا مسئلہ
مردار کے بال اور اس کی اون پاک ہے، کیونکہ حضرت ام سلمہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ مردار کی کھال میں کوئی حرج نہیں جب اس کی دباغت کی جائے اور اس کی صوف اور بالوں میں کوئی حرج نہیں جب وہ دھوئے جائیں کیونکہ وہ ظاہر تھے، اگر وہ زندہ حالت میں جانور سے لئے جاتے، پس واجب ہے کہ موت کے بعد بھی اسی طرح ہوں مگر گوشت جب حالت حیات میں نجس تھا تو موت کے بعد بھی اسی طرح ہوگا، پس اون کا حکم موت کی حالت میں گوشت کے خلاف ہوگا جیسا کہ حالت حیات میں اس کا حکم گوشت سے مختلف تھا، اس پر مزید تفصیل سورة النحل (آیت ٨٠) کے ذیل میں مذکور ہے۔(قرطبی)
٧- مردار کی کھال کا حکم
کھال پر چونکہ خون وغیرہ کی نجاست لگی ہوتی ہے، اس لئے وہ دباغت سے پہلے حرام ہے مگر دباغت دینے کے بعد حلال اور جائز ہے، احادیث صحیحہ میں اس کی مزید تصریح موجود ہے (جصاص)
دباغت کیا ہے؟
دباغت سے مراد یہ ہے کہ کھال کو نمک وغیرہ لگا کر خشک کرلیا جائے اور اس کی رطوبت ختم ہوجائے۔
- حضرت سلمہ بن المحبق رضی اللہ عنہ سے کہ حضور اکرم ﷺ غزوہ تبوک میں ایک مکان کے اندر تشریف لے گئے جس کے صحن میں ایک مشکیزہ لٹکا ہوا تھا، آپ ﷺ نے پانی طلب کیا، عرض کیا گیا کہ یہ مشکیزہ مردار کی کھال کا بنا ہوا ہے، یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا کہ کھال کی ذکاۃ (یعنی ذبح) دباغت ہے۔
- حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ مردار کی کھالوں کی دباغت ان کی پاکی ہے۔
- حضرت سودہ بنت زمعہ رضہ اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہماری ایک بکری تھی جو مرگئی ہم نے اسے پھینک دیا، حضور اکرم ﷺ تشریف لائے اور پوچھا کہ تمہاری بکری کو کیا ہوا؟ ہم نے عرض کیا کہ اسے ہم نے پھینک دیا ہے، یہ سن کر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی {قل لا اجد فیما احی الی محرما علی طاعم یطعمہ .... الی آخر الایة } اور فرمایا کہ تم لوگوں نے اس کی کھال سے کیوں نہیں فائدہ اٹھایا ؟ چناچہ ہم نے اس کی کھال اتار کر اس کی دباغت کی اور اس سے ایک مشک بنا کر پانی لانے کے لئے استعمال کرتے رہے یہاں تک کہ وہ مشک پرانی ہوگئی۔
- حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ حضور اکرم ﷺ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی مردہ بکری کے پاس سے گرے اور اسے یونہی پھینکی ہوئی دیکھ کر فرمایا کہ اگر اس بکری کے مالکان اس کی کھال سے فائدہ اٹھا لیتے تو کیا ہوتا؟
اسی طرح کی دیگر اور روایات ہیں جو سب کی سب دباغت کے بعد مردار کی کھال کے پاک ہوجانے کی موجب ہیں۔ (احکام القرآن للجصاص)
٨- مردار جانور کی چربی کا حکم
مردار جانور کی چربی اور اس سے بنائی ہوئی چیزیں بھی حرام ہیں، ان کا استعمال کسی طرح سے جائز نہیں اور خرید و فروخت بھی حرام ہے۔ (معارف القرآن)
- حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فتح مکہ کے سال ارشاد فرمایا جبکہ آپ مکہ معظمہ ہی تشریف فرما تھے کہ بلا شبہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے شراب اور میتہ (مردہ جانور) اور خنزیر اور بتوں کے بیع کو حرام قرار دیا، عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ! مردہ جانور کی چربیوں کے بارے میں ارشاد فرمائیے (کیا ان کو بیچنا بھی حرام ہے ؟) ان سے کشتیوں کو روغن کیا جاتا ہے اور چمڑوں میں بطور تیل کے استعمال کی جاتی ہیں اور ان کے ذریعے لوگ چراغ جلاتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا کہ چربی بھی حلال نہیں ہے، وہ بھی حرام ہے پھر فرمایا کہ اللہ تعالی لعنت فرمائے یہودیوں پر بلاشبہ اللہ نے ان پر مردہ جانور کی چربی حرام فرمائی تھی، انہوں نے اسے خوب صورت چیز بنا دیا (یعنی اسے پگھلا کر اس میں کچھ اور چیز ملا کر اپنے خیال میں اسے اچھی شکل دیدی) پھر اسے بیچ کر اس کی قیمت کھا گئے۔(متفق علیہ)
معلوم ہوا کہ مردار جانور کا گوشت اور چربی دونوں حرام ہیں، ان کا کھانا بھی حرام ہے اور کا بیچنا بھی حرام ہے، حدیث بالا سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حرام چیز کو خوبصورت بنا دینے سے، اس میں کچھ ملا دینے سے، اس کا نام بدل دینے سے، اسے خوبصورت پیکٹوں میں پیک کردینے سے حلال نہیں ہوجاتی، اس کا بیچنا اور اس کی قیمت کھانا حسب سابق حرام ہی رہتا ہے۔ (انوار البیان)
٩- مذبوحہ جانور کے مردار جنین (بچے) کا حکم
جب کوئی جانور ذبح کیا جائے اور اس کے پیٹ سے مردہ بچہ نکلے تو اس میں اختلاف ہے :
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ میتہ (مردار) ہے، اس کا کھانا درست نہیں، ہاں! اگر زندہ نکلتا اور ذبح کیا جاتا تو درست ہوتا۔
امام شافعی اور امام ابو یوسف و محمد رحمہم اللہ کہتے ہیں کہ اس کا کھانا درست ہے کہ اس کی ماں کا ذبح کرنا اس کا ذبح کرنا ہے۔ (تفسیر حقانی)
مسئلہ کی وضاحت یہ ہے کہ گابھن جانور کے پیٹ سے ذبح کے وقت اگر زندہ بچہ نکلے تو بالاتفاق اسے ذبح کیا جائے گا اور تب ہی حلال ہوگا، البتہ اگر ذبح کرنے پہلے مردہ پیدا ہوا اور اس کی تخلیق مکمل نہیں ہوئی ہو تو فقہاء اس پر بھی متفق ہیں کہ اس کا کھانا حرام ہےکیونکہ وہ ’’مضغة ‘‘ کے حکم میں ہے اور اگر پیدا ہونے والا بچہ کامل الخلقت ہو لیکن مردہ ہو تو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک اب بھی اس کا کھانا حرام ہی ہوگا، امام شافعی اور صاحبین رحمہم اللہ کے نزدیک اس کا کھانا حلال ہے، علامہ کاسانی رحمہ اللہ (صاحب بدائع) نے دلائل کے ساتھ جانور کے زیر حمل بچہ کا یہ حکم بیان کیا ہے ۔
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول میں احتیاط ہے اور حلال و حرام کے مسائل میں احتیاطی پہلو پر عمل کرنا چاہئے، اس لیے گابھن گائے کے پیٹ سے نکلنے والے بچہ کو جب تک شرعی طور پر ذبح نہ کردیا جائے اس کا کھانا جائز نہیں، خواہ مردہ پیدا ہوا ہو، یا پیدا ہوکر مر گیا ہو۔ (کتاب الفتاوی ١٣٣/٤)
نوٹ : آیت مذکورہ کے تحت سمک طافی اور جنین کے مسئلہ پر احکام القرآن للجصاص میں عمدہ تفصیل ہے، فمن شاء منکم فلیراجع ثمه.