فقہیاتِ حلال (2) : حلال روزی کی برکت اور حرام روزی کی نحوست
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُوا لِلَّهِ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ (البقرة ١٧٢)
اے ایمان والو ! جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں رزق کے طور پر عطا کی ہیں، ان میں سے (جو چاہو) کھاؤ، اور اللہ کا شکر ادا کرو، اگر واقعی تم صرف اسی کی بندگی کرتے ہو۔ (آسان ترجمہ قرآن)
O you who believe, eat of the good things We have provided to you and be grateful to Allah, if it is He whom you worship (in real terms)
(Easy tarjama Qur'an)
فائدہ : سابق آیت کریمہ (البقرة ١٣٦) میں مذکور تھا کہ حلال چیز کو حرام مت کرو، اب یہاں یہ مذکور ہے کہ حرام چیز کو حلال مت سمجھو جیسا کہ مشرکین اس میں مبتلا تھے مثلاً مردار جانور اور ایسے جانور جن کو غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، مشرکین کی عادت تھی کہ اس کو کھایا کرتے تھے، اس لئے اس سے منع کیا گیا ہے، اسی کے ضمن میں یہ بھی بتایا گیا کہ اللہ تعالی کے نزدیک مختلف جانور حرام ہیں، ان کے سوا دوسرے جانوروں کو اپنی طرف سے حرام قرار دینا غلطی ہے، اس سے سابقہ مضمون کی تائید ہوگئی۔ (مستفاد : معارف القرآن)
*1- حضور اکرم ﷺ کی روزی کے متعلق اہم ہدایت*
"طیبات" کہتے ہیں وہ چیزیں جنہیں شریعت خداوندی نے پاکیزہ قرار دیا ہے۔(ماجدی)
قرآن کریم میں اللہ تعالی نے حضور اکرم ﷺ کی ایک خاص صفت ذکر فرمائی ہے، یعنی وہ ایسا رسول ہے کہ {یحل لھم الطیبت ویحرم علیھم الخبآئث} جو لوگوں کے لئے پاکیزہ چیزوں کو حلال اور خبیث اور ناپاک چیزوں کو حرام ٹھہراتا ہے، اور یہ واضح رہے کہ اللہ تعالی نے جن چیزوں کو خبیث قرار دیا ہے، ان کے استعمال یا تو جسمانی طور پر نقصان ہے (جیسا کہ اب سائنس نے بھی بعض چیزوں کو انسانی صحت کے لئے مضر قرار دیا ہے) یا روحانی طور پر، اس لئے مکمل پاک اور طیب چیز کے استعمال کا حکم ہے، پاک چیز وہ ہے جس میں کوئی خباثت نہ ہو۔
*خباثت کی دو صورتیں ہیں*
١- خباثت ظاہری: کوئی چیز ظاہری طور پر گندی ہو یا اس کی ظاہری آمدنی حرام اور ناجائز ہو۔
٢- خباثت باطنی : کسی بھی قسم کا حرام مال مثلا چوری، سود، دھوکہ اور خیانت وغیرہ سے آئے یا آمدنی تو حلال ہو مگر اس سے خریدی گئی چیز حرام ہو یا حرام جزو ترکیبی پر مشتمل ہو۔
اس آیت {مِنْ طَیّْبٰتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ} میں یہ بھی نکتہ ہے کہ دوسروں کا مال چھین کر یا چرا کر یا خیانت کرکے استعمال نہ کیا جائے کہ اللہ تعالی نے جو مال جس کسی کو دیا ہے وہ اگرچہ فی نفسہ اصول شریعت کے مطابق حلال اور طیب ہے لیکن دوسروں کے لئے اسی وقت حلال اور طیب ہوگا جبکہ حلال طریقہ سے صاحب مال سے حاصل کیا ہو۔ (مستفاد: انوار البیان)
حکیم الامت حضرت علامہ اقبال رحمہ اللہ نے فرمایا کہ "اکل حلال" اور "صدق مقال" دین کی گرہ اور راز ہے۔ (معالم العرفان)
*2- حلال روزی کے ساتھ ساتھ شکرانِ نعمت بھی تکمیلِ عبادت کا ذریعہ ہے!*
{وَاشْكُرُوْا للهِ اِنْ كُنْتُمْ اِيَّاهُ تَعْبُدُوْنَ }عبادت کی تکمیل بغیر شکر کے نہیں ہوتی، حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میرا جن و انس کے ساتھ ایک بہت بڑا حیرت ناک واقعہ ہے، وہ یہ ہے کہ ان کو پیدا تو میں کرتا ہوں اور وہ غیر کی عبادت کرتے ہیں اور میں رزق دیتا ہوں اور وہ اوروں کا شکر کرتے ہیں۔ (رواہ الطبرانی فی مسندات الشامیین و البیہقی فی شعب الایمان والدیلمی عن ابی الدرداء رضی اللہ عنہ/مظہری)
- حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس بندے سے راضی ہوتے ہیں جو کوئی لقمہ کھاتا ہے اور کوئی گھونٹ پیتا ہے تو اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے۔ (درمنثور عن ابن ابی شیبہ و احمد و مسلم)
سورة سبا میں بھی نعمت خداوندی کے ساتھ شکر خداوندی کا حکم دیا ہے، ارشاد ہے {کُلُوْا مِنْ رِّزْقِ رَبِّکُمْ وَاشْکُرُوْا لَہٗ}
اپنے رب کے رزق سے کھاؤ اور اس کا شکر ادا کرو۔
نعمتوں کے شکر کا تقاضا یہ ہے کہ صرف اللہ کی اطاعت اور عبادت میں مشغول ہوں اور اس کی نعمتوں کو گناہوں میں خرچ نہ کریں۔
*3- حلال کھانے کی برکت اور حرام کھانے کی نحوست*
آیت مذکور میں حرام کھانے کی ممانعت کے ساتھ "حلال طیب" چیزوں کے کھانے اور اس پر شکر گذار ہونے کی ترغیب بھی ہے کیونکہ جس طرح حرام کھانے سے اخلاق رذیلہ پیدا ہوتے ہیں، عبادت کا ذوق جاتا رہتا ہے، دعاء قبول نہیں ہوتی، اسی طرح حلال کھانے سے ایک نور پیدا ہوتا ہے، اخلاق رذیلہ سے نفرت، اخلاق فاضلہ کی رغبت پیدا ہوتی ہے، عبادت میں دل لگتا ہے، گناہ سے دل گھبراتا ہے، دعاء قبول ہوتی ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ بیشک اللہ پاک ہے اور وہ پاک ہی (مال اور قول و عمل) کو قبول فرماتا ہے (پھر فرمایا کہ) بلاشبہ (حلال کھانے کے بارے میں) اللہ جل شانہ نے پیغمبروں کو جو حکم فرمایا ہے، وہی مومنین کو حکم فرمایا ہے چنانچہ پیغمبروں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے رسولو! طیب چیزیں کھاؤ اور نیک کام کرو اور مومنین کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے ایمان والو ! جو پاک چیزیں ہم نے تم کو دی ہیں ان میں سے کھاؤ، اس کے بعد حضور اکرم ﷺ نے ایسے شخص کا ذکر فرمایا کہ جو لمبا سفر کر رہا ہو، اس کے بال بکھرے ہوئے ہوں، جسم پر گرد و غبار اٹا ہو اور آسمان کی طرف ہاتھ پھیلائے، یارب یارب کہہ کر دعا کرتا ہو، یہ شخص دعا تو کر رہا ہے اور حال یہ ہے کہ اس کا کھانا حرام ہے، پینا حرام ہے اور پہننا حرام ہے اور اس کو حرام غذا دی گئی ہے، پس ان حالات کی وجہ سے اس کی دعا کیونکر قبول ہوگی۔ (مسلم ٣٢٦/١)
اس حدیث میں حرام سے پرہیز کرنے اور حلال کھانے کی اہمیت پر زور دیا ہے اور بتایا کہ جو صدقہ حلال مال سے ہوگا وہی قبول ہوگا، اللہ پاک ہے اور اس کی بارگاہ میں پاک چیز ہی قبول ہوسکتی ہے۔
*4- حرام روزی کی چند صورتیں*
آج کے زمانے میں حرام کمائی کی کئی صورتیں رائج اور عام ہیں، چند ایک کو یہاں ذکر کیا جاتا ہے :
١- رشوت؛ مال حرام ہے، اور اگر رشوت کا نام ہدیہ یا تحفہ رکھ لیا جائے تب بھی حرام ہی رہتا ہے، آج دنیا میں اس کے بغیر کام نہیں ہوتے اور حرام کی اس نحوست سے سارا معاشرہ گندگی سے آلودہ ہے۔
٢- سود؛ کم ہو یا زیادہ، بالکلیہ حرام ہے اگرچہ اس کا نام نفع رکھ لیا جائے۔
٣- ہر وہ ملازمت حرام ہے جس میں گناہ کیا جاتا ہو، چونکہ گناہ کرنا اور گناہ کی مدد کرنا دونوں حرام ہیں، اس لئے گناہ کی اجرت بھی حرام ہے اور گناہ پر مدد کرنے کی اجرت بھی حرام ہے۔
٤- حرام چیزوں کی تجارت بھی حرام ہے اور اس پر نفع بھی حرام ہے، شراب، خنزیر، خون، مردار گوشت، تصویریں، مورتیں، ان سب چیزوں کی خرید و فروخت حرام ہے اور اس کی تنخواہ بھی حرام ہے۔
٥- بیمہ پالیسی سراسر قمار و جوا ہے، چاہے کسی بھی نوعیت کا ہو، زندگی کا بیمہ ہو یا اموال تجارت کا، کار خانوں کا یا سامان اور چیزوں کا۔
٦- غصب، چوری، ڈاکہ زنی اور ناحق ذریعہ جو کچھ حاصل کیا جائے وہ سب حرام ہے۔
٧- وہ میراث جو شریعت کے مطابق تقسیم نہیں کی جاتی، بلکہ جس وارث کے قبضہ میں جو مال آجاتا ہے وہ اپنا بنا کر بیٹھ جاتا ہے، میت کے بیٹے اپنی بہنوں کو اور ماؤں کو میراث نہیں دیتے اور چونکہ میراث تقسیم نہیں ہوتی، اس لئے یتیموں کے حصہ کا مال بھی خورد برد کردیا جاتا ہے، شرعاً جو دوسروں کا مال ہے، اس کو اپنی ملکیت اور کام میں لانا حرام ہے اور نفس کی خوشی سے جو مال نہ دیا گیا ہو، اگرچہ دینے والے نے بظاہر کسی دباؤ میں خاموشی اختیار کرلی ہو، وہ مال بھی حرام ہے۔
٨- غیر مسلم ممالک سے درآمد شدہ غیر مصدقہ اشیاء جن میں بسا اوقات کوئی حیوانی جزء شامل ہو، اس سے بھی احتیاط ضروری ہے، کیونکہ معلوم نہیں کہ اس میں کوئی حرام جزو ترکیبی نہ ہو۔
خلاصہ یہ کہ حرام کے شعبے بہت سے ہیں، ہر شخص اپنی آمدنی اور اخراجات میں غور و فکر کرے کہ کہیں سے حرام تو نہیں آرہا۔
*5- حرام مال کا وبال*
بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حرام آمدنی میں سے صدقہ کردیا جائے تو باقی سب مال حلال ہوجاتا ہے، یاد رکھیں کہ حرام مال سے صدقہ کرنا تو اور گناہ ہے، وہ مقبول ہی نہیں ہوتا، حدیث میں وارد ہے کہ اللہ تعالیٰ صرف پاکیزہ ہی کو قبول فرماتے ہیں جو صدقہ خود ہی قبول نہیں، اس کے ذریعہ باقی مال کیسے حلال ہوجائے گا بلکہ جو صدقہ دیا ہے، وہ بھی وبال بن جائے گا اور آخرت کے عذاب کا سبب بنے گا۔
- حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ جو بھی کوئی بندہ حرام مال سے کسب کرے گا پھر اس میں سے صدقہ کرے گا تو وہ قبول نہ ہوگا اور اس میں سے خرچ کرے گا تو اس کے لئے اس میں برکت نہ ہوگی اور اپنے پیچھے چھوڑ کر جائے گا تو وہ اس کے دوزخ میں جانے کا ذریعہ ہوگا، بیشک اللہ تعالی برائی کو برائی کے ذریعہ نہیں مٹاتے لیکن برائی کو نیکی کے ذریعہ مٹاتے ہیں، بیشک خبیث، خبیث کو نہیں مٹاتا۔
- حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے حضور اکرم ﷺ کا ارشاد نقل فرمایا کہ جنت میں وہ گوشت داخل نہ ہوگا جو حرام سے پلا بڑھا اور ہر وہ گوشت جو حرام سے پلا بڑھا ہو دوزخ کی آگ اس کی زیادہ مستحق ہے۔
- ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ جس نے دس درہم کا کپڑا خریدا اور اس میں ایک درہم حرام کا تھا تو اللہ تعالیٰ اس کی کوئی بھی نماز قبول نہ فرمائے گا جب تک کہ وہ کپڑا اس کے بدن پر رہے گا۔ (مشکوٰۃ، مستفاد انوار البیان)
صرح الفقہاء بأن من اکتسب مالا بغیر حق، فإما أن یکون کسبه بعقد فاسد، کالبیوع الفاسدۃ، والاستئجار علی المعاصي والطاعات، أو بغیر عقد، کالسرقة، والغصب، والخیانة، والغلول، ففي جمیع الأحوال المال الحاصل له حرام علیه
(بذل المجہود، کتاب الطہارۃ، باب فرض الوضوء، سہارنپور قدیم ۱/ ۳۷، دارالبشائر الإسلامیة بیروت ۱/ ۳۵۹، رقم: ۵۹، الدر مع الرد، زکریا ۹/ ۵۵۳، کراچی ٦/ ۳۸۵، تبیین الحقائق، إمدادیہ ملتان ٦/ ۲۷، زکریا ۷/ ٦٠، البحرالرائق، زکریا ۹/ ۳٦٩، کوئٹہ ۸/ ۲۰۱، ہندیة، زکریا قدیم ۵/ ٤٩، جدید ۵/ ٤٠٤، الموسوعة الفقہیة الکویتیة ۳٤/ ۲٤٦)