حضرت ڈاکٹر امجد رحمۃ اللہ علیہ۔۔ تذکرہ ان کی یادوں کا
ہمارے مربی ومحسن حضرت ڈاکٹر امجد صاحب رحمہ اللہ ، 27 اگست شب پیر، رات ساڑھے نو بجے ہم سے رخصت ہو گئے۔
ان سطور میں حضرت ڈاکٹر صاحب کا تعارف کروانا مقصود نہیں، کہ اس کے لیے ضخیم جلدیں درکار ہیں، اور امید ہے کہ ان شاء اللہ یہ تفصیلی کام ہو بھی جائے گا۔ ان سطور میں بندہ کا حضرت والاؒ سے جو تعلق اور رابطہ رہا، اور ڈاکٹر صاحب سے جو قرب رہا ہے، اس کو سپرد قرطاس کر کے دل کا غم ہلکا کرنا چاہتا ہوں۔
ڈاکٹر صاحب اور مدرسہ ابن عباس:
ویسے تو ڈاکٹر صاحب کا حلقہ تعارف اور دائرہ احباب بہت وسیع تھا، اندرون ملک سے بیرون ملک، دنیا کے کئی ممالک میں ان کے چاہنے والے تھے اور ہیں، دینی حلقوں میں سے تبلیغی حلقہ، مدارس کا حلقہ، علمی حلقہ اور اس کے علاوہ طبی حلقہ۔ لیکن ڈاکٹر صاحبؒ کا اپنے مدرسے سے اور مدرسے سے منسلک لوگوں سے بہت عجیب والہانہ، اور بہت گہرا تعلق تھا، یہاں تک کہ آخری عمر میں حضرت ہر طرف سے سمٹ کر بس مدرسہ کے لیے ہی مخصوص ہو کر رہ گئے تھے، یہاں تک اکثر نمازوں کے لیے اپنے محلے کی مقامی مسجد میں جانے کے بجائے مدرسہ ابن عباس کی مسجد (مسجد ابو بکر صدیق) تشریف لاتے تھے۔ اس زمانے میں مدرسہ کے طلباء اور اساتذہ سے حضرت کا تعلق اور بڑھتا بھی چلا گیا ۔
اب آج جب وہ ہم میں نہیں رہے، رہ رہ کر یاد آتے ہیں، اور میرے حضرت کے تعلق کی 18 سالہ یادیں دماغ میں تر وتازہ ہو جاتی ہیں!
ابتدائے تعلق:
اکتوبر سن 2005 کی اتوار کی وہ صبح میری زندگی کا بہت اہم دن تھا، جس دن مدرسہ ابن عباس میں داخلہ لینے کے لیے پہنچا تھا، دیگر امتحانات سے فارغ ہو کر جب ڈاکٹر صاحب کے سامنے پہنچا، اور وہ پہلی ملاقات تھی، جس میں ڈاکٹر صاحب نے خود میرا قرآن کا امتحان لیا۔
اور اس کے بعد پھر تعلق بڑھتا چلا گیا، اور یہ ان کا اونچا ظرف تھا، کہ مجھ ناکارہ کے ساتھ ان کا معاملہ مختلف مواقع پر ایسا رہا، جسے میں کبھی نہیں بھلا سکتا، آئندہ سطور کے کچھ حالات میں اس کی وضاحت آئے گی۔ لیکن حضرت ڈاکٹر صاحبؒ کی وہ ادا میں کبھی نہیں بھول سکتا، جب بھی ملاقات ہوتی ہشاش بشاش چہرہ سے مسکرا کر ملاقات کرتے، اور مخصوص زور دار انداز میں مصافحہ کرتے تھے، وہ تبسم اور وہ مصافحہ سدا یاد رہے گا!
مکہ مکرمہ میں کچھ دیر کی رفاقت:
2014 کے حج کے سفر میں چاشت کے وقت تقریبا ساڑھے دس بجے کے قریب حرم جا رہا تھا، اور تقریبا روز کا یہی معمول تھا کہ اس وقت حرم چلے جاتا تھا، ہوٹل سے نیچے اترنے کے لیے لفٹ کے انتظار میں تھا، اتفاقا پیچھے کی طرف دیکھا تو ڈاکٹر صاحب سامنے چلے آر ہا تھے، آتے ہی ڈاکٹر صاحب نے بلاتوقف فرمایا، جامعہ ام القری چلو گے، وہاں کتب خانے میں کتابیں دیکھیں گے، پھر کچھ ٹھہر کر ترغیبی انداز میں فرمایا: تمہیں وہاں بہت فائدہ ہوگا، اور مجھے یاد پڑتا ہے کہ یہ بھی کہا تھا کہ: وہاں جانے میں بھی اجر ہے، کہ ہم علم کے لیے جا رہے تھے، یا اس سے ملتی جلتی کوئی بات فرمائی تھی۔ یہ جملے کچھ ایسی اپنائیت سے ارشاد فرمائیں کہ میں پانی پانی ہو گیا، کیونکہ ڈاکٹر صاحب کا اشارہ میرے لیے حکم تھا، اور حرم میں ڈاکٹر صاحب کی معیت میں کچھ وقت کا علمی سفر، یہ کسی سعادت سے کم نہیں تھا، لیکن حضرت ڈاکٹر صاحب کا مزاج اور طبیعت تھی کہ جس سے بھی بات کرتے ، بالکل نیچے اتر آتے۔
چنانچہ پھر ڈاکٹر صاحب کی معیت میں رہا، ’’مکتبہ اسدیہ‘‘ گئے، یہ جامعہ ام القری کی گلی سے باہر نکل کر روڈ کی طرف ایک بڑاکتب خانہ ہے، اندر داخل ہوتے ہی حضرت نے فرمایا: اب تم آزاد ہو، پھر حضرت بھی کتابیں دیکھتے رہے، اور میں بھی، تقریبا ایک گھنٹے تک۔
اس کے بعد وہاں سے واپسی ہوئی تو حرم میں ہی اترے، اور ظہر کی نماز کے بعد حضرت نے حجامہ کا ایک سیٹ لیا، کہ کمرے کے ساتھی کو حجامہ لگانا تھا، پھر میں حضرت کے کمرے تک گیا، ابراج البیت میں متعدد ٹاور ہیں، میرا کمرہ دوسرے ٹاور میں تھا، حضرت کادوسرے ٹاور، لیکن میں حضرت کے کمرے تک گیا، راستہ میں لفٹ عالی شان، جگہ جگہ عمدہ قالین بچھے ہوئے، کمرہ میں بھی سامان آسائش سے آراستہ ہے، کمرے میں پہنچ کر ڈاکٹر صاحب نے اس سب پر غم اور دکھ اور افسوس کا اظہار فرمایا، کہ یہ ساری چیزیں مصیبت ہیں، دین سے دور کرتی ہیں۔ شاید کوئی مجھ جیسا تو صرف زبان سے ہی یہ جملہ کہے، لیکن ڈاکٹر صاحب تو اس جملے کو حقیقت کے ساتھ فرما رہے تھے۔
مفتی انعام الحق صاحب کے ہمراہ:
حضرت استاذ محترم مفتی انعام الحق صاحب کو ڈاکٹروں نے بائے پاس کا مشورہ دیا تھا، تو انہوں نے ڈاکٹر امجد صاحب سے مشاورت کرنے کا ارادہ کیا، تو مجھ سے وقت لینے کا کہا، مقررہ وقت اور تاریخ پر ہم وہاں پہنچ گئے، مفتی شعیب عالم صاحب بھی ساتھ تھے، ڈاکٹر صاحب نے کافی وقت دیا، تفصیل سے بات سنی، اور اپنی تفصیلی رائے دی۔
عربی زبان کا ذوق :
ڈاکٹر صاحب عربی زبان کی ترویج میں ، اور عربی بول چال کو عام کرنے میں، اور معیاری کو فروغ دینے میں مجدد کی حیثیت رکھتے ہیں، جس کی تفصیلات ان شاء اللہ دیگر موضوعات میں تفصیل سے آجائے گی، یہاں مجھ سے متعلق جو ڈاکٹر صاحب کا عربی کے حوالے سے تعلق رہا ، اس کو ذکر کر رہا ہوں۔
ڈاکٹر صاحب سے ان اٹھارہ سالوں میں مجھ سے شاید کوئی اکا دکا جملہ اردو میں بولا ہو گا، ورنہ ہمیشہ عربی میں ہی گفتگو ہوتی، مجھے اس پر بجا طور پر فخر ہے، کہ حضرت مجھ سے عربی میں بات فرماتے تھے، اور میں جب بھی عربی بولتا حضرت انتہائی غور سے سنتے، اسی کا نتیجہ تھا کہ میری بھی کوشش ہوتی کہ ڈاکٹر صاحب کے سامنے اچھی عربی بولوں، نپے تلے الفاظ کا استعمال کروں، اس پر خوشی کا اظہار بھی فرماتے تھے۔
ایک دفعہ صبح صبح جمعہ کے دن والد صاحب کراچی میں ہی کتابوں کی نمائش میں پہنچا، سامنے سے ڈاکٹر صاحب واپس آ رہے تھے، آتے ہی والد صاحب سے جذبات سے بھرے لہجے میں فرمایا: کوئی عربی کتاب نہیں، ایک کتاب بھی عربی کی نہیں، میں یہاں کیا کروں؟ اور ہم ڈاکٹر صاحب کے انداز سے متاثر بھی ہوئے اور مسکرانے بھی لگے۔
تقریبا سن 2011 یا 12 کی بات ہے، رمضان کے آخری عشرے میں ڈاکٹر صاحب بلال مسجد میں معتکف تھے، فجر بعد میں اور چچا زاد محمد بن حنیف، ہم دونوں حاضر خدمت ہوئے، مجھ سے فرمایا: اپنی مسجد میں عربی کا حلقہ لگاؤ، لوگوں کو عربی سکھاؤ، پھر فرمایا: عربی سکھانے کا طریقہ بتاؤں، فرمایا: پہلے افعال امر سکھاؤ، جو آسان بھی ہیں، ان کا استعمال بھی زیادہ ہے، جیسے: اذهب، قم، اجلس، اخرج، كل، اشرب، وغیرہ وغیرہ۔
پھر پوچھا: تم کون سی معاجم استعمال کرتے ہو؟، میں نےشاید ایک دو معجم کا نام لیا، لسان العرب کا نام نہیں لیا، فرمایا : دیکھو ، میں کئی معاجم استعمال کرتا ہوں، پھر آئی پیڈ نکالا، اور اس میں کئی ساری معاجم کھول کر دکھائیں، اور بالخصوص لسان العرب پر زور دیا۔
علمی کاوش پر حوصلہ افزائی:
اللہ تعالی کی توفیق سے جو بھی تصنیف طبع ہو کر آتی، حضرت ڈاکٹر صاحبؒ کے پاس لے کرحاضر خدمت ہوتا ، سب سے پہلے ’’صبح اور شام کے مسنون اذکار‘‘ لے گیا تھا، میرے سامنے وہیں اول تا آخر پوری کتاب پڑھی، تعریف فرمائی، حوصلہ افزائی فرمائی، دو باتوں کی نشاندہی فرمائی، ایک تو یہ کہ ترجمہ بھی ساتھ ہونا چاہئے، کہ دعا پڑھی نہیں جاتی مانگی جاتی ہے، اور دوسرا یہ کہ ورق موٹا ہے، اس سے کتاب مہنگی ہو جائے گی، الحمد للہ یہ دونوں چیزیں اگلے ایڈیشن میں ڈاکٹر صاحب کی منشا کے مطابق ہو گئیں، اللہ تعالی نے آسان فرما دیا۔
نیز مشورہ میں بھی فرمایا: حذیفہ کی کتاب سے دعائیں پڑھی جائیں، میں کیسے بھول سکتا ہوں حضرت کی یہ شفقتیں، اور چونکہ وہ جیبی سائز میں تھی، تو اس کو بڑے سائز میں بنوایا اور پرنٹ نکلوایا اور اپنا معمول بنایا، اگلے ایڈیشن کے چھپنے پر بھی، حضرت نے بڑے سائز میں پرنٹ نکلوا کر اپنے پاس رکھی تھی۔
اس کے بعد ’’رَخت سفر‘‘ تاریخی کہانیوں کی کتاب لے کر گیا، تو اس پر بھی بہت خوشی کا اظہار کیا، مراجع ومصادر کی فہرست دیکھ کر بہت خوش ہوئے، فرمایا کہ تم نے اتنی ساری کتابوں سے لیا ہے!؟، یہ محض حضرتؒ کی حوصلہ افزائی تھی، ورنہ مجھے یاد ہے کہ ہمارے طالب علمی کے زمانے میں، غالبا سن 2008 کی بات ہے، خود ڈاکٹر صاحب کا بیان تھا ، والدین میں بات تھی، ڈاکٹر صاحب نے فرمایا : یہاں دینی علوم کے حاصل کرنے کے لیے دس بارہ سال کیا چیز ہیں، فنا ہونے والے جسم کی صحت یابی حاصل کرنے کی کوشش کے لیے جو علم پڑھتے ہیں(یعنی طب / میڈیکل تعلیم)، اس کے لیے بیس، بائیس سال لگا دیتے ہیں، اور پڑھائی بھی ایسی سخت کہ بسا اوقات طلباء چھ ، چھ مہینے تک آسمان نہیں دیکھتے۔ اور ڈاکٹر صاحب نے وہی تعلیم حاصل کی تھی، لیکن میری حوصلہ افزائی فرما رہے تھے، پھر اس کے متعلق یہ فرمایا کہ بہت رنگین کتاب ہے، میں نے عرض کیا: حضرت، عام نوجوانوں کے لیے ہے، اس میں ان کے لیے جاذبیت رکھی گئی ہے!
پھر جب ’’مفید علمی مکاتیب‘‘ شائع ہوا، وہ بھی حضرت کی خدمت میں لے کر گیا، اسے بھی بالاستیعاب دیکھا، ایک مسئلہ کے متعلق کچھ اشکال بھی ظاہر کیا۔
حضرت ڈاکٹر صاحبؒ ظہر پڑھ کر آگے محراب کی طرف سے باہر تشریف لائے تو کسی کام سے دار الافتا میں تشریف لائے، مجھ سے بات کی، انہی دنوں حضرت ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندرؒ کی وفات پر قصیدہ لکھا تھا، میں نے عرض کیا کہ وہ قصیدہ آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں، وہیں دار الافتا میں نیچے گدے پر بیٹھ گئے، اصرار کے باوجود کرسی پر نہیں بیٹھے، اور پھر پورا قصیدہ بہت غور وتدبر سے پڑھا، خوشی کا اظہار فرمایا، او رہنستے ہنستے فرمانے لگے:’’ میرے علم میں یہ تو تھا کہ اسامہ شاعر ہے، لیکن یہ نہیں پتہ تھا کہ تم بھی شاعر ہے‘‘۔
انگریزی کا امتحان
ہم وہ چند ہی طلبا تھے، جن کا ڈاکٹر صاحب نے بذات خود انگریزی کا تقریری امتحان لیا تھا، ہماری کلاس دو حصوں میں منقسم تھی، ایک حصہ کے تحریری امتحان ہونا تھا، دوسرے کا تقریری، جس صبح امتحان ہونا تھا، اس دن انگریزی کے استاد نہیں آئے، یہ 2011ء کی بات ہے، شام کو اطلاع ملی کہ ہمارے استاذ کی طبیعت اچانک خراب ہوئی اور انتقال ہو گیا ہے، عصر میں جنازہ تھا، تدفین میں بھی ہم شریک تھے، تحریری امتحان کے لیے مدرسہ کے ایک استاد طے ہو گئے، تقریری امتحان کے لیے حضرت ڈاکٹر صاحب نے فرمایا : میں لوں گا (ہم طلبا تھے، اس لیے مشورہ میں تو شریک نہیں تھے، لیکن بالواسطہ پتہ چلا کہ ڈاکٹر صاحب نے ہی فرمایا ہے کہ میں امتحان لوں گا، واللہ اعلم)، ہم ویسے ہی گھبرائیں ہوئے تھے، تقریری امتحان دینے والوں میں سب سے اچھے نمبر میرے تھے، اور وہ تھے 80، بہر حال پا س کر دیا، ورنہ ڈاکٹر صاحب نے کتاب کو تو فیل کر دیا تھا، امتحان لیتے لیتے فرمانے لگے، یہ کتاب ٹھیک نہیں، اس میں یہ یہ اشکال ہے، پھر خود ہی فرمایا: چھوڑو اس کو ۔۔۔۔
ڈاکٹر صاحبؒ کی کارگزاری اپنی زبانی:
ایک دفعہ سال کے دوران سن 2016ء میں شعبہ بیرون میں ڈاکٹر صاحب اکیلے بیٹھے ہوئے تھے، میں نے دیکھا کہ موقع اچھا ہے، پوچھا: آپ نے امریکہ میں پڑھا یا برطانیہ میں ؟ اس کے جواب میں حضرت نے اپنی پوری داستان سنائی : میں امریکہ میں پڑھ رہا تھا، پڑھائی اچھی تھی وہاں، لیکن اچانک پاکستان کا کوئی قانون بنا کہ برطانیہ کی ڈگری معتبر ہے، تو مجھے وہاں سے چھوڑ کر برطانیہ آنا پڑا (غالبا سن 1970ءفرمایا تھا)، برطانیہ میں پڑھائی اچھی نہیں تھی، لیکن میری مجبوری تھی، لیکن مجھے فائدہ ہوا کہ پھر وہاں میں تبلیغ میں لگا اور پھر (غالبا 1973ء میں) چار مہینے لگ گئے، ایک چلہ برطانیہ میں، ایک چلہ جرمنی میں، اور ایک چلہ بیلجیئم میں، عرب نوجوانوں کو ادھر اُدھر بازار کے ماحول سے اٹھاکر مساجد میں لے کر آتے تھے۔
غذا:
ایک دفعہ رائیونڈ میں مغرب عشاء کے درمیان گیا، خشک میوہ جات کا ڈبہ میرے سامنے کیا، پھر ڈاکٹر صاحب کے اپنا کھانا نکالا، آدھی روٹی زیتون کے تیل کے ساتھ، اور ایک موسمبی، میں نے کہا: ڈاکٹر صاحب، یہ کھانا ہم تو نہیں کھا سکتے؟، فرمانے لگے: ہاں، اسی طرح مزاج الگ الگ ہوتے ہیں۔آج میں سوچتا ہوں، وہ کیسے شفیق تھے، کہ مجھے اپنے اتنا قریب کر لیا کہ میں اس طرح کی باتیں بھی ان سے کر گزرتا تھا۔
حضرت کے صاحبزادے سے رابطہ:
ایک دن فجر پڑھ کر گھر پہنچا ہی تھا کہ فون بجنے لگا، پہلے تو یہی سوچا کہ بجنے دیتا ہوں، بعد میں دیکھ کر فون کر لوں گا، لیکن پھر خیال ہوا کہ دیکھ ہی لیتا ہوں، دیکھتے ہی چونک گیا، حضرت ڈاکٹر صاحب کا فون تھا، اٹھاتے ہی فرمایا: حذیفہ، میرے بیٹے طیب کو کچھ شرعی مسئلہ معلوم کرنا ہے، میں نے تمہارا بتایا ہے، وہ آج تمہارے پاس آ جائیں گے، کون سا وقت مناسب ہے؟ میں نے وقت بتا دیا، حضرت کے بیٹے (جو کہ میرے والد کی عمر کے قریب ہیں) مقررہ وقت پر لے آئیں۔
آج استاذ محترم ، حضرت ڈاکٹر صاحب کی ان شفقتوں کو یاد کر کے آنسو بہانے کے سوا ہمارے پاس کچھ نہیں، اپنے ایک ادنی طالب علم کے ساتھ حضرت کا یہ معاملہ اور رویہ، میرے لیے کتنی بڑی سعادت ہے، اس کا اظہار الفاظ میں نہیں کر سکتا، یہ حضرت ہی کا حسن ظن تھا، ورنہ درجے ، عمر، علم ، تفقہ اور سمجھ ، ہر اعتبار سے بڑے حضرات یہاں موجود تھے اور ہیں، لیکن حضرت نے مجھے اختیار کیا، اللہ تعالی مجھے ان کے حسن ظن پر پورا اتارے۔۔۔ آمین
عاشق نماز:
’’عاشقِ نماز‘‘ ڈاکٹر صاحب اس لقب کے بلا شک اہل تھے، مستحق تھے۔ ڈاکٹر صاحب کا گھنٹوں نماز میں کھڑا ہونا، اس کے نقل کرنے والے تو سینکڑوں میں ہیں۔ اور اس فکر میں بھی گھلتے چلے جاتے تھے کہ نماز کا سکون، اطمینان ، طویل نمازوں کی عادت یہ امت کا شیوہ ہے، امت مسلمہ میں دوبارہ یہ شان لوٹ آئے، کہ امت کے افراد لمبی لمبی نمازیں پڑھنے کے عادی بن جائیں۔
ابھی گزشتہ سال ہی، سات ماہ پر جانے سے پہلے تقریبا اگست 2022 میں ہی مجھے بلوایا، اور فرمایا: نماز کی روایات جمع کرو، اور مجموعہ مرتب کرو جس میں طریقہ نماز مفصلا بیان کیا گیا ہو۔
نماز کی عملی مشق:
پورے مدرسہ کو صف میں کھڑا کر دیتے، سب کی نماز بذات خود دیکھتے، کتنی دفعہ نماز کا زبانی مذاکرہ کرواتے، اور کئی دفعہ عملی طور پر نماز پڑھ کر دکھائی، کیا وہ منظر ہوتا تھا کہ پورا مدرسہ، علما، طلبا، مدرسین، منتظمین سب بیٹھے ہوتے تھے، اور ڈاکٹر صاحب ان کو قیام کر کے دکھاتے، رکوع کر کے دکھاتے، سجدہ کر کے دکھاتے۔۔۔ آج میں یہ سطور لکھتے ہوئے سوچ رہا ہوں، کہ اس وقت ہم اس کو کوئی بہت زیادہ اہمیت نہیں دے سکے، لیکن اب کون ہمیں اس طرح نماز سکھائے گا، ہماری نمازوں کی کون ایسی فکر کرے گا؟ اور سب سے زیادہ ضرور وہ رکوع ، سجدہ ، قومہ اور جلسہ پر دیا کرتے تھے، رکوع وسجود کی تسبیحات، قومہ اور جلسہ کی دعائیں، اور بالخصوص سجدہ میں دعا مانگنا ، اس پر بہت زور دیتے تھے۔
بیس منٹ کے نوافل:
سال پر جانے سے پہلے 2016 میں تقریبا فروری یا مارچ میں جب ہم ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے، تو منجملہ اور نصائح کے یہ بھی فرمایا تھاکہ اس کی کوشش کرو کہ بیس منٹ کی دو رکعت، جس میں رکوع، سجدہ، قومہ اور جلسہ طویل ہو۔
آخری نوٹ:
آخر میں دوبارہ عرض کروں کہ ڈاکٹر صاحب سے ساری عمر جب بھی گفت وشنید ہوئی، وہ عربی میں ہی ہوئی، حضرت ڈاکٹر صاحبؒ کے الفاظ اور کلمات کانوں میں گونجتے ہیں، میری چاہت تھی کہ یہاں حضرت سے جو گفتگو ہوئی اس کو عربی الفاظ میں ہی نقل کروں، لیکن پھر ترجمہ کرنا پڑتا اور موضوع طویل ہوتا، اگر یہی موضوع عربی میں لکھنے کا موقع ملا تو اس کو شامل کر لوں گا ان شاء اللہ۔
جو کچھ یاد آیا وہ یہاں لکھ دیا۔ اللہ تعالی ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین
محمد حذیفہ رفیق
17 صفر 1445 ھ / 4 ستمبر 2023 ء، بروز پیر