ماہِ محرم بدعات کے گھیرے میں
اسلامی کلینڈر کا پہلا مہینہ محرم الحرام ان چا ر مہینوں میں سے ایک ہے، جس کا زمانۂ جاہلیت میں بھی احترام کیا جاتا تھا، اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا کہ ”إن عدة الشهور عندالله اثنا عشر شهرا في كتاب الله يوم خلق السموات والأرض منها أربعة حرم“ مہینوں کا شمار اللہ کے نزدیک بارہ ہے اور یہ اسی دن سے ہے جس دن اللہ رب العزت نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا، ان میں چار مہینے خاص حرمت کے ہیں، اللہ کے رسول ﷺ نے ان چار مہینوں کی تفصیل رجب، ذی قعدہ، ذی الحجہ اور محرم بیان کی ہے۔
مسلم کی حدیث ہے کہ ”أفضل الصیام بعد رمضان شھر الله المحرم“ رمضان کے بعد سب سے افضل روزے اللہ کا مہینہ محرم کے ہیں، اس ماہ کی اللہ کی جانب نسبت اور اسے اشھُرِ حُرم میں شامل کرنا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس مہینے کی فضیلت شہادتِ حسین رضی اللہ عنہ کی وجہ سے نہیں، بلکہ بہت پہلے سے ہے۔
اسی مہینے کی دسویں تاریخ کو یوم عاشوراء کہا جاتا ہے، رمضان المبارک کے روزے کی فرضیت سے قبل اس دن کا روزہ فرض تھا، بخاری کی ایک روایت کے مطابق قریش بھی زمانۂ جاہلیت میں عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے، خود آپﷺ بھی اس روزہ کا اہتمام فرماتے تھے، یہودیوں کے یہاں اس دن کی خاص اہمیت ہے، کیونکہ اسی دن بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات ملی تھی، آپﷺ جب مدینہ ہجرت کرکے تشریف لے گئے تو یہودیوں کو یوم عاشوراء کا روزہ رکھتے دیکھا، معلوم ہوا کہ یہودی فرعون سے نجات کی خوشی میں یہ روزہ رکھتے ہیں، تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا: کہ ”نحن أحق بموسی منکم“ ہم یہودیوں سے زیادہ اس کے حقدار ہیں کہ روزہ رکھیں، لیکن اس میں یہودیوں کی مشابہت ہے، اس لیے فرمایا کہ تم عاشورا کا روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو، اس طرح کہ عاشوراء سے پہلے یا بعد ایک روزہ اور رکھو۔
اور آپﷺ کو اسی دن ”غفر لہ ما تقدم من ذنبه“ کے ذریعہ مغفرت کا پروانہ عطا کیا گیا، اس طرح دیکھیں تو یہ دن مسرت وشادمانی کا اور عظمت وجلالت والا ہے، اس مہینے کو منحوس سمجھنا، اور اس ماہ میں شادی بیاہ سے گریز کرنا، نا واقفیت کی دلیل ہے اور حدیث میں ہے کہ بد شگونی کوئی چیز نہیں ہے۔
یقینا اس دن حسین رضی اللہ عنہ کی اہل خاندان کے ساتھ شہادت تاریخ کا بڑا الم ناک، کرب ناک اور افسوس ناک واقعہ ہے، جس نے اسلامی تاریخ پر بڑے اثرات ڈالے ہیں، اس کے باوجود ہم اس دن کو بُرا بھلا نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی ماتم کر سکتے ہیں، اس لیے کہ ہمارا عقیدہ ہے حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے خانوادے اللہ کی راہ میں حق کی سر بلندی کےلیے شہید ہوئے، اور قرآن کریم میں صراحت ہے کہ "جو اللہ کے راستے میں قتل کردیے گئے ہوں انہیں مردہ مت کہو، بلکہ وہ زندہ ہیں، البتہ تم ان کی زندگی کو سمجھ نہیں سکتے"، قرآن انہیں زندہ قرار دیتا ہے، ہمیں تومُردوں پر بھی ماتم کرنے، گریباں چاک کرنے، سینہ پیٹنے اور زور زور سے آواز لگا کر رونے سے منع کیا گیا ہے، پھر جو زندہ ہیں، ان کے ماتم کی اجازت کس طور دی جا سکتی ہے ؟
اس دن حسین رضی اللہ عنہ کی یاد میں تعزیے نکالے جاتے ہیں، پھر جس طرح تعزیہ کے ساتھ نعرے لگائے جاتے ہیں یاعلی، یا حسین یہ تو ان حضرات کے نام کی توہین لگتی ہے۔
بے غیرتی اور بے حمیتی کی انتہا یہ ہے کہ اسے کارِ ثواب سمجھا جا رہا ہے، اس موقع سے شریعت کے اصول واحکام کی جتنی دھجیاں اڑائی جاسکتی ہیں اڑائی جاتی ہیں اور ہمیں اس کا ذرا بھی احساس وادراک نہیں ہوتا.
ہمارے یہاں جلوس میں جو شان وشوکت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، یہ کس کی نقل کی جا رہی ہے؟ ذرا سوچیے کھلے ذہن سے سوچیے!! تاریخ کے دریچوں سے دیکھا جائے تو ایسا منظر ہمیں کہیں نہیں ملے گا.
الغرض ہم مسلمانوں کو صحیح تاریخ جاننے کی ضرورت ہے، ایسی حرکتوں سے خود بھی باز رہیں اور اپنے گھر والوں کو بھی باز رکھیں.
اللہ ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا كرے، آمین