حج میں خواتین کے ساتھ محرم یاشوہرکی رفاقت؛ایک حقیقت پسندانہ تجزیہ!

اسلام کاایک اہم رکن حج بیت اللہ ہے،یہ ہراس مسلمان پرزندگی میں ایک بارفرض ہے، جوسفرحج کے اخراجات اورجن لوگوں کی کفالت اس سے متعلق ہے، اس مدت میں ان کی ضروریات پوری کرنے پرقادرہو،اگرجسمانی اعتبارسے صحت مندہوتوضروری ہے کہ خودسفرکرے،اوراگر خودسفرکرنے کے لائق نہ ہوتوحج بدل کرائے،یہ فریضہ مردوں سے بھی متعلق ہے اورعورتوں سے بھی،مردوں کے سفرحج کے لئے توصرف یہ شرط ہے کہ وہ مالی اورجسمانی استطاعت رکھتاہو؛لیکن عورتوں کوچونکہ زیادہ تحفظ کی ضرورت ہے؛اس لئے یہ بات قابل غورہے کہ کیاعورت کے لئے ایک زائدشرط یہ بھی ہونی چاہئے کہ سفرمیں شوہریامحرم ساتھ ہو؟اس سلسلہ میں قرآن وحدیث کی ہدایات کوسامنے رکھتے ہوئے فقہاء کی تین رائیں پائی جاتی ہیں،اورجومسائل اجتہادپرمبنی ہوں،ان میں اس طرح کے اختلاف رائے کاپایاجاناباعث تعجب نہیں۔
ایک نقطۂ نظریہ ہے کہ سفرحج میں عورتوں کے ساتھ محرم کاہوناضروری ہے،ائمہ اربعہ میں امام ابوحنیفہؒاورامام احمدبن حنبل ؒ نیزدیگربہت سے فقہاء مجتہدین جیسے ابراہیم نخعیؒ،حسن بصریؒ،اسحاق بن راہویہؒ اورابوثورؒوغیرہ کابھی یہی نقطۂ نظرہے،(التمہیدلابن عبدالبر:۱۲:۱۵۰)البتہ امام ابوحنیفہ ؒ کے نزدیک یہ شرط اس وقت ہے جب مکہ مکرمہ سفرشرعی کی مسافت پرہو(فتح القدیر:۲؍۴۲۲،کتاب الحج)نیزیہ شرط حج فرض کے لئے بھی ہے اورحج نفل کے لئے بھی۔
دوسرانقطۂ نظریہ ہے کہ حج کرنے والی خاتون کے ساتھ دوسری ثقہ عورتیں ہوں تووہ محرم یاشوہرکے بغیربھی حج کے لئے جاسکتی ہیں؛بشرطیکہ وہ حج فرض اداکررہی ہوں،یہ نقطۂ نظرائمہ اربعہ میں سے امام مالکؒ اورامام شافعیؒ کاہے،اوران کے علاوہ امام اوزاعیؒ،عطاءؒ اوربعض دیگراہل علم کی بھی یہی رائے ہے،(شرح صحیح البخاری لابن بطال:۴؍۵۳۲)
تیسرانقطۂ نظریہ ہے کہ خواتین حج نفل کاسفربھی محرم کے بغیرکرسکتی ہیں،بعض فقہاء شوافع اس کے قائل ہیں،اورامام مالکؒ کابھی ایک قول ایساہی ہے،(الاعلام لابن الملقن:۶؍۸۱)یہی نقطۂ نظرعلامہ ابن تیمیہ ؒ کاہے کہ کوئی بھی ایساسفرہوجس کامقصداللہ تعالیٰ کی طاعت ہواورسفرمامون ہوتوعورت بغیرمحرم کے سفرکرسکتی ہے،(الفروع لابن المفلح:۳؍۲۳۶)
جن فقہاء نے سفرمیں عورت کے ساتھ محرم یاشوہرکی شرط لگائی ہے،صریح،واضح اورمعتبرحدیثیں ان کے نقطۂ نظرکے موافق نظرآتی ہیں؛چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:عورت محرم کے بغیرتین دنوں کاسفرنہ کرے،(بخاری،حدیث نمبر: ۱۰۲۴)اسی مضمون کی روایت حضرت ابوسعیدخدریؓ کے واسطہ سے بھی منقول ہے(مسنداحمد،حدیث نمبر:۱۰۶۱)بعض راویوں نے یہ تفصیل بھی نقل کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:عورت اگرتین دن یااس سے زیادہ کاسفرکرے تواس کے ساتھ اس کے والدیابھائی یاشوہریابیٹے یامحرم رشتہ دارکوہوناچاہئے(ترمذی،حدیث نمبر:۱۰۸۱)بعض روایتوں میں تین دن کے بجائے ایک شب وروزکی بات آئی ہے کہ عورت کاایک شب وروزکاسفربھی محرم کے بغیرنہیں ہوناچاہئے،یہ روایت حضرت ابوہریرہؓ سے منقول ہے،اس کوصحاح ستہ میں سے امام بخاری (حدیث نمبر:۱۰۳۸)امام مسلم(حدیث نمبر:۱۳۳۹)اورامام ترمذی(حدیث نمبر:۱۰۹۰)نے نقل کیاہے،شارحین حدیث کاخیال ہے کہ ایک اورتین دنوں کافرق امن وامان اورخطرات کے لحاظ سے ہے ،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مخاطب کے احوال کوسامنے رکھ کرفرمایاہے؛لہٰذاا گرایک دن کے سفرمیں بھی فتنہ کااندیشہ ہو،تواس میں بھی محرم کاساتھ ہوناضروری ہے،اوراگرتین دنوں کاسفرہوتوچاہے فتنہ کااندیشہ نہ ہو،پھربھی محرم یاشوہرکی رفاقت ضروری ہے۔
یہ احادیث تومطلق سفرسے متعلق ہیں؛لیکن اہم بات یہ ہے کہ خاص سفرحج کی صراحت کے ساتھ بھی اس مضمون کی روایت آئی ہے،حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:محرم کے بغیرعورت سفرنہیں کرسکتی ہے توایک صحابی نے عرض کیا:اللہ کے رسول! میں توفلاں لشکرکے ساتھ جارہاہوں اورمیری بیوی کاارادہ حج کرنے کاہے،میری بیوی کس طرح حج کرپائے گی؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم اپنی بیوی کے ساتھ حج پرچلے جاؤ(بخاری:باب حج النساء،حدیث نمبر:۱۸۶۲)یہی روایت مسنداحمدمیں بھی مذکورہے،اوراس میں صراحت ہے کہ تم ابھی سفرجہادچھوڑدواوربیوی کے ساتھ حج کرلو،فارجع فحج معھا(مسنداحمد:۲۲؍۱۶۰حدیث نمبر:۱۰۶۱۵)نیزحضرت ابوامامہ باہلی ؓسے مروی ہے کہ میں نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سنا: کسی مسلمان عورت کے لئے شوہریامحرم کے بغیرحج کرناجائزنہیںہے(المعجم الکبیرللطبرانی،حدیث نمبر:۷۹۲)
جولوگ اس بات کوکافی سمجھتے ہیں کہ سفرمامون ہواورکچھ معتبرخواتین ساتھ ہوں،ان کی بنیادی دلیل یہ ہے کہ حضرت عمرؓ نے اپنے آخری حج میں ازواج مطہرات کوحج کرنے کی اجازت دی تھی،اورحضرت عثمان غنیؓ اورحضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ کوان کی حفاظت اورنگہداشت کے لئے ساتھ بھیجاتھا(بخاری عن ابراہیم بن سعد،حدیث نمبر:۱۸۶۰)اوردیگرصحابہ نے اس پرکوئی نکیرنہیں کی تھی،جیساکہ حافظ ابن حجرؒ نے لکھاہے (فتح الباری:۴؍۹۱)اسی طرح حضرت عدی بن حاتمؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:ایک زمانہ میںاتناامن قائم ہوجائے گاکہ ایک عورت حیرہ(عراق)سے بیت اللہ شریف اس حال میں آئے گی کہ اس کوکسی کی پناہ حاصل نہیں ہوگی ۔،یاعدي!یوشک أن تری الظعینۃ تخرج من الحیرۃ حتی تأتي البیت بغیرجوار(المعجم الأوسط:۶؍۳۵۹،حدیث نمبر:۶۶۱۴)
بعض حضرات نے مکہ سے تنہامدینہ کی طرف بعض خواتین کے ہجرت کے واقعات سے بھی استدلال کیاہے،جن کے ساتھ ان کے شوہریامحرم شریک سفرنہیں تھے؛ مگرغورکیاجائے تویہ دلائل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان صریح حدیثوں کے مقابلے قابل قبول نظرنہیں آتے،جن میں واضح طورپرمحرم کے ساتھ ہونے کاحکم فرمایاگیاہے،ازواج مطہرات کامعاملہ ایک استثنائی معاملہ ہے،وہ پوری امت کی مائیں تھیں،ان کوخاص تقدس حاصل تھا؛چونکہ امہات المؤمنین کارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدکسی اورسے نکاح نہیں ہوسکتاتھا؛اس لئے امت کے افرادان کے لئے محرم کے درجہ میں تھے،اورہرمسلمان ان کوایک ماں کی نظرسے ہی دیکھتاتھا؛بلکہ نسبی ماں سے بھی بڑھ کر،پھروہ زمانہ بھی اخلاقی اقدارکے اعتبارسے اعلیٰ ترین معیارپرتھا،نیزان کے لئے بارگاہ خلافت سے خصوصی سیکورٹی مہیاکی گئی تھی،اورحضرت عثمان غنیؓ اورحضرت عبدالرحمٰن ابن عوفؓ جیسے اکابرصحابہ کوان کے تحفظ پرمامورکیاگیاتھا،دوسری خواتین کویہ درجہ کیسے دیاجاسکتاہے؟اورجہاں تک عدی بن حاتم ؓ کی روایت ہے ،یہ توایک خبرہے، حکم نہیں ہے،اس پیشین گوئی کامقصدعورت کوتنہاسفرکرنے کے جوازکوبتلانانہیںہے؛بلکہ یہ مقصودہے کہ اسلام کی برکت سے دنیاپوری طرح امن وامان سے ہمکنارہوجائے گی،اسی طرح شوہر یامحرم کے بغیرخواتین کے ہجرت کرنے کے جوواقعات پیش آئے ہیں،ان کی حیثیت اضطراری حالت کی ہے،بعض خاندانوں کے مردمدینہ ہجرت کرگئے تھے؛لیکن اہل مکہ نے خواتین کوجانے نہیں دیا،انہوں نے بڑی دشواری کے ساتھ بچتے بچاتے مدینہ کے لئے رختِ سفرباندھا،اورظاہرہے کہ حالت اضطرار کے احکام حالت اختیار سے الگ ہوتے ہیں۔
ان حضراتِ فقہاء کااصل منشاء یہ ہے کہ عورتوں کومحرم کے بغیرجوسفرسے منع کیاگیاہے،اس کامقصدیہ ہے کہ وہ امن وامان کی حالت میں سفرکریں،ان کی عزت وآبروکے لئے کوئی خطرہ نہ ہو،اوراگرکوئی عورت تنہانہ ہو،اس کے ساتھ چندمعتبرخواتین موجودہوں تویہ مقصدحاصل ہوجاتاہے،اب بعض حضرات نے امن وامان کے مقصدکوسامنے رکھتے ہوئے حج فرض اورحج نفل دونوں کاسفربغیرمحرم کے جائزقراردے دیا،اوربعض حضرات نے ممانعت کے احکام اورامن وامان کی مصلحت کے درمیان ہم آہنگی پیداکرتے ہوئے فرض حج کے لئے بغیرمحرم کے حج کی اجازت دی،اورنفل حج کے لئے اجازت نہیں دی۔
لیکن بحیثیت مجموعی اس میں کوئی شبہ نہیںکہ جوفقہاء سفرحج کے لئے شوہریامحرم کی رفاقت کوضروری قراردیتے ہیں،ان کانقطۂ نظررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات اورشریعت کے مزاج سے زیادہ مطابقت رکھتاہے،اوریہی زیادہ ترفقہاء کی رائے ہے،تجربہ بتاتاہے کہ خواتین کوبمقابلہ دوسرے اسفارکے حج میں محرم کی رفاقت کی زیادہ ضرورت پڑتی ہے،آب وہواکی تبدیلی،حجازکے موسم کی شدت،کھانے پینے کے فرق،جسمانی تکان،دوڑدھوپ وغیرہ کی وجہ سے بیشترخواتین زمانۂ حج میں بیماری سے دوچارہوتی ہیں،اورانہیں سنبھالناپڑتاہے،حرمین شریفین میں قیام گاہیں مسجدوں سے دورہوتی ہیں،اچھے خاصے لوگ راستہ بھٹک جاتے ہیں،سڑکوں کانشیب وفرازبھی تھکادینے والاہوتاہے،حج کے پانچ ایام اس طرح گزرتے ہیں کہ باربارایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوناپڑتاہے،ازدہام کی وجہ سے مجمع مخلوط ہوجاتاہے،مقامات حج میںایک جگہ سے دوسری جگہ کافاصلہ پیدل طے کرناپڑتاہے،پھرفساداخلاق کی وجہ سے صورت حال یہ ہے کہ باربارسمجھانے کے باوجودخواتین چہرہ کے پردہ کااہتمام نہیں کرتیں،اوربعض دفعہ فتنہ کااندیشہ بڑھ جاتاہے؛کیوں کہ شیطان کی وسوسہ اندازی سے کوئی جگہ خالی نہیں۔
اس لئے فقہی اختلاف سے قطع نظرشریعت کے مصالح اورموجودہ دورکے تجربات کوسامنے رکھتے ہوئے اس بات میںکوئی معقولیت نظرنہیں آتی کہ سفرحج میںمحرم کی شرط ختم کردی جائے،افسوس کہ اللہ تعالیٰ نے جن لوگوں کوحرم محترم کی تولیت کاشرف فرمایاہے،وہ ہرایسی چیزکوسینہ سے لگائے جارہے ہیں،جومغرب کی نظرمیں بہترہو؛حالانکہ خودسعودی مفتیان کرام کافتویٰ وہی رہاہے ،جوجمہورفقہاء حنفیہ وحنابلہ وغیرہ کاہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دینی وابستگی اورمذہب کی پابندی کاجوجذبہ برصغیرکے مسلمانوں میں ہے،عالم عرب کے بشمول دوسرے علاقوں میں اس کی مثال مشکل ہی سے ملے گی،خودعرب حضرات بھی اس کااعتراف کرتے ہیں،حکومت ہندکامسلمانان ہندکے اس دینی جذبہ کونظراندازکرتے ہوئے سفرحج میںمحرم یاشوہرکی رفاقت کی شرط کوختم کردینابہت ہی قابل افسوس ہے؛اس لئے حکومت اورحج کمیٹی کوچاہئے کہ فقہی اختلافات سے قطع نظرشریعت اسلامی کے مزاج، مسلمانوں کے عمومی جذبات اورخواتین کی سہولت کوسامنے رکھتے ہوئے اس شرط کوبرقراررکھے۔

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی


مولانا کا شمار ہندوستان کے جید علما ء میں ہوتا ہے ۔ مولانا کی پیدائش جمادی الاولیٰ 1376ھ (نومبر 1956ء ) کو ضلع در بھنگہ کے جالہ میں ہوئی ۔آپ کے والد صاحب مولانا زین الدین صاحب کئی کتابوً کے مصنف ہیں ۔ مولانا رحمانی صاحب حضرت مولانا قاضی مجا ہد الاسلام قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کے بھتیجے ہیں۔آپ نے جامعہ رحمانیہ مو نگیر ، بہار اور دارالعلوم دیو بند سے فرا غت حاصل کی ۔آپ المعھد الاسلامی ، حید رآباد ، مدرسۃ الصالحات نسواں جالہ ، ضلع در بھنگہ بہار اور دار العلوم سبیل الفلاح، جالہ ، بہار کے بانی وناظم ہیں ۔جامعہ نسواں حیدرآباد عروہ ایجو کیشنل ٹرسٹ ،حیدرآباد ، سینٹر فارپیس اینڈ ٹرومسیج حیدرآباد پیس فاؤنڈیشن حیدرآباد کے علاوہ آندھرا پر دیش ، بہار ، جھار کھنڈ ، یوپی اور کر ناٹک کے تقریبا دو درجن دینی مدارس اور عصری تعلیمی اداروں کے سر پرست ہیں ۔ المعھد العالی الھند تدریب فی القضاء والافتاء ، پھلواری شریف، پٹنہ کے ٹرسٹی ہیں ۔اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا اور مجلس تحفظ ختم نبوت ،آندھرا پر دیش کے جنرل سکریٹری ہیں ۔

آل انڈیا مسلم پر سنل لا بورڈ کے رکن تا سیسی اور رکن عاملہ ہیں ۔ مجلس علمیہ ،آندھرا پر دیش کے رکن عاملہ ہیں ۔امارت شرعیہ بہار ،اڑیسہ وجھار کھنڈ کی مجلس شوریٰ کے رکن ہیں ،امارت ملت اسلامیہ ،آندھرا پر دیش کے قاضی شریعت اور دائرۃ المعارف الاسلامی ، حیدرآباد کے مجلس علمی کے رکن ہیں ۔ آپ النور تکافل انسورنش کمپنی ، جنوبی افریقہ کے شرعی اایڈوائزر بورڈ کے رکن بھی ہیں ۔
اس کے علاوہ آپ کی ادارت میں سہ ماہی ، بحث ونظر، دہلی نکل رہا ہے جو بر صغیر میں علمی وفقہی میدان میں ایک منفرد مجلہ ہے ۔روز نامہ منصف میں آپ کے کالم ‘‘ شمع فروزاں‘‘ اور ‘‘ شرعی مسائل ‘‘ مسقتل طور پر قارئین کی رہنمائی کر رہے ہیں ۔
الحمد للہ آپ کئی کتابوں کے مصنف ہیں ۔آپ کی تصنیفات میں ،قرآن ایک الہامی کتاب ، 24 آیتیں ، فقہ القرآن ، تر جمہ قرآن مع مختصر تو ضیحات، آسان اصول حدیث، علم اصول حدیث ، قاموس الفقہ ، جدید فقہی مسائل ، عبادات اور جدیدمسائل، اسلام اور جدید معاشرتی مسائل اسلام اور جدید معاشی مسائل اسلام اور جدید میڈیل مسائل ،آسان اصول فقہ ، کتاب الفتاویٰ ( چھ جلدوں میں ) طلاق وتفریق ، اسلام کے اصول قانون ، مسلمانوں وغیر مسلموں کے تعلقات ، حلال وحرام ، اسلام کے نظام عشر وزکوٰۃ ، نئے مسائل، مختصر سیرت ابن ہشام، خطبات بنگلور ، نقوش نبوی،نقوش موعظت ، عصر حاضر کے سماجی مسائل ، دینی وعصری تعلیم۔ مسائل وحل ،راہ اعتدال ، مسلم پرسنل لا ایک نظر میں ، عورت اسلام کے سایہ میں وغیرہ شامل ہیں۔ (مجلۃ العلماء)

کل مواد : 106
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2025

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن
ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2025